اسلام کے بارے میں مغرب کی معلومات اور ناقص علم‘ فکری بدنیتی اور بددیانتی پر مبنی ہیں اور مغربی دانشوروں کے خیالات ابہام اور غیرمنطقی متعصبانہ سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ موجودہ دور میں خاص طور سے اسلامی انقلاب کے بعد مغرب نے اسلام میں بہت زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اب اسلام کو تہذیب کا دشمن اور دہشت گردی کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اخفا حک و اضافہ اور خیالی خطرے کی نشاندہی کا رویہ اختیار کر لیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام مذہب (Religion) نہیں یہ ایک طرزِ زندگی‘ ضابطۂ اخلاق‘ ترقی پسند لائحۂ عمل‘ متحرک اور پُرامن تہذیب ہے۔ اسلام ایک ابدی دین ہے اور جین مت‘ ہندومت یا بدھ مت کی طرح جامد نہیں۔ اس میں دنیا کے تمام معاملات کے بارے میں ہدایات‘ رہنمائی اور بنیادی اصول پائے جاتے ہیں‘ مگر بدقسمتی سے مغرب میں دانشوروں کا ایک بڑا گروہ ایسا ہے جو اسلام کو غلط رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور اپنے سرپرستوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اسلام کو تواتر کے ساتھ بدنام کر رہا ہے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے بہت سے ادارے کھول رکھے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اسلام کے خلاف فکری جنگ کا ہراول دستہ سمجھتے ہیں۔ اس دانشور گروہ میں نام نہاد ماہرینِ اسلام اور مستشرقین شامل ہیں۔ انہی میں ایک برنارڈ لیوس بھی ہیں جو تاریخِ اسلام کے ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی یہ حیثیت مغرب میں تسلیم بھی کی جاتی ہے۔ ان کی اسلام اور تاریخِ اسلام پر تصانیف مغرب میں بہت مقبول ہیں اور وہ ’’اسلام سے نفرت‘‘ کے کارخانے کا ایک اہم فرد جو ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد مغرب میں قائم کیا گیا ہے۔ اس کی کتاب “The Crises of Islam. Holy War and Unholy Terror (2003)” میں اسلام کو نسل پرست‘ دہشت گرد‘ شر اور فساد کا منبع قرار دیا گیا ہے۔ ان کی کتابیں اور تحریریں ذرائع ابلاغ میں کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔ سی این این ہو یا بی بی سی یا اس قسم کے دوسرے پراپیگنڈے کے ادارے سب ایسی تحریروں کو اپنے پروگراموں میں خوب اچھالتے ہیں اور حکومتی ادارے ان کی بنیاد پر اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ اسلام کے خلاف تحقیقات‘ تصنیفات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروپیگنڈہ کا ایک مکمل نظام تشکیل پاچکا ہے جو مغرب کے عوام کو ایک آفاقی دین کے خلاف گمراہ کر رہا ہے۔ مغرب کی اس کامیابی میں بڑا ہاتھ اسلامی دنیا کی بے بسی‘ اس کے تساہل اور خطرے کے عدم احساس کا بھی ہے جو مغرب کے پراپیگنڈہ کا موثر جواب اور توڑ کرنے کی صلاحیت اور وسائل سے محروم ہے۔ صرف جامِ جم۔۲‘ الجزیرہ اور چند دوسرے ٹی وی چینل ہیں جو اپنی سی کوشش کرتے ہیں مگر مغرب کے طوفانی پراپیگنڈہ کا توڑ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسلام کے خلاف تہہ در تہہ نفرت‘ پراپیگنڈہ اور تشہیر کا نظام مغرب اور مشرق میں اس زندہ اور متحرک تہذیب پر حاوی ہونے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ امریکا کے ذرائع ابلاغ اسلام کی بارے میں منفی رویہ اور رائے عامہ پیدا کرتے آرہے ہیں۔ برطانیہ‘ امریکا‘ کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک میں ذرائعِ ابلاغ پر یہودیوں کا کنٹرول ہے اور مسلمان اسرائیل کے بارے میں جو پالیسی رکھتے ہیں وہ یہودیوں کو قطعاً پسند اور قبول نہیں۔ لہٰذا اسلام کے خلاف یہودی ذرائعِ ابلاغ دن رات غلط تاثر پھیلا رہے ہیں۔ اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ اور تزویراتی نظام دنیا کے لوگوں کو دو گرہوں میں تقسیم کرتا ہے‘ ہم یعنی ’’مغرب‘‘ اور وہ یعنی ’’مسلمان‘‘۔ اس نظام کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے اسلام کے بارے میں خوف پیدا کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مسلمان خطرناک لوگ ہیں اور امنِ عالم کے خلاف ہیں۔ اسلام کو آزادی‘ جمہوری اقتدار اور خواتین کے حقوق کے خلاف بتایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام کے چلانے والے انسانیت کے دشمن‘ دنیا میں جنگوں کے موجد اور بنی نوع انسان اور تہذیب کے قاتل ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم کے پرچارک دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں اور ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مشرق کے عوام اور حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب کا مقصد دنیا پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔ ان کی نظر میں صرف اسلام ہی ایک ایسی طاقت ہے جو ان کے مقابلے میں آسکتی ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد‘ بنیاد پرست‘ متعصب اور خطرناک قرار دینے کے پیچھے مغرب کے خاص مقاصد ہیں جن کا ادراک ضروری ہے۔ ایک مغربی دانشور انتھونی سمتھ اپنی کتاب “The Geopolitics of Information: How Westeren Culture Dominates the World” کے صفحہ ۱۷۶ پر لکھتا ہے کہ نو آزاد ممالک کی آزادی کو بیسویں صدی کے آخر میں ایک خطرہ الیکٹرونکس سے بھی ہے۔ جو نوآبادیاتی نظام سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ہم اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ استعماری اور نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور قومی حکومتوں کا قیام حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا بلکہ یہ مغرب کے تزویراتی جال کی توسیع ہے جو یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ نئے ابلاغی نظام میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کمزور تمدن کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے دلوں اور دماغوں کی گہرائی تک گھس جاتا ہے اور اس کی تاثیر مغربی ٹیکنالوجی سے بھی گہری ہے۔ اس کے نتائج بہت بھیانک اور خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا ہی طاقتور ترین ابلاغی نظام کا مالک ہے جہاں چند اجارہ داریاں خبروں اور معلومات کی تقسیم اور ترسیل پر قابض ہیں۔ اس نظام نے کمزور تمدنوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
اسلام پر مغرب کا فکری اور ابلاغی حملہ
سیموئل ہٹنگٹن کی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ نے فکری اور ابلاغی دنیا کو متاثر کرنے کے علاوہ مغرب کی اسلام سے متعلق پالیسیوں پر بھی بہت اثر ڈالا ہے اور اسلام کے خلاف ایک فضا تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ مغرب اور اسلام کے درمیان تصادم کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اب سیاسی اسلام کے ممکنہ ظہور کو دنیا میں ایک اہم عنصر مانا جارہا ہے اور اس پر بات کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اس کے خیال میں مغرب اور اسلام کا تصادم ایک ناگزیر حقیقت ہے کیونکہ یہ دونوں دو الگ الگ تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے اسلام کو مغرب کے لیے ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے خیال میں یورپ کی سرد جنگ اب تہذیبوں کے درمیان (اسلام اور مغرب) گرم جنگ کی صورت اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ پہلے تصادم بادشاہوں کے درمیان ملک گیری کی صورت میں تھا‘ پھر انقلاب فرانس کے بعد قوموں کے درمیان معاشی تصادم شروع ہوا اور انیسویں اور بیسویں صدی میں نظریاتی تصادم شروع ہو گیا جو مقامی‘ علاقائی یا مختصر عرصے پر محیط جنگوں کو جنم دے رہا ہے۔ یہ روسی انقلاب اور دو عالمی جنگوں کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ پہلے یہ کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان تھا‘ اب اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کے پیشِ نظر‘ مغرب اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ پاکستان اور دوسرے ممالک میں اسلام کے احیا کی کوششیں تہذیبوں کے تصادم کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ہٹنگٹن کے خیالات کو کسی حد تک مغرب میں بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ اس میں بعض تاریخی حقائق کو یا تو نظرانداز کیا گیا ہے یا ان کی تعبیر غلط کی گئی ہے‘ مگر مغربی ذرائع ابلاغ نے اس مصنف کی برخود غلط تعبیروں اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے یا غلط رنگ میں پیش کرنے پر توجہ دینا تو درکنار اس کے خیالات کی وسیع پیمانے پر تشہیر بھی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مصنف مغرب کے ان اقدامات اور پالیسیوں کو بھی غلط رنگ میں پیش کرتا ہے جن سے بین الاقوامی دہشت گردی نے جنم لیا ہے اور مغرب کی بنیاد پرستی اور اس کے اسلام کے خلاف تعصبات کو غیراہم ہی خیالات نہیں کرتا بلکہ ان سے اغماض کرتا ہوا فکری اور ذہنی بددیانتی کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ مغرب کے اندر کا جو تصادم باقی دنیا میں برآمد کر دیا گیا ہے‘ ظاہر ہے اس کے خلاف ردِعمل بھی ہوا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان رقابت اور مناقشات تیسری دنیا کو منتقل کر دیے گئے ہیں‘ جہاں سرد جنگ کے بعد انتہا پسندی نے بھی ایک مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک جرمن خاتون نے ۱۹۹۵ء میں شائع ہونے والی کتاب “The Next Threat; Westeren Perceptions of Islam” میں شامل اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اسلام کو بالواسطہ اور بلاواسطہ بنیاد پرستی سے متواتر مطعون کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ یہ مغربی تہذیب اور تمدن کے لیے خطرناک ہے اور اس طرح اسلام کے خلاف ایک محاذ اور ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے۔ مغرب میں اسلام کو وحشیانہ نظام بتایا جاتا ہے اور یہ کہ وہ جارحیت پسندی اور تعصبات سے بھرا ہوا ہے اور غیرمنطقی‘ قدیم‘ پسماندہ اور عورتوں کے حقوق کا دشمن اور نسل پرست ہے۔
مغرب کی اسلامی دنیا کے خلاف پالیسی اور عملی اقدامات کے پیچھے اسلام کے خلاف فکری اور ابلاغی یلغار ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلامی دنیا پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کی تزویرات کے دو پہلو قابلِ توجہ ہیں۔ ان تزویرات کا پہلا مقصد دنیا میں عموماً اور مغرب میں خصوصاً اسلام کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے‘ دوسرا مقصد اسلام کی بنیادوں کو کمزور اور برباد کرنا ہے۔ اس تزویراتی منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے اربوں ڈالر ’’ابلاغی جنگ‘‘ پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ اسلام کے خلاف محاذ نام نہاد ’’علمی و فکری‘‘ تحقیقات اور مطالعات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ ان مطالعات‘ کتابوں اور تجزیات کے ذریعے مغربی ذہنوں میں اسلام کے خلاف زہر بھرا جارہا ہے اور ان کو مغرب کے ذرائع ابلاغ اسلام کے خلاف پراپیگنڈے میں استعمال کر رہے ہیں اور اسلام کے خلاف ذہن کو مسموم کیا جارہا ہے۔ اسلام سے خوف پیدا کیا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسلام ہی ہے۔ مغرب میں اسلام کی تشہیر اور تلبیس کے حوالے سے ایڈورڈ سعید کی ایک کتاب “Covering Islam (1997)” انتہائی معلومات اور صحیح مطالعہ ہے۔ اگر کوئی اسلام کے بارے میں مغرب کے ذہنی‘ فکری اور ابلاغی رویے کا مطالعہ کرنا چاہے تو اس کتاب سے بہتر کوئی اور تصنیف نہیں۔ بہرحال اس کی دوسری مشہور کتاب “Orientalism” (خاور شناسی) مغربی دنیا میں اسلام کے بارے میں تحقیقات اور مطالعات کی تاریخ بھی ہے اور ایک تجزیاتی مطالعہ بھی۔
اسلام کے خلاف ابلاغی جنگ میں اسلحہ وہ تصانیف ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ کو اپنی خلافِ اسلام نشریات کے لیے بنیادی مواد مہیا کر رہی ہیں۔ خواہ یہ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ ہو یا ’’اختتامِ تاریخ اور آخری آدمی‘‘ ہو، سب کی سب اسلام کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ بظاہر تو اسلام پر کام کرنے والے ادارے بڑے ’’باعزت‘‘، ’’عالمانہ‘‘ اور ’’انصاف پسند‘‘ ہیں مگر یہ ادارے اور ان میں کام کرنے والی فوج ظفر موج اسلام کے بارے میں زہریلا مواد ذرائع ابلاغ کو مہیا کرتے ہیں۔ یہ ادارے اور اس میں کام کرنے والے نام نہاد ’’اسلام شناس‘‘ اسلام کو تاریک ترین صورت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحقیقات میں اسلامی اقدار‘ عبادات و عقائد اور اسلام کی معاشی‘ معاشرتی اور عدل و انصاف کی شاندار روایات کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا اور ان کو نفرت انگیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ سی این این نے گذشتہ کئی سالوں سے حج کی تشہیر میں بزعم خود اسلام کے بارے میں بڑی دریا دلی سے کام لیا مگر فی الواقع یہ ادارہ مغرب کے لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو یہ سفید لباس میں ملبوس صفوں اور قطاروں میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ منظم ہیں اور تمہارے لیے خطرہ ہیں۔ یہ ’’عالمانہ مشین‘‘ یا کارخانہ ہی مغرب کے ذرائع ابلاغ کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ تمام سلسلہ اسلامی دنیا کو دوبارہ استعماری اور سامراجی کنٹرول میں لانے کے لیے ہے تاکہ اسلامی دنیا کے وسائل پر بشمول تیل مغرب کا کنٹرول قائم رہے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کا موجودہ اسلامی دنیا کے لیے تزویراتی منصوبہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں فرانس اور برطانیہ کی طرف سے اسلامی دنیا کو غلام بنانے کے منصوبے سے ملتا جلتا ہے۔ ان دونوں سامراجی طاقتوں نے پہلے اسلامی دنیا کے بارے میں تحقیقات کیں‘ ہر قسم کی معلومات اکٹھی کیں اور پھر اس علم کو اپنی پالیسیوں اور عملی اقدامات کی بنیاد بنایا۔ یہ کہا گیا کہ جن ممالک پر ان کی حکومت قائم ہوئی وہاں کے عوام کو علم‘ تعلیم پھیلانے اور تہذیب سے روشناس کرانا ضروری تھا۔ اسے “White man’s burden” کا نام دیا گیا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہم یہی منظر دوبارہ دیکھ رہے ہیں۔ تقریباً تین سو سال پہلے مغرب کے کرایہ کے فوجی ایشیا اور افریقہ میں پہنچے۔ مقصد یہ تھا کہ یورپ کے لیے منڈیاں تلاش کی جائیں اور وسائل کی لوٹ مار سے یورپ کے خزانے بھرے جائیں۔ نتیجہ اکثر اسلامی ممالک کی غلامی کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ ممالک آزاد ہوئے۔ اب استعماری اور سامراجی طاقتوں نے نئے عالمی نظام کے نام سے ایک تزویراتی پلان تیار کیا اور ’’کرائے کے سپاہی‘‘ مغرب کے سفارتکاروں‘ بینک کاروں اور مشیروں کے روپ میں تیسری اور اسلامی دنیا میں مصروفِ کار ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ مغرب کے عالمی ایجنڈا کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ایجنڈے کے تین نکات ہیں: اولاً تیسری دنیا اور عالمِ اسلام میں ایٹمی پروگراموں کو مکمل طور پر ختم کر دیا یا روک دیا جائے‘ ثانیاً مغرب اور امریکا کا منڈیوں پر قبضہ ہو اور ثالثاً مغرب کی تہذیب و ثقافت کو دنیا پر مسلط کیا جائے۔ اس سارے کھیل میں اسلام ہی ایک رکاوٹ ہے اور اسی وجہ سے اسلامی دنیا ہی زیادہ تر مغرب کے دبائو کا شکار ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ اسلام ایک خطرناک مذہب ہے۔ یہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے اور مسلمان ممالک کی دفاعی طاقت انسانی تہذیب کے لیے خطرناک ہے۔ ان ممالک میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور مذہبی حلقے دہشتگرد پیدا کر رہے ہیں۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد مغرب کی اسلامی دنیا کے خلاف پالیسیوں اور عملی اقدامات اس امر کا زندہ ثبوت ہیں۔ القاعدہ‘ افغانستان اور عراق کے خلاف مغرب کی ’’فوج کشی‘‘ نئے سامراجی نظام جس کو “New World Order” کہا جاتا ہے‘ کی علمبردار ہے۔ اس سارے پیش منظر میں نازی اور کمیونسٹ پراپیگنڈے کی جھلک نظر آتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ہمیں بتاتے ہیں اور باور کرانا چاہتے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا اہم ہے اور کیا غیراہم ہے‘ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ اس کا مقصد ہمارے قلوب و اذہان کو متاثر کرنا اور ہمارے خیالات اور فکر و نظر کو ایک سمت دینا ہے۔ یہ جادوگری ایسی ہے کہ ہمیں اپنی چیز بری نظر آتی ہے۔ فی الواقع مغربی میڈیا کو اپنی حکومتوں کے مفادات‘ مقاصد اور اہداف ہی عزیز ہیں۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغامِ آشنا‘‘۔ اسلام آباد۔ اکتوبر تا دسمبر۲۰۰۴ء)
Leave a Reply