اقوام متحدہ کی اصلاحات سے متعلق جاری بحثوںمیں امت مسلمہ خاموش نہیںرہ سکتی۔ مسلم ملک کے لئے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول میں ناکامی ایک انتہائی اہم موقع کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا۔ سلامتی کونسل میں توسیع شاید سب سے اہم تبدیلی ہوگی جو اقوام متحدہ میں کی جائے گی۔ ساٹھ سالوں میں سلامتی کونسل میں یہ سب سے پہلی توسیع ہوگی۔ لہذا عملاً اس تبدیلی کو زندگی میں ایک بار کی تبدیلی خیال کیا جانا چاہئے۔ اسلامی دنیا کو چاہئے کہ وہ سلامتی کونسل میں تین نشستوںکے حصول کی کوشش کریں۔ دنیا میں تقریباً ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں۔ یعنی دنیا کی کل آبادی کا یہ ۲۳ فیصد ہیں۔ چنانچہ اتنی بڑی ملت کو اقوام متحدہ میں مناسب نمائندگی ملنی چاہئے۔ بہرحال مسلمانوں کو کم از کم ایک نشست پر تو اصرار کرنا ضرور ہی چاہئے۔ ورنہ ہم محروم کردیئے جائیں گے۔ میز پر جو منصوبہ اس وقت موجود ہے، اس کی رو سے بہت ممکن ہے کہ مسلمانوںکو محروم ہی رکھا جائے۔ چار ممالک کا ایک گروہ جوہندوستان، برازیل، جاپان اورجرمنی پر مشتمل ہے، سب شمولیت کے لیے ایک دوسرے سے مفاہمت کرچکے ہیں اور یہ سبھی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے امیدوارہیں۔ جنوبی افریقہ، نائیجیریا اور مصر کا نام اُس بحث میں سرفہرست ہے، جس میں دو افریقی ممالک کا انتخاب کیا جانا ہے۔ ان سات ممالک میں جو سلامتی کونسل کی چھ نشستوںکے لئے زیر غورہیں، واحد مصر ایسا ملک ہے جہاںنوے فیصد مسلمان بستے ہیں۔ بہرحال زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ افریقہ سے جنوبی افریقہ اور نائیجیریا کو منتخب کرلیاجائے گا او ر مصر کو باہر چھوڑ دیا جائے گا۔ جنوبی افریقہ ، افریقہ میں سب سے بڑا صنعتی ملک ہے اور اس کا اپنے براعظم میں بڑا احترام ہے، لہٰذا اس کا قوی امکان ہے کہ افریقی یونین اپنے دو مجوزہ نمائندوںمیں اسے پہلے نمبر پر رکھے۔ جنوبی افریقہ کا نام غیرجانبدار تحریک جی۔۷۷ کے کوٹے میں بھی آسکتا ہے۔ جس سے سلامتی کونسل میں اس کی مستقل نشست کا دعویٰ قدرے مضبوط و مستحکم ہوجائے گا۔ افریقہ میں نائیجریاسب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ مغربی افریقی ممالک کی اقتصادی برادری کا سب سے اہم رکن ہے، چنانچہ اس بناء پر افریقہ کی نمائندگی کے لئے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے اس کے دعوے کو مضبوط سند حاصل ہوتی ہے۔ نائیجریا کا ایک خراب پہلو یہ ہے کہ یہاںجمہوریت کی مضبوط اورمستقل روایات کبھی نہیں رہی ہیں۔ اس لئے کہ یہاں درمیان میں سالوں آمرانہ فوجی حکومتیں قائم رہتی ہیں۔ نائیجریاکو چاہئے کہ وہ پائیداری و استقامت کے ساتھ جمہوریت کے راستے پر گامزن ہوجائے اور دنیا کو یہ دکھائے کہ اسنے آمریت سے اپنا مکمل ناطہ توڑ لیا ہے تاکہ مستقل نشست کے لئے اس کے دعوے میں توانائی اور جان آئے۔ نائیجریا میں تقریباً ۵۰ فیصد مسلمان ہیں، لیکن مسلمان زیادہ تر شمال میں مرتکز ہیں اور نائیجریا کی جنوبی ریاستوںمیں سے کسی میں بھی مسلمانوںکی اکثریت نہیں ہے۔ چنانچہ نائیجریا میں اسلام کی حیثیت قومی سے زیادہ علاقائی ہوکر رہ گئی ہے۔ لہذا یہ مشکل ہے کہ نائیجریا سلامتی کونسل میں اسلامی دنیا کی نمائندگی کرسکے۔ البتہ یہ افریقہ کی نمائندگی کے لئے بہتر امیدوار ہوسکتاہے۔ مصر اسلامی دنیا کی نمائندگی کے لئے ایک بہتر انتخاب ہوسکتاہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی یہاں نوے فیصد ے۔ بہرحال موجودہ منصوبہ کے مطابق افریقہ کو صرف دو نشستیں ملیں گی اور افریقی یونین اس کے لئے جنوبی افریقہ اور نائیجریا کا انتخاب کرنا چاہے گی۔ ۱۹۴۵ء کی دوسری جنگ عظیم کے ۵ فاتح ممالک کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست ویٹو پاور کے ساتھ حاصل ہوئی تھی۔ یہ ۵ ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ ہیں۔ جبکہ جاپان اور جرمنی کو اس میں شامل نہیں کیا گیاجو کہ شکست خوردہ ممالک تھے۔ اگرچہ دہائیوں سے جاپان اورجرمنی دنیا کی دوسرے نمبر کی اقتصادی قوتیں رہی ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں اس بناء پر سلامتی کونسل کی مستقل نشست خودبخود مل جائے۔ جرمنی مختلف وجوہ کی بناء پر قابل قبول امیدوارنہیں ہے۔ اس میں سے سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اگر جرمنی کو مستقل نشست دی جائے تو اس طرح سلامتی کونسل میں یورپی یونین کے تین مستقل ارکان ہوجائیں گے۔ شاید بہتر حل تویہ ہوگاکہ برطانیہ اور فرانس سے مستقل نشست لے لی جائے اور ان کی جگہ یوپی یونین کے مجموعی نمائندے کی حیثیت سے جرمنی کو ایک مستقل نشست دے دی جائے۔ اگرچہ یقینا فرانس اور برطانیہ اس کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے ضرور سامنے لایا جانا چاہئے۔ جاپان بھی قابل قبول امیدوارنہیں ہوسکتا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیگر مشرقی ایشیائی ممالک اسے اپنے خطے کا مناسب نمائندہ خیال نہیں کرتے۔ مشرقی ایشیاء کے بہت سارے ممالک جاپان سے خائف ہیں، کیونکہ یہ خطے کی اقتصادیات پر اپنی بالادستی چاہتا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی قبضے کی تلخ یادیں خطے کے ممالک کی ذہنوںمیں ابھی تک محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ چین جو سلامتی کونسل کے ۵ مستقل ارکان میں سے ایک ہے اور جسے ویٹو پاور حاصل ہے، جاپان کو مستقل نشست دیئے جانے کا مخالف ہے۔ پھر یہ کہ جاپانی اسکول ٹیکسٹ بکس پر جاری حالیہ تنازعہ جن میں ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائیوںمیں جاپانی شاہی سلطنت کی ناخوشگوار تاریخ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، مستقل نشست کے لئے جاپان کے دعوے کو کمزورکرتاہے۔ پاکستان اور چند دیگر ممالک کے تحفظات کے ساتھ ہندوستان کو اس کی آبادی اور ایشیاء میں اس کے مقام کی بناء پر مخالفت کا زیادہ سامنا نہیں ہے۔ برازیل جو کہ لاطینی امریکہ میں رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لئے ایک قابل قبول امیدوارہے۔ یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے ساتھ یورینیم کی افزودگی کا پروگرام بھی رکھتاہے۔ یہ لاطینی امریکہ اورکیریبین کے لئے ایک مناسب نمائندہ ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک برازیل پر اعتماد کرتے ہیں۔ بہرحال برازیل کی قومی زبان پرتگالی ہے۔ جبکہ لاطینی امریکہ کی اہم زبان ہسپانوی ہے۔ اس لئے لاطینی امریکہ کو کم از کم دو نشستیں ملنی چاہیں۔ جن میں ایک تو نمایاں طور سے میکسیکو ہے،جہاں ہسپانوی بولنے والوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ لیکن وینزویلا بھی مستقل نشست کے لئے ایک مناسب نمائندہ ہو سکتا ہے اس لئے کہ یہ لاطینی امریکہ کے علاقائی معاملات میں کافی فعال اور پیش پیش ہے۔ شاید لاطینی امریکہ کو تین نشستیں ملنی چاہئیں،جن میں برازیل، میکسیکو اور وینزویلا شامل ہیں۔ بہرحال او آئی سی ابھی تک مختصر ممالک پر مشتمل اپنی فہرست پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے اورنہ ہی وہ اپنے دعوے کے سلسلے میں دوسرے ممالک یا تنظیموں مثلاً NAM اورG-77 سے کوئی مفاہمت پیدا کرسکی ہے۔ اسلامی دنیا میں مصر، ایران، پاکستان اورانڈونیشیا سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے اہم امیدوار ہوسکتے ہیں۔ مصر اور ایران اسلامی دنیا کے اہم ممالک ہیں اور دونوںہی آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں بڑے ممالک ہے۔ یہ دونوں ممالک قدیم تہذیب کے بھی حامل ہیں۔ مصر اور ایران اچھے اسلامی دنیا کے نمائندے ہوسکتے ہیں۔
پاکستا ن ایک دوسرا واضح انتخاب ہے۔ یہ اسلامی دنیا میں بہت ہی فعال ملک ہے۔ اسلامی ممالک میں آبادی کے لحاظ سے یہ دوسرا بڑا ملک ہے اور جوہری ٹیکنالوجی اور اسلحے سے لیس ہونے کی بنیاد پریہ اسلامی دنیا کی بہت ہی اہم فوجی قوت ہے۔ انڈونیشیا اسلامی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے اس کا بھی حق بنتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جنوب مشرقی دنیا کی نمائندگی کے لئے سب سے بہتر ملک ہوسکتاہے۔
NAM, OIC اور G-77 کو چاہئے کہ وہ برازیل، ہندوستان اور افریقی یونین کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ یہ ممالک جاپان، جرمنی سے اپنا اتحاد ختم کرکے تیسری دنیا کے ساتھ اشتراک کریں۔ جاپان اور جرمنی شمال کے صنعتی ممالک ہیں اور اس کی عالمی جنوب کے ساتھ کم ہی یکسانیت و ہم آہنگی ہے۔ شمالی صنعتی ممالک کی پہلے ہی سلامتی کونسل میںنمائندگی زیادہ ہے۔ برازیل، ہندوستان، جنوبی افریقہ، مصر، نائیجریا، ایران اور پاکستان کو ملا کر ایک Southern 7 بلاک تشکیل دینا چاہئے اور سلامتی کونسل میں مستقل نشستوںکی مانگ کرنی چاہئے۔ یہ سات ممالک انڈونیشیا، میکسیکو اور وینزویلا کو بھی مدعو کرسکتے ہیں کہ وہ ان میں شامل ہو کر Southern 10 نامی بلاک بنائیں تاکہ ایک مشترک مطالبہ پیش کرسکیں۔ عالمی جنوب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیصلہ کن اکثریت ہے اور یہ ممالک باآسانی Southern 7 اور Southern 10 کو سیکورٹی کونسل میں شامل کرنے کے لئے قرارداد منظور کرواسکتے ہیں۔ اس راہ میں صرف ایک ہی رکاوٹ ہوسکتی ہے اوروہ یہ کہ ویٹو پاور کے حامل5 ممالک میں سے کوئی اسے ویٹو کرسکتاہے۔ سلامتی کونسل کی توسیع کے حوالے سے جو بھی منصوبہ منظور ہو یہ ضروری ہے کہ عالمی جنوب کو مناسب نمائندگی ملے اور اسلامی دنیا کو کم از کم ویٹو پاور کے ساتھ ایک مستقل نشست ضرور ملے۔
(بشکریہ: ایرانی ہفت روزہ میگزین ’’تہران ٹائمز‘‘)
Leave a Reply