تیسری کراچی بین الاقوامی کتب نمائش میں ’اکیڈمی‘ کا اسٹال

تیسری کراچی بین الاقوامی کتب نمائش ۳۰ نومبر سے ۴ دسمبر ۲۰۰۷ء اختتام پذیر ہو گئی۔ دو لاکھ سے زائد افراد نمائش میں شریک ہوئے۔ اکثریت خواتین، طالبات اور بچوں کی تھی۔ پبلشرز کو اپنے ملک کی جانب سے “Travel Advisory” کی پابندی کے باعث غیرملکی ناشران کے اسٹالوں کی کمی رہی۔ نمائش کی خاص بات یہ تھی کہ بین الاقوامی سطح کی کسی کتب نمائش میں پہلی بار مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تمام کتابیں ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی‘‘ کے اسٹال پر متعارف کرائی گئیں جو نہ صرف شرکاء کی توجہ کا باعث رہیں بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد بالخصوص خواتین، طالبعلم، اساتذہ، دانشور اور علمائے کرام نے انھیں پذیرائی بخشی۔ زندگی کے ہر طبقۂ فکر اور نظریات و خیالات کے حامل لوگوں کا دینی، نظریاتی، معاشی، جغرافیائی، طب، انگریزی ادب اور سیاسی کتب کی خریداری میں رجحان دیکھنے میں آیا۔ بچوں کی کتابوں کی سب سے زیادہ مانگ رہی اور والدین بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی کتب کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی‘‘ کے اسٹال کو پذیرائی بخشی جن میں جرمن قونصلر ہنس جویا جم کیڈرلی، سابق سینیٹر پروفیسر عبدالغفور احمد، سابق سٹی ناظم کراچی نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ، سابق رکن قومی اسمبلی محمد حسین محنتی، سابق رکن صوبائی اسمبلی یونس بارائی، ذہنی آزمائش کے مشہور ٹی وی پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کے میزبان قریش پور، پی پی بی اے (کراچی) کے چیئرمین عزیز خالد، کے آئی بی ایف کے کنوینر اقبال صالح محمد، کوآرڈینٹر ماہرہ اشرف ،سینئر بیورو کریٹس، جامعہ کراچی، این ای ڈی یونیورسٹی، آغا خان یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور دیگر اہم جامعات، کالجوں اور اسکولوں کے سینئر لائبریرین و اساتذۂ کرام اور میڈیا سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی‘‘ نے اپنے اسٹال پر ممتاز اسکالر مولانا ابوالجلال ندویؒ کی کتاب کے علاوہ اپنی نئی مطبوعات ’’انسان کی تخلیق‘‘، اقتصادی غارت گر‘‘، ’’پاکستان: سیاست اور اسلامی قانون‘‘، ’’خُلق المسلم‘‘، ’’سیکولرازم اور اسلام‘‘ اور ’’راہنمائے صحت‘‘ بھی متعارف کرائیں۔

(رپورٹ: محمد آفتاب احمد)

{}{}{}

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*