جیسے جیسے ماحول کی اجنبیت معمول بن جائے گی، تمہارے ماضی کے تجربات اورساری انسانیت کے تجربات غیرمتعلق ہوجائیں گے۔ انسانوں کوایسے حالات پیش آئیں گے جن کا پہلے کبھی تاریخ میں گزربھی نہ ہوا ہوگا۔ جیسا کہ سپر انٹیلی جنٹ مشین، انجینئرڈ اجسام، ایلگوریتھم جوتمہارے جذبات کنٹرول کریں گے، موسموں کی ہولناک تبدیلیاں، اورہردہائی میں پیشہ بدلنے کی ضرورت حیران کُن ہوگی۔ انتہائی غیرمتوقع صورتحال میں صحیح لائحہ عمل کیا ہوگا؟ جب معلومات کا ایک سیلاب آئے گا توتم کس طرح اس کا تجزیہ کرسکو گے؟ ایک ایسی دنیا میں زندگی کیسی ہوگی جہاں غیر یقینی کی کیفیت عام ہوگی؟ ایسی دنیا میں بقا کے لیے بہت لچکدارذہن، متوازن جذبات لازم ہوں گے۔ اکثرتمہیں ان چیزوں کو فوراً ترک کرنا پڑے گا، جنہیں اب تک تم بہترین جانتے تھے۔ بدقسمتی سے بچوں کویہ سکھانا دشوارتر ہوگا کہ نامعلوم حالات کے لیے خود کو تیارکریں۔ تم حلم اور بردباری کسی کتاب یا لیکچرسے نہیں سیکھ سکتے۔
انسانوں کی ہیکنگ
میں آج کے کسی طالب علم کوکوئی بہترین مشورہ یہی دے سکتا ہوں کہ اپنے سینئیرز پربالکل انحصارنہ کریں۔ کیونکہ اب وہ بھی کچھ جاننے کا دعوٰی نہیں کرسکتے۔ اکیسویں صدی یکسرمختلف حالات کی صدی ثابت ہونے جارہی ہے۔ اب کس پر انحصارکیا جائے؟ ٹیکنالوجی پر؟ مگریہ اور بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی تمہیں اپنے ایجنڈے کی زدمیں لاسکتی ہے۔ عالمی اشرافیہ کا ایجنڈا ہی جدید ٹیکنالوجی کا ایجنڈا ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہوگا کہ تم ٹیکنالوجی کے ایجنڈے کی خدمت میں لگ جاؤ۔ تم نے سڑکوں پرگھومتے وہ زومبیزدیکھے ہیں، جن کے چہرے اسمارٹ فون سے چپکے ہوئے ہوتے ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو یہ ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں؟ نہیں درحقیقت ٹیکنالوجی انہیں استعمال کررہی ہے! کیا پھر تمہیں صرف خود پر بھروسہ کرنا چاہیے؟ یہ بہت اچھا خیال لگتا ہے۔ یہ خیالی دنیا تک ٹھیک ہے مگر حقیقت میں کام نہیں کرتا۔ دراصل اکثر لوگ خود کو نہیں جانتے، آسانی سے بیرونی اثرات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جوآواز ہمارے ذہنوں میں گونجتی ہے وہ کبھی قابل بھروسہ نہیں ہوتی۔ یہ اکثر پراپیگنڈے، نظریاتی برین واشنگ، اور کمرشل اشتہاروں سے آلودہ ہوتی ہے۔ کوکا کولا، ایمیزون، اور بیڈو وغیرہ جانتے ہیں کہ کس طرح تمہارے دل کے تار ہلانے ہیں اور دماغ مائل کرنا ہے۔ کیا تم جانتے ہو تم میں اورمارکیٹنگ ماہرین کے درمیان کیا فرق ہے؟
اب کامیابی کے لیے ہمیں ہزاروں سال پیچھے جانا ہوگا۔۔ فلسفیوں اور پیغمبروں سے مدد حاصل کرنی ہوگی۔ جیسا کہ سقراط نے کہا تھا ’’خود کو پہچانو‘‘۔ آج کا دور انسانوں کی ہیکنگ کی طرف جارہا ہے۔۔۔ بڑی بڑی کارپوریشنز تمہاری ایک ایک حرکت پرنظر رکھنے والی ہیں۔ کیا تم خریدتے ہو؟ کس سے تم ملتے ہو؟ یہ سب اب ہیک ہونے والا ہے۔
زندگی کوئی کہانی نہیں
میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ زندگی کے کیا معنی ہیں؟ مجھے زندگی میں کیا کرنا چاہیے؟ انسان یہ سوال نامعلوم زمانوں سے پوچھتے چلے آرہے ہیں۔ ہرنسل کو نئے جواب کی ضرورت پیش آتی ہے، کیونکہ کچھ ہم جانتے ہیں، اور بہت کچھ نہیں جانتے، چیزیں بدلتی رہتی ہیں(یہ سوال ہمیشہ سے موجود ہیں، اور ان کے جواب بھی ہمیشہ سے موجود ہیں، جو بالکل جامع اور حتمی ہیں۔ یہ جواب علم وحی کہلاتے ہیں۔ جنھیں پہلے انسان حضرت آدم علیہ سلام سے آخری پیغمبرمحمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم تک حجت کے طورپرقائم کیا گیا ہے۔ وحی الٰہی کا اعجاز ہی یہ ہے کہ ہمیشہ کے حالات پرنافذ ہوتی ہیں۔ مغرب اور مسٹر ہراری کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ’علم‘ اور ’معلومات‘ کی نوعیت اور ہیئت گڈمڈ کردیتے ہیں۔ اس لیے انہیں ہردور میں نئے سوال نئے مسائل الجھن سے دوچار کردیتے ہیں حالانکہ انسانوں کو جو مسائل ہمیشہ سے درپیش ہیں، ان کے جوابات بھی ہمیشہ سے موجود ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ’امید‘ کا ہے۔ اللہ رب العالمین نے دنیا میں اچھے اعمال کے اچھے نتائج سے امید دلائی ہے، اور یہ دنیا کے ہرمعاشرے کے لیے کائناتی اصول بن چکے ہیں؛ سچ بولنا، انصاف کرنا، حق ادا کرنا، امانت داری سے کام لینا، اوردیگر فلاحی کام وغیرہ۔ یہ سب انسانوں میں مسلمہ ہیں۔ ان سب پر توجہ دی جائے تو نئے سوالوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ انسانی وجود کے بنیادی سوال ہیں، انہیں ضمنی اور ثانوی مادی اضافوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب انسانوں کا حق ہے کہ انہیں ان سوالوں کے جواب ہمیشہ سے معلوم ہوں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ خالق کائنات کا بندہ بشر ہے۔ اس زندگی کا مقصد خدا کی بندگی ہے۔ اس کی بندگی میں ہی مطمئن زندگی ہے۔)۔ وہ سب کچھ جو ہم جانتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں سائنس کے بارے میں، خدا کے بارے میں، سیاست اور مذہب کے بارے میں؛ آج ہم ان سوالوں کا بہترین جواب کیا دے سکتے ہیں؟
لوگ کس قسم کے جواب کی توقع رکھتے ہیں؟ تقریبا تمام مقدمات میں، جب لوگ زندگی کے معنی پوچھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں اُنہیں کوئی کہانی سنائی جائے۔ نوع انسان کہانی سننے سنانے کا شوقین ہے، نمبرز اور گرافس کے بجائے کہانیوں میں ہی سمجھتا ہے(پروفیسر صاحب کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان حسیات کے بجائے احساسات سے زیادہ کام لیتا ہے۔ مترجم)۔ نوع انسان کائنات کو بھی کہانی کی صورت میں دیکھتا ہے، جہاں اچھے اور بُرے کردار ہیں، جہاں تنازعات اور حل ہیں، اور جہاں سنسنی ہے، اور خوشگوار اختتام ہے(گویا پروفیسر صاحب کو انسانی احساسات اور جذبات کا فطری رجحان محض جھوٹی کہانی لگتا ہے، جو ہمیشہ سے سب کو دھوکا دیتی آئی ہے، مگر پروفیسر ہراری اور اُن کے حسیاتی دانشوروں کا ٹولہ تاریخ میں پہلی بار اس سچائی سے آشکارہوچکا ہے کہ انسان کا احساسات سے کوئی تعلق نہیں، دراصل یہ بندر سے انسان بن گئے ہیں اور نیورونز کے جمع تفریق اورضرب کا گورکھ دھندہ ہیں۔ پروفیسر صاحب کہانی کے رد میں کہانی ہی گھڑ رہے ہیں)۔ جب ہم زندگی کے معنی تلاش کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی کہانی سنائی جائے اور بتایا جائے کہ اس کائناتی ڈرامے میں میرا کیا کردار ہے۔ یہ کردار بتاتا ہے کہ میں کون ہوں اوریہ میرے تجربات اور انتخابات کومعنی مہیا کرتا ہے۔ مسلم کہانی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کی۔ اس کے قوانین بنائے۔ بدقسمتی سے گناہ گار لوگوں نے ان قوانین کی خلاف ورزی کی، اب یہ مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ ان قوانین کو نافذ کریں اور ان کی حکمت عام کریں۔ روزِ قیامت اللہ سب کا حساب لے گا، ہر فرد کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ کامیاب فرد جنت میں جائے گا، ناکام کو دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ یہ عالیشان بیانیہ بتاتا ہے کہ میرا چھوٹا سا مگر اہم کردار اللہ کے احکامات کی تکمیل میں ہے۔ کچھ ایسی ہی کہانیاں دیگر مذاہب سے وابستہ ہیں۔ صہیونیت کی بات کریں، یہ توریت اور انجیل کی مہم جوئیوں سے شروع ہوتی ہے۔ یہودیوں کی دوہزار سالہ جلا وطنی اورمظلومیت کے گرد گھومتی ہے۔ ہولوکاسٹ پرپہنچ کرانتہائی سنسنی خیز ہوجاتی ہے، اور ریاست اسرائیل کے وجود کے ساتھ ہی منزل پالیتی ہے، اور پھر دنیا بھرکے لیے روحانیت اورامن وسلامتی کا پیغام بن جاتی ہے۔ اگر میں صہیونیت کی کہانی پر یقین کروں، تومیرا بنیادی کام یہودی قوم کے مفادات کا تحفظ ہوگا، یہودیوں کا کھویا گیا علاقہ واپس حاصل کرنا ہوگا، اوروفادار یہودیوں کی افزائش نسل کرنا ہوگا۔ کمیونزم کی اپنی کہانی ہے۔ قوم پرستی اپنا قصہ سناتی ہے۔
یہ سب کہانیاں نامکمل ہیں۔ ایک مستحکم شناخت اوربامعنی زندگی کے لیے مجھے دو باتوں کی ضرورت ہوگی۔ پہلی یہ کہ مجھے کوئی اہم کردار دیا جائے، جو میں زندگی میں ادا کرسکوں۔ دوسری بات یہ کہ میرا کردار ماورائی دنیا تک وسعت اختیار نہ کرے بلکہ مجھ تک ہی محدود رہے(پروفیسر صاحب خالصتاً جسمانی اور حسیاتی خواہشوں کے اسیرنظر آتے ہیں، ان کے نزدیک انسان اپنے جسم کی ضروریات سے آگے کوئی وجود ہی نہیں رکھتا، یہ زندگی کے تنگ ترین معنی ہوسکتے ہیں۔مترجم) کامیاب ترین کہانیاں وہ ہوتی ہیں جن میں ہمیشہ ردوبدل کی گنجائش رہے۔
ہم کائنات کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے توجرمن، روسی، اور اسرائیلی قوم پرستی کی کہانیاں یکسر احمقانہ لگتی ہیں، یہ کسی صورت اس عظیم کائنات کا حتمی سچ نہیں ہوسکتیں۔ ایسی کہانی جس میں کائنات کا ذکر نہ ہو، بگ بینگ کی خبر نہ ہو، ارتقاء کا سلسلہ نہ ہو۔ وہ کیسے مکمل یا معقول ہوسکتی ہے(یعنی وہ نظریہ یا عقیدہ جو جدیدسائنس پر ایمان نہیں رکھتا، اُس کا ایمان نامکمل ہے۔ یہاں پروفیسر صاحب سنگین تضاد کا شکار ہیں۔ پہلے کہتے ہیں کہ انسان کی کہانی جسمانی ضرورتوں سے ماورا نہیں ہونی چاہیے اور دوسروں کو کائناتی سچائیوں سے محرومی کا طعنہ دے رہے ہیں)۔
کہانی کوئی نہیں!
لبرل ازم نے تمام کائناتی کہانیوں کا انکار کیا۔ مگر پھر خود ہی ایک کہانی گھڑلی کہ کائنات میں کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں، اس لیے انسان پرمنحصر ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں بامعنی ڈرامہ کرے۔ لبرل دور سے ہزاروں سال پہلے قدیم بدھ مت مذہب میں کائناتی ڈراموں کی نفی کی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ کائنات کے کوئی معنی نہیں۔ نہ ہی انسانی احساسات کا کائنات سے کوئی تعلق ہے۔ جوکچھ بھی ابھر رہا ہے، ڈوب رہا ہے بے مقصد ہے۔ بدھا نے کائنات کی تین بنیادی حقیقتوں کی تعلیم دی، کہ ہر شے مسلسل بدل رہی ہے، کسی شے کو دوام حاصل نہیں، اور کچھ بھی کامل اطمینان بخش نہیں، تم کائنات میں کہکشاؤں میں مشاہدے کروگے، اپنے جسم اوراپنے آپ میں بہت کچھ پالو گے، مگر ایسی کسی شے سے تمہارا واسطہ نہیں پڑے گا جسے دوام حاصل ہو۔ آزمائش اور تکالیف اس لیے پیش آتی ہیں کہ لوگ انہیں سہنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس لیے ہر طرح کی وابستگی اور تعلق کی تکلیف سے آزادی حاصل کرلینی چاہیے۔ ہم کہانیاں گھڑنے کے بجائے اگر آنکھیں بند کرکے گھنٹوں بیٹھے رہیں اور دماغ کو خالی کرلیں توسکون کی اصل حالت میں چلے جائیں گے۔۔ نہ ذہن کچھ گھڑے گا نہ جسم مشکل میں پڑے گا۔
بدقسمتی سے یہ بھی ایک طویل رزمیہ نظم بن جاتی ہے جب آپ آنکھیں بند کیے بیٹھے رہتے ہیں، سانسوں کے آنے جانے کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، یوں یہ بھی سانسوں کی ایک کہانی بن جاتی ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ ساری کثافتیں نکل گئیں، میں کتنا ہلکا پھلکا ہوگیا، میری صحت کتنی بہتر ہوگئی، اورمیری ذات میں ایک روشنی سی پھوٹ پڑی۔ یوں آپ کے پاس اُن لوگوں کا تانتا بندھ گیا، جو خود کو دنیا کی کثافتوں سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یوں نئی ایک کہانی شروع ہوگئی۔ دوسروں کو یہ سمجھانا کہ’’زندگی کے کوئی معنی نہیں‘‘میں بھی ایک معنویت ہے، ورنہ ظاہر ہے اس کی کوئی اہمیت جتائی ہی کیوں جائے؟ بدھ مت کی تاریخ میں اس معنویت کے لیے کشمکش کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں برما کے شاہی خاندان میں بدھ مت کے لیے فخر و مباہت موجود تھی، یہاں تک کہ انہوں نے بدھ مت کے تحفظ کے نام پراقتدار کو قابل جواز بنایا ہوا تھا۔ اب کوئی کس طرح بدھ مت کے محافظوں کو اقتدار سے الگ کرسکتا تھا؟ پھر انہوں نے جنگیں بھی کیں، ظلم وجبر کی بدترین مثالیں بھی قائم کیں۔ آج مسلمانوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز رویہ زندہ مثال ہے۔
اگر اربوں لوگ مستقل ’گیان‘ شروع کردیں، تب بھی اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ دنیا میں مکمل امن اور ہم آہنگی آجائے۔اپنے آپ میں سچ کا مشاہدہ کرنا انتہائی دشوار گزار ہے۔ جوں ہی ہمارا واسطہ کسی کہانی سے پڑے گا، ہم سچ کو مسخ کردیں گے۔
حقیقت کی آزمائش
اگر ہمارے پاس یہ سب کہانیاں نہ ہوں، تب بھی یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ مایوسی ہی مقدر بنے گی۔ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے(اب پروفیسر صاحب خود بھی کہانی گھڑ رہے ہیں، مترجم)۔انسانوں کو جو سب سے بڑا سوال درپیش ہے وہ یہ نہیں کہ زندگی کے کیا معنی ہیں؟ بلکہ یہ کہ ہم تکلیف وآزمائش سے کیسے نکلیں؟ (جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی طرف اشارہ ہے، مترجم)۔ جب آپ ساری کہانیاں رد کردیتے ہیں تو آپ کوسب صاف نظر آنے لگتا ہے، سارے دکھ درد ختم ہوجاتے ہیں(یعنی لذت وعیش پرستی میں پڑکرسب بھول جاتے ہیں۔ مترجم)۔ ہم انسانوں نے دنیا کو فتح کرلیا، اس کے لیے کہانیوں اور عقائد کا شکریہ۔ مگر ہم حقیقت اور تخیلاتی کہانیوں کا فرق بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے اہم چیز آزمائش اور تکلیف ہے۔ ہمیں اس سے نکلنے کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ اس فکر میں گھلنا چاہیے کہ یہ زندگی کیوں ہے؟ اور کیا معنی رکھتی ہے؟ (پروفیسر صاحب انسان کو بنیادی طورپر جانور سمجھتے ہیں اس لیے جسمانی ونفسانی حاجتوں میں جکڑ دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ جانوروں کوقطعی طورپر زندگی کاشعور نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اسے کوئی معنی پہنا سکیں، وہ ایک لگی بندھی جسمانی زندگی بسر کرتے ہیں اورضروریات پرنظر رکھتے ہیں۔ مترجم)۔لہٰذا اگر تم کائنات کا سچ جاننا چاہتے ہوتو اپنی تکلیف کو سمجھو، آزمائشوں پرقابو پاؤ(یعنی یہ مت جانو کہ تم کون ہو، صرف اپنی خواہشات پوری کرتے رہو! مترجم)۔ بس زندگی کا مطلب سمجھنا چاہتے ہوتو اپنی تکالیف کا جائزہ لو، انہیں دور کرو(اپنے آرام و آسائش کا انتظام کرو، مترجم)۔
Leave a Reply