سیاست میرے پاس خود چل کر آئی!

سوال: سیاست میں آپ کا رہنا کیوں ضروری ہے؟

جواب: میں سیاست میں نہیں گیا‘ سیاست میرے پاس آئی۔ ۱۹۸۸ء میں ہماری انتخابی فتح کے بعد پارٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ وزیراعظم کے شوہر کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ لہٰذا میں کراچی میں رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹۸۹ء کے تحریک عدم اعتماد کے دوران مجھے پارٹی نے خود بلایا۔ پھر انہوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔

س: لہٰذا آپ کے خیال میں آپ کا سیاست سے باہر رہنا ناممکن ہے؟

ج: ہاں! آج کے پاکستان میں آپ اس سے گریز نہیں کر سکتے ہیں۔ جب نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تو کلثوم نواز سیاست میں کود پڑیں اگرچہ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ جب میں گرفتار کیا گیا تو میری بہنوں کو سیاستی اقدام کرنے پڑے جبکہ وہ بھی خاتونِ خانہ تھیں۔

س: کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ اب آپ سیاست میں اپنے بل بوتے پر ہیں نہ کہ بے نظیر کے سائے میں۔

ج: ہم تو اسے ایک کمپلیمنٹ کے طور پر لیتے ہیں۔ لیکن میری رہائی پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم کی مرہونِ منت ہے ورنہ میں بیس سالوں تک جیل میں پڑا رہتا اور کسی کو میری پروا نہیں ہوتی۔

س: پی پی پی کے حامی یہ اکثر کہتے سنے جاتے ہیں کہ صرف وہی لوگ اچھے رہنما ثابت ہو سکتے ہیں جو جیل جاتے ہیں؟

ج: یہ سچ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم کبھی کسی ایسے فرد کو پارٹی منصب نہیں دیتے تھے جو جیل نہ گیا ہو۔

س: کیوں؟

ج: جیل میں رہنے کی بنا پر آپ کے اندر تواضع و انکساری پیدا ہوتی ہے اور آپ کے جذبات مستحکم ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم دیتا ہے کہ آپ کے باہر بھی ایک دنیا ہے‘ یہ سیاسی اداروں کے برعکس ہے جو زیادہ تر اندر کی طرف دیکھنے پر آپ کو راغب کرتے ہیں۔ آپ کسی چیز کی قدر و قیمت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب آپ اس سے محروم کر دیے جاتے ہیں‘ اس کی حقیقی قدر و قیمت تبھی سمجھ میں آتی ہے ورنہ اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔

س: آپ کو کب یہ یقین ہوا کہ اب آپ واقعی جیل سے رہا کر دیے جائیں گے؟

ج: اس دن جب لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کے مقدمے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت میں دو مقدمات تھے۔ پہلے سجاد حسین کے مقدمے میں میری جیت ہوئی اور پھر پاکستان اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ ہوا۔ موخرالذکر مقدمے کے فیصلے کے دن میں سمجھ گیا کہ سیاسی موقف کی بنا پر اب یہ مجھے زیادہ دنوں تک جیل میں نہیں رکھ سکتے۔

س: کیا آپ اپنی رہائی کے لیے عدالتوں کی جانب دیکھ رہے تھے؟

ج: بالکل! اگر میں دوسری طرف دیکھ رہا ہوتا تو میں اول دن رہائی پاگیا ہوتا۔

س: آپ ایسے وقت میں رہائی پائے ہیں جبکہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ حکومت سے آپ کی کوئی ڈیل ہوئی ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ وقفے وقفے سے آپ کے اور حکومت کے مابین مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ آپ کیا مذاکرات کرتے رہے ہیں؟

ج: پی پی پی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ اگر یہ سیاسی مذاکرات نہیں کرے گی تو اور کون کرے گا؟ جب آپ اقتدارِ مطلق کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور آپ نہ اس کا مقابلہ ٹینک میں کر سکتے ہیں‘ نہ بندوق میں اور نہ ہی ڈالر میں تو لامحالہ آپ کو متبادل حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی اور اپنے جیالوں کی قوت کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہ وہ طریقہ تھا جو ہم استعمال کر رہے تھے۔ ہم جھک نہیں رہے تھے بلکہ ہم لچک دکھا رہے تھے۔ طوفان گزر جانے دیجیے ہم دوبارہ کھڑے ہوں گے۔ سب سے بڑی جماعت ہونے کی بنا پر پی پی پی کے پاس اسٹریٹ پاور بھی کافی ہے لیکن ہم یہ راہ اختیار نہیں کر رہے ہیں۔

س: ان مذاکرات کے نکات کیا تھے؟

ج: جیسا کہ ہمارا روحانی مذہب اسلام ہے لہٰذا ہمارا سیاسی مذہب جمہوریت ہے۔

س: جمہوریت جس کا آپ نے مطالبہ کیا لیکن ان کا آپ سے کیا مطالبہ تھا؟

ج: ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت تو قائم ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت کی وہ جو تعریف بیان کر رہے تھے‘ اس سے میرا اختلاف تھا۔

س: کیا جمہوریت کی حکومتی تعریف اس بات کا نتیجہ نہیں ہے کہ حقیقی جمہوری قوتیں ہم آواز نہیں ہیں؟

ج: میں اس کی تائید کروں گا۔ میں نے اس پر بہت غور کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ سیاسی قوتیں‘ اسٹیبلشمنٹ‘ فوج‘ بیوروکریسی‘ صحافی برادری اور حتیٰ کہ عدلیہ بامعنی سیاسی مذاکرات میں شامل ہوں۔ ہم سب سے بڑی پارٹی ہیں لیکن ہم اپنی اصلاح کے لیے تیار ہیں۔ زندگی سیکھنے کا عمل ہے۔ ہم اس کا پتا لگائیں گے کیا یہ وہی سمت ہے جس کی جانب واقعتا پاکستان کو آگے بڑھنا چاہیے؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جو ہم اپنے بچوں کو وراثت میں دینا چاہتے ہیں؟

س: لیکن کیا وہ لوگ جن کا اقتدار پر قبضہ ہے وہ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟

ج: ہم انہیں اپنے جیسا سوچنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو۔

س: کیا آپ پُرامید ہیں؟

ج: یقینا میں پُرامید ہوں۔ انسان پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتے ہیں اگر وہ متحد ہو جائیں۔

س: آپ کے خیال میں فوجی حکومت کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے؟

ج: بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ بعض چھوٹے ہیں تو بعض بہت بڑے ہیں۔ بعض سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور بعض کو چھوڑ دینے کی ضرورت ہے۔ بعض کو پیچھے دھکیلنے کی ضرورت ہے اور بعض کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

س: کیا یہ مسائل جمہوری قوتوں کے لیے مواقع کا در کھولتے ہیں؟

ج: ہمارے پاس پسند و انتخاب کا کوئی موقع نہیں ہے۔ جمہوری قوتیں اگر انتظام نہیں سنبھالتی ہیں تو ہمارا حشر سومالیہ یا سوڈان جیسا ہو گا۔

س: لیکن حکومت اس نظام کے ساتھ کوئی دشواری محسوس نہیں کرتی ہے۔ فوج میں بھی اضافہ ہے‘ سیاسی اشرافیہ میں اضافہ ہے۔

ج: ہم ۱۷ کروڑ ۹۰ لاکھ لوگ ہیں اور ہماری آبادی ہر سال ۳ء۲ فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ محض پانی کی قلت ہمارے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ منشیات کے عادی لوگ‘ غربت‘ اسکول سے بے بہرہ بچے اور ہماری مسخ شدہ فکری روش ہمارے لیے مہلک ہے۔ ان سب کی انہیں فکر ہونی چاہیے اگرچہ دبیز وردیوں کی وجہ سے ان کی کھالیں موٹی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے ہر مسئلے کو فوجی سوچ کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی‘ جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔

س: سوچنے کے اس عمل کو تبدیل کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا تجویز ہے؟

ج: ہم نے تو اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ ۱۹۸۸ء میں کر دیا تھا۔ ہم نے پبلیکیشنز کے ڈکلیریشن جاری کرنے کے حوالے سے لبرل پالیسی اختیار کی اور کاغذ درآمد کرنے کی اجازت دی۔ یہ کام انجام دے کر بے نظیر نے اپنے پہلے ہی دور میں لوگوں کو آزاد کر دیا۔ اس نے لوگوں کو متبادل ٹی وی چینلز بھی دیے جو کہ اب پرائیویٹ چینلز میں تبدیل ہو کر پھل پھول رہے ہیں۔ اس نے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں فائبر آپٹک ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا۔ حکام کے لیے کوئی چارہ نہیں چھوڑا اِلّا یہ کہ وہ انٹرنیٹ کا استعمال عام کریں۔ اس کی وجہ سے ہمیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن پھر بھی یہ حقیقی سودے بازی تھی (Bargain) اس لیے کہ اس نے حکومت پر چیک لگانے میں مدد کی۔ حکومتیں عوام کو لبھانے کی کوشس کر سکتی ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں حکومت ۸۰فیصد خبری مواد پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے۔ لیکن باقی ۲۰ فیصد پر یہ اپنا کنٹرول نہیں رکھ سکتی ہیں۔ اس وقت میں میڈیا پر چھایا ہوں لیکن کل جب میں حکومت میں آئوں گا تو کسی اور کو شہرت مل رہی ہو گی۔

س: لہٰذا آپ کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی امید ہے؟

ج: راج کرے گی خلقِ خدا۔

س: آپ کی پارٹی کیسی ہے؟ کیا آپ نے اس میں کوئی فرق پایا؟

ج: پارٹی پہلے بھی زبردست تھی اور اب بھی زبردست ہے۔ میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ ایسی ہی رہے۔

س: یہ سننے میں آیا ہے کہ کئی پارٹی رہنما آپ سے ملنے نہیں آئے؟

ج: میرا بیٹا یہاں ہے۔ وہ واقعی مجھ سے ملنے آیا ہے۔ میں اسے اپنے بستر پر اپنے برابر میں لٹا کر ٹی وی دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ میں اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنا پسند کرتا ہوں۔ حقیقتاً جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ یہ کہ میں اسے پارٹی رہنما اور کارکنوں کے ساتھ کچھ وقت گزرنے کا موقع فراہم کر رہا ہوں۔

س: آپ ذاتی اور سیاسی زندگی میں کس طرح توازن قائم کریں گے؟

ج: میں سیاست میں اپنی فیملی کے لیے ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اچھے پاکستانی بنیں۔ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیسے کر سکتا ہوں؟

س: آپ پی پی پی میں اپنا کیا کردار دیکھتے ہیں؟

ج: خامیوں کی اصلاح کرنے والے (Trouble Shooter) کا جیسا کہ پہلے تھا۔ جب میں اقتدار میں تھا تو میری کیا ذمہ داری تھی؟ مولانا فضل الرحمن‘ نواب زادہ نصراﷲ‘ بددل ارکانِ پارلیمان‘ نئے اتحاد۔۔۔

س: نوے کی دہائی میں نشست حاصل کرنے والے وہ لوگ جو وفاداری تبدیل کرنے کا رجحان رکھتے ہیں‘ پارٹی کیڈرز کو نظرانداز کر کے پارٹی پر قابض ہو گئے‘ آپ اس کی اصلاح کیسے کریں گے؟

ج: ہر شخص کو ہر وقت تبدیلی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ جو اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ پارٹی ہمیشہ مختلف طریقے اختیار کرتی رہی ہے۔ اگر میری مرضی کو دخل رہا تو میں سوائے پارٹی کارکنوں کے کسی کو ٹکٹ نہیں دوں گا۔ لیکن آپ کو ایک رابطہ تو رکھنا ہے۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔

س: پی پی پی اندرونِ پارٹی کیوں انتخاب نہیں کراتی؟

ج: کون کہتا ہے کہ ہم نہیں کراتے۔ ہم نے دو سال قبل پارٹی کے انتخابات کرائے ہیں۔

س: لیکن وہ انتخابات تو حکومت کی جانب سے مسلط کیے گئے تھے۔

ج: ہم نے اس سے پہلے بھی انتخابات کرائے ہیں۔ اگر آپ کا مطلب یہ کہ پی پی پی کو پابندی سے انتخابات کرانے چاہییں تو میں آپ کی بات سنوں گا۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ تیسری دنیا میں شہزادہ چارلس کی مانند کام نہیں کر سکتے ہیں جبکہ آپ کا سابقہ ایک طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ہو۔

س: آپ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر پی پی پی کو دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہو گی تو وہ قومی حکومت کی تشکیل کے لیے کوشاں ہو گی۔ کیا آپ کی پارٹی اس کے لیے تیار ہو گی؟

ج: پچھلی مرتبہ جب ہم اکثریت میں تھے تو ہم نائن زیرو ان کے مشکل وقت میں گئے اور ہم نے عوامی نیشنل پارٹی کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ ہم اقتدار کی تقسیم سے نہیں گھبراتے‘ بالخصوص ان مسائل کے خوف سے جن کے متعلق میرا خیال ہے کہ پاکستان ان سے مستقبل قریب میں دوچار ہونے والا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم قومی اتفاقِ رائے پیدا کریں تاکہ گیارہ ستمبر کی بعد کی دنیا سے کماحقہ نبردآزما ہوا جاسکے۔ یہ ایک ناقابلِ فراموش ذمہ داری ہے۔

س: ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ۷۵ لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے بعد پی پی پی شوکت عزیز سے مذاکرات کرنے کے بجائے فوج کو ترجیح دیتی ہے۔ کیا اس سے عوامی سیاسی قوتیں کمزور نہیں پڑیں گی؟

ج: آپ کو کس نے کہا کہ مذاکرات سے فوج مستحکم ہوتی ہے؟ یہ صرف اس وقت طاقتور ہوتی ہے جب آپ اس پر پتھر اور بم پھینکیں گے۔ مذاکرات آپ کا ہتھیار ہے نہ کہ ان کا۔

س: مذاکرات کے کیا نکات ہوں گے؟

ج: آزاد اور شفاف انتخابات ہم آہنگ انتخابی حلقوں میں‘ آزاد نگراں کے ذریعہ نہ کہ جعلی انتخابی حلقوں میں جو کہ ۱۹۸۵ء کے انتخاب میں ہمیں ضیاء الحق سے بطور وراثت ملے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘۔ دسمبر ۲۰۰۴ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*