علامہ اقبال کو شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ کے فلسفہ کے حوالے سے جب کچھ اشکال کا سامنا ہوا تو آپ نے انہیں دور فرمانے کے لیے ۲۴ فروری ۱۹۱۴ء میں شاہ سلمان پھلواروی کی جانب رجوع کرتے ہوئے ان کی خدمت میں یہ خط تحریر کیا:
’’اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات قرآن کے مطابق ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں سے میرا یہی خیال رہا ہے کہ میں غلطی پر ہوں‘ گو اب میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے پر پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں۔ اس واسطے بذریعہ عریضۂ ہذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ ازراہِ عنایت و مکرمت چند اشارات تسطیر فرما دیں۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا‘‘۔
بحوالہ: محمد شفیع بلوچ
مضمون ’’اقبال اور ابنِ عربی‘‘
مجلہ ’’پیغامِ آشنا‘‘۔ جولائی۔ستمبر ۲۰۰۴ء
اسلام آباد
علامہ کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ صاحب ایک غیرمعمولی علمی شخصیت کے مالک تھے۔ ذیل میں شاہ صاحب کی شخصیت پر سید شاہ عزالدین ندوی کا مضمون مطالعہ فرمائیں جو مئی ۱۹۴۳ء میں ندوۃ العلماء کے ترجمان ’’الندوۃ‘‘ لکھنؤ میں شائع ہوا۔ پھر فروری ۱۹۸۴ء میں حلقۂ طلبہ اسلامی بہار کے ترجمان ماہنامہ ’’رفیق پٹنہ‘‘ میں شائع ہوا۔ (س ر ا)
ولادت: شب یازدہم محرم الحرام ۱۳۷۶ھ مطابق ۱۰ اگست ۱۸۵۹ء کو پھلواری شریف میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا اسمِ گرامی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد دائود الہاشمی القادری تھا اور آپ کا خاندان زمانۂ دراز سے علم و عرفان کا گہوارہ تھا۔
بیعت: آپ کے خسر مصباح الطالبین حضرت مولانا شاہ علی حبیب نصر پھلواروی تھے۔ شیخ العالم حضرت حاجی امداداﷲ چشتی مہاجر مکیؒ اور حضرت مولانا شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادیؒ آپ کے مرشدین کاملین میں تھے‘ بیعت طریقت آپ اپنے خسر سے سلسلۂ قادریہ میں کی‘ لیکن تعلیم و اجازت و خلافت تمام طریق مروجہ کی اپنے شیوخ ہندو حرمین سے حاصل کی‘ اخذ بیعت و تعلیم طریقت مرید کی اپنی صلاحیت و میلان کے مطابق کرتے تھے۔ لیکن بایں ہمہ چشتیت کا غلبہ آپ میں بہت نمایاں تھا۔
تعلیم و تکمیل کتب درسیہ: حضرت نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر کے بزرگوں سے حاصل کی‘ اور قدیم نصابِ تعلیم کے ماتحت میبندی و ملاحسن تک اپنے وطن میں پڑھا‘ پھر استاذ الہند مولانا عبدالحئی الانصاری فرنگی محل سے تکمیل فرمائی اور تکمیل حدیث حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلویؒ سے کی‘ نیز صحاح ستہ اور دیگر سنن و مسانید کی اجازتیں آپ کو شیوخ حجاز و حرمین سے حاصل ہوئیں۔ آپ کے شیوخ حدیث فی الہند والحجاز کی تعداد ستّر سے متجاوز ہے۔
حضرت کی شخصیت اور تصانیف: حضرت اپنے عصر کے ان چند وسیع النظر علماے ربانی میں سمجھے جاتے تھے جن کی نظیر ہندوستان کے طول و عرض میں مشکل سے مل سکتی تھی۔ آپ کی وسعتِ معلومات‘ وسعتِ مطالعہ‘ جامعیتِ عدیم النظیر تھی‘ بڑے بڑے علما آپ سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ بہ یک وقت ایک اچھے ادیب بلند پایہ معقولی و منقولی اور بے نظیر مذکر تھے‘ آپ کا وعظ اتنا موثر و جاذبِ قلوب ہوتا تھا کہ جس اجتماع میں آپ ہوتے آپ کے سوا ہر آواز ماند پڑ جاتی تھی۔ آپ کے وعظ سے عالم‘ جاہل‘ مشائخ‘ انگریزی داں‘ عربی خواں قدیم و جدید دونوں خیال کے لوگ یکساں دلچسپی رکھتے تھے‘ آپ کے اثرِ وعظ سے غیرمسلموں کی ایک کثیر تعداد آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی تھی۔ آپ پہلے شخص ہیں جس نے میلاد خوانی کے غلط طریقے کو موقوف کر کے زبانی بیانِ میلاد اور سیرت النبیؐ کی ترویج فرمائی اور خود اپنی خانقاہ میں ربیع الاول شریف کی چاند رات سے بارہویں رات تک صحیح سیرت النبیﷺ کا سلسلہ بیان شروع کیا جو اب تک بحمدﷲ جاری ہے۔ آپ نے مختلف تصنیفیں کتاب و رسائل کی مشکل میں فرمائی ہیں‘ جن کو میں ذیل میں درج کروں گا۔ آپ جو کچھ بھی لکھتے‘ وہ نہایت عالمانہ و محققانہ لکھتے۔ آپ کی تصنیفوں میں دلائل کی فروانی اور زورِ استدلال بہت کافی ہوتا۔ دینی علوم میں علم تصوف پر آپ کی وسیع و عمیق نظر‘ عصرِ حاضر کی دنیاے تصوف میں بے مثال اور مسائل تصوف میں آپ کی ذات اور آپ کی تحقیق کو سند و حجت مانا جاتا تھا۔ ہر خانوادۂ علم و عرفان سے آپ کا گہرا تعلق تھا اور تمام خانوادۂ ہائے علم و عرفان سے آپ کا گہرا تعلق تھا اور تمام خانوادۂ ہائے علم و تصوف آپ کی بے حد قدر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سارے اکابر و اصاعر دیوبند وغیرہ بھی آپ کی انتہائی عظمت فرماتے تھے‘ اگرچہ کچھ فروعی مسائل میں آپ کا اور اہلِ دیوبند کا اختلاف تھا۔
ہندوستان کے ایک ذی مرتبہ عالم و صوفی ہونے کی حیثیت سے آپ کا تعارف حجاز‘ عراق‘ فلسطین‘ مصر‘ یمن وغیرہ ممالک اسلامی میں بھی تھا۔ آپ بہ ذاتِ خود بھی حجِ بیت اﷲ و زیارتِ روضۂ نبویؐ و سفرِ عراق و فلسطین وغیرہ سے شرف اندوز تھے۔ آپ کے ارادتمندوں اور مریدوں کا حلقہ خود آپ کے صوبہ کے تقریباً ہر ضلع کے علاوہ صوبہ جاتِ ہند سے گزر کر دیگر ممالک اسلامیہ تک وسیع ہو چکا ہے۔ بایں ہمہ علم و دانش آپ کی زندگی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ کو اپنے کمالات باطنی و زہد و ریاضت کا اخفا حد سے زیادہ منظورِ نظر تھا اور اس باب میں اپنی بے تکلفی اور سادگی سے اکثر دراک ہستیوں کو بھی اپنی شخصیت کی شناخت سے غافل کر دیتے تھے‘ آپ صاحبِ وجد حال عالم صوفی تھے۔ آپ کو اچھے کتب خانوں کی ہر جگہ تلاش رہتی تھی۔ جب کسی شہر میں جاتے اور معلوم ہوتا کہ وہاں اچھا کتب خانہ ہے تو وقت نکال کر کتب خانہ دیکھنے تشریف لے جاتے اور بسا اوقات کچھ کتابوں کے اقتباس بھی کر لیتے۔ آپ نے کتابوں کا اچھا خاصہ ذیرہ خود بھی خرید کر جمع کیا اور ایک اچھے کتب خانہ کی بنیاد رکھی لیکن افسوس کہ کافی کتابیں تلف ہو گئیں تاہم اس وقت بھی ان کی خاصی تعداد موجود ہے۔ آپ کی تصانیف ساٹھ ستّر سے کم نہیں لیکن یہ ضرور نہیں کہ ہر تصنیف چھپ بھی گئی ہو مگر بیشتر چھپ گئی ہیں۔ آپ کو تصنیفی ذوق ایامِ طالب علمی سے ہی تھا۔
۱۔ حواشی برشرح ملا جامی۔ ۳ جز
یہ ایامِ طالب علمی کی کاوش ہے۔
۲۔ تعلیقات برمیبذی۔ یہ بھی طالب علمی کی کاوش ہے۔
۳۔ رسالہ منظوریہ۔ چند نحوی اعتراضات کے جواب
۴۔ مجموعہ ابیات عربی
۵۔ سفینۂ نجات۔ (مطبوعہ عظیم آباد)
ہر دو رسالے مناقب اہلبیت میں لکھے گئے ہیں۔
۶۔ صیانت الاحباب عن اہانۃ الاصحاب
۷۔ وسیلۂ نجات۔ (مطبوعہ لکھنؤ)
۸۔ کتاب المراثی۔ عربی مرثیوں کا مجموعہ
۹۔ رسالہ فیوریہ۔ اس میں بخار کے اسباب و علامات و معالجات ہیں۔
۱۰۔ طب یونانی و ڈاکٹری۔ ناتمام
۱۱۔ مجرباتِ سلیمانی یونانی و ڈاکٹری نسخوں کا ایک مجموعہ
۱۲۔ رسالۂ ایصالِ ثواب بزربان اردو (مطبوعہ عظیم آباد)
۱۳۔ درود و سلام بزبان فارسی (مطبوعہ عظیم آباد)
۱۴۔ رسالہ درود بزبان اردو (مطبوعہ کانپور)
۱۵۔ رسالہ حضوری تصوف اردو (مطبوعہ لکھنؤ)
۱۶۔ نصرۃ الصوفیہ (عربی و فارسی) مسائل تصوف کے بیان میں
۱۷۔ مجموعۂ کلام فارسی
۱۸۔ عربی قصائد و غزلیات
۱۹۔ شرح شجرۂ قادریہ
۲۰۔ شجرۃ السعادۃ و سلسلۃ الکرامۃ
سلاسل پیران کے بیان میں ایک اور رسالہ سلسلۃ الذہب کے نام سے شائع کیا گیا جو اس وقت موجود ہے لیکن اسے حضرت کے ایک خلیقہ نے ان سے استقادہ کر کے شائع کیا۔
۲۱۔ شرح قصیدۂ غوثیہ
۲۲۔ کتاب الاشغال والاوراد۔ ناتمام
۲۳۔ تذکرہ بزرگانِ پھلواروی
۲۴۔ برکات الحرمین و فلاح الدارین
۲۵۔ رسالۂ تقبیل و علم سینہ
۲۶۔ شرح حدیث مسلسل بالاولیۃ
۲۷۔ غزلیات اردو
۲۸۔ عین التوحید: تصوف میں وحدت الوجود ایک معرکۃ الارا مسئلہ ہے اور اب اس مسئلہ پر عبور رکھنے والے علما مفقود نظر آتے ہیں۔ حضرت نے اسی مسئلہ پر یہ رسالہ بزبانِ عربی تحریر فرمایا تھا اور صاف کر کے حضرت حاجی امداد اﷲ رحمۃ اﷲ مہاجر مکی کے حضور میں ارسال کیا تھا۔
۲۹۔ شمس المعارف: یہ حضرت کے علمی و عرفانی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ پہلے یہ دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوا تھا‘ اب اس کے چار حصے کر دیے گئے ہیں۔ اس میں مریدین و معتقدین نیز دیگر علما کے نام خطوط ہیں‘ جن میں مختلف علمی‘ روحانی مضامین بھرے ہوئے ہیں۔ شمس المعارف کی پہلی جلد جس وقت شائع ہوئی تھی‘ لسان العصر سید اکبر الہ آبادی علیہ الرحمۃ نے اسے مطالعہ فرمانے کے بعد ایک قطعہ لکھ کر حضرت علیہ الرحمہ کے پاس روانہ فرمایا تھا‘ وہ قطعہ حضرت نے کسی کتاب کے درمیان رکھ دیا تھا پھر نہ جانے وہ کیا ہوا اس قطعہ کا ایک شعر جو ذہن میں محفوظ رہ گیا ہے‘ حسبِ ذیل ہے:
بدن کو کچھ سمجھ سکتے ہو ’’نشتر‘‘ اور شعاعوں سے
مگر آساں نہیں تشریحِ استعدادِ روحانی
۳۰۔ جوہرِ خمسہ: حضرت کے پانچ مواعظ حسنہ کا مجموعہ ہے‘ جسے حضرت کے ایک مریدِ خاص مولوی محمد اسحاق ایڈیٹر العرفان نے بنگلور سے شائع کیا تھا۔
۳۱۔ حضرت کے چند اہم مواعظ نواب محسن الملک مرحوم نے ایجوکیشن کانفرنس کی طرف سے شائع کیے تھے اور متعدد مواعظ رسالوں کی صورت میں دارالعلوم ندوہ کی طرف سے شائع کیے گئے تھے۔
(۔۔۔جاری ہے)
Leave a Reply