الجزیرہ ٹی وی سے متعلق کچھ حقائق

الجزیرہ ٹی وی کے حوالے سے بعض سٹیلائٹ ٹی وی اور انٹر نیٹ ذرائع نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے۔ ان کے مطابق ان رپورٹوں میں الجزیرہ نیٹ ورک کے علاقائی و بین الاقوامی نیٹ ورک قطری حکومت کی ملکیت ہے۔ یہ پہلے بی بی سی عربی نشریات کی ملکیت تھا اور سعودی عربیہ اس کے اخراجات برداشت کرتا تھا۔ جب الجزیرہ نے ایک سعودی منحرف کا انٹرویو نشر کیا تو سعودی عرب نے اس پر اعتراض کیا لیکن بی بی سی نے اس طرح کے پروگرام کو روکنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا سعودی حکومت اس بات پر راضی ہو گئی کہ اس ٹی وی نیٹ ورک کو فروخت کر دیا جائے اور قطری شہزادہ (ولی عہد) نے اسے ۱۵ کروڑ ڈالر کے عوض خرید لیا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ الجزیرہ ٹی وی قطر کے داخلی معاملات کے حوالے سے خاموش رہتا ہے۔ جب قطری حکومت نے اسے خرید لیا تو اس کا بنیادی مقصد عرب دنیا کے حوالے سے خبروں کو نشر کرنا اور اپنے ناظرین کا اعتماد حاصل کرنا ٹھہرا۔ چنانچہ اس نے ایسی خبروں اور معلومات کو نشر کرنا شروع کیا جسے دوسرے نشر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ الجزیرہ نے دہشت گرد گروہوں مثلاً القاعدہ وغیرہ کے اعتماد کے حصول کی کوشش کی‘ جس کے مختلف فوائد تھے۔ پہلے پہل تو اس نے اپنے عرب ناظرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بالکل غیرجانب دار ہے۔ اس کے ساتھ ہی القاعدہ سے متعلق بڑی تعداد میں رپورٹیں نشر کر کے اس نے مغربی دنیا میں بھی بڑی تعداد میں اپنے ناظرین پیدا کر لیے۔ دو واقعات ایسے ہوئے جن کی بنا پر امریکیوں کو الجزیرہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ پہلا فائدہ پاکستان میں خالد شیخ محمد کی گرفتاری کی صورت میں پہنچا‘ جسے ۱۱/۹ کے حملوں کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے۔ محمد کی جائے روپوشی کا پتا الیکٹرانک سگنل کے ذریعہ لگا لیا گیا جبکہ الجزیرہ کا ایک رپورٹر اس سے موبائل فون کے ذریعہ انٹرویو لے رہا تھا۔ دوسرا واقعہ اس جگہ پر امریکا کی بمباری کا تھا جہاں الجزیرہ نے اسامہ بن لادن سے انٹرویو لیا تھا۔ القاعدہ کے لوگوں کا تواتر کے ساتھ انٹرویو شائع کر کے الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک نے اسلام کی ایک پرتشدد تصویر دنیا کے سامنے پیش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ الجزیرہ کی کارکردگی ان لوگوں کے مفاد میں ہے جو خوف و دہشت کی فضا قائم رکھتے ہوئے شورش زدہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی طویل موجودگی کے لیے جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً ایک اغوا کیے گئے امریکی کو اﷲ اکبر کے نعروں کے بیچ ذبح کرتے ہوئے دکھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام ایک غیرانسانی اور تشدد کا علمبردار مذہب ہے۔ چنانچہ دنیا میں استعمار کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کو ایک فعلِ قبیح ٹھہرا کر ان کے خلاف کارروائی کا جواز پیدا کیا جائے۔ دوسرے عوامی میڈیا کی طرح الجزیرہ بھی غیرصحتمندانہ مالی معاملات میں ملوث رہا ہے اور اس کے دو نامہ نگار اس ٹی وی نیٹ ورک کے سابق سربراہ عراق کے معزول آمر صدر صدام حسین سے بہت بڑی رقوم وصول ہوئی تھیں۔ صدام حسین کی معزولی اور اس حوالے سے دستاویزات کے انکشاف کے بعد سابق سربراہ نے استعفیٰ دے دیا۔ الجزیرہ وہ واحد ٹی وی نیٹ ورک ہے جو آخر وقت تک صدام اور طالبان کی حمایت کرتا رہا۔ کابل پر قبضے کے بعد افغانستان سے فرار ہونے والا واحد نامہ نگار الجزیرہ کا نامہ نگار تھا۔ جب عراق میں عبوری حکومت نے چارج سنبھالا تو اس نے الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کی کارکردگی پر اعتراض کیا۔ عراقی حکومت کا کہنا تھا کہ اس کا رویہ بہت اشتعال انگیز ہے اور یہ عراق میں عدم استحکام کو فروغ دے رہا ہے۔ معمول یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام حلقے ایک مخصوص سیاسی موقف کی ترجمانی کرتے ہیں اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ان کا مالک کون ہے۔ لہٰذا ایک نیٹ ورک بعض مخصوص مسائل کو غیرضروری طور پر اچھالتا ہے تو وہیں بعض مسائل کو اتنی کوریج نہیں دیتا‘ جس کوریج کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ الجزیرہ اس عام روش سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ روش بی بی سی میں بہت نمایاں ہے کہ یہ بعض شخصیات سے انٹرویو کرتا ہے اور بعض اہم شخصیات کو اس حوالے سے نظرانداز کر دیتا ہے۔ کسی بھی ٹی وی نیٹ ورک کی کارکردگی اس کے مالک کی پالیسیوں سے عبارت ہے۔ مثلاً قطر کا سعودی عرب کے ساتھ سرحدی تنازعہ رہا ہے جو نوے کی دہائی میں کافی بگڑ گیا تھا۔ اس دوران تہران اور سعودی عرب تعلقات میں بہتری پیدا ہو رہی تھی۔ یہ بہتری بعض بحران کے بعد پیدا ہوئی تھی‘ جس میں سعودی عربیہ میں ایرانی حاجیوں کا قتل سرفہرست ہے۔ قطر کا ایران کے ساتھ مضبوط تعلق دونوں ممالک میں ایک اچھی فضا پیدا کرنے کا موجب بنا۔ سابق صدرِ ایران رفسنجانی اور موجود صدر سید محمد خاتمی کی کوششوں کے نتیجے میں ایران قطر تعلقات بہت بہتر ہوئے لیکن الجزیرہ نے ایران سعودی عرب تعلقات کی مستقل حوصلہ شکنی کرتا رہا۔ صدر خاتمی کے دورہ سعودی عربیہ کی معمولی کوریج اور ایران کے اخبارات میں سعودی مخالف مضامین کو اس موقع پر نمایاں کرنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ الجزیرہ سعودی ایران تعلقات میں بہتری کی ہرممکن کوشش کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اس نیٹ ورک کے خیال میں سعودی ایران تعلقات میں بہتری قطر کے مفاد کے خلاف ہے۔ اب کئی عرب ممالک نے الجزیرہ کی شاخ کو اپنے ملک میں کھولنے سے منع کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے ملک میں اس کی شاخ کھولنے سے منع کر دیا۔ کویت نے اپنے یہاں اس کا دفتر بند کر دیا اور عراق نے بھی پارلیمانی انتخابات سے پہلے یہی روش اپنائی۔ یہاں تک کہ الجزیرہ کو بحرین میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔ جب الجزیرہ کے دفاتر عرب ممالک میں بند کیے گئے تو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ لیکن جب ایران نے اس کے دفتر کو اپنے یہاں بند کیا تو پوری دنیا میں اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔

(بشکریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘۔ تہران)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*