ہم آئندہ انصاف کی توقع رکھتے ہیں

گزشتہ ہفتے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران ترکی اور اسرائیل کے مابین جو کشیدگی اُبھری وہ ہفتوں جاری رہی۔ اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ غزہ جنگ پر گرما گرم بحث کرنے کے بعد ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان اسٹیج سے غصے میں اُتر آئے اس عزم کا اعلان کرتے ہوئے کہ وہ ڈیووس کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ نیوز ویک کے نمائندے لیلی ویماؤتھ (Lally Weymouth) نے جناب ایردوان سے گفتگو کی ہے جس کا متن درج ذیل ہے:


سوال: آپ غزہ پر تازہ اسرائیلی آپریشن کے حوالے سے شدید معترض رہے ہیں۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپریشن شروع ہونے سے چند روز قبل ایہود اولمرٹ ترکی آئے تھے اور انہوں نے اس بارے میں آپ کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ آپ نے کیوں ترکی اسرائیل تعلقات کو چند حدود میں مقید کر دیا؟

ایردوان: اگر آپ اس مسئلے کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ ترکی اور اسرائیلی تعلقات کو کنارے پر دھکیل دیا گیا ہے تو یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔

ویمائوتھ: درست نقطۂ نظر کیا ہے؟

ایردوان: شام کی درخواست پر ہم اسرائیل اور شام کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ایک مرحلے میں داخل ہوئے تاکہ بلاواسطہ ان دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہو۔ ہم اس عمل میں ثالث ہیں۔ ہم نے یہ کام اس سے پہلے پاکستان اور اسرائیل کے مابین بھی کیا ہے۔

ویمائوتھ: یہ تو مجھے معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاکستان کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں لیکن یہ تعلقات اعلانیہ بھی ہیں؟

ایردوان: صدر پرویز مشرف کی حکومت کے دور میں ہم نے ان دونوں ممالک کو استنبول میں ساتھ بٹھایا یعنی اسرائیلی وزیر خارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کرائی۔

ویمائوتھ: پھر کیا ہوا؟

ایردوان: ان مذاکرات کے ذریعہ ہم نے کم از کم قریب لانے کے عمل کا آغاز کر دیا۔ تقریباً ۲ سال قبل یہ ملاقاتیں خفیہ طور پر دو روز تک جاری رہیں۔ ہم نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین بھی امن مذاکرات کے انعقاد میں کردار ادا کیا۔

ویمائوتھ: اسرائیل اور فتح یا حماس کے مابین؟

ایردوان: میری مراد فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ہے۔ ۲۳ دسمبر ہم نے انقرہ میں وزیراعظم اولمرٹ سے ملاقات کی۔ اُسی دن شام اور اسرائیل کے مابین غیر سرکاری مذاکرات کے پانچویں دور کا اہتمام کیا۔ اس رات ہم نے شدید قسم کی ٹیلی فونک سفارتکاری سے کام لیا۔ میں فون پر خود کبھی شامی صدر بشار الاسد سے بات کرتا تو کبھی اولمرٹ سے ہم کلام ہوتا۔

ویمائوتھ: کیا آپ اس عمل کو اسرائیل اور شام کے مابین براہِ راست گفتگو کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے تھے؟

ایردوان: ہاں

ویمائوتھ: کیا اسد اس کے لیے راضی تھے؟

ایردوان: اسد نے آغاز ہی سے ان مذاکرات کے حوالے سے بہت ہی مثبت رویے کا اظہار کیا۔ اس رات ہم دونوں فریقوں کے مابین ایک معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ ہفتے کے آخر تک فریقین کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے گفتگو کا اہتمام کریں۔

ویمائوتھ: لہٰذا آپ نے محسوس کیا کہ آپ لوگ کسی معاہدے تک پہنچنے کے قریب تھے؟

ایردوان: اُس رات یہ مذاکرات ۵ یا ۶ گھنٹوں تک جاری رہے۔ اُس رات انقرہ میں جب میں وزیراعظم اولمرٹ سے گفتگو کر رہا تھا میں نے فلسطین اسرائیل مذاکرات سے متعلق کہا کہ یہ صحیح نہیں ہو گا کہ مذاکرات میں حماس کو شامل نہ کیا جائے۔ انہوں نے فلسطین میں انتخابات میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ لیکن وزیراعظم اولمرٹ نے کہا کہ وہ اس طرح کا کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس گفتگو کے دوران میں نے وزیراعظم اولمرٹ سے یہ بھی کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میں مغوی اسرائیلی سپاہی گِلاڈ شیلات کو رہا کرانے میں کامیاب ہو سکتا ہوں۔

ویمائوتھ: اس کو رہا کرانے کے لیے آپ نے اسرائیلیوں سے حماس کے لیے کچھ کرنے کے لیے کہا تھا؟

ایردوان: میں نے وزیراعظم اولمرٹ سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسرائیلی سپاہی کو رہا کرانے کے لیے ہم ثالثی کا فریضہ انجام دیں تو ہم کچھ کر سکتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہم کسی حد تک اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف اگر سپاہی رہا ہو جاتا ہے تو پھر اسرائیل کو حماس سے وابستہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور پارلیمانٹ کے اراکین کو رہا کرنا ہو گا (جو ابھی تک اسرائیلی جیلوں میں ہیں)۔

ویمائوتھ: آپ کے حماس کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات کیوں ہیں جبکہ وہ ایران کا ایک بازو ہے؟

ایردوان: ہمیں موضوع کو بدلنا نہیں چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حماس ایران کا کوئی بازو نہیں ہے۔ حماس انتخابات میں ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے داخل ہوئی۔ دنیا نے فلسطینیوں کی سیاسی آزادیٔ رائے کا احترام نہیں کیا۔ ایک طرف تو ہم جمہوریت کا دفاع کرتے ہیں دوسری طرف ہم بیلٹ باکس کے نتائج کا احترام نہیں کرتے۔ آج کا فلسطین ایک کھلے آسمان کا حامل قید خانہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے آپ اس ملک کے اسپیکر نیز حکومت کے وزرا اور اراکین پارلیمنٹ تک کو قیدی بنائے ہوئے ہیںاور پھر آپ ان سے یہ توقع کرتے ہیں وہ اطاعت گزاری کے ساتھ بیٹھے رہیں۔

ویمائوتھ: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اور وزیراعظم اولمرٹ شام اور اسرائیل کے مابین کسی بریک تھرو کے نکتے پر پہنچ چکے تھے۔

ایردوان: میں اپنے جذبات میں آپ کو شریک کر رہا ہوں۔

ویمائوتھ: اسرائیلی مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ شامیوں کے ساتھ بلاواسطہ گفتگو نہیں کر سکتے۔

ایردوان: ہم اُن کی امید بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اولمرٹ جب جدا ہوئے تو ان کا آخری جملہ یہ تھا کہ ’’میں واپس جاتے ہی اپنے ساتھیوں سے مشورہ کروں گا اور پھر آپ کے پاس واپس پلٹوں گا‘‘۔ میں ان کے جواب کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ مجھے ۲۷ دسمبر کو پتہ چلا کہ غزہ پر بم برسنا شروع ہو گئے۔اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ غزہ سے میزائل داغے جا رہے ہیں۔ میں وزیراعظم اولمرٹ سے پوچھتا ہوں کہ ان میزائلوں کے نتیجے میں کتنے لوگ مارے گئے؟ غزہ میں ۲۷ دسمبر کے بعد سے ۱۳۰۰ لوگ مارے جا چکے ہیں اور چھ ہزار لوگ زخمی ہیں، اسرائیل نے کوئی انفراسٹرکچر نہیں چھوڑا، کوئی عمارت نہیں چھوڑی، سب کچھ تباہ کر دیا۔ غزہ اس وقت کُلّی طور سے ملبے کا ایک ڈھیر ہے۔ یہ مکمل محاصرہ کے نتیجے میں بالکل بند پڑا ہے میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ حماس ایک اچھی تنظیم ہے اور کوئی غلطی نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے غلطیاں کی ہیں لیکن میں تو حتمی نتیجے کا اندازہ لگا رہا ہوں۔

ویمائوتھ: اب یہاں سے آپ ترکی کا کوئی رول دیکھتے ہیں؟ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ترکی فوج غزہ میں امن فوج کا حصہ ہو گی۔

ایردوان: اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے۔ ہم صرف مبصرین کے طور پر جا سکتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہو گی کہ ہم وہاں اپنی سیکوریٹی فورسز بھیجیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غزہ پر تازہ اسرائیلی حملوں کے حوالے سے میرا مؤقف میرے یہودی مخالف ہونے کے سبب ہے۔

ویمائوتھ: بعض امریکی یہودی اس حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔

ایردوان: میں بہت زیادہ اس پروپیگنڈہ سے پریشان ہوں ہم آغاز ان یہودیوں سے کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں رہتے ہیں۔ یہودیوں سے متعلق وہ ہمارے رویے کے شاہد ہیں۔ بطور فرد میں نے ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ یہود دشمنی انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔ بطور وزیراعظم میں ہمیشہ یہود دشمنی کا مخالف رہا ہوں البتہ میری مایوسی اسرائیل حکومت کے خلاف ہے۔

ویمائوتھ: کیا اسرائیل کے ساتھ آپ کے تعلقات ختم ہو گئے؟

ایردوان: ہمارے اسرائیل کے ساتھ بہت سنجیدہ تعلقات ہیں لیکن موجودہ اسرائیلی حکومت کو اپنا جائزہ لینا چاہیے اسے اس مسئلے کا استحصال آنے والے انتخابات کے لیے نہیں کرنا چاہیے۔

ویمائوتھ: کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ صدر بارک اوبامہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین کوئی منصفانہ کردار ادا کریں گے؟

ایردوان: ابھی تک تو کوئی انصاف نہیں ہوا ہے۔ لیکن آج کے بعد سے آئندہ ہمیں انصاف کی توقع ہے۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۹ فروری ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*