امریکا اور اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کارروائی کا عندیہ کئی مواقع پر دیا ہے۔ دونوں ہی چاہتے ہیں کہ ایران جوہری پروگرام ختم کرے اور جوہری ہتھیار بنانے کے ارادے سے باز آ جائے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ایران کے خلاف اس حوالے سے کوئی بھی کارروائی غیر ضروری، بلکہ نقصان دہ ہوگی۔
امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے خلاف جنگی جنون کو کسی نہ کسی حد تک کنٹرول کیا ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے حالیہ دورۂ امریکا نے ایک بار پھر ایران کے خلاف جنگ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ معاملات تصادم کی طرف تیزی سے جاتے ہیں، انہیں تصادم سے بچانے میں البتہ بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ایران کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔ وہ موسم سرما میں ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی کارروائی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دوسری طرف صدر اوباما چاہتے ہیں کہ ایسی کسی بھی کارروائی سے قبل دس مرتبہ سوچا جائے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار ایران کے معاملے میں سفارت کاری اور سمجھوتے کے قائل دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی بھی خواہش یہی ہے کہ کارروائی سے گریز کیا جائے۔ اب یا تو ایران اچانک ہتھیار ڈال دے گا (بیرونی دباؤ پر حکومتوں نے ایسا کب کیا ہے؟) یا پھر اسرائیل اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اسرائیل بھی جانتا ہے کہ امریکا میں سیاسی موسم نے جو کھڑکی کھولی تھی وہ رفتہ رفتہ بند ہوتی جارہی ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف نومبر تک کوئی کارروائی کرنے کا سوچا تو امریکا کی طرف سے برائے نام حمایت بھی نہیں مل پائے گی۔ اور نومبر کے بعد امریکی ریسپانس ایسا نہیں ہوگا جس کے بارے میں پہلے سے کچھ کہا جاسکتا ہو۔
آئیے، ذرا اس نکتے کا جائزہ لیں کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کیسی ہو اور کیوں ہو۔ ایران کے خلاف کارروائی سے قبل یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس نے واقعی کوئی سنگین غلطی کی بھی ہے یا نہیں۔ اب تک ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں۔ اور یہ بات بھی پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی بھی بتاچکی ہے کہ اب تک ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے بھی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے یہ یقین کیا جاسکے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ اور ارادہ کرچکا ہے۔ جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے حال ہی میں بتایا ہے کہ ایران شاید اب جوہری ٹیکنالوجی کے عسکری پہلو پر غور کر رہا ہے۔
اگر ایران خام جوہری ہتھیار بنالے تو؟ کیا اس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی؟ امریکا سمجھتا ہے کہ ایسا ناگزیر تو نہیں۔ شمالی کوریا نے جوہری ہتھیار بنالیے ہیں مگر اس سے جنوبی کوریا اور جاپان میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار بنائے ہیں مگر اس کے باوجود مصر اور سعودی عرب نے اب تک جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ مصر تین بار اسرائیل سے جنگ لڑچکا ہے۔ ایران سے اس نے اب تک کوئی جنگ نہیں لڑی۔ اگر امریکی حکومت ایران کے پڑوسیوں کو سیکورٹی کی ضمانت دے تو ان میں سے شاید کوئی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا تو پاکستان اور بھارت کی طرح مشکلات کھڑی کرے گا۔ پاکستان اور بھارت تین جنگیں لڑچکے ہیں مگر جب سے انہوں نے جوہری ہتھیاروں کو اپنایا ہے، ان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی اور کسی جنگ کا امکان بھی نہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے جنگ ہوتی نہیں، ٹلتی ہے۔ اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ نوکلیئر ڈیٹرنٹ مشرق وسطیٰ میں کام نہیں کرتا تو پھر وہ اتنی بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار کیوں رکھے ہوئے ہے، ان سے نجات کیوں حاصل نہیں کرلیتا؟
صدر اوباما نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک نے دو عشروں کی محنت کے بعد جوہری ہتھیار حاصل کیے ہوں تو وہ ان ہتھیاروں کو عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کے ہاتھ کیوں لگنے دے گا؟ میرے سی این این پروگرام میں جب جنرل ڈیمپسے نے کہا کہ ایران جنونی ہوکر نہیں سوچتا بلکہ عقل کی بنیاد پر کام کرنے والا ملک ہے تو ہر طرف سے احتجاج ہوا۔ ڈیمپسے نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ جو عقل کی بنیاد پر چلتا ہو وہ اپنے وجود کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ اگر وجود کو کسی بات سے خطرہ لاحق ہو تو اس بات کو ختم کردیا جائے گا، ترک کردیا جائے گا۔ ماؤ زے تنگ نے اشتراکیت کو عالمگیر سطح پر فروغ دینے کے لیے چین کی نصف آبادی کو داؤ پر لگانے کی بات کہی تھی۔ ایران نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ اس کی قیادت عقلی بنیاد پر کام کرتی آئی ہے۔ واشنگٹن منتھلی میں امریکی انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر پال پلر نے لکھا ہے ’’تین عشروں کے دوران ایران کے قائدین نے اپنے افکار اور اعمال سے ثابت کیا ہے کہ ان کا تعلق اسی دنیا سے ہے اور وہ اپنے اقتدار اور ملک کو بچانے کے لیے اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح دوسرے قائدین کام کرتے ہیں‘‘۔
اب سوال یہ نہیں ایران کیا سوچے گا اور کرے گا بلکہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کیا ایران کے خلاف کسی بھی پیشگی کارروائی کے محدود فوائد اور خاصے زیادہ اور الجھے ہوئے نتائج کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے؟
(“Another War in the Middle East”… Weekly “Time”. March 19th, 2012)
Leave a Reply