تاحال، جدید نظریات، سائنسی ماہرین اور قومی حکومتیں انسانوں کے لیے مستقبل کا کوئی قابل عمل وژن دینے میں ناکام ہیں(جدید مغربی نظام کی ناکامی کا اعتراف ہے)۔ کیا ایسا کوئی وژن روایتی مذاہب سے حاصل ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے اس سوال کا جواب قرآن، انجیل، یا ویدوں کے صفحات میں کہیں ہمارا انتظار کررہا ہو۔(سوال معقول ہے)۔
سیکولرحضرات اس بات پر شاید استہزاء کریں یا اظہار تشویش کریں۔ کیونکہ مقدس صحیفے ازمنہ وسطیٰ سے متعلق تو شاید رہے ہوں، مگر مصنوعی ذہانت، سائبر وار فیئر، بائیو انجینئرنگ اورعالمی حدت کے دورمیں یہ مذاہب کس طرح رہنمائی کرسکتے ہیں؟ (یہ سوال قرآن حکیم سے واقفیت کے بعد ممکن نہیں۔ یعنی پروفیسر نوح ہراری نے مغرب کے لگے لپٹے تصورمذہب کویہاں دہرادیا ہے۔ انہوں نے مستقبل کے کسی وژن کے لیے قرآن پرسرسری سی نگاہ بھی نہیں ڈالی)۔ تاہم سیکولر اب تک ایک اقلیت ہی ہیں۔ اربوں انسانوں کی عظیم اکثریت آج بھی قرآن اور انجیل پر ایمان رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ نظریہ ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔ بھارت، ترکی، اور امریکا جیسی کثیرالثقافتی ریاستوں میں بھی مذہبی تحریکیں سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نائجیریا سے فلپائن تک مذہبی دشمنیاں تنازعات کی آگ بھڑکا دیتی ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسلام، عیسائیت اور ہندو مت کس طرح حالات سے متعلق ہوسکتے ہیں؟ کس طرح یہ ہمارے مسائل حل کرسکتے ہیں؟ اگر اکیسویں صدی میں روایتی مذاہب کا کردار سمجھنا ہو، تو ہمیں مسائل کی تین قسموں کا الگ الگ تجزیہ کرنا ہوگا۔
تکنیکی مسائل: مثال کے طور پر، گرم ممالک کے کسان عالمی حدت کی صورت میں قحط سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
پالیسی مسائل: حکومتوں کو عالمی حدت سے بچاؤ کے لیے کیا تدابیر اپنانی چاہییں؟
شناختی مسائل: کیا ہمیں صرف اپنے قبیلے اور ملک کے کسانوں کی فکر کرنی چاہیے؟ یا دنیا کی دوسری جانب بسنے والے کسانوں کے لیے بھی پریشان ہونا چاہیے؟
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، روایتی مذاہب بہت حد تک تکنیکی اور پالیسی مسائل سے لاتعلق نظر آتے ہیں (پروفیسر نوح ہراری نے اس باب ’مذہب‘ کے لیے دیانت دارانہ تحقیق اور مطالعہ نہیں کیا۔ یہ یہاں بالکل واضح ہے کہ مصنف مذہب کے بارے میں صدیوں سے قائم غلط تصورات کو محض دہرا رہے ہیں۔ اسلام زندگی کی ہر پالیسی کے بارے میں ہدایت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مذہب کی ہدایت پرعمل کیا گیا ہوتا، توبے لگام صنعتی تباہ کاری کا امکان ہی پیدا نہ ہوتا، اورعالمی حدت کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ لاتعلقی مذہب کی جانب سے نہیں بلکہ لادین انتظامیہ کی طرف سے ہے۔ اگر مساوات اور حقوق کے لیے مذہب سے رجوع کیا جائے، تو صنعتی دنیا کے اکثرمسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ پروفیسر ہراری نے انتہائی بھونڈی مثالوں سے موازنے کی سعی کی ہے جو خاص طور پر اسلام کے بارے میں ان کے مطالعہ کی کمی واضح کرتی ہے)۔ جبکہ شناخت کے مسائل سے مذہب کا انتہائی گہرا تعلق ہے۔ مگر اکثر معاملات میں مذہب مسائل حل نہیں کرتا بلکہ ان میں اضافہ کرتا ہے۔ لہٰذا، مذہب اکیسویں صدی کے بڑے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ کیا مصنوعی ذہانت کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ انسانوں کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کُن کردار ادا کرے؟ (اسلام قطعی طور پر ایسی کسی اتھارٹی کو قبول نہیں کرسکتا، جو اخلاقیات سے عاری ہو۔ مذہب کا جواب بالکل واضح ہے۔ کسی مصنوعی ذہانت کی انسان کے آگے کوئی وقعت نہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے)۔ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے؟ کیا کام کرنا چاہیے؟ کس سے شادی کرنی چاہیے؟ کیا ان چیزوں کے انتخاب کا اختیار مصنوعی ذہانت کو دینا چاہیے؟ اس حوالے سے اسلام کی کیا پوزیشن ہے؟ یہاں مسلمانوں اور یہودیوں کی کوئی پوزیشن واضح نہیں (مصنف اسلامی تعلیمات سے قطعی طور پر ناواقف نظر آتے ہیں)۔ انسانیت ممکنہ طور پر دو بڑے کیمپوں میں تقسیم ہونے والی ہے۔ ایک وہ جو مصنوعی ذہانت کے اقتدار کا حامی ہوگا اور دوسرا وہ جو اس کی راہ میں حائل ہوگا۔ مسلمان اور یہودی ممکنہ طور پر دونوں کیمپوں میں شامل ہوں گے اور اپنی پوزیشن کو قرآن اور تالمود کی تصوراتی تشریحات میں جواز مہیا کریں گے۔
یقینا کچھ معاملات پر مذاہب شاید سخت مؤقف ہی اختیار کریں اور اُنہیں مبینہ مقدس عقائد اور تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ ۱۹۷۰ء میں لاطینی امریکا کے ماہر دینیات نے لبریشن تھیالوجی کا تصور اپنایاتھا، جس سے یسوع مسیح کی شخصیت میں چی گویراکی پرچھائیاں نظرآنے لگی تھیں۔ بالکل اسی طرح، یسوع مسیح کو عالمی حدت کی بحث میں بھی جگہ دے دی جاتی ہے۔ حالیہ سیاست کی صورتحال کچھ ایسی بناکر پیش کی جاتی ہے جیسے ازلی مذہبی اصولوں پر قائم کی گئی ہو۔ یہ سب کچھ کافی پہلے سے شروع ہوچکا ہے۔ یسوع مسیح کے نام پر، پوپ فرانسس عالمی حدت کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ شاید، ۲۰۷۰ء تک ماحولیات کا سوال اتنا سنگین ہوجائے گا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ ایونجلسٹ ہیں یا کیتھولک۔ یہ کہنے سے قطعی طورپر کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایونیجیلکلز کاربن کے اخراج کے خلاف ہیں یا کیتھولک اس بات پر ایمان لائے ہیں کہ یسوع مسیح نے ماحولیات کے تحفظ کی تبلیغ کی ہے۔ آپ ان کی گاڑیوں تک میں فرق دیکھیں گے۔ ایوینجیلکل گیسولین پر چلنے والی بڑی گاڑیاں استعمال کریں گے جبکہ کیتھولک بجلی سے چلنے والی گاڑیاں چلارہے ہوں گے، جن پر لکھا ہوگا Burn the Planet… and Burn in Hell۔ وہ اس سب کے لیے انجیل کے متن سے اپنے دفاع میں پیراگراف کے پیراگراف تک نکال لائیں گے۔ جبکہ ان کے درمیان فرق سیاسی وابستگی اور سائنسی کلیات کی بنیاد پر ہوگا۔ ان کا یہ اختلاف انجیل کی تعلیمات پر نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے، تومذہب ہمارے عہد کی پالیسیوں پر مباحث میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کررہا (مستشرقین کی مانند پروفیسر نوح ہراری نے بھی مذہب کے کمزورترین حصے ’مسیحیت‘ پر تنقید کی ہے اور اسے عمومیت دے دی ہے۔ یہ مذہب پر تحقیق کا غیر معیاری طریقہ ہے)۔ جیسا کہ کارل مارکس نے کہا تھا کہ مذہب محض ملمع کاری ہے(مذہب کی مخالفت میں سرمایہ دارپروفیسر اشتراکی فلسفی کے ساتھ مل کر ٹھٹھول فرمارہے ہیں)۔
شناخت کے مسائل: ریت پر لکیریں
کارل مارکس نے مبالغہ آرائی کی جب یہ کہا کہ مذہب محض اوپری ڈھانچہ ہے، جس کے اندر طاقتور ٹیکنالوجی اور معاشی قوتیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس طرح اسلام، ہندو مت، اور عیسائیت جدید معاشی نظام پراستوار ظاہری اور آرائشی انتظام ہے۔ لوگ اکثرظاہری حالت پراپنی شناخت وضع کرتے ہیں اور لوگوں کی یہ شناختیں اہم تاریخی قوت ہیں۔ انسان کی طاقت کا انحصار بڑی بڑی گروہ بندیوں میں ہے۔ اس گروہ بندی کے لیے شناختیں گھڑی جاتی ہیں۔ ان شناختوں کا ماخذ تخیلاتی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ان شناختوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہ معاشی ضروریات مدنظر رکھ کر وضع کی جاتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کا انحصار دیو مالائی قصوں پر ہے۔ نازیوں اور کمیونسٹوں کی جانب سے سائنسی بنیادوں پرانسانوں کی نسلی اور طبقاتی شناختوں نے بھی خود کو خطرناک ثابت کیا ہے۔ تب سے سائنس دانوں نے انسانوں کی فطری شناختوں کی وضاحت میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔
لہٰذا، اکیسویں صدی میں مذاہب نہ بارشیں برساتے ہیں۔ یہ بیماریوں کی شفا کا بھی کچھ سامان نہیں کرتے۔ یہ بم بھی نہیں بناتے۔ مگریہ پھر بھی ’ہم‘ اور ’وہ‘ کی شناختوں کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ کس کا علاج کیا ہو، بم کس پر گرایا جائے، یہ طے کرنا چاہتے ہیں۔ عملاً دیکھا جائے، توسنی سعودی عرب، شیعہ ایران اور یہودی اسرائیل میں کچھ زیادہ فرق نہیں (یہ بات درست ہے، مگر اس کی وجہ یکسر برعکس ہے۔ سعودی عرب، ایران اور اسرائیل میں عملاً مماثلت کا سبب مذہب نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام ہے، جس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ مفاد پرست لادینیت ہے)۔ تینوں بیورو کریٹک قومیں ہیں۔ یہ تینوں سرمایہ دار پالیسیوں پر چلتی ہیں۔ یہ اپنے بچوں کوپولیو کی ویکسین دیتی ہیں۔ یہ سب بم بنانے کے لیے کیمیا دانوں اور ماہرین طبیعات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہاں کہیں شیعہ بیوروکریسی، سنی سرمایہ دارانہ نظام اور یہودی ماہرین طبیعات نام کی کوئی چیز نہیں۔ کس طرح پھر لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ منفرد ہیں۔ اُن میں کس طرح یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ کسی ایک گروہ کے وفادار اور دوسرے کے دشمن بن جائیں؟
انسانیت کی ریت پر انمٹ اثرات مرتب کرنے کے لیے مذاہب رسومات، عبادات اور روایات کا سہارا لیتے ہیں۔ شیعہ، سنی اور آرتھوڈکس یہودی مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف عبادات کرتے ہیں، اور مختلف ممنوعات عائد کرتے ہیں۔ یہ مختلف مذہبی رسومات روز مرہ کی زندگی میں تنوع اور رنگ بھردیتی ہیں۔ لوگ بہت مہربان اور سخی ہوجاتے ہیں۔ دن میں پانچ بار مؤذن کی مدھرآواز بازاروں کے شورشرابے سے بلند ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو کچھ دیر کے لیے زندگی کی مصروفیات میں سکون کے چند لمحات میسر آتے ہیں، وہ خود کوکچھ دیر کے لیے ابدی سچ سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ اُن کے ہندو پڑوسی بھی کچھ ایسے ہی مقاصد کے لیے پوجا پاٹ کا رخ کرتے ہیں، منتر جنترکرتے ہیں۔ ہرجمعہ کی رات یہودی خاندان خاص ضیافت پر یکجا ہوتے ہیں۔ دوروز بعد، اتوار کو مسیحی گرجاگھروں میں انجیل کی آیتیں پڑھتے ہیں، کروڑوں مسیحیوں کی زندگی میں امید کی لو جلاتے ہیں۔
دیگر مذہبی روایات دنیا کوبہت بدنما بنادیتی ہیں، اورلوگوں کا رویہ مزید ظالمانہ اورمکارانہ بنادیتی ہیں۔ مذہب کے حق میں کہنے کوبہت کم ہے، مثال کے طورپرعورت سے نفرت یا ذات پات کی اونچ نیچ کولے لیجیے (شاید ہندو مذہب کی طرف اشارہ ہے۔ مذہب کے خلاف دلائل کا یہ اوچھا انداز ہے۔ ہندومت کس طرح اسلام یا عیسائیت کے خلاف حجت ہوسکتا ہے؟)۔ غرض خوشنما ہوں یا بد نما، مذہبی روایات مخصوص گروہوں کو متحد کرتی ہیں اور دیگرگروہوں سے اُنہیں ممتاز کرتی ہیں۔ آپ اگرباہر سے جائزہ لیں، وہ مذہبی روایات جولوگوں کوتوڑتی ہیں حقیرنظرآتی ہیں، جیسا کہ سگمنڈ فرائڈ نے مذاق اڑایا ہے کہ مذہبی لوگوں کے یہ اختلافات ایک طرح کی نرگسیت ہے(سگمنڈ فرائڈ کا حوالہ مصنف کا رجحان واضح کرتا ہے۔ یہ مذہب کے خلاف دلائل کے بجائے ’تصور استہزاء‘ سے کام لے رہے ہیں)۔ مگریہ چھوٹے موٹے اختلافات بہت دور تک جاسکتے ہیں۔ اگر آپ ایک ہم جنس پرست ہیں توایران، اسرائیل اور سعودی عرب میں یہ آپ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ تاہم اسرائیل ہم جنس پرستوں کوقانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں کچھ ربی ایسے بھی ہیں جو دو عورتوں میں شادی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن ایران میں ہم جنس پرستوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں، سزائے موت بھی سنائی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں ۲۰۱۸ء تک ہم جنس پرست تو بہت دورکی بات، ایک عام عورت گاڑی تک نہیں چلاسکتی تھی(پروفیسر نوح ہراری چاہتے ہیں کہ ان کے ہم جنس پرست رجحانات کومذہبی ریاستوں میں فروغ دیا جائے، ان ممالک میں اُن کی مرضی کے قوانین نافذ کیے جائیں، اورہم جنس پرستی جیسی تباہ کن اخلاق باختگی کی اجازت دی جائے، مگر ایسا کیوں کیا جائے؟ کیا یورپ اور لادین دنیا مذاہب کی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے ہیں؟ یا اُن کا رتی بھر بھی احترام کرتے ہیں؟ کیا لادین معاشروں میں حجاب پرپابندی نہیں؟ عورت کی عزت پرحملے نہیں ہورہے؟ سعودی عرب میں عورت کے گاڑی چلانے نہ چلانے کا اسلام سے کیا تعلق؟)۔
جاپان شاید واحد ملک ہے، جہاں مذہبی روایات کی اہمیت زندہ ہے۔ ۱۸۵۳ء میں ایک امریکی بیڑے نے جدید دنیا اورجاپان کے درمیان حائل رکاوٹیں بزور طاقت دور کی تھیں۔ جس کے بعد جاپان نے تیزی سے مغربی جدیدیت اختیارکی۔ چند دہائیوں میں یہ طاقتور بیورو کریٹک ریاست بن چکا تھا، جس کا انحصارسائنس اور سرمایہ دارانہ نظام اور جدید فوجی ٹیکنالوجی پرتھا۔ یہاں تک کہ اُس دور میں جاپان نے چین اور روس کوشکست دی، تائیوان اور کوریا پرقبضہ کیا، اورامریکی بیڑے کو پرل ہاربر میں ڈبو دیا۔ مگر افسوس ہے کہ آج کا جاپان مغربی بلیو پرنٹ کی اندھادھند نقل نہیں کررہا (پروفیسر صاحب کمال کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک جاپان اس لیے ایک اچھا ملک تھا کیونکہ اُس نے جدید مغرب کی غلامی قبول کرلی تھی اور اسی سبب وہ بڑا تباہ کُن بن چکا تھا۔ یعنی مصنف کے نزدیک صرف وہ قوم کامیاب ہے جو مغربی مادی اقدار کے آگے سرجھکادے اور اسے کامیاب نظام کے طورپر اختیار کرلے۔ انتہائی غیر منطقی مطالبہ ہے۔ بے تکی خواہش ہے۔ آج کا جاپان انہیں اس لیے پسند نہیں کہ وہ مغربی جدیدیت چھوڑ کر مذہب سے رجوع کررہا ہے)۔ یہ پھرسے جاپانی شناخت کی بحالی کے لیے سرگرم ہیں۔ اس شناخت کا ماخذ مقامی مذہب ’شنٹو‘ ہے۔ جاپانی ریاست نے ’شنٹو‘ کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ یہ کئی دیوی دیوتاؤں اور روحوں کا مذہب ہے۔ ہرگاؤں اور عبادت گاہ کی اپنی دیوی دیوتا اور رسم ورواج ہیں۔ ایک ایسی قوم جو جدیدیت کے کریش کورس پر ہو، اُس کے لیے مذہبی شناخت اچھا شگون نہیں۔ دانستہ یا نادانستہ، کئی حکومتیں جاپان کی مثال اپنا رہی ہیں۔ جدیدیت اور مذہبی روایات کوساتھ ساتھ لے کر چل رہی ہیں۔ روس میں آرتھوڈکس عیسائیت اور پولینڈ میں کیتھولک عیسائیت نمایاں مثال ہیں۔ کوئی مذہب بظاہر کتنا ہی نامعقول نظر آئے وہ جدید ٹیکنالوجی اپنا رہا ہے، جدید اداروں پر انحصارکر رہا ہے۔
مذاہب، روایات اور رسمیں تب تک اہمیت کی حامل رہیں گی جب تک بڑے بڑے انسانی گروہ تخیلاتی عقائد پر متحد ومتفق رہیں گے۔ بدقسمتی سے یہ سب انسانوں کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔ مذاہب آج بھی سیاسی طورپرکافی طاقت ور ہیں۔ یہ تیسری عالمی جنگ تک چھیڑسکتے ہیں۔ لیکن جب بات اکیسویں صدی کے مسائل کی ہو تویہ کوئی حل پیش کرتے نظر نہیں آتے۔ گو کہ یہ مذاہب کائناتی اقدار کی بات کرتے رہے ہیں مگر آج کی دنیا میں انہیں صرف قوم پرست ریاست کے استحکام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جوچند درویش صفت مذہبی لوگ کائناتی اقدار کی بات کرتے بھی ہیں، اُن کی کوئی سیاسی وقعت نہیں ہے۔
انسانیت آج واحد تہذیب تشکیل دے رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور ایٹمی جنگ جیسے خطرات درپیش ہیں۔ جنہیں عالمی سطح پرہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں قوم پرستی اور مذہب انسانی تہذیب کومتحارب خیموں میں تقسیم کررہا ہے۔ عالمی مسائل اور مقامی شناختوں کے تصادم سے بہت بڑا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ جوکثیر الثقافتی معاشروں کے لیے بہت بڑا امتحان بن چکا ہے۔
یوپی یونین جواس وعدے پرمستحکم ہوئی تھی کہ لبرل اقدار کو عالم گیربنایا جائے گا،آج زوال کا شکارہوچکی ہے۔ اس زوال کا بنیادی سبب ترقی میں رکاوٹیں اور امیگرشن کے مسائل ہیں۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply