فیڈل کا سترو مزید عرصے کے لیے اقتدار پر فائز رہنا چاہتے تھے لیکن ان کی صحت جواب دیتی جا رہی ہے ۔ لیکن وہ جب تک زندہ رہیں گے ان کا سایہ ان کے جانشین کے سر پر منڈلاتا رہے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں گے وہ یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ دنیا کے اس خطے میں اس وقت سے جب امریکہ ۳۴ ویں صدر آئزن ہاورنے اپنے جانشین جان کینڈی کو کیوبا پر حملہ کرنے کے لیے ایک خفیہ منصوبہ حوالہ کیا تھا جو بے آف بکس کے ۱۹۶۱ء کے کیوبا پر نا کام حملے کی صورت میں ظاہر ہوا تھا، امریکہ کا زور نہیں چل سکا تھا۔ اپنی زندگی کی شام میں فیڈل کا سترو ایک عالمی طور پر متنازعہ شخصیت بنے رہے ہیں۔ اس گزرے ہوئے ماضی کا ایک حصہ جس سے کیندی ، کروٹچیف وغیرہ وابستہ رہے ہیں۔ اس سارے عرصے میں انہیں اپنے بے حد طاقتور پڑوسی امریکہ کے زبردست معاشی محاصرے ، کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ۱۹۵۹ء سے وہ مسلسل اپنے ملک کی عنان اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ ویسے تھائی لیند کے شاہ بھومی بول آڈولیڈ ۱۹۴۶ء سے صدر مملکت رہے ہیں لیکن انہیں حکمراں نہیں کہا جا سکتا۔ وہ آئزن ہاور سے لے کر جارج بش (جونیر) تک تمام صدر امریکہ کی نظروں میں کانٹا بنے رہے ہیں درحقیقت فیڈل کا سترو کا صدر امریکہ سے پہلی بار واسطہ اس وقت پڑا، جب وہ ۱۳ برس کے اسکول جانے والے لڑکے تھے۔ انہوں نے ۱۹۴۰ء میں اس وقت کے صدر فرینکلن روز ویلٹ سے ایک خط میں یہ کہتے ہوئے دس ڈالر کا ایک نوٹ روانہ کرنے کی التجا کی تھی کہ انہوں نے کبھی دس ڈالر کا ہرا نوٹ نہیں دیکھا ہے ۔ جواب میں انہیں روانہ کیا جانے والا ایک خط بھیجا گیا تھا لیکن اس کے ساتھ کوئی کرنسی نوٹ نہیں تھا۔ اس کے بعد سے امریکہ سے ان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ دو دہائیوں کے بعد ہی انکی گوریلا فوج نے امریکہ نواز، ڈیکٹیٹر فل جنسیو باتیتا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس طرح امریکی حکومت کے خلاف ان کی غیر معینہ جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ ایک کے بعد ایک صدر امریکہ نے (جمی کارٹر کو چھوڑ کر ) ان کے ملک پر اپنا دبائو برقرار رکھا۔ ۱۹۸۰ء میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب اپنے ملک کے ایک سیاسی ، بحران سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کیوبا کے ایک لاکھ ۲۰ ہزار باشندوں کو (جن میں عادی مجرمین اور ذہنی طور پر بیمار افراد بھی شامل تھے) امریکہ کو بڑے پیمانے پر منتقل ہونے کی ہمت افزائی کی ۔ اس بگاڑ میں سوویت یونین کے زوال سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا جارج بش(جونیر) نے تو سفری اور مالیاتی تحدیدات میں بھی سختی عائد کر دی تھی۔ آخر گیارہ ملین افراد کی آبادی والے اس ملک سے جس کا جی ڈی پی ۴۵ بیلین ڈالرز ہے جو امریکہ کے صرف ۳ء ۰ فیصد کے مماثل ہے ، امریکہ کی سلامتی کے لیے کیسے خطرہ بن سکتا ہے ؟ اور کیوبا کوئی مثالی سوشلسٹ مملکت بھی نہیں ہے ۔ انقلاب کے بعد کے ابتدائی دنوں میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ، ہزاروں افراد کا قتل کیا گیا تھا آج کیوبا میں کافی تعداد میں سیاسی قیدی ہیں وہاں آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کو بھی پا مال کیا جاتا ہے لیکن اس ملک کی حالت دوسرے ممالک کے مقابلے میں یعنی مشرق وسطیٰ سے لے کر چین تک کیا اس قدر بر تر ہے ؟ متذکرہ ممالک میں سے چند تو امریکہ کے حلیف بھی ہیں لیکن پھر بھی کیوبا کے ساتھ امریکہ بدترین دشمن کا سلوک کرتا ہے ۔ اس کے نقطہ نظر سے یہ ملک کمیونزم کا زبردست وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اور ساری دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے ! ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی سی آئی اے کی جانب سے فیڈل کا سترو پر اب تک ۶۳۸ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں سی آئی اے نے متعدد بار دھماکے سے پھٹنے والے سگار ، زہر آلود غذائوں اور آلودہ تیراکی کے لباس جیسے حربے انہیں مارڈالنے کے لیے استعمال کیے ہیں، جنرل اسمبلی میں قرارداد کا ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ قرار داد کی مخالفت کرنے والے چار ممالک تھے، خود امریکہ، اسرائیل، پلاواور مارشل جزائر، میکرونیشیا نے رائے دہی میں حصہ لیا تھا۔ بہر حال ہر اعتبار سے امریکہ کی تحدیدات بالکل ہی نا کارہ ثابت ہوئی ہیں۔ نہ تو وہ فیڈل کا سترو کا خاتمہ کر سکا اور نہ کیوبا میںجمہوریت کی بحالی ممکن ہو سکی ہے غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ مقاطعہ دونوں امریکہ کے مقاصد کے حصول میں نا کام رہا کیونکہ عوام میں قوم پرستی کا جذبہ اس قدر شدید ہے کہ وہ کاستر و کوسامراجی طاقتوں کی مزاحمت کا نشانہ سمجھے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا کیوبا کے تعلق سے مخاصمانہ رویہ دوسرے وسیع تر اور بد تر نتائج کی صورت میں ظاہر ہوا ہے کئی لاطینی امریکی ممالک امریکہ کے مخالف ہو چکے ہیں اور اس براعظم میں ایک امریکہ مخالف بلاک تشکیل پا چکا ہے جس کی قیادت صدر و نیز ویلا ہو گوشاویز کر رہے ہیں جو امریکہ کے زبرداست نا قد اور کاسترو کے گہرے دوست ہیں۔ جب امریکہ کے سال ۲۰۰۶ء کے وسط مدتی انتخابات عمل میں آئے تھے تو جمہوری پارٹی کو کانگریس میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور عارضی طور پر ایسی توقع ابھری تھی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جہاں تک جارج بش کا معاملہ ہے وہ تو طوطے کی طرح یہی رٹ لگاتے رہتے ہیں کہ ہماری پالیستی تبدیل اسی وقت ہو گی جب خود کیوبا بدلے گا جیسا کہ حال ہی میں ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا ’’تحدیدات کے جلد ہی کسی وقت اٹھا لیے جانے کا کوئی سوال نہیں ہے ۔ ‘‘ لیکن صدر بش اب چند دنوں کے مہمان ہیں اور جو افراد انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں ان میں پالیسیوں کے تعلق سے کئی اختلافات پائے جاتے ہیں سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ کیوبا کے بارے میں کوئی پالیسی میں تبدیلی نہیں چاہتا کیونکہ اس کے پس پشت کیوبا کے امریکہ میں مقیم باشندوں کا معاملہ ہے جو امریکہ کے رائے ہند بھی ہیں اور فیڈل کا سترو کے زبردست مخالف بھی۔ چند اہم امریکی ریاستوں میں جیسے نیو جرسی ، فلوریڈا میں ان افراد کی اکثریت ہے اور وہ سال ۲۰۰۰ء کے صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہوئے تھے۔ لیکن ان رائے دہندوں کی رائے میں تبدیلی بھی آسکتی ہے کیونکہ امریکہ کی چند ممالک کے خلاف معاندانہ پالیسی مہمل بھی نظر آنے لگی ہے خصوصاً ایران کے تیئں اس کا مخاصمانہ رویہ زیر بحث آنے لگا ہے ۔
(بحوالہ:روزنامہ ’انقلاب‘ ممبئی)
Leave a Reply