برین واشنگ مشین سے باہر نکلیے!
اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ جعلی خبریں مسئلہ نہیں ہیں، یا سیاستدان اور پادری کوجھوٹ بولنے کالائسنس مل گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ہرخبرجھوٹ ہے، اور سچ کی ہر تلاش رائیگاں ہے، اور سنجیدہ صحافت اور پراپیگنڈہ میں کوئی فرق ہی نہیں۔ جعلی خبروں کی تہہ میں حقائق اور آزمائشیں پوشیدہ ہیں۔ اس لیے جھوٹی خبروں کورواج سمجھ کر قبول کرنے کے بجائے اسے بڑا مسئلہ سمجھنا چاہیے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مکمل اصلاح کی توقع نہ کریں۔ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ دنیا کی پیچیدگیوں کا انکار کیا جائے۔ کوئی بھی سیاستدان مکمل سچ نہیں بول سکتا، مگر کسی حد تک سچ سے کام لے سکتا ہے۔ چند سیاستدان آج بھی دیگر بہت سے سیاست دانوں سے بہتر ہیں۔ اگرمجھے انتخاب کا موقع دیا جائے تواسٹالن کی نسبت چرچل پر زیادہ بھروسہ کرسکتا ہوں، اگرچہ برطانوی وزیراعظم بھی سچ کے معاملہ میں میعار نہیں۔ اسی طرح، کوئی بھی اخبار تعصبات اور غلطیوں سے پاک نہیں ہوتا۔ مگر چند اخبارات سچ کی تلاش میں دیانت دارانہ کوشش کرتے ہیں جبکہ دیگر برین واشنگ مشین کا کام کرتے ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ تعصبات کو سمجھیں اورمعلومات کے ذرائع کی تصدیق کریں۔ برین واشنگ کے حملوں سے بچیں۔ سچ اور جھوٹ میں پہچان کے دوطریقے میں یہاں واضح کرتا ہوں۔
پہلا اصول یہ ہے کہ قابل اعتماد خبر کے لیے زیادہ پیسہ خرچ کریں۔ اگر آپ خبرمفت میں حاصل کرتے ہیں توممکن ہے کہ یہاں آپ خود پراڈکٹ ہوں۔ فرض کریں ایک ارب پتی آپ کو پیشکش کرے کہ ’میں آپ کو ۳۰ ڈالر مہینہ ادائیگی کرتا ہوں، اس کے بدلے آپ مجھے روزانہ ایک گھنٹے دماغ کی برین واشنگ کی اجازت دیں، مجھے تعصبات اور سیاسی ایجنڈہ دماغ میں اتارنے کی اجازت دیں! کیا آپ یہ پیشکش قبول کریں گے؟ شاید ہی کوئی یہ پیشکش قبول کرے۔ مگر اسی طرح کا ایک ارب پتی یہی پیشکش بلا معاوضہ کرے توآپ کیا کریں گے؟ لاکھوں کروڑوں لوگ کھنچے چلے آئیں گے۔ آپ ہرگزدوسری مثال نہ بنیں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اگر کچھ معاملات غیر معمولی طورپر آپ کو اہم لگیں تومتعلقہ سائنسی معلومات کا مطالعہ کریں۔۔ معروف پروفیسرزکی تحقیق اوراچھی ساکھ والے اداروں کی رپورٹس کا جائزہ لیں۔ یقینا سائنس کی کچھ حدود ہیں،اور ماضی میں یہ بہت سی غلطیاں کرچکی ہے۔ اس کے باوجود سائنسی کمیونٹی صدیوں سے معلومات کا سب سے قابل بھروسہ ذریعہ رہی ہیں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ سائنسی کمیونٹی کس چیز کے بارے میں غلط ہے، یہ بالکل ممکن ہے، مگر وہ کچھ نہ کچھ ٹھوس شواہد مہیا کرتی ہے۔ غیرجانب دار رہنا خاموشی نہیں، یہ اسٹیٹس کو کی حمایت کرنا ہے۔ یقینا یہ بہت اہم ہے کہ ہرمعاملہ کی ممکنہ تحقیق کی جائے۔ اسے فن اور فکشن کے ذریعہ مہارت سے لوگوں تک پہنچایا جائے۔
کیا اس کا مطلب ہے کہ سائنس دان سائنس فکشن لکھنا شروع کردیں؟ یہ کوئی بُرا خیال نہیں۔ فن لوگوں کی رائے ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اکیسویں صدی میں بلا شبہ سائنس فکشن کا کرداربہت اہم ہے۔ یقینا ہمیں اچھی سائنس کی ضرورت ہے، مگر سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے توایک اچھی سائنس فکشن فلم ’سائنس‘ اور ’نیچر‘ رسالے کے مضمون سے زیادہ اہم کردارادا کررہی ہے۔
مستقبل وہ نہیں ہے جو تم فلموںمیں دیکھتے ہو!
انسان دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی جاندار سے زیادہ باہمی تعاون کی صلاحیت رکھتے ہیں،اس تعاون میں فکشن پر یقین کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر، مصور، اور ڈرامہ نگار فوجیوں اور انجینئروں جتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ لوگ جنگوں میں جاتے ہیں تاکہ بڑے بڑے گرجاگھر تعمیر کرسکیں۔ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خدا کے بارے میں نظمیں پڑھتے ہیں، خدا کے بارے میں ڈرامے دیکھتے ہیں، اور خدا کے بارے میں مصوری میں آگاہ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارا سرمایہ دارانہ نظام پریقین ہالی ووڈ فکشن کی صنعت سے تقویت پاتا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیا کی خریداری سے ہم خوش رہیں گے۔ کیونکہ ہم سرمایہ دار جنت کو اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں شاید جدید ترین فنکاری کی صورت سائنس فکشن ہے۔ بہت ہی کم لوگ جدید مشینری یا بائیو انجینئرنگ پر نئے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے بجائے لوگ جدید ٹیکنالوجی، معاشرت، اور معیشت کو فلموں اور ڈراموں کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس فکشن کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر لوگ غلط خیالات اور غلط مسائل کی جانب چلے جائیں گے۔
شاید سائنس فکشن کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ شعور اور ذہانت کو گڈمد کردیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ غیر ضروری طور پر روبوٹس اور انسانوں کے درمیان ممکنہ جنگ پر تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جب کہ درحقیقت ہمیں اُس تنازع سے خوفزدہ ہوناچاہیے جوایلگوریتھم کے سبب طاقتور ہونے والی سپر ہیومن اشرافیہ اور نوع انسان کی عام اکثریت کے درمیان پیدا ہورہا ہے۔ ہمیں مصنوعی ذہانت کے مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔
درحقیقت مصنوعی ذہانت کے بارے میں بننے والی فلمیں حقائق سے بہت دور ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں بننے والی فلم ایکس مشینا میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مصنوعی ذہانت کا ماہر خاتون روبوٹ کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں یہ فلم مصنوعی ذہانت کے خوف میں مبتلا انسان کی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذہین عورت سے خوفزدہ مرد کی کہانی ہے، اور یہ کہ کہیں عورت کی آزادی عورت کی حکمرانی میں ڈھل نہ جائے۔ ایسا ممکن ہی کیسے ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کوئی جنسی شناخت پیدا کی جاسکے؟ اس طرح کا کردار کس طرح روبوٹ سے ادا ہوسکتا ہے؟
باکس میں زندگی بسر کرنا
جدید سائنس فکشن میں ایک تھیم یہ پیش کی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی کا خطرہ دھیرے دھیرے انسانوں پرقابو پانے کی کوشش کررہا ہے۔ دی میٹرکس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ سارے انسان سائبر اسپیس میں قید کردیے جاتے ہیں۔ ایک ماسٹر ایلگوریتھم ہرشے کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے۔ مگر آخرکار انسانوں کے اندر ایک ایسی خودی ظاہرکی جاتی ہے جو ہر ٹیکنالوجی سے محفوظ رہتی ہے، اور دی میٹرکس ایک مصنوعی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔یوں ہیرو ٹیکنالوجی کی قید سے آزاد ہونے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے، اور اپنی اصل دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ سائنس اورٹیکنالوجی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایلگوریتھم گوشت پوست کے انسانوں پرمکمل طورپر قابو پاسکتا ہے۔ لوگ میٹرکس کی طرح کسی ڈبے میں بند رہ کر زندگی گزارنے سے خوفزدہ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ڈبے میں بند زندگی ہی گزاررہے ہیں۔ انسانی معاشرے فکشن کی قید میں ہی ہیں۔ اُن کا دماغ ایک ڈبے میں ہی بند ہے جسے نورل نیٹ ورک چلاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زندگی کا ہر تجربہ ہمارے جسم اور دماغ کے اندر سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ ہم شاید ایک بہت بڑے کمپیوٹرائزڈ نظام ہی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ جوہماری مذہبی، نظریاتی، اور قومی کہانیوں سے تضاد اختیارکرتی ہے۔ مگرہمارے ذہنی تجربات اصل ہوتے ہیں۔تکلیف تکلیف ہے، خوف خوف ہے، اور محبت محبت ہے، چاہے تم میٹرکس کے اندر ہو یا باہر۔
اکثر سائنس فکشن فلمیں پرانی کہانی سناتی ہیں: انسانی دماغ کی مادہ پر فتح۔ اس کہانی کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ روبوٹ پرفتح کے باوجود روبوٹ سے نجات نہیں مل سکتی۔ کیونکہ یہ اسی خطرناک دماغ کی تخلیق ہے جس نے اسے مبینہ طورپر فتح کیا ہے۔ اس دماغ کا خطرہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔
ڈزنی نے دیومالائی کہانیاں سنا سنا کراپنی سلطنت قائم کی ہے۔ اس کی فلموں میں ہیرو مشکلات سے گزرتے ہیں، خطرات کا سامنا کرتے ہیں، آخرمیں اپنی ’خودی‘ تک پہنچ جاتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں، اور اپنے آزاد ارادے سے ہدف پالیتے ہیں۔ مگر روبوٹ کے پاس کوئی آزاد ارادہ نہیں ہوتا، وہ بائیو کیمیکل مکینزم سے چلتا ہے۔ اس کردار کے سفرمیں ہم کہیں روح سے نہیں ملتے۔ کسی خود ی سے ہمارا واسطہ نہیں پڑتا، اورکوئی آزاد ارادہ نظرنہیں آتا۔ مگرڈزنی پھر بھی دنیا بھرمیں ریکارڈ کمائی کرتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ یہ صارف دنیا ہے۔ یہاں کی اعلیٰ قدر مسرت ہے۔ یہاں جس کہانی کا انجام خوشگوار ہو، وہ کامیاب ہے۔
جب لوگ ’انیس سو چوراسی‘ پڑھتے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ جارج آرویل خوفناک خواب جیسی دنیا کی منظرکشی کررہا ہے۔ ایک سیدھا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے، کس طرح اس خوفناک صورتحال سے بچا جاسکتا ہے؟
رجوع
دورِ کشمکش میں تم کیسے جی رہے ہو؟ جب کہ پرانی کہانیاں دم توڑ چکی ہیں، اور کوئی نئی کہانی جگہ لینے کے لیے موجود نہیں۔
تعلیم: قرار صرف تبدیلی کو ہے
انسان مسلسل بے نظیر انقلابات کا سامنا کررہے ہیں، پرانی کہانیاں دم توڑ رہی ہیں، کوئی نئی کہانی منظر پر نہیں ابھررہی ہے۔ ہم کیسے خود کو اور اپنے بچوں کوآنے والی عظیم تبدیلیوں کے قابل بناسکتے ہیں؟ آج پیدا ہونے والی بچی ۲۰۵۰ء میں لگ بھگ تیس سال کی ہوگی۔ اگر سب کچھ اچھا گزرتا ہے تو۲۱۰۰ تک وہ اچھی کامیاب شہری ہوسکتی ہے۔ بات ۲۲۰۰ صدی تک بھی جاسکتی ہے۔ ہم بچوں کوکیا تعلیم دیں؟ ایسی تعلیم جو ۲۰۵۰ء میں اُن کے لیے بقا اور ترقی کا سامان کرسکے۔ وہ کون سی مہارتیں ہیں جواکیسویں صدی میں حاصل کرنا ضروری ہوں گی؟ جوروزگار کا بندوبست کرسکیں گی؟ بدقسمتی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ۲۰۵۰ء میں دنیا کی کیا شکل ہوگی۔ ہم ان سوالوں کے جواب نہیں جانتے۔ یقینا انسان مستقبل کی حتمی پیشگوئی نہیں کرسکتے۔ یہ آج کے دورمیں زیادہ مشکل ہوچکا ہے۔ کیونکہ جیسے ہی ٹیکنالوجی نے ہمیں اس قابل بنایا کہ جسموں، دماغوں اور ذہنوں پرقابو پاسکیں، سب کچھ غیر یقینی سا ہوجائے گا، یہاں تک وہ چیزیں بھی جو ہم اُس وقت تک یقین کے ساتھ کرتے آئے تھے۔ ہزار سال پہلے لوگ جن چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود وہ اتنا ضرورجانتے تھے کہ انسانی معاشرے کے بنیادی خدوخال بدلنے نہیں جارہے۔ یہ واضح تھا کہ اکثر لوگ کسان اور کاشتکارہی رہیں گے۔ حکمران اپنے عملے میں انسانوں کو ہی بھرتی کریں گے۔ انسانوں سے ہی فوجیں بنیں گی بیوروکریسی تشکیل پائے گی۔ بہت ساری چیزوں میں بہت ہی کم تبدیلیوں کا امکان تھا، اوربنیادی تبدیلیوں کا امکان نہ ہونے جیسا تھا۔ ۱۰۱۸ء سے ۱۰۵۰ء کے درمیان بہت کچھ بدلنے والا نہیں تھا۔
مگرآج ہم نہیں جانتے کہ چین یا باقی دنیا ۲۰۵۰ء تک کیا صورت اختیارکرے گی۔ ہم نہیں جانتے کہ لوگوں کے وسائل زندگی کیا ہوں گے، ذرائع آمدن کیا ہوں گے، اورمہارتیں کیا ہوں گی؟ ممکن ہے کچھ لوگ غیرمعمولی طورپر طویل زندگی بسر کریں، اور انسانی جسم میں بھی بے مثال تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔ بائیوانجینئرنگ اوربرین کمپیوٹرکا باہمی تعلق سامنے آسکتا ہے۔ جوکچھ بچے آج کل پڑھ رہے ہیں وہ ممکنہ طورپر۲۰۵۰ تک غیرمتعلق ہوجائے گا۔ اکیسویں صدی میں معلومات کا سیلاب ہے، اورسینسرکا کوئی نظام حائل نہیں ہے، یہ الٹا غلط معلومات پھیلا رہا ہے۔ آج کوئی حکومت اپنے عوام سے معلومات چھپا نہیں سکتی۔ دنیا بھر کے لوگ معلومات سے صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہیں، مگراتنے مختلف ذرائع اور ورژن ہیں کہ سچ تک پہنچنا دشوار ہے۔
ایک ایسی دنیا میں، ایک استاداپنے شاگرد کوسوائے زیادہ معلومات کیا دے سکتا ہے؟ مگروہ تو پہلے ہی شاگرد کے پاس ہرجانب سے آرہی ہے۔ لوگوں کومعلومات کی اہمیت اوراس کی درجہ بندی کا اہل بننے کی ضرورت ہے۔ معلومات کے مختلف ٹکڑے جوڑ کردنیا کوبڑے کینوس میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے ہی بہت وقت ضائع کرچکے ہیں۔ ہمارے لیے معلومات کے عظیم ذخیرے کا جائزہ لینا وقت طلب ہے۔ ہم جو بھی فیصلے لیں گے، وہ آئندہ دہائیوں میں زندگی کے رخ کا تعین کریں گے۔ ہمارا موجودہ تصور جہاں ہی مستقبل کے تصورجہاں تک لے جائے گا۔ اگرموجودہ نسل کا تصور کائنات محدود ہے تواس کا مستقبل بھی الل ٹپ ٹائپ کا ہی کا ہوگا۔
معلومات کے ساتھ ساتھ، اکثراسکول طلبہ کوبہت سی مہارتوں کی تربیت دیتے ہیں: ایکویشن حل کرنا، کمپیوٹرکوڈ لکھنا، ٹیسٹ ٹیوب میں کیمیکل کی شناخت کرنا، اورچینی میں بول چال وغیرکی صلاحیتیں۔ اب جب کہ کچھ اندازہ نہیں کہ دنیا اور روزگارکی منڈی ۲۰۵۰ء تک کیا صورت اختیارکرے گی، ان مہارتوں کی افادیت پرکچھ کہنا مشکل ہوگا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت سوفٹ وئیر انسانوں سے بہتر کوڈ لگا سکتا ہے، اور نئی گوگل ٹرانسلیٹ ایپ آپ کوآسانی سے چینی زبان میں بات چیت کے قابل بناسکتا ہے۔ سب سے زیادہ اہم یہ ہوگا کہ تبدیلی کو کس طور قبول کیا جائے، نئی چیزیں سیکھی جائیں، اوراس غیرمانوس صورتحال میں کس طرح دماغ یکسورکھا جائے۔ ۲۰۴۸ء تک ممکنہ طورپر لوگ سائبراسپیس کی جانب ترک وطن کریں گے۔ جنسی شناختوں کی نوعیت ہی بدل جائے گی۔ کمپیوٹرکے نصب شدہ سینسرنئے تجربات سے دوچار کریں گے۔ شاید وہ وقت آنے والا ہے جب آپ کو اپنے شریک کے انتخاب کے لیے ایلگوریتھم سے تعاون حاصل کرنا پڑے۔
آپ اس منظر نامے کو سنجیدگی سے نہ لیجیے، کوئی بھی اس وقت پیشگوئی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کوئی بھی تخیلاتی منظر نامہ سچ سے بہت دور ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ سائنس فکشن جیسی کوئی صورتحال مستقبل قریب میں منظرپرابھرنے والی نہیں، تویہ غالبا غلط ہوگا۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مستقبل قریب کا منظرنامہ بالکل بھی سائنس فکشن نہیں ہوگا، تویہ یقینا غلط ہوگا۔ کچھ واضح ہو نہ ہو، اتنا واضح ہے کہ بڑی بڑی تبدیلیاں ہمارے انتظارمیں ہیں۔ یہ تبدیلیاں شاید زندگی کا بنیادی ڈھانچا بدل دیں۔ اکیسویں صدی کے وسط میں تیز رفتار تبدیلیاں اور طویل ترین زندگی روایتی معاشرتی ڈھانچوں کو بوسیدہ کردیں گے۔ ’’میں کون ہوں؟‘‘ کا سوال مزید پیچیدگیوں میں پڑجائے گا۔ ممکنہ طورپرذہنی اور اعصابی تناؤ کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔ یوں تبدیلی ہمیشہ ہی پریشان کُن ہی ہوتی ہے۔ ایک خاص عمر کے بعد لوگ تبدیلی بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ نوجوانی کا زمانہ بالخصوص جذباتی، پُرجوش اور خودشناسی کا ہوتا ہے۔ ایک دنیا تمہارے سامنے کھُلتی ہے۔ تجربات کا سیلاب سا آجاتا ہے۔ پچاس سال کی عمرمیں تم کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔ اس مرحلے پرلوگ اپنی شناخت اورتشخص بدلنا پسند نہیں کرتے۔ تاہم اکیسویں صدی میں تم مستحکم شخصیت قائم نہیں رکھ سکتے۔ اگرتم کسی مستحکم شناخت پربضد رہوگے توپیچھے رہ جاؤگے۔ اس کی ایک وجہ توعمرکے دورانیہ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ کیونکہ زندگی کی کئی دہائیاں اس طرح گزرجائیں گی کہ کسی کوآپ کی خبرتک نہ ہوگی۔ تمہیں معاشرتی اور معاشی طورپرحالات سے منسلک رہنے کے لیے اپ ٹوڈیٹ رہنا پڑے گا۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply