کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام اُس ملک میں رہنے والی قوم کی اُمنگوں اور آرزوئوں کا عکاس‘ اُس قوم کی تہذیب کا آئینہ دار‘ روایت کا امین اور اُس قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری کا ایک عمل ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے قیام کو آج ۵۷ برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم تعلیمی‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی غرضیکہ ہر میدان میں اپنی بنیاد سے دور بے سمتی کا شکار ہیں۔
تعلیمی نظام کو پسِ پشت ڈالنے کا نتیجہ ہی ہے کہ ہم دوسری اقوام کے زیرِ دست ہیں اور جب کسی قوم کے ذہنوں کو فتح کر لیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جسمانی غلامی بھی مقدر بن جاتی ہے۔ آج معاشرے میں جس طرح بے چینی کی ایک فضا پائی جاتی ہے اور جس میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘ وہیں اس وقت تعلیم کی سیکولرائزیشن ایک ایسا ایشو ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ بالخصوص آغا خان تعلیمی بورڈ (نجی بورڈ) کا قیام ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے نتیجے میں پراگندگی اور انتشار کا شکار نظامِ تعلیم مزید پراگندہ ہو جائے گا اور مملکتِ پاکستان میں پہلے سے موجود طبقاتی خلیج اور زیادہ وسیع ہو جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان امور کا جائزہ لیا جائے کہ جن کی بنا پر ہر مکتب فکر کے اندر اس بورڈ کے قیام نے تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے ۔
جو لوگ آغا خان یونیورسٹی بورڈ کی حمایت میں ہیں‘ اُن کا خیال ہے کہ یہ بورڈ ملک میں تعلیمی معیار کی بہتری میں ایک اچھی پیش رفت ثابت ہو گا۔ اُن کے خیال کے مطابق اِس بورڈ کے ذریعے ایک جدید‘ شفاف اور موثر و کارگر امتحانی نظامِ ضوابط تشکیل پاسکے گا۔ اس حوالے سے جو سب سے اہم دلیل دی گئی ہے‘ وہ آغا خان یونیورسٹی کا تعلیمی تجربہ ہے۔
سب سے پہلے تو اس دلیل کو لیا جائے جو خود آغا خان یونیورسٹی اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ صرف اس بورڈ کے قیام سے ہی تعلیمی معیارات میں بہتری آئے گی۔ یقینا تعلیمی معیار کی بہتری محض ایک موثر اور کارگر امتحانی نظامِ ضوابط کی تشکیل پر منحصر نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق امتحان تو کسی تعلیمی مراحل کا آخری مرحلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے ابتدائی مراحل یعنی نصاب کی منصوبہ بندی‘ تعلیمی مواد کی تیاری‘ اشاعت‘ نصابی کتب کی تقسیم اور تربیتِ اساتذہ وغیرہ بھی مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر انہیں اہم تر نہ بھی کہا جائے تو بھی معمول کے مطابق حکومتی بورڈز ہر مرحلے کے لیے رہنما اصول دیتے ہیں اور ہر انفرادی ادارے کے امور و معاملات کو کنٹرول کرنے کا کام انجام نہیں دیتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نظامِ تعلیم کی استواری اور نصابِ تعلیم کی تیاری بڑے کام نہیں تو امتحان لینا کون سا کارِ محال ہے‘ جس کے لیے مخصوص فکر و مزاج کا حامل بورڈ قائم کرنا ناگزیر ٹھہرے؟ علاوہ ازیں بعض مراحل مثلاً نصابِ تعلیم کا تعین وفاقی حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرے پہلوئوں کا جائزہ لیے بغیر محض نظامِ امتحان کو تبدیل کر دینے سے کوئی زیادہ فرق واضح نہیں ہو گا۔ چیئرمین آغا خان یونیورسٹی بورڈ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ ’’ابھی نصاب پر کام کرنا شروع نہیں کیا ہے‘ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا شعبہ ضرور قائم کریں گے‘‘۔
کسی بھی بورڈ کو متوازی نظامِت تعلیم سے امتحانات کی پیشگی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ نجی بورڈ کی صورت میں کیا صورتحال ہو گی‘ یہ غیرواضح ہے۔ اس کے علاوہ ایک پہلے سے تیار شدہ کوٹہ یا طریقِ کار کالجز میں داخلہ لینے کے لیے ضروری ہے جو اعلیٰ ثانوی تعلیم مہیا کرتا ہے۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ شہر میں واقع کالجز صرف انہی طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں‘ جو اس شہر کے ثانوی بورڈ سے منسلک ہوتے ہیں جبکہ آغا خان بورڈ کا حلقہ اثر پورا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بہت ہی واضح مفاہمت امتحانی بورڈ اور ان اداروں میں ہونا چاہیے جو آئندہ ایک ہی تعلیمی سطح کی تجویز سامنے لائے ہیں‘ جس کے معیار پر طلبہ اُسی وقت اتر سکتے ہیں کہ جب یہ بورڈ کا مخصوص امتحان پاس کر لیں۔
یونیورسٹی کی سطح پر توازن کا مسئلہ ابھرے گا۔ یونیورسٹی نیم خودمختار ادارے ہیں‘ جو اپنی داخلہ پالیسی اور یونیورسٹی میں داخلہ سے قبل کے معیار کا اندازہ خود لگاتی ہیں۔ وہ مشترک پیمانہ جو یونیورسٹیاں اختیار کرتی ہیں‘ وہ یہ کہ طلبا سے دریافت کیا جاتا ہے کہ کس نے بیرونی بورڈ یا نجی بورڈ سے امتحان دیا ہے ‘ تاکہ پبلک سیکٹر بورڈ سے اس کی متوازی ہم آہنگی ہو سکے۔
اس صورت میں آغا خان یونیورسٹی بورڈ اور حکومتی بورڈ کے مابین توازن کا معیار کیا ہو گا؟ اس کے علاوہ حکومتی امتحانی بورڈز کی مبینہ خراب کارکردگی کے پیشِ نظر نجی بورڈز کو تشکیل دینے کا مسئلہ کسی بھی طریقے سے مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ ابھی تک کوئی سائنٹیفک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے‘ جس سے موجودہ بورڈز کے Merit اور Demerit کو ثابت کیا گیا ہو۔ بورڈ افسران کی امتحانات میں بدعنوانی اور غیرقانونی ذرائع کے استعمال کی داستانیں اور کہانیاں سننے کو ملتی رہی ہیں۔
اس وقت پاکستان میں ۲۳ تعلیمی بورڈز ہیں جو حکومت کے زیرِ انتظام ہیں جبکہ دوسری طرف امریکی سفیر نے آغا خان بورڈ کو خوشخبری بھی سنائی ہے کہ ’’جب تک یہ (آغا خان) بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو جاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘۔
بیرونِ ملک سے ملحقہ نجی بورڈ کے اپنے آزاد ممتحن ہوں گے جبکہ سرکاری بورڈز کے ذریعے امتحان لیے جانے کی صورت میں اس ادارے کے اسٹاف سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ چیز بعض کے نزدیک اچھی نہیں ہے‘ لیکن لاکھوں طلبہ کے بورڈ کے امتحانات میں Appear ہونے کے سبب اس سے گریز ممکن نہیں۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟ مزید یہ کہ یہاں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومتی بورڈز نااہل ہیں اور ایک خراب معیار کا امتحان لیتے ہیں‘ تاہم اس طرح کی خرابیاں انتظامی تدابیر کے ذریعے دور کی جاسکتی ہیں اور مزید اہل تر اور تربیت یافتہ عملے سے کام لیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ بورڈز کے جو خیالات ہیں‘ اُن پر غور نہیں کیا گیا اور اگر ان پر غور کیا بھی گیا ہے تو پبلک کو یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ بعض مبصرین کے نزدیک یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کسی ایک بھی پبلک سیکٹر بورڈ نے اب تک اپنے اوپر لگائے گئے بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ اس طرح کا اقدام پبلک سیکٹر کی جانب سے اس لیے ضروری تھا کہ یہ الزامات ان کی طرف سے عائد کردہ تھے جو نجی امتحانی بورڈ کی تشکیل کے حق میں جواز پیش کرتے ہیں۔
لیکن فوری طور پر اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہ آنے کی وجہ بہت ہی سادہ اور واضح ہے وہ یہ کہ بورڈز سرکار کے ماتحت ہیں اور تاآنکہ پرائیویٹ امتحانی بورڈ کی تخلیق کے مکمل زاویہ نظر کی خود حکومت کی طرف سے حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ہے‘ حکومتی بورڈز کی انتظامیہ اس مسئلے پر اپنے خیالات اعلانیہ پیش کرنے سے معذور ہے۔ نومبر ۲۰۰۴ء میں وفاقی وزیرِ تعلیم نے اعلانیہ پبلک بورڈز کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن معمولی سا بھی کوئی ردِعمل بورڈز کی طرف سے نہیں آیا۔ بہرحال ہماری حکومت میں اس طرح کے اختلافات کو ہمیشہ عدم تعاون سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ آغا خان بورڈ کو ہر سال نصاب میں %۱۰ تبدیلی کا اختیار دیا گیا ہے یعنی ۱۰ سال میں %۱۰۰ تبدیلی۔ ایک طرف صرف یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صرف امتحانی بورڈ ہے جبکہ دوسری طرف نصاب میں تبدیلی کا اختیار چہ معنی دارد۔۔۔! اساتذہ کی تربیت کے لیے آغا فائونڈیشن کے ادارے‘ انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈولپمنٹ کو یورپی یونین کی امداد بھی مل رہی ہے‘ جس کے تحت اساتذہ کرام کو تربیت کے لیے بیرونِ ملک بھیجا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر فیسوں کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری بورڈز کی فیس ۴۰۰ روپے سے لے کر ۷۵۰ روپے ہے جبکہ آغا خان بورڈ کی ابتدائی فیس غیرمنافع بخش کمیونٹی اسکولز کے لیے ۱۵۰۰ اور منافع بخش اسکولز کے لیے ۳۸۰۰ روپے ہے۔ آغا خان میڈیکل کالج جس کو Role Model بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ اگر ہم اس کے اور سرکاری میڈیکل کالجز کی فیسوں کے درمیان موازنہ کریں تو کئی گنا فرق نظر آتا ہے۔ سرکاری میڈیکل کالج کی ایک سال کی فیس ۸۰۰,۱۱ روپے جبکہ آغا خان میڈیکل کالج کی ایک سال کی فیس ۰۰۰,۳۴۰ روپے ہے۔
یہ اور اسی طرح کے دیگر اعداد و شمار ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر آغا خان بورڈ کو پاکستان میں کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا تو سرکاری بورڈز کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ کیا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں پر تعلیم کے دروازے کھلے رہیں گے؟
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ طریقہ‘ وہ انداز قابلِ اعتراض ہے جس سے آغا خان امتحانی بورڈ تشکیل دیا گیا ہے یعنی آرڈیننس کے ذریعہ نہ کہ کسی پارلیمانی عمل کے ذریعہ۔
٭٭٭
Leave a Reply