منحرفین سے نمٹنے کا انوکھا طریقہ

خلیجی ممالک میں بے ریاست لوگوں کی مشکلات سے متعلق ویب سائٹ چلانے والا احمد عبدالخالق عشروں سے متحدہ عرب امارات میں رہتا آیا ہے مگر اب اسے ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔ اسے مشرقی افریقا کے ملک کومروز آئی لینڈ بھیجا گیا۔ اس چھوٹے سے ملک میں ٹھہرنے کا احمد عبدالخالق کے پاس کوئی قانونی جواز نہ تھا۔ حکومت نے اسے ڈی پورٹ کرکے تھائی لینڈ بھیج دیا۔ تھائی لینڈ میں بھی وہ ٹھہر نہیں سکتا تھا۔

متحدہ عرب امارات نے ایسے بہت سے دوسرے شہریوں کو بھی حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی سزا کے طور پر شہریت سے محروم کردیا ہے۔ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ بے ریاست لوگوں کو ڈی پورٹ کرنا آسان نہیں۔ لندن میں قائم تنظیم ایمیریٹس سینٹر فار ہیومن رائٹس نے بتایا کہ یو اے ای کی حکومت نے اس کا ایک حل یہ نکالا کہ احمد عبدالخالق سے یو اے ای کا پاسپورٹ ضبط کرکے اسے کوموروز آئی لینڈ کا پاسپورٹ تھمادیا۔ عرب لیگ میں انتہائے جنوب کا ملک کوموروز آئی لینڈ چونکہ بہت غریب ہے، اس لیے سننے میں آیا ہے کہ یو اے ای کی حکومت نے اسے لاکھوں ڈالر دیے ہیں تاکہ وہ منحرفین کو قبول کرے مگر کوموروز آئی لینڈ نے احمد عبدالخالق کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

احمد عبدالخالق ان پانچ سیاسی کارکنوں میں سے ہیں جنہیں گزشتہ برس منتخب مقننہ کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں حکمرانوں کی توہین کے الزام میں سات ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کیے ہوئے ایک لاکھ انتیس ہزار ووٹروں کے ذریعے فیڈرل نیشنل کونسل قائم کی ہے جو مشاورتی ادارہ ہے۔

احمد عبدالخالق نے کئی ماہ تک ڈی پورٹ کیے جانے کا انتظار کیا۔ پھر اسے افراتفری میں اس طرح ڈی پورٹ کیا گیا جیسے وہ قومی سلامتی کے لیے کوئی بڑا خطرہ ہو۔ یو اے ای میں سیاسی جماعت بنانے کا مظاہرے کرنے کی اجازت نہیں۔ سال رواں کے اوائل میں ایک شخص کو ٹوئٹر پر محض یہ پیغام بھیجنے پر گرفتار کرلیا گیا کہ سیکورٹی فورسز خاصی سختی سے پیش آتی ہیں۔ ایمیریٹس سینٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق حکومت سے اختلاف کی پاداش میں ۱۶؍جولائی کو مزید دس افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں انسانی حقوق کے معروف وکیل محمد الروکن بھی شامل ہیں۔ اسی سال سات دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا جن میں شارجہ کے حکمران کا کزن بھی شامل ہے۔ حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ساتوں ریاستوں میں کتنے سیاسی منحرفین ہیں اور ان میں سے کتنے اور کیوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

گزشتہ برس حکومتی پالیسیوں سے انحراف کی پاداش میں گرفتار کیے جانے والوں کی اکثریت لبرل عناصر پر مشتمل تھی مگر اس سال اسلام نواز عناصر کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن کا تعلق اصلاحات کی علمبردار جماعت ’’اصلاح‘‘ سے ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت خاصی محتاط ہوگئی ہے۔ سرکاری سطح پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ مصر، تیونس اور دیگر ممالک میں اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والوں کی سیاسی کامیابیوں سے متحدہ عرب امارات میں بھی اسلام نواز عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ دبئی کے پولیس چیف داہی خلفان نے حال ہی میں قطر میں مقیم اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے معروف عالم یوسف القرضاوی سے ٹوئٹر پر گرما گرم بحث کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے حکام اسلام نواز عناصر پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دبئی کی شاندار کامیابی اور پُرسکون زندگی سے حسد کرتے ہیں۔

(“Send him Away”.. “Economist”. July 21st, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*