زلزلے اور زمین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زمین ایک زندہ‘ متحرک اور توانائی سے بھرپور سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی توانائی‘ اس کے اندر پگھلے چٹانوں کی طرح اوپر خارج ہونے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ جب ٹھوس چٹانیں ان کا دبائو برداشت نہیں کر سکتیں تو وہ چٹخ کر ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس طرح اندر سے خارج ہونے والی توانائی زمین پر ارتعاش پیدا کرتی ہے جسے ہم زلزلہ کہتے ہیں۔
☼ زمین کے خشکی کے علاقوں پر %۱۰ سے کم زلزلے آتے ہیں۔
☼ ۸۰ تا %۹۰ زلزلے عموماً سمندروں میں رونما ہوتے ہیں جہاں انسانی آبادی نہیں ہوتی۔
☼ ۲ تا %۴ اس سے بھی کم شدت کے ہلکے جھٹکے (جنہیں آپ محسوس نہیں کر سکتے) ۸ ہزار کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔
☼ ہر سال ۷۰۰۰ سے زیادہ ۴ درجے کے زلزلے پوری دنیا میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔
☼ اوسطاً سال میں ایک ۸ درجہ کا شدید زلزلہ دنیا میں کہیں نہ کہیں ضرور آتا ہے۔
گذشتہ سال ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء میں ایران (بامان) میں ۸ درجہ کا زلزلہ آیا تھا جس میں ۳۰ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سونامی
سنامی وہ دیوقامت موجیں ہیں جو سمندروں کی گہرائیوں سے ابھر کر ساحلوں کی طرف تباہی مچاتی ہیں۔ جس طرح آگ کے بغیر دھواں نہیں اٹھ سکتا اسی طرح زیرِ سمندر رونما ہونے والے کسی نہ کسی سانحے کے بغیر سونامی جنم نہیں لیتیں۔ سمندروں کی گہرائی میں یا تو کسی آتش فشاں پھوٹ پڑے یا زبردست زلزلہ وارد ہو یا پھر سمندر کی گہری پرتوں پر شگاف آئے جو چٹانوں کو کھسکانے کا سبب ہو۔ بہرحال کسی نہ کسی ارضی واقعے کے بغیر سونامی موجیں جنم نہیں لیتیں۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سمندروں میں شب و روز پیدا ہونے والی لہروں سے سونامی کا کوئی تعلق نہیں۔ سمندروں میں تموج یا مدوجزر بڑی حد تک چاند کی کششِ ثقل کا نتیجہ ہوتا ہے جبکہ سونامی موجوں کی ابتدا سمندروں کی گہرائیوں میں ہوتی ہے۔ جب کبھی سمندروں میں زبردست زلزلہ رونما ہوتا ہے تو (جیسا کہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کو سماترا کے جزیرے کے پیچھے سمندر میں ۹ درجہ کا زلزلہ وارد ہوا)‘ پانی کی زبردست مقدار عدم توازن کا شکار ہو کر زبردست تموج کی کیفیت پیدا کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی پرسکون سمندر میں بڑا سا پتھر پھینک کر اس میں موجوں کو پیدا کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ واقعہ فطرت میں سمندر کی گہرائیوں میں ہوتا ہے۔ سمندروں کی گہرائیوں میں چٹانیں زبردست زلزلوں اور آتش فشانوں کی وجہ سے اوپر یا نیچے کی طرف کھسک جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے سمندر کی سطح پر مہیب نشیب بن جاتا ہے جس میں چاروں طرف سے پانی دوڑتے ہوئے داخل ہونے لگتا ہے۔ ایسے تیز اندرونی بہائو کی وجہ ساحلوں سے سمندروں کا پانی پسپا ہونے لگتا ہے۔ سمندروں کی ایسی اچانک پسپائی کو تجربہ کار مچھیرے یا ملاح سونامی کی آمد کی نشاہی سمجھ کر سمندروں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر سمندر کے اندر چٹانیں اوپر کی طرف کھسکتی ہیں تو پھڑ سمندر کی سطح پر ایک مہیب ابھار بن جاتا ہے جس سے چاروں طرف پانی تیز رفتاری کے ساتھ بہنے لگتا ہے۔ بہرحال زیرِ آب چٹانیں اوپر یا نیچے کی طرف کھسکیں‘ سمندر میں عدم توازن لہروں کو پیدا کرتا ہے جو رفتہ رفتہ ڈوبتی‘ ابھرتی اور جھولتی موجوں کی صورت سمندر کی گہرائیوں میں کئی سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کرنے لگتی ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں میں ان کی بلندی ایک میٹر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے گزرتے ہوئے جہاز بھی ان کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ مگر جیسے جیسے یہ اتھلے پانیوں کی طرف آتی ہیں تو ان کے اندر چھپی توانائی کی وجہ وہ زبردست رفتار یعنی ۵ تا ۷ کلو میٹر فی گھنٹہ اور دیوقامت بلندی یعنی ۳۰ تا ۵۰ میٹر کی بلندی کے ساتھ آگے بڑھ کر ساحل سے ٹکرانے سے پہلے راستے کی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کر دیتی ہیں۔
(بحوالہ: سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply