۱۴؍ اگست ۲۰۰۵ء

پاکستان کا یوم آزادی ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کو تھا۔ اس روز قیام پاکستان کو ۵۸ برس پورے ہو گئے۔ اس نصف صدی سے زائد کا حساب لگانا ہو یا ماقبل سے تقابل کرنا ہو تو کچھ پیچھے کی طرف جانا ہو گا۔ پھر ہی ہم کچھ صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اسی آئینہ تقابل میں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے مجموعی طور پر مسلمانوں کی زندگی میںبہت مثبت فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ انگریزوںنے مسلمانوں سے حکومت حاصل کی تھی۔ ہندو اکثریت کے ساتھ ہم آہنگی اس کے ہر طرح سے مفاد میں تھی۔ یوں آہستہ آہستہ دونوں قومیں سینئر اور جونیئر پارٹنر بن گئیں۔ مسلمان سماجی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے۔ قیام پاکستان سے کم از کم مشرق و مغرب میں دو مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت سنبھلنا شروع ہوئی۔ وسائل ان کے ہاتھ میں آئے۔ تعلیمی حالت بہتر ہونے لگی۔ پاکستان میں دیکھا جائے توانفرا اسٹرکچر، اقتصادیات، مجموعی قومی پیداوار، وسائلِ صحت، میڈیا وغیرہ کے کئی ایک شعبوں میں ترقی ہوئی ہے۔ عوام الناس کو گلہ ہے تو یہ کہ پاکستان میں وسائل ایک مخصوص طبقے کے پاس ہیں جس کی وجہ سے دولت کی تقسیم انتہائی غیرمنصفانہ ہے اور ترقی کے ثمرات میں غریب عوام کا حصہ بہت کم ہے۔

دوسرا اہم ترین مسئلہ اور شاید اسے پہلے مسئلے کا سبب کہا جاسکتا ہے، یہ ہے کہ تشکیلِ حکومت کے معاملے میں عوام کی شرکت دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان اب تیسرے طویل فوجی دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارا ملک حقیقی آئینی حکمرانی سے محروم کیوں چلا آرہا ہے، اس کا الزام فوجی جرنیل سیاست دانوں پر اور محرومِ اقتدار سیاست دان فوجی جرنیلوں پر عائد کرتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کس کے الزام میں کتنی صداقت ہے، عوام پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے حق سے مسلسل محروم چلے آرہے ہیں۔

پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دنیا کی چند مسلّمہ ایٹمی طاقتوں میں ایک اور مسلمانوں میں سے واحد ہے۔ تاہم ترقی کے لئے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود ابھی تک غیروں کا دست نگر ہے اور اپنے وسائل کو اپنی ترقی اور حقیقی خودمختاری کے حصول کے لئے استعمال نہیں کرسکا۔ سیاسی، فوجی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان اس قدر دبائو کا شکار ہے کہ کسی ایک شعبے میں بھی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اس وقت پاکستان پر دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے عنوان سے مختلف قسم کا سنگین دبائو ہے۔ ایک طرف کے دبائو نے مسئلہ کشمیر پر ہمیں اپنے دیرینہ اور منصفانہ موقف میں ’’لچک‘‘پر مجبور کر دیا ہے اور دوسری طرف کے دبائو نے ہمیں امریکی قیادت میں لڑی جانے والی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ صدر مملکت اگرچہ کہتے رہتے ہیں اور بجا کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی وجوہات ختم کی جائیں اور مسلمانوں کے مسائل حل کئے جائیں۔ خاص طور پر وہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیتے رہتے ہیں۔ لیکن عملاً وہ دہشت گردی کے خلاف براہ راست اور یکطرفہ جنگ میں شامل ہیں۔ رہ گیا ان کا دہشت گردی اورانتہاء پسندی کی وجوہات ختم کرنے کا مطالبہ تو زبانی مطالبوں اور تحریری قراردادوں سے آج کی دنیا میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ پاکستان میں انتہا پسند گروہ اور طبقے موجود بھی ہیں جن کے مسلح حملوں سے خود پاکستانی فوج کے سربراہ اور صدر مملکت تک محفوظ نہیں۔ وزیراعظم پر بھی حملہ کیا جاچکا ہے۔ بہت سی مسجدیں اور مدرسے خون میں نہا چکے ہیں۔ اس پاک سرزمین کے بڑے بڑے لائق فرزند دہشت گردی کے ہاتھوں خاک و خون میں لوٹ چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ مذہب کا نام اور عنوان خوف کی علامت بنتا جارہا ہے۔ کبھی چائے خانوں، ریستورانوں اور حجام کی دکانوں میں لکھا ہوتا تھا کہ ’’یہاں سیاسی باتیں کرنے سے پرہیز کریں۔‘‘ اب لکھا ہوتا ہے ’’ازراہ کرم مذہبی بحث کرنے سے اجتناب کریں۔‘‘ یہ صورت حال عالمی ہدایت اور منصب دار دین‘ اسلام کے ماننے والوںکے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ وہ بھی ایسے ملک میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ اس صورت حال سے غیر بھی سوئے استفادہ کرتے ہیں اور معاملہ یہاںتک پہنچ چکا ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ خطرہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ایسے انتہا پسند عناصر کے ہاتھ آجائے گی۔ پاکستان میں دہشت گردی کا ہر واقعہ اسلام اورپاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔

یہ ساری صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے اہل درد اور اہل فکر و دانش سر جوڑ کر بیٹھیں، گہرے غور و فکر اور بحث مباحثے کا آغاز کریں اور اس بھنور سے پاکستان کی کشتی کو نکال لے جانے کی کسی حکمت عملی کی نشاندہی کریں۔

(اداریہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘۔ اسلام آباد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*