امریکا بھر میں فوجی اور رضاکار خود کشی کی طرف مائل ہیں مگر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ماہرین خودکشی کے رجحان میں اضافے کا سبب جاننے کے لیے بے تاب ہیں مگر اب تک معاملے کا سِرا نہیں مل سکا ہے۔
میں میلیسا (Melissa) کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ ایمرجنسی کالز کا جواب دیتی ہے۔ اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک شخص نے فون پر بتایا کہ وہ زندگی سے تنگ ہے اور اب سڑک پر کسی بھی گاڑی کے سامنے آکر زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص مرنے کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا وہ میرین تھا اور چار ماہ سے فارغ بھی تھا۔ بیروزگاری کے باعث اس کا حال برا تھا۔ وہ اپنے والد کا ٹرک لے کر آدھے ملک کا سفر طے کرکے میرین کور بیس پیڈلٹن (Pendleton) جاتا تھا مگر وہاں اسے اپنے ساتھی نہیں ملتے تھے۔ ان میں سے بیشتر بیرون ملک تعینات ہوچکے یا پھر میرین کور چھوڑ گئے ہیں۔ اس میرین کو بیروزگاری نے نشے کی لت میں مبتلا کردیا تھا۔ فوج میں چار سال کی ملازمت اور عراق میں دو مرتبہ کومبیٹ دستوں کے ساتھ تعیناتی کے باوجود اسے اب تک کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل سکی تھی اور اب وہ کیمپ پیڈلٹن کے پچھلے حصے میں بیٹھا خود کشی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اب بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ جس نوجوان نے خود کشی کے بارے میں بات کی تھی، اس کی مدد کس طور کی جائے، اس کا سراغ کس طرح لگایا جائے۔ اس نے انٹر اسٹیٹ فائیو (ٹریفک انٹر سیکشن) کی بات کی تھی۔
امریکا میں فوجیوں کی خود کشی ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ روزانہ ۱۸؍سابق فوجی موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں جنگ لڑنے والے ہزاروں فوجی موت کو گلے لگاچکے ہیں۔ ان دونوں جنگوں میں اب تک مجموعی طور پر ۶۴۶۰ فوجی مارے گئے ہیں اور خودکشی کرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
عراق اور افغانستان میں جنگ نے امریکی فوج کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ فوجیوں پر نفسیاتی دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب تک ۲۳ لاکھ فوجی افغانستان اور عراق میں تعینات کیے جاچکے ہیں اور ان میں ۸ لاکھ ایسے ہیں جنہیں کئی مرتبہ تعیناتی کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔
پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے مارک کیپلن نے National Violent Death Reporting System سے ملنے والے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا ہے کہ عام شہریوں کے مقابلے میں سابق مرد فوجیوں میں خود کشی کا رجحان دگنا اور سابق خواتین فوجیوں میں خود کشی کا رجحان تین گنا ہوتا ہے۔ سابق مرد فوجی عام طور پر خود کشی کے لیے آتشیں اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ خود کشی کا ایک انتہائی موثر طریقہ ہے۔
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ فوج سے فارغ ہونے کے بعد زندگی کس نوعیت کی ہوتی ہے اور خودکشی کا رجحان کس طرح انسان کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ میں نے خلیج کی جنگ میں خدمات انجام دی تھیں۔ چار سال تک فوج کا حصہ رہنے کے بعد جب میں فارغ ہوا تو ایسا لگا جیسے زندگی میں کوئی زبردست خلا پیدا ہوگیا ہو۔ سب کچھ ختم ہوتا دکھائی دیا۔ میں نے ایک ویئر ہاؤس میں نوکری کی جہاں لوگوں سے میرا رابطہ برائے نام تھا۔ اس کے بعد میں نے مصنف کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ اس میں لوگوں سے رابطہ کم ہی رہتا تھا۔ مگر خیر، کسی نہ کسی طور زندگی کو دوبارہ ڈھرّے پر لانا میرے لیے ممکن ہوگیا۔ یہ سب ایسا آسان نہیں تھا۔ جب فوج سے نکلنے کے بعد زندگی میں بظاہر کچھ نہیں رہتا تو صرف مرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے میں زندگی کے تقاضوں کو سمجھنا خاصا دشوار ہوتا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع کے ماہرین اب تک سابق فوجیوں میں خود کشی کے برھتے ہوئے رجحان کی کوئی جامع توجیہ نہیں کرسکے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ Department of Veterans Affairs اور محکمۂ دفاع دونوں ہی جنگ کے دوران رونما ہونے والے قتل و غارت کے نفسیاتی اور سماجی اثرات کو قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ سابق فوجیوں میں خود کشی کا رجحان اس قدر قوی ہوچکا ہے کہ اب اسے وبا قرار دیا جاسکتا ہے، مگر عام طور پر Veterans Division میں کوئی بھی اسے وبا قرار نہیں دیتا۔ افغانستان اور عراق میں جنگ سے قبل فوج کی سخت تربیت اور اس سے بھی سخت ڈسپلن فوجیوں کو خود کشی کے آغوش میں جانے سے روکتا تھا۔ ملٹری سوسائڈ ریسرچ کنسورشیم کے کو ڈائریکٹر Peter Gutierrez کہتے ہیں کہ میدان جنگ میں کئی مرتبہ تعیناتی سے فوجیوں پر شدید نفسیاتی دباؤ مرتب ہوتا ہے۔ اس کا اثر ان کے مورال اور فوج کی مجموعی کارکردگی پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ خود کشی کے لیے براہ راست جوابدہ نہ ہونے پر بھی یہ دباؤ فوجیوں کی زندگی کا رخ بدلنے کے حوالے سے تو بہرحال بہت اہم ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فوج کی تربیت کافی تھی مگر اب کسی کو خود کشی سے باز رکھنے کے لیے تربیت کافی نہیں۔ بہت کچھ بدلنا ہوگا۔
محققین اور ماہرینِ نفسیات میدان جنگ میں تعیناتی کو فوجیوں کی خودکشی کے اسباب میں نمایاں رکھنے کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میدان جنگ میں خدمات انجام دینے اور خود کشی کرنے میں کوئی تعلق نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کسی سپاہی کو لڑائی کی تربیت دے کر میدانِ جنگ میں کئی بار بھیجنا دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ وہ قتل و غارت کو قریب سے دیکھتا ہے اور طاقت استعمال کرنے کے فن سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے درست کرنے کی ذہنیت کا اسیر ہوتا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جوناتھن شے کہتے ہیں کہ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں تنہائی ایک بنیادی عنصر ہے۔ وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ جنگ کے میدان میں طویل مدت گزارنے سے ان کی نفسیاتی ساخت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ موت کو بہت قریب سے دیکھنا ان کے لیے خاصا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ان میں بہت سی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ویت نام کی جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں بھی مایوسی اور بے چینی ایک بنیادی وصف کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ اب افغانستان اور عراق سے واپس آنے والے فوجیوں کو بھی بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ وہ معاشرے میں بہتر طور پر ڈھل نہیں پاتے۔ ان کے لیے بیشتر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں ان کے لیے بظاہر الجھن ہی رہتی ہے۔ اب تعیناتی کے اصول بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ اپنی زمین سے بہت دور، اجنبی ماحول میں تعیناتی فوجیوں کو شدید اذیت سے دوچار رکھتی ہے۔ بار بار تعیناتی سے ان میں اخلاقی کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ کمزور نفسیاتی ساخت ان کی زندگی برباد کردیتی ہے۔ واپسی پر ان کے لیے معاشرے میں بہتر طور پر ڈھل جانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
Stanford Center on Stress and Health کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسپیگل کہتے ہیں کہ ملک کو بعض ایسی زمینی حقیقتوں کا سامنا ہے جن کی اصلیت سے ہم واقف نہیں۔ سپاہی جب بیرون ملک تعیناتی کے بعد واپس آتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات بھرے ہوتے ہیں۔ وہ بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی مایوسی اور اداسی کو بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میدانِ جنگ میں کئی بار ڈیوٹی دینے کے بعد جب فوجی اپنے گھر آتے ہیں تو وہ بظاہر کسی پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جارج واکر بش کے زمانے میں یہ پالیسی اپنائی گئی کہ جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے تابوتوں کی تصاویر شائع نہیں کی جائیں گی۔ ایسی تصاویر سے معاشرے میں بے چینی بڑھتی تھی۔ ویت نام کی جنگ کے دوران یہ ہوا تھا کہ جنگ امریکی کلچر کا حصہ بن گئی تھی۔ ہر شہری اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا تھا۔ اگر جنگ کی مخالفت کی جائے تو سپاہی عجیب مخمصے میں پھنس جاتا ہے۔ جس جنگ میں وہ اپنی جان داؤ پر لگا رہا ہوتا ہے، اس کے خلاف اپنے ہی ملک میں احتجاج ہو رہا ہو تو وہ اخلاقی جواز کھو بیٹھتا ہے۔ احتجاج سے بہتر ہے کہ جنگ اور سپاہیوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔
بہت سے سابق فوجی اور ان کے اہل خانہ کسی بھی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بجائے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذہنی پیچیدگی دور کرنے کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا لازم ہے مگر ایسا کرنے کے بجائے وہ خود ہی ادویہ لینا شروع کرتے ہیں یا پھر خاموشی سے خود کو مزید پیچیدگیوں کی نذر کرتے رہتے ہیں۔ ڈین ویسٹ نے عراق میں تعیناتی کے دوران لوگوں کی وہ اذیت ناک حالت دیکھی کہ اب تک فراموش نہیں کرسکا۔ اس نے جنگ میں زندہ بچ جانے والوں کو زندگی کے ہاتھوں مرتے دیکھا۔ یہ سب کچھ اس کے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ اسے یاد ہے کہ تعیناتی کے بعد سپاہیوں کی ذہنی حالت جانچنے کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ ضروری تھا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں معلوم ہی نہیں ہو پاتا تھا کہ جنگ کا میدان سپاہیوں کی ذہنی حالت پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے ہر دور میں فوجیوں کی ذہنی صحت درست رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے سابق فوجیوں کو جنگ کے میدان سے وطن واپسی پر عجیب ذہنی الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ وہ عام حالات میں بھی ویسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں جیسا کہ وہ میدان جنگ میں کرتے تھے۔ معاشرے میں انہیں دوبارہ ضم کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا رہا ہے، اور پھر یہی کیفیت بڑھتے بڑھتے انہیں موت کی طرف بھی دھکیل دیتی ہے۔ سابق فوجیوں کے گروپس بھی ہیں جو میدان جنگ سے واپس آنے والوں کو دوبارہ معاشرے کے قابل بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ گروپ نئے آنے والوں کو انہی جیسے لوگوں سے ملانے اور ان کے مسائل سے سیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کی تحریک دی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ اپنے اور دوسروں کے معاملات پر پوری توجہ دیں۔ اسی صورت وہ خود کو بہتر زندگی کے لیے اچھی طرح تیار کرسکتے ہیں۔
امریکی فوج کو اب شدت سے احساس ہوچلا ہے کہ جنگ کے میدان سے واپس آنے والوں کو دوبارہ زندگی کی طرف لانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خرابیاں بڑھتی رہیں گی اور فوج کا مورال گرتا چلا جائے گا۔ سابق فوجیوں کی بہبود سے متعلق محکمے کو تیزی سے زیادہ فعال کیا جارہا ہے تاکہ مسائل کی پیچیدگی کے تناسب سے کچھ کیا جاسکے۔ سابق فوجیوں کے نفسیاتی مسائل زیادہ الجھے ہوئے ہیں۔ وہ تیزی سے مایوسی اور خود کشی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ میدانِ جنگ میں بار بار تعیناتی کے مرحلے سے گزرنے والوں کی زندگی میں زیادہ پیچیدگی پائی جاتی ہے۔ وہ جب گھر واپس آتے ہیں تو ان کی زندگی سے بہت کچھ نکل چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے مایوسی زیادہ رہ جاتی ہے اور زندہ دلی کا عنصر برائے نام ہوتا ہے۔ انہیں کئی ماہ تک بھرپور نفسیاتی تجزیے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ دوبارہ نارمل زندگی کے لیے تیار ہوسکیں۔
سابق فوجیوں میں زندگی کی امنگ دوبارہ پیدا کرنا امریکی فوج اور معاشرے کا بنیادی مسئلہ ہے۔ بعض ادارے کام تو کر رہے ہیں مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مایوسی کا گراف تیزی سے بلند ہو رہا ہے۔ سابق فوجیوں کو زندگی کی طرف دوبارہ آنے میں غیر معمولی دشواریوں کا سامنا ہے۔ وہ بہت حد تک ہمت ہار چکے ہوتے ہیں۔ موت کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد ان میں زندگی کے لیے بہت عجیب تصورات جنم لے چکے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی نفسیاتی ساخت کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع سابق فوجیوں کی مایوسی دور کرنے میں تاحال ناکام رہا ہے۔ اب پالیسی اور حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں لڑنے والے بہت سے ذہنی امراض لے کر وطن واپس آتے ہیں۔ انہیں نارمل شہری کی حیثیت سے معاشرے میں ضم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
(“Suicide Soldier”… “Newsweek”. June 8th, 2012)
Leave a Reply