معارف فیچر | 1 نومبر 2014ء
پندرہ روزہ معارف فیچر – جلد نمبر:7 – شمارہ نمبر:21
پندرہ روزہ معارف فیچر – جلد نمبر:7 – شمارہ نمبر:21
نائن الیون کے تیرہ سال بعد امریکی صدر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں نئے دُشمن کے خلاف نیا محاذ کھولا جارہا ہے۔ یہ کوئی ایسا اعلان نہیں تھا جس کی براک اوباما نے توقع کی ہو۔ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ نئی جنگ چھیڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
بنگلا دیش اس وقت شدید بحران سے گزر رہاہے۔ قوم کے جو اہم مسائل ہیں، اگر ان پر اتفاق واتحاد نہ ہو تو قوم کی ترقی ناممکن ہوتی ہے۔ اس لیے میں تمام پارٹیوں اور تمام گروہوں کو یہ کہنا ضروری سمجھتاہوں کہ سب مل کر بنگلا دیش کو ان بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں۔ بحران کے اس دور میں انتشار نہیں، اتحاد چاہیے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں پیچھے مڑکر دیکھنے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنا اور بڑھنا چاہیے
پروفیسر غلام اعظم نے بنگلا دیش کے ایک قید خانے میں آخری ہچکی لی اور اُس سفر پر روانہ ہو گئے، جس پر ایک دن ہر اُس شخص کو جانا ہے، جو اِس دنیا میں آیا ہے۔ بنگلا دیش کی اس وزیراعظم کو بھی کہ جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اس نام نہاد عدالت کے نام نہاد ججوں کو بھی جنہوں نے اس مردِ ضعیف کو ۹۰ سال قید کا حکم یہ کہہ کر سنایا تھا کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ پھانسی کی سزا نہیں دے رہے، رحم کھا رہے ہیں۔
ایک نام نہاد عالمی جرائم ٹربیونل نے ملا عبدالقادر‘ مطیع الرحمن نظامی اور پروفیسر غلام اعظم کو سزائیں سنائیں۔ ایک کی سزائے موت پر عمل ہو چکا ہے۔ دوسرے پر ابھی رکا ہوا ہے۔ یہ پروفیسر صاحب کے جانشین مطیع الرحمن نظامی ہے۔ متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کے آخری ناظم اعلیٰ‘ پروفیسر صاحب کو ۹۰ برس سزائے قید سنائی
مریکی صدر براک اوباما کہتے ہیں کہ آج کی دنیا غیر یقینی ہے، کہیں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں صرف ایک چیز ہے جو غیر تبدل پذیر ہے اور وہ ہے امریکی خارجہ پالیسی۔
ہانگ کانگ کی احتجاجی تحریک،جسے چھتریوں والے انقلاب کا نام دیا جارہا ہے،اس وقت شروع ہوئی جب اگست کے آخر میں چین نے فیصلہ کیا کہ ہانگ کانگ کے لیے چیف ایگزیکٹو کا انتخاب کمیونسٹ پارٹی کے حامیوں پرمشتمل ایک کمیٹی کرے گی۔مظاہرین کا موقف ہے کہ ہانگ کانگ میں حقیقی جمہوریت کا وعدہ پورا کیا جائے، جو حکمراں کمیونسٹ جماعت نے ۱۹۹۷ء میں برطانیہ سے ہانگ کانگ کے حصول کے وقت کیا تھا۔
ہم سنے گاگ میں عبادت کے دوران یہ کہتے ہیں کہ ہم روشنی ہیں، ابدی خیر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں، ہم نے اپنا اصل بھلا دیا ہے، روحانیت کا دامن ہم سے چُھوٹ گیا ہے۔ سچ یہی ہے کہ ہم نے اپنا بہت کچھ اچھا بھلا دیا ہے اور بُرے کا یا بُرائی کا دامن تھام لیا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ساری بُرائیوں اور خرابیوں نے جنم لیا ہے
اس مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم کے ایس نارائنن نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ادارے تعلیم کے فروغ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مگر اس پہلو کو میڈیا اجاگر نہیں کرتا۔ انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ہر حکومت نے اقلیتوں کی تعلیم اور ان کے تعلیمی اداروں کو مدد دینے کا وعدہ کیا لیکن اس پر شاید ہی عمل ہوا۔
وہاں سیکڑوں غیربنگالی عورتیں جمع تھیں۔ چند عورتوں نے قرآن کے نسخے اٹھا رکھے تھے اور باغیوں سے گڑگڑا کر التجا کر رہی تھیں کہ اُنہیں گھر جانے دیا جائے تاکہ وہ اپنے یتیم بچوں کو تلاش کر سکیں۔ ایک باغی نے ایک عورت سے قرآن چھین کر اُس کے چہرے پر ڈنڈا مارا۔ اِس عقوبت خانے میں ہم نے ایک ہفتہ گزارا۔ اس دوران کئی بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے۔
یورپ کے خلاف گیس کا ہتھیار استعمال کرنے سے روس کو بھی اُتنا ہی نقصان پہنچ سکتا ہے، جتنا یورپ کو پہنچ سکتا ہے۔ مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ روس کے اعلیٰ حلقے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ یا غیرسنجیدہ ہیں۔ یورپ میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر شدید سردی کے زمانے میں گیس کی فراہمی رک گئی تو عوام کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ کام کاج ٹھپ ہو کر رہ جائے گا اور لوگ رات کو گھروں میں سو بھی نہیں پائیں گے۔
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes