یہاں ’’اسلامی تہذیب‘‘ کی منفرد امتیازی خصوصیات کے بارے میں منشی پریم چند کے ایک مضمون کی تلخیص پیش کی جارہی ہے جو ہفتہ وار ’’پرتاپ‘‘ کے دسمبر ۱۹۲۵ء کے شمارے میں چھپا تھا۔ منشی صاحب اردو اور ہندی کے بہت بڑے افسانہ نگار اور ناول نویس تھے۔ ابتدا میں وہ گاندھی جی کے نظریات کے زیرِ اثر بڑے کٹر ہندو پرست تھے اور اسلام کے خلاف مضامین لکھتے رہتے تھے۔ بعد میں جب اسلام اور رسولِ کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کیا تو اسلام دوست ہو گئے‘ جس کے ثبوت میں یہ مضمون بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ مضمون ہندی زبان میں ’’اسلامی سبھیتا‘‘ کے نام سے چھپا تھا۔ اب اس کا اردو ترجمہ محمد محی الدین خان صاحب نے کیا ہے اور ’’مدھر سندیش سنگم‘‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی نے کتابچے کی صورت میں شائع کیا ہے۔ منشی صاحب نے یہ تحریر ہندوئوں کو مخاطب کر کے لکھی ہے اور اسلامی تہذیب کے گُن گا کر ہندو بھائیوں کو تلقین کی ہے کہ وہ مسلمانوں سے تعصب برتنے کے بجائے اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہزار برس سے ہندوستان میں رہتے چلے آرہے ہیں‘ لیکن ابھی تک ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے۔ ہندو کے لیے مسلمان ایک راز ہے اور مسلمان کے لیے ہندو ایک معمہ۔ نہ ہندو کو اتنی فرصت ہے کہ اسلام کے حقائق کی چھان بین کی کرے‘ نہ مسلمان کو اتنا موقع کہ ہندو دھرم کے حقائق کے سمندر میں غوطے لگائے۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر بے سروپا باتوں کا تصور کر کے سر پھٹول پر آمادہ رہتے ہیں۔ ہندو سمجھتا ہے کہ دنیا بھر کی برائیاں مسلمانوں میں بھری ہوئی ہیں‘ ان میں رحم ہے نہ دھرم‘ خوش اخلاقی ہے نہ صبر و ضبط۔ مسلمان سمجھتا ہے کہ ہندو پتھروں کو پوجنے والا‘ گردن میں دھاگے ڈالنے والا‘ ماتھا رنگنے والا اور دال بھات کھانے والا حیوان ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے سایہ سے بچتے ہیں اور دونوں فرقوں میں جو بڑے بڑے مذہبی پیشوا ہیں وہ اس بھید بھائو میں سب سے آگے ہیں‘ گویا دشمنی اور مخالفت ہی مذہب کی مخصوص علامت ہے۔ ہم اس وقت ہندو مسلم منافرت پر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ مولانا شوکت علی کے ساتھ ہمارا بھی یہ یقین ہے کہ یہ حالت عارضی ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب ہندو اور مسلمان دونوں اپنی غلطی پر پشیمان ہوں گے اور اگر انسانیت اور شرافت سے ترغیب پاکر نہیں تو خود حفاظتی کے لیے متحد ہونا ضروری سمجھیں گے۔
ہم اس وقت صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں ہندوئوں کا جو نظریہ ہے‘ وہ کہاں تک مبنی بر انصاف ہے۔
تہذیب کے تین نمونے
پرانے زمانے میں کسی قوم کی دین داری اور نیک عملی ہی اس کی تہذیب کی شناخت ہوتی تھی۔ خدمت اور قربانی ہی تہذیب کا خاص حصہ تھی۔ چین‘ جاپان‘ بھارت‘ مصر کسی بھی ملک کی قدیم تہذیب کو لیجیے‘ آپ اسے بامذہب پائیں گے‘ گرچہ اب بھی وہی نمونہ مقدم ہے لیکن اس میں حالات نے تھوڑی تبدیلی کر دی ہے یا یوں کہیے کہ اس کی ہیئت تبدیل کر دی گئی ہے۔ انقلابِ فرانس نے تہذیب و تمدن کا جو نمونہ قائم کیا وہ عدل و انصاف‘ اخوت اور مساوات ان تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ذرا غور سے دیکھیے تو جدید و قدیم نمونوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا‘ لیکن ہم جدید تہذیب کا جائزہ لے رہے ہیں‘ اس لیے جدید کسوٹیوں کو عمل میں لانا ہی مناسب ہو گا۔
عدل و انصاف
سب سے پہلے عدل و انصاف کو لیجیے۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں کسی مذہب نے عدل و انصاف کو اتنی فوقیت نہیں دی‘ جتنی اسلام نے۔
عیسائی مذہب میں رحم پر زور دیا گیا ہے۔ رحم میں چھوٹے بڑے‘ اونچ نیچ‘ طاقتور کمزور کا مفہوم پوشیدہ رہتا ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہو گا وہاں یہ تفریق ہو ہی نہیں سکتی اور وہاں رحم کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا‘ کم از کم انسانوں کے لیے نہیں‘ دیگر مخلوقات پر ہی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ہندو دھرم عدم تشدد کا علم بردار ہے اور تہہ تک جائیں تو عدل و انصاف اور عدم تشدد دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ عدم تشدد کے بغیر عدل کا اور عدل کے بغیر عدم تشدد کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے ناانصافیاں کی ہیں۔ مذہب کے نام پر عدل و انصاف کو پیروں سے خوب روندا ہے‘ لیکن کیا ہندوئوں نے عدم تشدد کے علم بردار ہوتے ہوئے تشدد کے جھنڈے نہیں گاڑ دیے‘ یہاں تک کہ بودھ اور جین بادشاہوں نے عدم تشدد کو مذہب کی خاص علامت مانتے ہوئے مذہب کے نام پر خون کی ندیاں نہیں بنائیں؟ کسی مذہب کی عظمت کو انسانوں کے اعمالوں سے نہیں جانچنا چاہیے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ مذہب کے پیشوا اور بانی نے کیا ہدایت دی ہے۔
حضرت محمدﷺ نے مبلغینِ دین کو اسلام کی تبلیغ کے لیے مختلف ممالک میں بھیجتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی تھی:
’’جب تم سے لوگ پوچھیں کہ جنت کی کنجی کیا ہے تو کہنا کہ وہ خدا کی بندگی اور کارِ خیر میں پوشیدہ ہے‘‘۔
حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے پہاڑ پر حضرت محمدﷺ کی زبان سے جس حیات بخش پیغام کی بارش ہوئی تھی‘ وہ ہمیشہ ہمیش اسلامی زندگی کے لیے آبِ حیات کا کام کرتی رہے گی اور اس پیغام کا جوہر کیا تھا؟ عدل و انصاف۔ اس کے ایک ایک لفظ سے صداے عدل و انصاف گونج رہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’اے مومنو! میری باتیں سنو اور انہیں سمجھو‘ تمہیں معلوم ہو کہ سب ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تمہاری ایک ہی برادری ہے‘ ایک بھائی کی چیز دوسرے بھائی پر کبھی حلال نہیں ہو سکتی‘ جب تک کہ وہ خوشی سے نہ دے دی جائے۔ ناانصافی کبھی مت کرو‘ اس سے ہمیشہ بچتے رہو‘‘۔
اس پیغامِ جاوداں میں اسلام کی روح پوشیدہ ہے۔ اسلام کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ وہاں بادشاہ اور فقیر‘ امیر اور غریب کے لیے فقط ایک انصاف ہے‘ کسی کے ساتھ رعایت نہیں‘ کسی کی طرفداری نہیں۔ ایسی سیکڑوں روایات پیش کی جاسکتی ہیں جہاں بے کسوں نے بڑے بڑے طاقتور حاکموں کے مقابلے میں انصاف کے زور سے فتح پائی ہے۔ ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں ہے جہاں بادشاہوں نے اپنے شہزادے‘ اپنی بیگم یہاں تک کہ اپنی ذات کو انصاف کی چوکھٹ پر قربان کر دیا ہے۔
دنیا کی کسی مہذب سے مہذب قوم کے اصولِ عدل کا اسلامی اصولِ عدل سے موازنہ کیجیے‘ آپ اسلام کا پلڑا بھاری پائیں گے۔ زوال پذیر ہونے پر سبھی قوموں کے اقدار میں بگاڑ رونما ہو جاتا ہے۔ اس میں ہندو‘ مسلمان‘ عیسائی کسی کی قید نہیں۔ آج ہم مسلمان کو تعصب سے بھرا ہوا پاتے ہیں‘ لیکن جن دنوں اسلام کا پرچم کٹک سے لے کر ڈینیوشش تک اور ترکستان سے لے کر اسپین تک لہراتا تھا‘ مسلمان بادشاہوں کی مذہبی رواداری تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر غیرمسلموں کی تقرری تو عام بات تھی۔ اس عہدے کے لیے صرف صلاحیت اور قابلیت کی شرط تھی‘ مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہر تعلیم گاہ کے دروازہ پر الفاظ کندہ ہوتے تھے:
’’زمین کا انحصار صرف چار چیزوں پر ہے: دانشوروں کا علم و فہم‘ شرفا کی عبادتِ الٰہی‘ بہادروں کی بہادری اور طاقت وروں کی عدل پسندی‘‘۔
مساوات
اب تہذیب کے دوسرے حصہ کو لیجیے۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں اسلام نے دیگر تمام تہذیبوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ نظریات جن کا سہرا اب کارل مارکس اور روسو کے سر باندھا جارہا ہے‘ درحقیقت عرب کے ریگستان میں وجود میں آئے تھے اور ان کا بانی عرب کا وہ اُمّی تھا جس کا نام محمدﷺ ہے۔ محمدﷺ کے سوا دنیا میں کون ایسا مذہبی پیشوا ہوا ہے جس نے خدا کے سوا کسی انسان کے سامنے سر جھکانا گناہ ٹھہرایا ہو؟ محمدﷺ کے بنائے ہوئے سماج میں بادشاہ کا کوئی مقام ہی نہیں تھا۔ حکومت کا کام کرنے کے لیے صرف ایک خلیفہ کا نظم کر دیا گیا تھا جسے قوم کے کچھ معزز لوگ منتخب کر لیں۔ اس ضابطہ سے انہوں نے اپنے آپ کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علیؓ کو خلیفہ نہیں بنایا‘ حالانکہ آپ کا اثر اتنا تھا کہ صرف ایک اشارے پر حضرت علیؓ کا انتخاب ہو سکتا تھا اور اس منتخب خلیفہ کے لیے کوئی وظیفہ‘ کوئی تنخواہ‘ کوئی جاگیر‘ کوئی رعایت نہیں تھی۔ یہ منصب صرف اعزاز کا تھا۔ اپنی روزی کے لیے خلیفہ کو بھی دوسروں کی طرح محنت و مزدوری کرنی پڑتی تھی۔ ایسی ایسی عظیم شخصیات جو ایک بڑی سلطنت کا نظم و انصرام چلاتی تھیں‘ جن کے سامنے بڑے بڑے بادشاہ ادب سے سر جھکاتے تھے‘ جن کے ایک اشارے پر بادشاہتیں بنتی بگڑتی تھیں‘ جوتے سی کر یا قلمی کتابیں نقل کر کے یا بچوں کو پڑھا کر اپنی روزی حاصل کرتے تھے۔ خزانے میں آپﷺ کا حصہ بھی وہی تھا جو ایک معمولی سپاہی کا تھا۔ کبھی کبھی مہمانوں کے آجانے کے سبب انہیں بڑی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی‘ فاقے کرنے پڑ جاتے تھے‘ گھر کی چیزیں فروخت کر دینی پڑتی تھیں‘ لیکن کیا مجال کہ اپنا حصہ بڑھانے کا خیال بھی دل میں آئے۔ دیگر قوموں میں پیشوائی کے رواج نے جتنے مظالم ڈھائے ہیں‘ ان سے تاریخ سیاہ ہو چکی ہے۔ عیسائی مذہب میں پادریوں کے سوا اور کسی کو انجیل پڑھنے کی آزادی نہ تھی۔ ہندو سماج نے بھی شودروں کی تخلیق کر کے اپنے سر کلنک کا ٹیکا لگا لیا‘ لیکن اسلام پر اس کا دھبہ تک نہیں۔ غلامی کا رواج تو اس وقت ساری دنیا میں تھا‘ لیکن اسلام نے غلاموں کے ساتھ جتنا بہتر سلوک کیا اس پر اسے فخر ہو سکتا ہے۔ اسلام قبول کرتے ہی غلام آزاد ہو جاتا تھا‘ یہاں تک کہ ایسے غلاموںکی کمی نہیں ہے جو اپنے مالک کے بعد اس کی گدی پر بیٹھے اور اس کی لڑکی سے نکاح کیا اور کس سماج نے پست طبقات کے ساتھ یہ فراخ دلی دکھائی ہے؟ صنفِ نازک کے ساتھ تو اسلام نے جو سلوک کیے ہیں‘ ان کے مقابلے میں دیگر سماجوں کا سلوک غیرانسانی معلوم ہوتا ہے۔ کس سماج میں عورتوں کا جائیداد میں اتنا حق تسلیم کیا گیا ہے جتنا اسلام میں؟ یوں عقل اور دولت کی نابرابری ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی‘ لیکن اسلام نے سماج کے کسی طبقہ کے پیروں میں بیڑی نہیں ڈالی۔ وہاں ہر فرد حسبِ استطاعت فکری اور سماجی ترقی کر سکتا ہے۔ اس کے راستے میں کوئی کانٹا‘ کوئی رکاوٹ نہیں۔
ہمارے خیال میں وہی تہذیب عظیم ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو فرد کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقع فراہم کرے۔ اس لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب کو کوئی ناقص نہیں ٹھہرا سکتا۔
اخوت
اب تہذیب کے تیسرے حصے کو لیجیے۔ اس معاملے میں بھی اسلام کسی دیگر قوم سے پیچھے نہیں ہے۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا:
’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی بندوں کے لیے بھی وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا ہے:
’’جو شخص دوسروں کا بھلا نہیں کرتا‘ خدا اس سے خوش نہیں ہوتا‘‘۔
ان کا یہ قول سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے:
’’خدا کی تمام مخلوق اس کا کنبہ ہے اور وہی شخص خدا کا برگزیدہ ہے جو بزرگانِ خدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے‘‘۔
کسی مومن نے ایک بار آپﷺ سے پوچھا تھا:
’’خدا کی بندگی کیسے کی جائے؟‘‘
آپﷺ نے جواب دیا:
’’اگر تمہیں خدا کی بندگی کرنی ہے تو پہلے اس کے بندوں سے محبت کرو‘‘۔
ان تعلیمات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کے مقنن نے اخوت کی اہمیت دیگر اقوام سے کم نہیں سمجھی۔
اسلام کی دیگر خوبیاں
یہ تو تہذیب کے بنیادی عناصر ہوئے۔ اس کے ثانوی اجزا میں سیاسی دستور‘ علم دوستی‘ حبِ آزادی‘ فنکاری‘ تعمیرات اور وضع قطع سبھی شامل ہیں۔
سودی نظام نے دنیا میں جتنے بگاڑ پیدا کیے ہیں اور کر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اسلام وہ تنہا مذہب ہے جس نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کاروباری نقطۂ نظر سے اس حرمت کی مخالفت کی جائے‘ لیکن معاشرتی نقطۂ نظر سے کوئی اس کی حمایت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
علم دوستی میں تو شاید بہت کم قومیں مسلمانوں کی برابری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ ہندوستان سے علمِ طب‘ ریاضی‘ علمِ نجوم‘ روحانیت‘ یونان سے فلسفہ اور جمہوریت‘ غرض جہاں جو گوہر ملا‘ اسلام نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنایا اور اسے اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیا۔
تعمیرات میں تو شاید دنیا کی کوئی قوم مسلمان سے ٹکر نہیں لے سکتی۔ جہاں جہاں اسلامی تہذیب کا پرچم لہرایا‘ ان کی تعمیر شدہ عمارتیں اب تک اپنے معماروں کی مدح سرائی کر رہی ہیں۔ آزادی سے ایسی سچی محبت شاید اور کہیں دیکھنے میں نہ آئے گی۔ آج کون ایسا نیک دل انسان ہے جو مٹھی بھر فوج کو یورپ کی دو عظیم طاقتوں سے برسرِ پیکار دیکھ کر فخر محسوس نہ کرے۔ دمشق میں‘ شام میں‘ ترکی میں‘ مصر میں‘ جہاں دیکھیے مسلمان خود کو آزادی کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ افغانستان محض آزادی پر نثار ہونے کے لیے آمادہ ہونے کے سبب آج آزاد بنا ہوا ہے۔ ہم تو یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ اسلام میںعوام الناس کے لیے جتنی قوت و کشش ہے وہ کسی اور جماعت میں نہیں ہے۔ جب نماز پڑھتے وقت ایک مہتر خود کو شہر کے بڑے سے بڑے رئیس کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا پاتا ہے تو کیا اس کے دل میں احساسِ فخر کی ترنگیں نہ اٹھنے لگتی ہوں گی؟ اس کے برعکس ہندو سماج نے جن لوگوں کو پست بنا دیا ہے‘ ان کو کوئیں کی منڈیر پر بھی نہیں چڑھنے دیتا‘ انہیں مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ یہ اپنے ملانے کی نہیں‘ اپنے سے الگ کرنے کی علامتیں ہیں۔
اسلامی مذہب اور تہذیب کو دنیا میں جو کامیابی ملی ہے‘ وہ تلوار کے زور سے نہیں‘ اسی اخوت کے سبب ملی ہے۔ آج بھی افریقہ میں عیسائیوں کے مقابلے میں اسلام کی تشہیر زیادہ ہو رہی ہے‘ حالانکہ عیسائیوں کے پاس سبھی قسم کی ترغیبات ہیں اور یہاں فقط اﷲ کا نام ہے۔
آخر میں ہم محبانِ سنگھٹن اور تنظیم سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان سرگرمیوں سے آپ ہم دونوں اقوام کے درمیان ایک آہنی دیوار کھڑی کر رہے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں سے بگاڑ کیے بغیر اپنی قوم میں اتحاد قائم کر سکتے ہیں‘ بیوائوں‘ یتیموں اور اچھوتوں کو فلاح و بہبود سے ہمکنار کر سکتے ہیں تو شوق سے کیجیے۔ تنظیم میں بھی کوئی برائی نہیں ہے اگر وہ ہندوئوں سے بگاڑ کیے بغیر کی جاسکے۔ لیکن اب تک ہمیں جو تجربہ ہوا ہے‘ وہ صاف بتا رہا ہے کہ اندرونی اتحاد اور اندرونی تنظیم صرف خیالی جنت ہے۔ اندرونی اتحاد تو نہیں ہوتا‘ کیونکہ وہ عقیدت‘ محبت اور الفت کے جذبہ سے نہیں کیا جاتا۔ اندر جو لاکھوں برائیاں ہیں‘ وہ جوں کی توں بنی ہوئی ہیں‘ اس میں ذرہ برابر بھی اصلاح نہیں ہو سکی اور دونوں قوموں میں دن بدن عداوت بڑھتی جاتی ہے۔ کم از کم اتنا تو ثابت ہو ہی گیا کہ جس رفتار سے ہندو مسلم اختلاف بڑھ رہا ہے‘ اس رفتار سے ہندوئوں کا اندرونی اتحاد نہیں بڑھ رہا ہے۔ ہمیں تو دن بدن اس میں جمود اور اُس میں چستی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ نتیجہ یہی ہو گا کہ نہ ہم متحد ہوں گے‘ نہ آزادی کی راہ پر ہی گامزن ہوں گے اور ہماری حالت مسلسل خستہ ہوتی چلی جائے گی۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ندائے خلافت‘‘۔ لاہور۔ ۱۳۔۱۹ جنوری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply