حسینہ بیگم نے بتایا کہ ’’مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے سے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا تھا۔ شہر میں مجموعی طور پر خوف کا ماحول بن چکا تھا۔ مارچ کے وسط تک غیر بنگالیوں کے لیے ان کے دل میں پائی جانے والی نفرت نے نیا اور سنگین رخ اختیار کیا۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا شروع کردیا۔ ہمارے علاقے میں کئی غیر بنگالی افراد کو انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ میں نے دونوں بیٹوں کو ہدایت کی کہ وہ قریبی گاؤں میں قابل اعتماد بنگالی دوستوں کے گھر رک جائیں اور جب تک حالات بہتر نہ ہوں، باہر نہ آئیں۔ میرے شوہر کے ایک وکیل دوست، ان کی دو بیٹیوں اور بھائی نے ہمارے گھر پناہ لی۔ ان کا مکان شہر کے اُس حصے میں تھا، جہاں غیر بنگالیوں کے خلاف شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی اور تشدد بھی انتہائی درجے تک پھیل چکا تھا۔ ہم نے سنا کہ ۲۴ مارچ کو باغی ہمارے علاقے کو نشانہ بناکر قتل و غارت کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں۔ میں بہت خوفزدہ ہوئی کیونکہ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ باغی غیر بنگالی نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہاں میرے شوہر کے وکیل دوست کی دو جوان بیٹیاں بھی پناہ لیے ہوئے تھیں۔ مجھے ان کے حوالے سے بہت فکر لاحق تھی۔ شوہر سے مشورہ کرکے میں نے آنگن میں پانی کے زیر زمین ٹینک کی چھت پر گھاس پھوس ڈالی، لڑکیوں کو اس میں بٹھایا اور اوپر سے کیلے کے پتے وغیرہ ڈال دیے۔ یہ اہتمام اس لیے تھا کہ گھر پر حملہ ہو تو باغی یہ سمجھیں کہ آنگن میں کچرا بھرا ہوا ہے۔ ہم نے لڑکیوں کو ہدایت کردی کہ جب تک کوڈ ورڈ سنائی نہ دے، انہیں اس ڈھیر سے باہر نہیں نکلنا۔ کیمو فلاج اس قدر پختہ اور بے داغ تھا کہ وکیل صاحب بھی اندازہ نہ لگا سکے کہ ان کی بیٹیاں کچرے کے ڈھیر میں چھپی ہوئی ہیں۔‘‘
’’جیسا کہ ہم نے سن رکھا تھا، ۲۴ مارچ کی رات باغیوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا اور میرے شوہر، ان کے وکیل دوست اور ان کے بھائی کو لے گئے۔ میں گڑگڑاتی، التجائیں کرتی رہ گئی۔ ایک باغی نے بڑی بے دردی سے میرے گھٹنے پر لاٹھی ماری۔ پھر انہوں نے پورے گھر کی تلاشی لی اور سارا قیمتی سامان لے گئے۔ میرے شوہر، ان کے وکیل دوست اور ان کے بھائی کو علاقے کے دیگر غیر بنگالیوں کی طرح دریا کے کنارے بنائے ہوئے عقوبت خانے کی طرف لے جایا گیا۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولنے میں دیر لگائی تو انہوں نے دروازے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ باغی اندر آئے اور پوچھا کہ وکیل کی بیٹیاں کہاں ہیں۔ میں نے بتایا کہ وہ تو یہاں نہیں ہیں۔ انہیں یقین نہ آیا۔ انہوں نے پھر پورے مکان کی تلاشی لی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی نظر اُس واٹر ٹینک پر نہیں پڑی جسے ہم نے کچرے کے ڈھیر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ باغیوں کے جانے کے بعد میں نے دو میزیں رکھ کر گھر کے دروازے اچھی طرح بند کردیے تاکہ کوئی اندر داخل نہ ہوسکے۔‘‘
’’رات کو میں نے واٹر ٹینک کے پاس جاکر لڑکیوںکو چاول اور پانی دیا۔ ان دونوں لڑکیوں نے یہ صعوبت بہت اولو العزمی سے جھیلی۔ اس کیمو فلاج میں وہ کم و بیش ایک ہفتہ رہیں۔ ۱۰؍اپریل کو علاقے میں اللہ اکبر کی صدا گونجی۔ پاکستانی فوج کے جوان علاقے میں داخل ہوئے اور وہاں موجود تمام غیر بنگالیوں کی سلامتی یقینی بنائی۔ لڑکیاں ٹینک سے باہر آئیں تو بھوت جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔ فوجی جوانوں کے ساتھ مل کر میں نے اپنے شوہر، ان کے وکیل دوست اور ان کے بھائی کو بہت تلاش کیا مگر ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ ہم سمجھ گئے کہ باغیوں نے دریا کے کنارے قائم عقوبت خانے میں انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ہوگا۔ ہم نے فوجیوں کو ان غنڈوں کے بارے میں معلومات دیں جنہوں نے ہمارے علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا مگر ان کا بھی کچھ پتا نہ چلا کیونکہ وہ ممکنہ طور پر بھارت بھاگ گئے تھے۔‘‘
چالیس سالہ لاڈلی مسرور کے شوہر مبین عالم دیناج پور ریلوے اسٹیشن کے واچ اینڈ وارڈ ڈپارٹمنٹ میں تعینات تھے۔ لاڈلی مسرور نے مارچ ۱۹۷۱ء کے بھیانک حالات اِن الفاظ میں بیان کیے: ’’قاتلوں کے ایک گروہ نے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو رات نو بجے ہمارے علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے ہمارے گھر کا مقفل دروازہ توڑ کر میرے شوہر کو قابو میں کرلیا۔ میرے شوہر کو رسیوں سے جکڑ کر انہوں نے لوہے کی سلاخ سے زد وکوب کیا اور ہمارے گھر سے تمام قیمتی اور کارآمد سامان لوٹ لیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرے بچے رونے لگے۔ میں نے ان کے سامنے گڑگڑاکر درخواست کی کہ میرے شوہر کی جاں بخشی کردیں مگر وہ ہنستے رہے۔ پھر انہوں نے میرے شوہر کو باہر گلی میں گھسیٹا، جس سے ان کے جسم سے خون بہنے لگا۔ میں نے پھر اُن سفاک درندوں سے رحم کی بھیک مانگی، جس پر ایک غنڈے نے میرے سر پر لوہے کی سلاخ دے ماری۔ میں گر پڑی۔ انہوں نے علاقے کے تمام غیر بنگالی مردوں کو قطار میں کھڑا کیا اور پھر اسلحے کے زور پر دریا کے کنارے قائم عقوبت خانے کی طرف چلنے کا حکم دیا۔ یہ آخری موقع تھا، جب میں نے اپنے شوہر کو دیکھا۔ جب وہ میرے شوہر کو گھسیٹ کر قتل کے لیے لے جارہے تھے، تب انہوں نے چِلّاکر کہا کہ اللہ پر بھروسا رکھو اور بچوں کا خیال رکھنا‘‘۔
’’اُن سفاک درندوں نے ۱۰؍اپریل کو علاقے کی تمام غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو جمع کیا اور دریا کے کنارے واقع عقوبت خانے کی طرف لے چلے۔ وہاں پہنچ کر ہماری حالت غیر ہوگئی۔ مجھ پر شدید خوف سوار ہوا۔ میں کبھی اس بے چھت کے عقوبت خانے کو دیکھتی تھی اور کبھی اپنے بچوں کو۔ ہم کسی بھی وقت موت کے گھاٹ اتارے جاسکتے تھے۔ کئی عورتوں نے شدید خوف کے باعث چیخنا شروع کردیا۔ بعض عورتوں نے اپنے مقتول شوہروں اور دوسرے رشتہ داروں کو شناخت کرلیا تھا۔ ان کی لاشیں ٹکڑوں کی شکل میں بکھری پڑی تھیں اور بعض لاشیں دریا میں تیر رہی تھیں۔ جگہ جگہ خون پھیلا ہوا تھا۔ ہمیں اسلحے کے زور پر عقوبت خانے تک لانے والوں نے اچانک بھاگنا شروع کردیا۔ چند ہی لمحات میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ ہماری مدد کو آن پہنچا تھا۔ پاک فوج کے سپاہی ہمارے لیے رحمت کے فرشتے ثابت ہوئے تھے۔ فوجیوں نے ہمیں سعید پور کے ریلیف کیمپ منتقل کیا۔ وہاں سے فروری ۱۹۷۴ء میں ہم پاکستان منتقل ہوئے‘‘۔
خون اور آنسو جاری ہے