ساری انسانیت آج تہذیب واحد بن چکی ہے۔ لوگوں کے ایک جیسے مسائل ہیں اور ایک جیسے مواقع زندگی ہیں(یہ دعویٰ تہذیب کی تعریف پرپورا نہیں اترتا۔ عالمی معاشی نظام کا جبر، سیاسی سازشیں، اور استعماری ہتھکنڈے ہرگز کسی عالمی تہذیب کے عناصر ترکیبی نہیں ہیں۔ مذہبیات اور سماجیات کے دائرے میں یہ دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے، اورانسانی دنیا کاسب سے بڑا دائرہ مذہبیات اور سماجیات کا دائرہ ہی ہے)۔ پھر کیوں برطانوی، امریکی، روسی اور دیگر گروہ قوم پرستی کی تنہائی میں جی رہے ہیں؟ کیا قوم پرستی کی جانب لوٹنے سے عالمی مسائل کا حل نکل آئے گا؟ یا یہ محض ریت میں سر چھپانے جیسا ہے، جو بالآخرانسانی دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گا؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس دیومالائی کہانی کو رد کرنا ہوگا، کہ قوم پرستی انسان کی فطرت اور نفسیات میں ودیعت ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان مسلسل معاشرتی جانوروں کی سی زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ گروہ سے وفاداری ان کی جین میں نقش رہی ہے۔ تاہم سیکڑوں ہزاروں سال سے انسان اور ان کے انسان نما آباء واجداد چند درجن افرادپرمشتمل گروہی زندگی گزارتے تھے۔ انسانوں کے لیے چھوٹے سے گروہ جیسے قبیلے یا خاندان سے وفاداری نبھانا آسان ہوتا ہے جبکہ لاکھوں کروڑوں اجنبی ہم وطنوں سے ایسی وابستگی قائم کرنا دشوار ہے۔ بڑے بڑے معاشرتی گروہوں کا سلسلہ محض چند ہزار سال پہلے شروع ہوا۔ ارتقائی اصطلاح میں کہا جائے تویہ بس کل کی بات ہے۔ ان بڑے بڑے معاشروں کو استوار کرنے کے لیے طویل اور سخت کوششیں کی گئیں ۔
لوگ بتدریج ایسے گھمبیر مسائل سے دوچار ہوئے جنہیں قبیلے یا گروہ کی قوت سے حل کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے انہیں بڑی قومی اجتماعیت اختیارکرنی پڑی۔ مثال کے طور پر دریائے نیل کے کنارے آباد ہزاروں سال پرانے معاشروں کو لے لیجیے۔ جب بہت کم بارش ہوتی، یا بہت زیادہ بارش ہوتی، دونوں صورتوں میں ہرقبیلے کے لیے الگ الگ سیلاب یا پانی کی قلت سے نمٹنا ناممکن ہوجاتا تھا۔ اس لیے سب مل کرقومی دھارے میں شامل ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کی مدد سے بڑے ڈیم بنائے گئے۔ نہروں کا نظام مستحکم کیا گیا۔ اجناس کے بڑے بڑے ذخائر محفوظ کیے گئے۔ ان سب فوائد کے باوجود ایک قبیلے یا گروہ کے لیے قوم میں ڈھل جانا نہ پرانے دور میں آسان تھا اور نہ ہی آج ہے۔ اس دشواری کو سمجھنا ہو تو آپ اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے کہ ’کیا میں ان سب لوگوں کو جانتا ہوں؟‘۔ میں اپنی بہنوں اور کزن کے نام جانتا ہوں مگر ۸۰ لاکھ اسرائیلی شہریوں کے بارے میں ذاتی طورپر کچھ نہیں جانتا۔ ان سب سے میری وفاداری غیر فطری ہے کیونکہ میرے جنگلی آباء واجداد کی زندگی بالکل بھی ایسی نہیں تھی۔ بس یہ تاریخ جدید کا معجزہ ہے (کہ بندروں کی نوع انسانی اتنی بڑی قومی زندگی اختیار کرگئی)۔ میری ۸۰ لاکھ اسرائیلیوں سے وفاداری کے لیے صہیونی تحریک اور اسرائیلی ریاست کو بہت بڑا پروپیگنڈہ تعلیمی نظام وضع کرنا پڑا۔ صحت ، سلامتی اور فلاح کا نظام گھڑنا پڑا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم پرستی غلط ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ جب قوم پرستی شدت اختیار کرتی ہے، جب یہ قومی عصبیت کا روپ دھارتی ہے۔محض وطن پرستی میں آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی قوم منفرد ہے، بے مثال ہے۔ مگر عصبیت میں آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی قوم بالادست ہے۔ یہیں سے جنگ اور تشدد کے لیے زمین ہموار ہوتی ہے۔ ہرقوم پھر اپنی قوت میں غیر معمولی اضافہ کرتی چلی جاتی ہے اور جنگ کا رجحان شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں قوم پرستی پروان چڑھی مگر ۱۹۴۵ء کے ایٹمی دھماکے نے اس کا توازن بگاڑ دیا۔ اب لوگ ڈرنے لگے کہ قومی عصبیت صرف جنگ تک نہیں لے جائے گی بلکہ ایٹمی جنگ تک لے جائے گی۔ یوں ہمیں ایٹم بم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ معاملہ قومی جنگوں سے باہر نکل آیا اورعالمی برادری تشکیل پانے لگی۔ کیونکہ یہی عالمی برادری نیوکلئیربلا خیزی کا راستہ روک سکتی تھی(یہ تاثر مبنی برانصاف نہیں کہ سرد جنگ کے دوران امن وامان کی صورتحال بہتر تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور سوویت یونین نے پراکسی وار میں تیسری دنیا کو بہت نقصان پہنچایا۔ ممکن ہے دیگر مغربی مستشرقین کی مانند پروفیسر ہراری بھی تیسری دنیا کوکسی شمار میں نہ لاتے ہوں اور نقصان سے مرادصرف ’مغرب ‘کا نقصان لیتے ہوں۔ کیونکہ سرد جنگ میں یورپ اور امریکا کو آنچ بھی نہیں آئی۔ نہ ہی امریکا اور سویت یونین نے براہ راست ایک دوسرے پر ایک بھی گولی چلائی)۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سرد جنگ کے دور میں قوم پرستی پس پشت چلی گئی۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی۔ عالمگیریت ناقابل مزاحمت امکان کے طورپر ابھری۔ مستقبل عالمگیریت کی مٹھی میں نظر آیا۔ تاہم حالیہ سالوں میں واضح ہوا کہ قومی عصبیت کہیں نہیں گئی۔ یورپ، امریکا، بھارت، چین، اور روس کے شہریوں میں قومی عصبیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے (حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں قوم پرستی یا وطن پرستی کبھی بھی ترک نہیں کی گئی)۔ سرمایہ دارانہ عالمگیریت سے خوفزدہ لوگ پھر سے قومی فوائد اور سہولیات سے چمٹ گئے۔ایسی صورتحال میں یہ سوال کلیدی ہے کہ قوم پرستی کی یہ لہر کس طرح عالمگیر مسائل سے نمٹنے میں معاون ہوسکے گی؟
نیو کلئیر چیلنج
۱۹۴۵ء کے بعد ، بہت ہی کم سرحدیں ایسی ہیں، جہاں ننگی جارحیت کے سبب کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ اکثر ریاستوں نے جنگ کو سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنا ترک کیا۔ ۲۰۱۶ء سے شام اور یوکرین سمیت کئی متنازع خطوں میں جنگیں ہوئیں۔ مگر بہت ہی کم لوگ تشدد سے مرے جبکہ موٹاپے نے بہت بڑی تعداد کی جان لی (پروفیسر کا دعویٰ محل نظر ہے، قابل تحقیق ہے۔ مسلمان ریاستوں میں جس قدر قتل عام ہوا ہے، ان کا شمارنہیں کیا گیا)۔ یہ شاید اس دور کی عظیم سیاسی اور اخلاقی کامیابیاں ہیں۔ مگرہم شاید ان کامیابیوں پرقانع ہوکر رہ گئے ہیں۔ مگراب ایک بار پھرامریکا اور روس اسلحے کی دوڑ میں چھلانگ لگاچکے ہیں۔ دونوں قیامت برپا کرنے والی جدید ٹیکنالوجی پرکام کررہے ہیں ، جو دنیا نیست و نابودکرسکتی ہے۔
ایک ایسا عالمی نظام قائم کرنا انتہائی دشوار تھا جو نیو کلیئر خطرے کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑا ہوسکے اور عالمی امن کی ضمانت دے سکے۔ بلاشبہ ہمیں اس عالمی نظام کی ضرورت ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں امریکا کی جگہ چین اوربھارت کو آگے لانا پڑے۔ (چین اور بھارت کی عالمی قیادت کی تجویز زمینی حقائق سے متصادم لگتی ہے)۔ کیونکہ قومی اکائیوں کی جانب لوٹنا دنیا کے لیے جان لیوا جوا ہوگا۔ جوجنونی قوم پرست ’سب سے پہلے میرا ملک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیا وہ اپنے ملک کی انفرادیت عالمی ضمانت کے بغیر قائم رکھ سکتے ہیں؟ نیوکلیئر دور میں یہ سوال اہم ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج
آئندہ دہائیوں میں انسانوں کو ایٹمی جنگ سے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ درپیش ہوگا۔ ہم ماحولیات سے زیادہ سے زیادہ ذرائع زندگی حاصل کررہے ہیں، مگر بدلے میں کثیر فضلے اورزہرلوٹارہے ہیں۔ پانی، مٹی، ماحول کی ترکیب اور ساخت بدل رہی ہے۔ ہم لاکھوں سال سے قائم ماحولیاتی توازن بگاڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر زراعت اور صنعت میں فاسفورس کا بڑی مقدار میں استعمال زہرآلود اثرات مرتب کررہا ہے۔ یہ زہریلا فضلہ دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کو برباد کر رہا ہے۔ ایک کسان جو آئیوا میں مکئی کی کاشت کررہا ہے ، وہ خلیج میکسیکو میں ایک مچھلی کی جان لے رہا ہے۔ قدرتی زندگی، جانور اور پودے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ہزاروں سال سے انسان ماحول کے سیریل کلر ہیں، مگر آج توقتل عام پر اتر آئے ہیں۔ اگر ہم اسی رفتار سے ماحول تباہ کرتے رہے، توبہت جلد زمین پر زندگی کا بہت بڑا حصہ برباد ہوجائے گا۔ اس خوفناک صورتحال میں ’قوم پرستی‘ کی کہاں گنجائش ہے؟ کیا اس ماحولیاتی خطرے کا کوئی قومی جواب ہے؟ کیاکوئی قوم تنہا عالمی موسم کی حدت پرقابو پاسکتی ہے؟
لہٰذا حکومتیں اور کارپوریشنیں عالمی سطح پرموسمی تبدیلی روکنے کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہیں اور انہیں ایسا کرنا چاہیے۔ جب بات موسم کی آجائے توکسی ملک کی انفرادی سلامتی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سب ایک دوسرے کے رحم وکرم پر ہیں۔ ایک کی منفی سرگرمیاں دوسرے پراثر انداز ہورہی ہیں۔ اگر بحرالکاہل کا کوئی چھوٹا سا جزیرہ کاربن کا اخراج صفر بھی کردے، تب بھی دیگر ملکوں کی بے احتیاطی اسے سمندر برد کرسکتی ہے۔ ٹوکیو، شنگھائی، اور ہانگ کانگ کوتباہ کن سیلاب اورطوفانوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جاپان اور چین امریکا اور روس کو کاربن کے اخراج اور دیگر ماحول دشمن اقدامات سے باز رکھیں۔ ایسی صورتحال میں قومی تنہائی کسی بھی ملک کے لیے ایٹمی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ چند ممالک ، جیسے روس سب سے کم متاثر ہوگا کیونکہ اس کے ساحل بہت کم ہیں۔ چین سمندر کی سطح بلند ہونے سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔ جبکہ چاڈ بہت زیادہ درجہ حرارت کے سبب ریگستان میں ڈھل سکتا ہے۔ شمال میں برف پگھلنے سے یہاں کی زندگی آسان ہوسکتی ہے، یہ تجارتی حب بھی بن سکتا ہے۔ عالمی حدت ایک غیر واضح اور غیر متوقع خطرہ ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ مکمل طورپرسمجھا نہیں جاسکتا ۔ تاہم ساحلوں سے محروم ممالک زیادہ محفوظ رہیں گے۔
یہ ہے وہ صورتحال جس میں کسی بھی ملک کی لاتعلقی یا عدم دلچسپی باقی دنیا کے لیے نقصان دہ ہوگی، یہ اس کے اپنے لیے زیادہ خطرناک بات ہوگی۔ امریکا میں قوم پرست یہ تاثردے رہے ہیں کہ موسمی تبدیلی کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں پوری دنیا کوسنجیدہ ہونا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کا چیلنج
بالکل اسی طرح ٹیکنالوجی کے عالمی مسائل سے قومی سطح پر نہیں نمٹا جاسکتا۔ جیسا کے گزشتہ ابواب میں آچکا ہے کہ انفو ٹیک اور بائیو ٹیک کے انضمام سے جومسائل پیدا ہورہے ہیں، وہ عالمی نوعیت کے ہیں۔ ڈیجیٹل آمریت اور عالمی بے کاری کے خدشات قوی ہیں۔ ان چیلنجوں کا قومی دائرے میں کوئی حل نہیں ہے۔ اس معاملے میں انسانوں کو عالمی نوعیت کی مشترکہ کوشش کرنی ہوگی۔ ایٹمی جنگ یا ماحولیاتی تبدیلی انسانی اجسام پراثرانداز ہوسکتی ہے ، جبکہ ٹیکنالوجی انسان کی فطرت میں انتہائی تبدیلی کا سبب ہوسکتی ہے۔ یہ زیادہ تشویش کی بات ہے۔ انسان کی اخلاقی اور مذہبی زندگی میں بھونچال آسکتا ہے۔ مزید یہ کہ لوگ ماحولیاتی تبدیلی اور ایٹمی جنگ کو خطرہ سمجھتے ہیں مگر ٹیکنالوجی کی جانب اُن کا رویہ ملا جلا ہے۔ اگراس معاملے میں تسلیم شدہ عالمی اخلاقیات کا اطلاق نہ ہوا تو ڈاکٹر فرینکسٹائین کے لیے میدان صاف ہوگا۔
ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی مصنوعی ذہانت کی حاکمیت قائم کردے، اور انسان یکسر غائب ہی ہوجائیں۔ ہم ابھی تک بندر نما ہی ہیں۔ اب تک ہم چمپینزی اورنئینڈرتھل کے مشترکہ نوع سے ہی ہیں(پروفیسر ہراری نظریہ ارتقا کے تناظر میں حال اور مستقبل کی تشریح کررہے ہیں، جوقبول عام سے محروم ہے۔ دنیا کی بڑی تہذیبوں میں نظریہ ارتقا کی کوئی تسلیم شدہ حیثیت نہیں ہے)۔ ایک دوصدیوں میں مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی کا اشتراک نئی نوع کی صورت سامنے لاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیلی، روسی، یا فرانسیسی قوم پرستی کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ ہمیں اس معاملہ کو عالمی بلکہ کائناتی سطح پرحل کرنا ہوگا ۔
یہ تینوں مسائل ایٹمی جنگ، موسمی تبدیلی اور ٹیکنالوجی چیلنج مشترکہ طورپر انسانی تہذیب کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ان سب سے انفرادی طور پر نمٹنا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔ جب یہ تینوں ایک بڑے عفریت کی صورت میں انسانی دنیا پراثر انداز ہوں گے، تو حالات کا توازن میں رہنا دشوار تر ہوجائے گا۔ بڑی قوتوں کے درمیان طاقت کا توازن پھر بگڑ سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کوئی نئی جنگی بلا سامنے آسکتی ہے۔ جب تک دنیا قوموں میں بٹی رہے گی۔ کسی عالمی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔
گزشتہ صدیوں میں قومی شناختوں نے قبائلی دائروں سے نکل کرملکی سطح کے مسائل حل کیے۔ اکیسویں صدی میں قومیں سمٹ کر قبائلی نوعیت کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں، کیونکہ یہ اپنے دور کے بہت سے مسائل حل نہیں کرسکتیں۔ ہمیں ایسی نئی عالمی شناخت کی ضرورت ہے، جوعالمی مسائل کی رکاوٹیں دور کرنے میں معتبر و معاون ہو۔ تاہم اب تک ہم قومی سیاستوں میں الجھے ہوئے ہیں۔اس لیے ضرورت ہے کہ قومی سیاست کو عالمی سیاست میں ڈھالا جائے تاکہ مذکورہ مسائل سے نمٹا جاسکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالمی حکومت قائم کردی جائے بلکہ ملکی اور شہری سیاست کی سطح تک عالمی مسائل کا شعورپیدا کیا جائے، اور اُسے اہمیت دی جائے۔
قوم پرست جذبات عالمی مسائل کے حل میں بالکل مددگار نہیں ہوسکتے۔کیا ایسی صورت میں ہمیں عالمی اتحاد کے لیے مذہبی روایات کا سہارا لینا ہوگا؟ سیکڑوں سال پہلے بھی عیسائیت اور اسلام معاملات کوعالمی سطح پر ہی دیکھا کرتے تھے۔ یہ قومی اور ملکی دائرے سے باہرزندگی پرنظر رکھتے تھے۔ مگر کیا اب روایتی مذاہب زندگی سے متعلق رہ گئے ہیں؟ کیا یہ اب بھی نئی دنیا کی صور ت گری کرسکتے ہیں؟ یا یہ محض ماضی کی نشانیاں ہیں، جنہیں دور جدید کی ریاستیں، معیشتیں اور ٹیکنالوجی اپنی مرضی سے چلارہی ہیں(روایتی مذہب کی اثر پذیری ، سماجی گہرائی، اور تہذیبی وسعت کے بارے میں پروفیسر ہراری کی رائے زمینی حقائق کے منافی ہے)۔
Leave a Reply