ہمارے علم اور مشاہدہ میں بعض ایسی چیزیں آتی ہیں جو کبھی بدلتی نہیں اور نہ ان میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے۔ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوبتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اب تک ایسا ہی کر رہا ہے اور اس کے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا ہے لیکن دیکھیے متحدہ عرب امارات میں جو ایک صحرائی بادشاہت ہے‘ کبھی برفباری نہیں ہوتی تھی لیکن پچھلے ہفتہ عشرہ قبل وہاں اس الخیمہ کے پہاڑوں پر برفباری ہو چکی ہے۔ اسی طرح جنوبی براعظم انتارتیکا میں گھاس کو اُگنا نہ چاہیے تھا کیونکہ وہاں تپش نقطۂ انجماد پر ہوتی ہے لیکن اب وہاں گھاس اُگ رہی ہے۔ یوں یہ دونوں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوچکی ہیں۔ اسی طرح سونامی (Tsunami) کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ وہ بحرِ ہند میں برپا نہیں ہوتے لیکن ابھی کچھ ہفتے پیشتر ۲۶ دسمبر کو چشم دنیا یہ نظارہ بھی کر چکی ہے۔
اس لیے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا دنیا اوندھی (Upside Down) ہوتی جارہی ہے؟ کیا اس کا نظام درہم برہم ہونے جارہا ہے۔
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
یہ تبدیلیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ دنیا اور اس کے ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی آچکی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ براعظم انتارتیکا اس قدر گرم ہو چکا ہے کہ وہ نباتاتی زندگی کو وہاں باقی رکھ سکتا ہے۔ برطانیہ کے ادارہ برٹش انتارتیک سروے BAS سے منسلک ریسرچ کرنے والے ایک ماہر علم معیشت حیوانات (Ecology)‘ پیٹ کانوے (Pete Convey) کا کہنا ہے وہ گھاس انتارتیکا میں اب جڑ پکڑ چکی ہے۔ انتارتیکا کی آب و ہوا میںبڑی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے گھاس کو ایسے علاقوں میں پھیل جانے کا موقع مل رہا ہے جو کبھی بے حد سرد ہوا کرتے تھے۔ کانوے کا کہنا ہے کہ ان تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے بشمول شہنشاہ (Emperor) پینگوین کی دوسری انواع سیل (Seale)‘ سرد پانی کی مچھلیوں اور دوسری سمندری دیوقامت چھپکلیوں (Spiders) کے جنگلی حیات کے کئی انواع کو سخت خطرہ لاحق ہے۔
گذشتہ تین دہوں کے دوران کی گئی پیمائشیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ۱۹۷۴ء کے مقابلہ میں موسمِ سرما کی تپشوں میں ۵ درجہ سینٹی گریڈ اضافہ کے ساتھ دنیا میں پائے جانے والے جزیرہ نما اور جزیرے سب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ گرم ہو جانے والے علاقوں میں شامل ہیں۔ کئی برف کی چٹانیں یعنی Glaciers اور برفانی چادریں (Ice Sheets) عالمی حرارت کی وجہ سے پگھلتی جارہی ہیں۔
دنیا کے گرم سے گرم تر ہو جانے (Global Warming) کا اثر دیکھیے کہ ایک طرف برف سے ڈھکا ہوا براعظم انتارتیکا تک گرم ہوتا جارہا ہے‘ دوسری طرف دیکھیے کہ متحدہ عرب امارات کے باشندوں نے کبھی برفباری کا منظر نہیں دیکھا تھا لیکن پچھلے ہفتہ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ راس الخیمہ کے پہاڑوں پر ایک سفید چادر پڑی ہوئی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس صحرائی ملک میں ۲۶ ملی میٹر بارش بھی ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سائنسدانوں کو جو اندیشہ تھا کہ دنیا میں ہر جگہ آب و ہوا میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوں گی وہ اب صحیح ثابت ہو چکا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلے سال مغربی یورپ بالخصوص فرانس میں اتنی گرمی پڑی تھی کہ ہزاروں انسان مر گئے تھے۔ یہ بھی موسموں کی تبدیلی کا شاخسانہ تھا۔
گذشتہ دنوں کا زبردست زیرِ سمندر زلزلہ جس نے سونامی (سمندری لہروں) کا دہانہ کھول دیا تھا‘ اس نے اکثر جگہ خشکی کو نگل لیتے ہوئے دنیا کا نقشہ ازسرِ نو کھینچ دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے دنوں کو ایک سیکنڈ کی ایک کسر کی حد تک چھوٹے کر دیتے ہوئے زمین کی محوری گردش کو مستقل طور پر تین مائیکرو سیکنڈ تیز تر کر دیا ہے۔
ابھی دنیا سونامی (Tsunami) کی تباہ کاریوں سے سنبھل بھی نہ پائی ہے جس نے ۱۱ ممالک میں سمندر کے کنارے رہنے والوں کو دہشت زدہ کر دیا تھا کہ سائنسدانوں‘ جزائر کناری Canary Islands کے پاس مزید ایک اور قیامت خیز تباہی و بربادی کے رونما ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں جس سے دوسرے ممالک کے علاوہ برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا (USA) میں ایسی ہلاکت اور تباہی برپا ہو گی کہ اس جیسی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
حکومتیں‘ سائنسدانوں کے ساتھ سنجیدگی کا معاملہ نہیں کرتی ہیں بلکہ ان کو تو تباہی و بربادی کے فرسودہ خیالات کے حامل مضحکہ خیز اور بے کار انسان سمجھ کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ لیکن بایں ہمہ ایسا لگتا ہے کہ واقعی اب دنیا اوندھی ہو جانے والی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے ہاتھوں کے کرتوت ہیں یا پھر اس میں اﷲ تعالیٰ کی مصلحت کو بھی دخل ہے؟
اس سلسلہ میں بڑی عجیب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں علما یعنی مذہبی قائدین اور سائنسدان حضرات‘ دونوں متفق نظر آتے ہیں حالانکہ ان میں سے ہر گروہ اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ دہریت پسند ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ہم نے ماحول کو اس کے دورانِ فطرت بنے ہوئے صیانتی (حفاظتی) نظام کے ساتھ تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے مادر فطرت کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا ہے اور ہم پر برس رہا ہے۔ مذہبی رہنمائوں کا اس سلسلہ میں یہ تصور ہے کہ ہماری حرص و ہوس‘ ہم میں انسانیت کے فقدان اور ہمارے کرتوتوں نے ماحول میں منفی توانائیوں کو خارج کر دیا ہے جو خشک سالیوں‘ طوفانوں اور زلزلوں کی شکل میں ہماری طرف پلٹ کر آرہی ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ بات صحیح ہے کہ انسانوں کی بداعمالیوں کی پاداش میں ایسی آفتیں آسکتی ہیں جو اُن کی سزا کا ایک دنیوی حصہ ہے۔ مختصر یہ کہ سائنسدانوں اور مذہبی قائدین دونوں کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمیں ہماری ناعاقبت اندیشی‘ خدا فراموشی اور فطرت کے تئیں ہماری بے حسی اور بے دردی سے نکالنے کے لیے یہ قدرتی آفات ایک طرح سے ہوشیار اور بیدار کرانے والی صدائیں ہیں۔ کوئی ہے جو اِن پر کان دھرے؟
(بحوالہ: سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply