مسلم نشاۃِ ثانیہ۔۔۔ اساس اور لائحہ عمل

آج مسلم اُمہ جن حالات و واقعات سے دوچار ہے‘ وہ ہر ذی شعور مسلمان کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یقینا جب دنیا کے مختلف خطوں سے مظلوم مسلمانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے تو جہاں اس اندوہناک کیفیت پر دل خون کے آنسو روتا ہے تو وہاں مسلمانوں کے عروج کی تاریخ بھی نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہے‘ مسلمانوں کی عسکری فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کی علمی برتری اور ثقافتی تفوق کا دور بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یورپ کا وہ زمانہ جسے قرونِ مظلمہ کا دور کہا جاتا ہے‘ مسلمان اُس وقت تہذیب و ثقافت کے علمبردار تھے اور اُن کی درسگاہیں علم و عمل کے نور سے جگمگا رہی تھیں۔ عروج و زوال کی یہ تاریخ سوچنے والوں اور قلمکاروں کو دعوت دیتی ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب تھے کہ عرب کے صحرائی دنیا پر چھا گئے اور پھر کہاں تقصیر سرزد ہوئی کہ مسلم دنیا کو آج کا دن دیکھنا پڑا؟

زیرِ نظر کتاب جو ڈاکٹر محمد امین صاحب کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قوموں کے عروج و زوال کا تذکرہ قرآن و سنت کی روشنی میں سلیس اور دلآویز انداز میں کیا ہے۔ مرض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کا علان بھی تجویز کیا۔

محترم ڈاکٹر صاحب نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے:

پہلے باب میں قاری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ انفرادی طور پر ہر مسلمان کی ترقی و عروج کے لیے اس کا اسلامی اصولوں پر عمل بہت ضروری ہے۔

اس کے بعد اسی بنیادی اصول کے تحت وہ اپنے اس موقف کا ابلاغ کرنا چاہتے ہیں کہ قومی سطح پر بھی اگر بنیادی اصولوں اور نظریہ سے انحراف کیا جائے تو شکست و ریخت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

دوسرے باب میں محترم مولف نے قدرے تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ مسلمانوں کو جو عروج حاصل رہا ہے‘ اس کی بنیاد کیا تھی۔ آخر کیونکر مسلمان ایک ہزار سال تک چار دانگِ عالم میں ایک مضبوط ترین حکمران قوم کے طور پر رہے جس پر تاریخ شاہدِ عادل ہے۔

اس عروج اور تمکنت کو مصنف موصوف نے تین قسم کے وسائل کو اسلامی اصولوں کے مطابق عمل میں لانے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان میں انسانی وسائل‘ نمونی وسائل اور مادی وسائل شامل ہیں۔ محنت‘ اتحاد‘ تنظیم‘ منصوبہ بندی‘ پابندی قانون اور ایثار و قربانی‘ انسانی وسائل کے طور پر ان کا شیوہ تھیں اور تعلیم و تربیت‘ تحقیق (جس میں حریت فکر‘ غور و فکر اور مشاہدہ و تجربہ شامل ہیں) سیاسی استحکام اور حسن کلام پر وہ نمونی وسائل کے اعتبار سے عمل پیرا تھے۔ اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی‘ معاشی صلاحیت اور حربی قوت میں کمال مادی وسائل کے بہترین استعمال کا نتیجہ تھا۔ ان وسائل کے استعمال سے رونما ہونے والے نتائج کو مصنف نے قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت کیا ہے کہ جب مسلمانوں نے اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا تو اﷲ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو غلبۂ دین سے سرافراز فرمایا۔

اس باب کے دوسرے حصے میں ان وسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں استعمال نہ کرنے کو مسلمانوں کے زوال کا سبب قرار دیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں:

’’مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ان معروضی اصولوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے جو دنیوی ترقی و عروج کی الٰہی سنت پر مبنی ہیں اور ان معروضی اصولوں پر عمل کرنے پر وہ اس لیے قادر نہیں رہے کہ وہ اپنے نظریہ حیات (اسلام) سے وابستگی کھو چکے ہیں لہٰذا وہ ان امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں جو کسی بھی قوم کو نکبت اور ادبار کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں‘‘۔ (صفحہ۱۳۰)

اس باب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب پھر سے مسلمانوں کے عروج اور شوکت پارینہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور قاری کو امید دلاتے ہیں کہ اس کشتِ ویراں میں پھر سے باد بہاری آئے گی اور مسلمانوں کا چمن لہلہائے گا:

’’یہ خدا وہ ہے جو کہتا ہے کہ مجھے پکارو‘ میں سنوں گا۔ میری سنوں گا۔ میری طرف پلٹو میں خوش آمدید کہوں گا‘ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ میری نصرت طلب کرو میں تمہیں فتح دوں گا اور کائنات میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو میری نصرت کو روک سکے اور جو وعدہ کرتا ہے کہ تم پر میرا حق ہے کہ میں تمہاری مدد کروں‘ جو بالیقین کہتا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو۔۔۔ ایسے خدا پر یقین رکھنے والا مسلمان مایوس کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘۔ (صفحہ۱۳۸)

زیرِ نظر کتاب کے تیسرے باب میں مصنف نے مغرب کے موجودہ عروج اور اس کے متوقع زوال کے اسباب کو قلمبند کیا ہے۔ جہاں تک ان کے عروج کے اسباب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی نظر میں مغرب نے بعینہٖ ان تینوں انسانی‘ نمونی اور مادی وسائل کا صحیح استعمال کیا ہے جو مسلمانوں کے عروج کا بھی سبب تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں کے عروج میں ان کا نظریہ حیات مغرب (غیرمسلموں) کے نظریۂ حیات سے قطعاً مختلف ہے۔

آگے چل کر مغرب کے اسی غلط نظریۂ حیات پر تنقید کرتے ہوئے یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ ان مغربی اقوام کا عروج ابدی نہیں بلکہ ان کا زوال حتمی ہے اور اس زوال کا پیش خیمہ بننے والے امور مثلاً قتل و خونریزی‘ ظلم و جبر‘ استحصال‘ جنسی انارکی‘ معاشرتی بگاڑ‘ نفع آوری کا خاتمہ اور اصلاحی قوتوں کی ناکامی‘ جو غلط نظریہ حیات کی بنا پر فساد فی الارض کے طور پر ظہور میں آتے ہیں‘ کو امریکا جیسے بڑے اور طاقتور حکمران ملک میں عام دیکھا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب محترم زوال کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ امریکا میں ۱۱/۹ کے بعد بہت سی ہوائی کمپنیاں بند ہو گئیں‘ انشورنس کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا‘ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ امریکی ایک سال میں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی‘ سونے اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور مزید یہ کہ جنگی اخراجات بھی بے پناہ بڑھ گئے ہیں‘ جس کی بنا پر بجٹ میں بھی خسارہ کا سامنا ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ اس زوال کو آخری دھکا کب لگے گا۔ اس کا فیصلہ اﷲ رب العزت ہی نے کرنا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے کیا کہ مغرب مقتدر رہے یا نہ رہے۔ ہمیں تو اپنی فکر کرنی ہے اور یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ مغرب کی جگہ لیں؟۔ (۲۲۳)

چوتھا باب حقیقت میں اس بنیادی مغز کی تشریح کرتا ہے کہ مسلم نشاۃِ ثانیہ کی اساس کیا ہے اور کون سا لائحہ عمل اور حکمتِ عملی اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں کیا اوامر مانع ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔

اساس سے متعلق تو ان کا موقف بہت واضح ہے کہ وہ اسلام ہی ہے یعنی ایمان باﷲ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت۔ اس نظریے سے محکم وابستگی نہ صرف اس دنیا میں مسلم اُمت کی کامیابی اور عروج کی ضامن ہے (جیسا کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گواہ ہے) بلکہ اس کے ہر فرد کے لیے آخرت میں بھی فوز و فلاح کی ضمانت ہے۔ آپ نے دنیاوی جاہ و جلال اور ظاہری و عارضی چمک کے حصول کے لیے اغیار کی تقلید پر کڑی تنقید کی ہے اور ایسے افراد کو جو منہ سے اسلام اسلام جپتے ہیں مگر حقیقت میں مغربی اور غیراسلامی اقدار کی پیروی کرتے ہیں‘ اس مثل کے مصداق قرار دیا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘ بلکہ یہ کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے دنیا میں ترقی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’’یک در گیر و محکم گیر‘‘ یعنی اسلام سے محکم وابستگی۔ (صفحہ۲۴۹)

اگلے صفحات میں تزکیۂ نفس کے ذریعے افراد کی تیاری کو مصنف نے نشاۃِ ثانیہ کی حکمتِ عملی سے تعبیر کرتے ہوئے ایک جامع اور آسان لائحہ عمل دیا ہے کہ اگر اسے اختیار کر لیا جائے تو اقتدار و عروج اور عزت و عظمت مسلم امہ کا مقدر بن جائیں گے۔ اس لائحہ عمل کی چیدہ چیدہ خصوصیات یہ ہیں:

اُمت میں مکمل اتحاد و یگانگت پیدا کی جائے اور تفرقے کو مکمل ختم کیا جائے۔ داخلی اور خارجی سیاست کو دینِ اسلام سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دفاع کو ہرممکن حد تک مضبوط بناتے ہوئے مسلمان ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تعلیم و تربیت عام ہو۔ معیشت کا استحکام اور ترقی اس مادی دور میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے مگر اسے صرف وسائل کی حد تک رکھا جائے۔ حقیقی مقصد نہ بنایا جائے۔ قانون اور انصاف کو حتمی بالادستی دی جائے۔ دعوت و اصلاح کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے انفرادی اصلاح سے شروع کر کے اجتماعی دعوت دین کا اہتمام کیا جائے۔ میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے دینی حمیت و غیرت کو فروغ دیا جائے۔ اسے تعلیم و تربیت کے علاوہ انسان سازی جیسے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اس کے ذریعے اسلام دشمن پروپیگنڈہ کا موثر جواب دیا جائے۔ معاشرے میں غیراسلامی تہذیبوں کو کسی صورت فروغ نہ ملے بلکہ اسلامی اصول و اقدار اور رسوم و رواج کو پذیرائی حاصل ہو‘ ورنہ مغرب تو چاہتا ہی یہ ہے کہ اسلام کو تہذیبی یلغار سے نیست و نابود کرے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے پر خاصی توجہ دیتے ہوئے مسلمان اپنے کسی بھائی کو لاچار نہ چھوڑیں کہ اسے اغیار سے مدد طلب کرنی پڑے۔ صنعت و حرفت اور زراعت کو اس قدر فروغ دیا جائے کہ مسلمان اپنی ضرورتوں میں خودکفیل ہو جائیں اور دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔

اور آخر میں بعض ایسے امور کا تذکرہ کیا گیا ہے جو اس ممکنہ اصلاح اور ترقی و عروج کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘ ان میں سے بعض ہماری داخلی کمزوریاں ہیں اور بعض بیرونی مجبوریاں اور بعض عملی مانع بھی ہیں جو نشاۃِ ثانیہ کے عمل میں مزاحمت کا سبب بنتے ہیں۔ مصنف نے ان اسباب کا حل پیش کرتے ہوئے بات کو یہاں ختم کیا ہے کہ: اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیّروا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔

مصنف اُمتِ مسلمہ کی اس نشاۃِ ثانیہ سے متعلق بہت پُرامید ہیں جیسا کہ اقبال نے کہا تھا:

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

جناب ڈاکٹر محمد امین صاحب اس فکرانگیز اور عمل پر اُبھارنے والی تصنیف لطیف کے لیے اور بیت الحکمت‘ لاہور اس گرانقدر تصنیف کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

(بحوالہ: سہ ماہی ’’فکر و نظر‘‘۔ اسلام آباد۔ جنوری۔مارچ ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*