جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں ‘ اسرائیلی طیارے غزہ پر شمال سے جنوب تک بمباری میں مصروف ہیں۔۲۳ ستمبر کو ۱۹ فلسطینی مارے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ جبالہ میں حماس کی ریلی برائے آزادی کے دوران ایک میزائل آکر مجاہدین کی گاڑی سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں لوگ شہید ہوئے۔ حقیقت جو بھی ہو بہرحال غزہ سے راکٹ داغے جانے کے مبینہ خبر کے بعد ہی اسرائیل کے طیارے انتقامی کارروائیوں کے لئے حرکت میں آگئے اور پھر یہ حادثہ رونما ہوا۔ آئندہ دو دنوں کے اندر اسرائیل نے مزید دو درجن فلسطینیوں کو قتل کردیا اور متعدد گھروں اور عمارتوں کو منہدم کردیا‘ جس میں غزہ شہر کا ایک اسکول بھی شامل تھا جو حماس کے زیر انتظام چل رہا تھا۔ ۲۵ ستمبر کو مغربی کنارہ میں ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے ۲۰۷ فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔ اس تاریخ کو پوری رات اسرائیلی ایف ۔۱۶ طیارے غزہ کی فضاء میں گشت کرتے رہے اور پہلے ہی سے خوفزدہ آبادی کو مزید خوفزدہ کرتے رہے۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کیا اسرائیل کا یہی وہ رویہ ہے جس کی بناء پر پاکستان اسے تسلیم کرنا چاہتا ہے۔ ہاں! ایسی سفاک ریاست کو جو بے یارومددگار مقبوضہ آبادی پر کوئی رحم نہیں کرتی اور غزہ سے انخلاء کے بعد بھی حملوں سے ہمیں نجات نہیں ملی۔ علاوہ ازیں جس نے ابھی تک مغربی کنارہ اور یروشلم پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ یکم ستمبر کو پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور اسرائیلی وزیرخاجہ سِلوان شیلوم کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سے فلسطینی بہت رنج میں ہیں۔ پاکستان کے اس اقدام کی سرکاری و غیر سرکاری ہر دو سطح پر یکساں طور سے مذمت ہورہی ہے‘ حماس نے اس کی مذمت کی ہے ۔ اسلامی جہاد نے ان کے خلاف مظاہرے کئے ہیں۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اس ملاقات کے متعلق کوئی پیشگی علم نہیں تھا۔ صورتحال غیر واضح ہے‘ بعض فلسطینی ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے واقعتادو روز پہلے محمود عباس کو اس ملاقات کی خبر دی تھی اور یہ کہ فلسطینی رہنما نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ البتہ اس میں یہ تاکید شامل تھی کہ فلسطینیوں کے حقوق پر دبائو ضرور دیا جانا چاہئے۔کچھ دوسری رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ محمود عباس تھے جنہوں نے صدر مشرف کو اسرائیل سے رابطہ قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ فلسطینی گلیاں بہرحال اس سے ہرگز متاثر نہیں ہوئیں نہ ہونگی ۔ دونوں کے مابین ملاقات کسی بھی طرح طے ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ماہ کے اوائل میں نیویارک میں منعقدہ جیوش کانفرنس میں پرویز مشرف کی شرکت یہاں عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس سے بھی جو بدتر خبر تھی وہ خورشید قصوری کا انکشاف و اعتراف تھا کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین دس سال سے بھی زائد عرصے سے خفیہ رابطے کا سلسلہ رہا ہے۔ اس مسئلے پر شور مچنے کے بعد پاکستانی صدر کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ اس ملاقات سے پہلے انہوں نے سعودی عربیہ اور فلسطینی حکومت دونوں سے پیشگی رضامندی حاصل کی تھی اور یہ کہ چار اسلامی ممالک کا پہلے ہی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطہ ہے۔ انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ وزیر خارجہ کی یہ ملاقات اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن فلسطینیوں کو یقیناً یہ شک ہے کہ ایسا ہوگا اور اگر میں ۲۰۰۳ء میں اپنے دورہ پاکستان کو یاد کروں تو اس دوران جس پاکستانی موڈ کا ادراک کیا تھا اس سے بھی یہی شک ہورہا تھا۔ اس وقت بھی اس حوالے سے یہ مضبوط افواہیں گشت کررہی تھیں کہ پرویز مشرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں غور کررہے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت کسی نے جو ایک تبصرہ کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔’’ایک اسرائیلی کو بھی یہاں قدم رکھنے دو وہ واپس جا نے کے لئے زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ اگرچہ یہ اس وقت جذبات میں کہا گیا تھا لیکن مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عام لوگوں کی سوچ یہی ہے۔ مجھے اس وقت بھی حیرت ہوئی تھی اور اب بھی ہورہی ہے کہ اس طرح کے ملک میں اسرائیل کا تسلیم کیاجانا کیونکرممکن ہوسکتا ہے۔ جب بھی میں نے پاکستان کا دورہ کیا فلسطینی کاز کے لئے پاکستانی عوام کی دلچسپی اور ہمدردی نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں حیران ہوتا تھا کہ پاکستانی عوام مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کس قدر یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں کتنی مستقل مزاجی کے ساتھ شریک و سہیم ہیں۔ عام پاکستانیوں سے جب بھی ہمارا سابقہ پیش آیا ہم نے یہی محسوس کیا کہ یہ لوگ بہت ہی خلوص اور اور نیک نیتی کے ساتھ فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتے اور اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ اور یروشلم کے ساتھ کررہا ہے اس پر وہ بہت زیادہ برہم ہیں۔ کس طرح ایسے ملک کی لیڈر شپ وہ سفارتی دائو پیچ کھیلنے کی توقع کرسکتی ہے جو یقیناً یہاں کے عوام کے غم و غصے کو دو آتشہ کرنے کا سبب بنے گا۔ جیسا کہ عرب پریس نے اپنے انتہائی تنقید آمیز تبصروں میں جوترکی میں منعقدہ وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے بعد شائع ہوئے ہیں یہ نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اس کے نتیجے میں اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے اور عرب جس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ ایک مستحکم دوست کی ضرورت ہے‘ جو خانہ جنگی اور تصادم سے تارتار نہ ہو۔ دوسرے مسلم ممالک بھی اس روش پر چل پڑے ہیں۔ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ نے بھی حال ہی میں شیلوم سے ملاقات کی ہے ا ور یہ افواہ گردش میں ہے کہ اس کا بھی ارادہ کچھ ایساہی کرنے کا ہے۔ اسرائیل نے قطر‘ تیونس اور مراکش کے نمائندوں سے رابطہ کیا ان عرب ممالک کی فہرست میں اضافے کے لئے جو پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا اس فہرست میں شامل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فلسطینی اس پر اس قدر برہم ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے قلوب میں پاکستانیوں کا ایک خصوصی مقام ہے۔ یہ مقام پاکستانیوں کے خلوص ‘ فلسطینی کاز کے لئے ان کا بھرپورتعاون اور ان کا اخوت اسلامی کے احساس سے معمور ہونے کی بناء پر ہے۔دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا موقف بہت نمایاں ہے حتی کہ نیم عرب یا مکمل عرب عوام کے مقابلے میں بھی فلسطینیوں کے حق میں ان کا موقف ممتاز رہا ہے۔ کوئی بھی شخص فلسطینیوں کے برے وقتوں میں پاکستان کی فراخدلانہ وضاحتی حمایت کو فراموش نہیں کرسکتا ہے۔ متعدد فلسطینی طلبہ نے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی ہے۔ پاکستانیوں نے فلسطینی کاز کی گرمجوشی سے حمایت کی یہ جانتے ہوئے کہ مغرب ان کے اس رویے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اس کے برعکس The Jerusalem Post کے ۵ ستمبر کے شمارے میں کینیڈین کولیشن فار دیمو کرسیز کی جانب سے جو بھارتی تارکین وطن کی ایک تنظیم ہے ایک غم و غصے سے بھرا خط شائع ہوا جس میں انہوں نے اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار نہ کرے اس لئے کہ یہ بھارت کے ساتھ غداری ہوگی۔ خط میں بھارت اور اسرائیل کے مابین پائی جانے والی مشترک قدروں کا ذکر کیاگیا ہے اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف دونوں کے مابین باہمی تعاون کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ عربوں کے لئے اب اس طرح کا خط پاکستانیوں کی جانب سے اسرائیل کے حق میں آنا ایک ناقابل یقین بات ہوگی۔
لیکن اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کتنا وقت لگ گا؟ پاکستان کو امریکا کے دبائو سے آزاد ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ فلسطینی دعاگو ہیں کہ وہ وقت جب پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں آئے ۔
ڈاکٹر غدا کرمی رملہ میں رہائش پذیر ایک فلسطینی دانشور اور منصف ہیں
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔۳۰ ستمبر۲۰۰۵)
Leave a Reply