اگرچہ عالمگیریت نے پوری دنیا میں ثقافتی اختلافات بہت حد تک گھٹا دیے ہیں، مگر ساتھ ہی اجنبی لوگوں سے ملاقاتیں آسان ہوگئی ہیں، اورعجیب حالات سے واسطے بھی پڑنے لگے ہیں۔ اینگلو سیکسن انگلینڈ اور انڈین پالا ایمپائر میں بہت فرق تھا جبکہ آج کے بھارت اور برطانیہ میں یہ فرق بہت کم رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ لوگ روزگار، بہتر مستقبل، اور تعلیم کی تلاش میں سرحدیں پار کرتے ہیں، مقامی سیاست میں تارکین وطن کے حوالے سے تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ شناختوں میں تصادم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ یورپ متاثر ہے۔ یورپی یونین اس عزم پر مستحکم ہوئی تھی کہ یونانیوں، ہسپانویوں، جرمنوں اور فرانسیسیوں کے درمیان فاصلے کم کرے گی۔ افریقی باشندوں، ایشیائی باشندوں، اور یورپی اقوام کے مابین یہ ثقافتی خلیج شاید ختم نہ کی جاسکے، اور یہ نااہلی یورپی یونین کوشایدلے ڈوبے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ یورپ ابتدا میں بین الثقافتی ماحول قائم کرنے میں کامیاب رہا، جس کی وجہ سے تارکین وطن کی یورپ میں بھرمار ہوئی۔ شامی تارکین وطن سعودی عرب، ایران، یا روس کی نسبت جرمنی نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جرمنی بھرپور خیرمقدم کرتا ہے، اوربودو باش کی بہترین سہولیات مہیا کرتا ہے، اس حوالے سے اس کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔
تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے یورپی باشندوں میں ملا جلا ردعمل پیدا کیا ہے۔ یورپ کی شناخت اور مستقبل پر تلخ مباحث چھڑگئے ہیں۔ کچھ یورپی مطالبہ کرتے ہیں کہ براعظم کا دروازہ بند کردیا جائے: کیا یہ لوگ یورپ کی بین الثقافتی پہچان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، اور برداشت کی اعلیٰ روایات سے منہ موڑ رہے ہیں؟ یا بڑی تباہی سے بچنے کی معقول توجیح پیش کررہے ہیں؟ جبکہ دیگر کہتے ہیں کہ براعظم کے دروازے پوری طرح سے کُھلے رکھنے چاہییں: کیا یہ لوگ یورپی اقدار سے وفادار ہیں؟ یا یہ یورپ کی غلط توقعات کوبڑھا چڑھا رہے ہیں؟ یہ بحث کبھی کبھی لڑائی میں ڈھل جاتی ہے۔ اس معاملہ کی صراحت کے لیے ضروری ہے کہ ترک وطن کا مسئلہ تین مراحل کی روشنی میں سمجھا جائے۔
اول: میزبان ملک تارکین وطن کوداخلے کی اجازت دے۔
دوئم: اس کے بدلے تارکین وطن لازماً مقامی معاشرے کی اقدارقبول کریں، خواہ اس کا مطلب اپنی روایات اور اقدار ترک کرنا ہو۔
سوم: اگرتارکین وطن مقامی اقدارکوکافی حد تک اپنالیتے ہیں اورمیزبان ملک کے شہریوں جیسے بن جاتے ہیں، یعنی ’وہ‘ سے ’ہم‘ بن جاتے ہیں۔
یہ تین مراحل تین واضح مباحث کوجنم دیتے ہیں۔ چوتھی بحث ان مراحل پرمکمل عملدرآمد کی ہے۔ جب لوگ امیگریشن کے معاملے پران مباحث میں پڑتے ہیں۔ وہ اکثرالجھ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا الگ الگ جائزہ لیا جائے۔
بحث اول: میزبان ریاست تارکین وطن کا خیرمقدم کرے۔ مگروہ ایسا ڈیوٹی سمجھ کر کرے یا مہربان بن کر؟ کیا یہ میزبان ریاست کا فرض ہے کہ ہرکسی کے لیے اپنے دروازے کھول دے یا درست انتخاب سے کام لے، یا پھرتارکین وطن کا راستہ بالکل بند کردے؟ جوتارکین وطن کی میزبانی کے حق میں ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پناہ گزینوں اورغربت کے مارے تارکین وطن کوقبول کرنا ریاست کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ خاص طورپرایک عالم گیردنیا میں یہ ضروری ہے۔ سب انسانوں کی دیگرانسانوں کی طرف اخلاقی ذمے داریاں بنتی ہیں، اور جوان اخلاقیات پرعمل نہیں کرتے وہ انا پرست اور نسل پرست ہیں۔ مزید یہ کہ تارکین وطن کا بہاؤ مکمل طورپر روکنا ممکن نہیں ہے۔ خواہ ہم کتنی ہی دیواریں اٹھادیں اور باڑیں لگادیں۔ مایوس اورپریشان حال لوگ کسی نہ کسی طرح رستہ نکال لیتے ہیں۔ اس لیے یہ بہتر ہے کہ امیگریشن کوقانونی جوازمہیا کیا جائے، اورزیرزمین انسانی اسمگلنگ جیسی لعنت سے بچا جائے۔
امیگریشن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگرآپ مناسب طاقت کا استعمال کریں تو تارکین وطن کومکمل طورپرروکا جاسکتا ہے۔ بدحال پناہ گزینوں کے سوا کسی کے لیے سرحدیں کھولنا اخلاقی ذمے داری نہیں۔ ترکی کی شاید یہ اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ شامی باشندوں کو پناہ دے، مگرسوئیڈن کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ ترکی سے نقل مکانی کرنے والے شامی باشندوں کوقبول کرے (پروفیسرنوح ہراری شام کے جنگی تھیٹرپرنگاہ غلط انداز ڈالے بغیرتعصب زدہ تبصرہ فرمارہے ہیں۔ شام میں یورپ، امریکا، اور روس نے حسب توفیق تباہی مچائی ہے، ظالم آمر بشارالاسد کومکمل تحفظ فراہم کیا ہے۔ امریکا اور روس نے شام کی انسانی آبادیوں پربھرپوربمباری کی، شہر حلب باقاعدہ تباہ کیا گیا۔ شام کی بربادی میں یورپ سمیت پورا مغرب مرکزی مجرم ہے۔ لہٰذا شامی پناہ گزینوں کی بدحالی کی ذمے داری مغرب پر براہ راست عائد ہوتی ہے۔ جبکہ ترکی وہ واحد ملک ہے، جس کا شام کی بربادی میں کوئی ہاتھ نہیں، اس کے باوجود شامی باشندوں کی سب سے کثیرتعداد ترکی میں پناہ گزین ہے، اوروہاں انہیں عزت دی گئی ہے)۔ امیگریشن مخالفین کہتے ہیں کہ ہرفرد کا حق ہے کہ بیرونی حملے سے اپنا بچاؤ کرے چاہے وہ تارکین وطن کی صورت میں ہو۔ سوئیڈن کے لوگوں نے لبرل جمہوریت کے قیام کے لیے بڑی محنت کی ہے، بہت قربانیاں دی ہیں۔ اگرشام کے لوگ لبرل جمہوریت نہیں اپنا سکے تواس میں سوئیڈن کا کیا قصور ہے؟ (پروفیسر صاحب مسلمان پناہ گزینوں کے بارے میں یورپی تعصب نمایاں کررہے ہیں۔ اول تولبرل جمہوریت کوئی معیارنہیں۔ دوئم لبرل یورپ میں مسلمان خواتین کے پردے پرجس طرح حملہ کیا گیا ہے، وہ آمریت اور بادشاہت کے بس کی بات نہیں۔ یورپ اور امریکا نے جمہوریت کی ترویج کے نام پرمسلم دنیا میں جس طرح آمریتوں کی سرپرستی کی ہے، اُس کی بدترین مثال مصرہے جہاں فرعون صفت جنرل السیسی یورپ کی آشیرباد سے جمہورکی رائے کچل چکا ہے۔)
بہت سے ممالک ہیں، جوغیرقانونی تارکین وطن کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، یا انہیں عارضی طورپرقبول کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں سستے مزدور اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، بعد میں یہ ریاستیں ان سستے مزدوروں کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ یہ وہ معاشرے ہوتے ہیں جہاں مقامی باشندوں کا اعلیٰ طبقہ غیر ملکی مزدور طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ جیسا کے قطر اور دیگر خلیجی ممالک میں ہوتا ہے۔ جب تک یہ تنازع حل نہیں ہوتا۔ دیگر ذیلی سوالات کبھی سلجھائے نہیں جاسکتے۔ اس بحث کے دو پہلو ہیں۔ ایک تارکین وطن کے حق میں ہے، دوسرا ان کے خلاف ہے۔ اگر تارکین وطن میزبان ملک میں انتشار اور عدم برداشت کا سبب ہیں، تو بہت جلد لبرل یورپی باشندے اپنی رائے ترک کردیں گے اور امیگریشن کے خلاف ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر تارکین وطن خود کو لبرل ثابت کردیں گے، اور مذہب کی طرف سے خود کوکھلے دل ودماغ کا ظاہر کریں گے، تو امیگریشن کے خلاف دلائل کمزور پڑسکتے ہیں (یعنی مسلمان تارکین وطن اسلام ترک کردیں تو مغرب میں قابل قبول ہیں۔ یہ ہیں لبرل اقدارکے علمبردار، جنہیں آرتھوڈکس یہودی عورت کا سخت ترین پردہ قبول ہے، عیسائی دلہن کا نقاب اور راہباؤں کا اسکارف قبول ہے مگر مسلمان عورت کا پردہ قبول نہیں)۔ تاہم، اس کے باوجود یورپ کے لیے بے مثال قومی شناختوں کا سوال اپنی جگہ رہے گا۔ برداشت عالمی قدر ہے۔ جب تک یورپی ممالک اپنی اپنی قدروں میں تقسیم رہیں گے، امیگریشن کے معاملہ پر کسی واضح پالیسی پر نہیں پہنچ سکتے (یورپ کو اسلامی اقدار کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے)۔ اگر یہ سوال حل ہو جائے تو پچاس کروڑ یورپی باشندوں کے لیے دس لاکھ پناہ گزینوں کو جذب کرنا یا انہیں نکالنا کوئی مسئلہ نہ بنے گا۔
اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقت کا تعین کیا جائے، کہ آیا کتنے عرصہ میں تارکین وطن مقامی معاشرے میں جذب ہوسکتے ہیں؟ اگر اجتماعی گروہوں کی سطح پر دیکھا جائے تو چالیس سال کا عرصہ بہت کم ہے۔ مقامی معاشرے سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ چند دہائیوں میں تارکین وطن کے بڑے گروہوں کو جذب کرسکے۔ ماضی میں بڑی تہذیبوں نے غیر ملکیوں کو آسانی سے جذب کرلیا تھا۔ رومی تہذیب، مسلم خلافت، چینی سلطنت اور امریکی ریاست سب کو غیر ملکیوں کو قبول کرنے میں صدیوں کا عرصہ لگا (یہ غلط بیانی ہے، مسلم اندلس اور بغداد میں عیسائی، یہودی، اور دیگر تہذیبوں کے باشندے روزِ اول سے جذب کرلیے گئے تھے)۔ تاہم ایک نوجوان کے لیے چالیس سال کا عرصہ زندگی پر محیط ہے۔ ایک الجزائری لڑکی جو فرانس میں پیدا ہوئی ہو، جس نے کبھی الجزائر نہ دیکھا ہو اور جو عربی کی نسبت فرانسیسی زیادہ بولتی ہو، اُس سے یہ کہنا کہ وہ واپس الجزائر چلی جائے، کیا یہ مناسب لگتا ہے؟
ان سارے مباحث کی تہہ میں ایک بڑا بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا کچھ ثقافتیں دوسری ثقافتوں سے افضل ہیں؟ یا ساری ثقافتیں یکساں ہیں؟ کیا جرمن یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ شامی باشندے کم تر ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں جذب کرنے میں احتیاط ضروری ہے؟
نسل پرستی سے بین الثقافتی ہم آہنگی تک
ایک صدی پیچھے یورپی باشندوں کا یہ خیال تھا کہ وہ کوئی اعلیٰ نسل ہیں، جوباقی نسلوں سے افضل ہیں۔ ۱۹۴۵ کے بعد ایسے خیالات نفرت انگیز قرار دیے گئے۔ نسل پرستی نہ صرف اخلاقی طور پر قبیح سمجھی گئی، بلکہ سائنسی طور پر بے بنیاد قرار پائی۔ ماہرین جینیات نے اس بات کے ٹھوس شواہد مہیا کردیے ہیں کہ یورپی باشندوں اوردیگرنسلوں کے باشندوں میں حیاتیاتی تفریق ناقابل توجہ ہے، بہت ہی خفیف سا فرق ہے۔ تاہم، ماہرین بشریات، ماہرین سماجیات، مؤرخین، ماہرین معاشیات نے بھرپور ڈیٹا جمع کیا ہے، جو انسانی ثقافتوں کے درمیان نمایاں اختلافات واضح کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ثقافتوں کا اختلاف نہ ہوتا تومؤرخین اور ماہرین بشریات کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیوں معمولی سے فرق کے مطالعہ پر سرمایہ کاری کی گئی؟ اگر یہ ثقافتی اختلافات اتنے ہی غیر اہم ہوتے توہارورڈ کے انڈر گریجویٹ کے حوالے سے جوکچھ دریافت کیا گیا ہے، وہ کالاہاری کے شکاریوں پر صادق آنا چاہیے تھا۔ اکثرلوگ تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی ثقافتوں میں اختلافات موجود ہیں۔ ان اختلافات کو کس طرح دیکھنا چاہیے؟ کلچرل ریلیٹوسٹ دلیل دیتے ہیں کہ لوگ مختلف انداز میں سوچ سکتے ہیں مگرہمیں اس گونا گونی کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ سب کی اقدار، عقائد اور اعمال کو یکساں اہمیت دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ ذہنی وسعت حقیقت میں نایاب ہے۔ تمام ثقافتیں یکساں طور پر قبول نہیں کی جاتیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ثقافت سعودی ثقافت کی نسبت غیرملکیوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہے۔ ایک مسلمان کے لیے جرمنی منتقل ہونا آسان ہے، مگر ایک عیسائی کے لیے سعودی عرب منتقل ہونا دشوار ہے۔ یہاں تک کہ ایک شامی پناہ گزین کے لیے جرمنی منتقل ہونا زیادہ آسان ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جرمن ثقافت سعودی ثقافت سے بہتر ہے (پروفیسر ہراری صاحب نے دیگر مغربی مؤرخین کی طرح ’ثقافت‘ کو ’تہذیب‘ کے ساتھ خلط مبحث کردیا ہے۔ جبکہ تہذیب کے موضوع پر بھی باقاعدہ مضمون اس کتاب میں شامل کیا ہے، وہاں بھی یہ ’سقم‘ موجود ہے۔ سعودی حکومت کا طرزِ عمل اسلام کا ترجمان نہیں ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کوئی بھی مسلمان حکومت اسلامی تہذیب کی نمائندہ نہیں۔ اس لیے اسلامی تہذیب کے خلاف حجت بھی نہیں۔ اس کے لیے پروفیسر صاحب کو مسلمان حکومتوں کے بجائے اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے)۔ اس قسم کا ثقافتی فرق درحقیقت نسل پرستی نہیں بلکہ ’کلچرسٹ‘ کا اپنی ثقافت کی حمایت کرنا ہے۔ روایتی نسل پرستی یوں بھی علم حیاتیات کی نئی تحقیق میں زمین بوس ہوچکی ہے۔ جو لوگ نسل پرستانہ باتیں کرتے ہیں اُن کی پشت پرکوئی سائنسی توجیح موجود نہیں۔ ان کی کوئی سیاسی وقعت نہیں۔ لہٰذا اصل مسئلہ ڈی این اے میں نہیں بلکہ ثقافتی وابستگی میں موجود ہے۔ لوگ نسلی تعصب حیاتیاتی فرق کے سبب ظاہرنہیں کرتے بلکہ تاریخی رویے کے طور پر اپناتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ آج کے کلچرسٹ روایتی نسل پرستوں سے شاید بہترثابت ہوں۔ اگرتارکین وطن ہماری ثقافت قبول کرتے ہیں توہم انہیں برابری کی بنیاد پر قبول کرلیں گے۔ بصورت دیگر اُن (تارکین وطن) پراس قبولیت کے لیے شدید دباؤ ہوگا۔ آپ کسی کالے کو اس لیے مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہ اپنا رنگ گورا کرلے۔ مگر افریقیوں اور مسلمانوں کو اس بات کا ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں کہ وہ مغربی ثقافت کی اقدار کیوں قبول نہیں کرتے؟
کلچرازم اختلافات کی سائنسی بنیادیں نسلی تفاوت کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہیں۔ علوم بشریات اور سماجیات کے ماہرین ثقافتی اختلافات کی اہمیت نہیں جھٹلا سکتے۔ تاہم، ہم کلچرسٹ کے سارے دلائل قبول نہیں کرسکتے۔ اکثر کلچرسٹ کہتے ہیں کہ تین مسائل انہیں درپیش ہیں۔ پہلا الجھاؤ مقامی بالادستی اور معروضی بالادستی میں امتیاز کا ہے۔ برداشت اور عدم برداشت کا تعین کرنا دشوار ہے۔ ثقافت سے ہماری کیا مراد ہے؟ کیا اسلامی ثقافت ساتویں صدی کے جزیرہ نما عرب کی ثقافت ہے؟ یا سولہویں صدی کی سلطنت عثمانیہ کی ثقافت ہے؟ یا اکیسویں صدی کے پاکستان کی ثقافت ہے؟ ثقافت جانچنے کا کیا طریقہ حتمی ہے(پروفیسرہراری یہاں تسلیم کرتے ہیں کہ اُن پرتہذیب اور ثقافت کا فرق واضح نہیں)؟ اگرہم مذہبی اقلیتوں کے بارے میں برداشت کی بات کریں توسولہویں صدی کی سلطنت عثمانیہ کی ثقافت اپنے دور کے مغربی یورپ کی ثقافت سے بہت زیادہ اعلیٰ وارفع تھی۔ اگرہم آج کے طالبان والے افغانستان کا موازنہ آج کے ڈنمارک سے کریں، توہم بالکل مختلف نتیجے پر پہنچیں گے۔ لہٰذا ترک وطن پالیسی کے مخالفین کوفاشسٹ کہنا آسان نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح امیگریشن کے حامیوں کے لیے ’ثقافتی خودکشی‘ کی اصطلاح استعمال کرنا بھی دشوارہے۔
اس وقت یہ واضح نہیں کہ یورپ درمیان کی کون سی راہ اختیارکرسکتا ہے۔ جس میں تارکین وطن کوجذب کرنا اور مقامی اقدارکا تحفظ بہ یک وقت ممکن ہوسکے۔ اگریورپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکا، توپوری دنیا میں یہ طریقہ رائج کیا جاسکے گا۔ اگر یورپی فارمولا ناکام ہوتا ہے، توواضح ہوجائے گا کہ لبرل اقدار بین الثقافتی تنازعات حل نہیں کرسکتیں، اور نہ ہی انسانیت کو متحد کرسکتی ہیں۔ ایسا ہونا بدقسمتی ہوگا، کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ دہشت گردی انسانیت کے کمزور حصے کا بڑا ہتھیار ہے (غیر منطقی بات ہے۔ کمزور طبقہ مظلوم ہوسکتا ہے دہشت گرد نہیں۔ دہشت گردی صرف طاقتور قوتوں کا ہتھیار ہے۔ پہلی بار ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح انقلاب فرانس میں استعمال ہوئی، جن کے لیے استعمال ہوئی وہ ہر گز کمزور طبقہ نہیں تھا)۔
جنگ: انسانی حماقت کو کبھی حقیر نہ جانو
آخری چند دہائیاں انسانی تاریخ کا پرامن ترین دور ہے۔ ابتدائی زرعی معاشروں کی مجموعی آبادی کا پندرہ فیصد جنگ وتشدد میں مارا جاتا تھا۔ مگربیسویں صدی میں یہ شرح پانچ فیصد پرپہنچی اور آج ایک فیصد پرآگئی ہے۔ (گمراہ کُن مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ بیسویں صدی انسانی تاریخ سب سے زیادہ ہلاکت خیز دور کہلاتا ہے، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی خونریزی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں پروفیسر صاحب الفاظ کا گورکھ دھندہ کررہے ہیں۔ زرعی دور کی وضاحت کے بغیر پندرہ فیصد اموات کی شرح پیش کردیتے ہیں، یعنی زرعی دور کی کُل آبادی پچاس لاکھ تھی، اُس کا پندرہ فیصد ساڑھے سات لاکھ نفوس بنتے ہیں۔ جبکہ بیسویں صدی کی چھ ارب آبادی کا پندرہ فیصد ۹۰ کروڑ بنتا ہے۔ یقینا بیسویں صدی میں ۹۰ کروڑ انسان جنگوں میں نہیں مارے گئے، پھر کتنے مارے گئے؟ تیس کروڑ انسان بیسویں صدی کی جنگوں میں مارے گئے، یہ اعداد و شمار بھی اصل سے بہت کم ہے۔ آخری دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ۹۰ کی دہائی میں بوسنیا اور الجزائر کا قتل عام، کشمیر و فلسطین کا قتل عام، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دس پندرہ لاکھ عراقی مسلمانوں کا قتل عام، افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام، دیگر بے حساب قتل عام وہ ہیں، جنہیں قابل اعتنا سمجھا ہی نہ گیا۔ پروفیسر صاحب غالباً مغرب میں ہلاکتوں کی شرح پیش کررہے ہیں، جو ظاہر ہے نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ پرامن ترین دور کا دعویٰ نہ صرف صریحاً جھوٹ ہے، بلکہ سچائی کے برعکس ہے۔)
۲۰۰۸ء کے عالمی مالیاتی بحران سے صورتحال تیزی سے بگڑی، جنگی جنون کا ماحول لوٹ آیا اورفوجی مہم جوئی بہت بڑھ گئی۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ شام کے صحرا میں کوئی چھوٹا سا حادثہ یا جزیرہ نما کوریا میں کوئی احمقانہ حرکت عالمی جنگ چھیڑسکتی ہے۔ ۱۹۱۴ء سے ۲۰۱۸ء کے دوران جنگ کے معاملات میں چند بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ خاص طور پر ۱۹۱۴ء کی جنگ میں عالمی اشرافیہ کے لیے سرمایہ کاری کا بڑا سامان تھا۔ کیونکہ کامیاب جنگیں معاشی مواقع فراہم کررہی تھیں۔ جبکہ ۲۰۱۸ء میں جنگیں خطرناک انواع بن چکی ہیں۔
برطانیہ نے ۱۸۸۲ء میں مصر پر قبضہ کیا اور تل الکبیرکے معرکہ میں صرف ۵۷ فوجی گنوائے، جب کہ آج کسی مسلم ملک پر قبضہ کرنا مغرب کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ دیگر یورپی ملکوں نے برطانیہ کی تقلید کی اور ویتنام، لیبیا اورکانگو میں قدم جمائے۔ اُن کا واحد خدشہ یہ تھا کہ کوئی دوسرا غاصب پہلے نہ پہنچ جائے۔ (پروفیسر صاحب نوآبادیاتی لوٹ مار کو کامیاب مغربی پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک آج کے مسلمان ممالک میں حملہ کرنے کے لیے بڑی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے، شہری آبادیوں کے بڑے بڑے قتل عام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال فوری طشت ازبام ہو جاتی ہے جبکہ نوآبادیاتی دور میں دہائیوں تک غصب کا دھندہ بلا روک ٹوک چلتا رہا تھا۔) یہاں تک کہ امریکا نے بھی اپنی طاقت کا اظہار معاشی کے بجائے عسکری میدان میں کیا۔ ۱۸۴۶ء میں امریکا نے میکسیکو، کیلیفورنیا، نیواڈا، ایریزونا، نیومیکسیکو، کولوراڈو، کنساس، ویامنگ اور اوکلاہوما پرحملہ کیا۔ ٹیکساس سے الحاق کا معاہدہ طے پایا۔ اس جنگ میں ۱۳؍ہزار امریکی فوجی کام آئے۔ ۲۳ لاکھ اسکوائرکلومیٹر علاقہ امریکا میں شامل ہوا۔ (یہاں اس تاریخی حقیقت کا ذکر برمحل ہوگا کہ یورپی غاصبوں نے امریکا کے اصل باشندوں ’ریڈ ایندئینز‘ کے کئی بڑے بڑے قتل عام کیے۔ ’تہذیب‘ کے فروغ کے لیے ہر قتل عام میں ڈیڑھ دو کروڑ ریڈ انڈینز مارے گئے، اُن کی املاک لوٹی گئیں۔ The Gnaddenhutten Massacre، Battle of Tippecanoe، The Creek War، اور Mankato Executions خونریزی کے بڑے واقعات ہیں۔) ۱۹۱۴ء میں واشنگٹن، لندن اور برلن کے اشرافیہ بخوبی جانتے تھے کہ کامیاب جنگی مہم کیا ہوتی ہے اورکتنا مال و زر اس میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ۲۰۱۸ء میں یہ اشرافیہ اس طرز کی جنگ میں مالی فوائد نہیں دیکھ رہی ہے۔ اگرچہ آج بھی تیسری دنیا کے آمر اور غیر ریاستی عناصرجنگی رجحان میں نشوونما پارہے ہیں۔ (عالمی تعلقات عامہ کا عام سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ مغرب کی اشرافیہ مسلم دنیا میں آمریت اور بادشاہت کی پشتیبان ہے۔ استعماریت کی صرف ہیت بدلی ہے، اور اس میں بھی جہاں قتل عام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہاں شام ملبے تلے چلا جاتا ہے، عراق برباد ہوجاتا ہے اور میانمار میں مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح مارے کاٹے جاتے ہیں۔) افغانستان اور عراق میں کھربوں ڈالر کا زیاں سامنے کی حقیقت ہے۔ یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ میں، جودنیا کی جنگی پٹی ہے، علاقائی طاقتیں نہیں جانتیں کہ کامیاب جنگ کس طرح چھیڑی جائے۔ عراق ایران جنگ میں طویل خونریزی سے ایران کوکچھ فائدہ نہ پہنچا۔ جس کے بعد ایران نے براہ راست جنگوں سے گریز کیا۔ ایران نے مالی اور عسکری طور پر عراق سے یمن تک مقامی تحریکوں کے ذریعے حصہ لیا۔ شام اور لبنان میں پاسداران انقلاب کو بھیجا گیا تاکہ اتحادیوں کی مددکریں، مگر وہ براہ راست حملے سے گریزاں ہی رہے۔ اس کے باوجود ایران علاقائی طاقت بن گیا ہے۔ ایران کے دو دشمن عراق اور امریکا جنگ کی دلدل میں پھنسے اور ایران نے فائدے سمیٹے۔ ایسا ہی اسرائیل کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ جنگی حالات کے باوجود اسرائیل ترقی کرتا رہا ہے۔ شام کی جنگ میں ملوث نہ ہونا اسرائیل کی اہم کامیابی ہے۔ اگر اسرائیل چاہتا تو ہفتہ بھر میں دمشق پر قبضہ کرلیتا، مگر اس طرح اسرائیل کیا حاصل کرتا؟ اسرائیلی فوج کے لیے یہ آسان تھا کہ غزہ پر قبضہ کرلیا جاتا اور حماس کا اقتدار ختم کردیا جاتا، مگر اسرائیل نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ تمام عسکری مہارت کے باوجود اسرائیل جانتا ہے کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ (یہاں ’فتح‘ اور ’قبضہ‘ کا فرق واضح ہورہا ہے۔ گوکہ پروفیسر صاحب خود اس فرق سے واقف نظرنہیں آتے۔) امریکا، چین، جرمنی، جاپان اور ایران کی طرح اسرائیل بھی سمجھتا ہے کہ اکیسویں صدی میں کامیاب ترین پالیسی یہ ہے کہ ’پراکسی وار‘ لڑی جائے۔ (کرائے کے دہشت گرد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور دیگرغاصب قوتوں کے لیے پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ داعش اورکرد علیحدگی پسند نمایاں ہیں۔)
جنگ جیتنے کا فن کھویا گیا
اکیسویں صدی میں بڑی طاقتوں کے لیے جنگ چھیڑنا دشوار کیوں ہے؟ پہلی وجہ معیشت کی نوعیت میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں مالی اثاثے مادی تھے۔ اس لیے جنگ جیتنے کا مطلب خود کو مالامال کرنا تھا۔ (مغرب کا تصور ’جنگ‘ صرف لوٹ ماراور غصب پرمبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت کہیں ’فتح‘ کا کوئی امکان پیدا نہ ہوسکا۔) اگر آپ اپنے دشمن کو میدان جنگ میں شکست دیتے تھے، تو اُن کے شہروں کو لوٹ لیتے تھے، اُن کے شہریوں کو غلام بناکر بیچ دیتے تھے، سونے کی کانوں اور گندم کے گوداموں پر قبضے کرلیتے تھے۔ رومیوں نے یونانی اورگال غلاموں کی تجارت سے مادی ترقی کی اور انیسویں صدی میں امریکیوں نے کیلیفورنیا میں سونے کی کانوں پر قبضے کیے ٹیکساس میں مویشیوں کے باڑے چھینے۔ آج کے معاشی اثاثے ٹیکنیکل اور اداراتی نوعیت کے ہیں۔ آپ جنگ لڑکر ’معلومات‘ پرقبضہ نہیں جما سکتے۔ تاہم داعش جیسی تنظیم آج بھی لوٹ مار سے پھل پھول سکتی ہے۔ انہوں نے ۲۰۱۵ء میں عراقی بینکوں سے پچاس کروڑ ڈالر لوٹے۔ امریکا اور چین جیسے ملکوں کے لیے یہ رقم بہت معمولی ہے۔ چین بیس کھرب ڈالرسالانہ جی ڈی پی کے ساتھ ایسی کسی جنگ میں ملوث نہیں ہوسکتا، جہاں محض کروڑوں یا اربوں ڈالر کا فائدہ نظر آرہا ہو۔ امریکا کے خلاف کسی جنگ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چین کے مفاد میں نہیں۔ کیا پیپلز لبریشن آرمی سیلیکون ویلے میں لوٹ مار کرسکتی ہے؟ بلاشبہ ایپل، فیس بک اورگوگل جیسی کارپوریشنز کے اثاثے اربوں ڈالرز کے ہیں، مگر اسے بزور طاقت چھینا نہیں جاسکتا۔ سیلیکون ویلے میں کہیں سیلیکون کی کانیں نہیں ہیں۔
آج کی کامیاب جنگ وہ ہے، جو جیتنے والے کو منافع بخش عالمی تجارت کا اہل بنادے۔ جیسے برطانیہ نے نپولین کی شکست اور امریکا نے ہٹلر کی ناکامی پر کیا تھا۔ تاہم، ملٹری ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں آچکی ہیں، اب وہ پہلے جیسے مالی فوائد ممکن نہیں۔ ایٹم بم نے عالمی جنگ میں فتح کا مطلب اجتماعی خودکشی بنا دیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے بعد بڑی طاقتیں کبھی براہ راست متحارب نہیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ جارج ڈبلیو بُش کے دور میں بھی یہ ممکن تھا کہ بغداد اور فلوجا کو بارود کا ڈھیر بنا دیا جائے، جبکہ عراقی فرانسسکو اور شکاگو پر بمباری کرکے بدلہ لینے کے قابل نہ تھے۔ لیکن اگر آج امریکا کسی ایسے ملک پر حملہ کرے جس میں سائبروار فیئر کی عام سی صلاحیتیں بھی ہوئیں، توجنگ چند منٹوں میں کیلیفورنیا اور الینوائے تک گھسیٹی جاسکے گی۔ Malwares اور لوجک بم ڈیلاس کا فضائی ٹریفک روک سکتے ہیں۔ فلاڈلفیا میں ٹرینوں کا حادثہ کروا سکتے ہیں۔ مشی گن کا الیکٹرک گرڈ ڈھا سکتے ہیں۔
نیوکلیئر ہتھیار اور سائبر وار فیئر انتہائی زیادہ نقصان پہنچانے والی کم منافع بخش ٹیکنالوجیز ہیں۔ آپ ان کے ذریعے ریاستیں تباہ کرسکتے ہیں مگر تعمیر نہیں کرسکتے۔ ہمارے لیے امن کی بڑی ضمانت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں جدید جنگوں کے ’فلسفہ کامیابی‘ سے مانوس نہیں۔ آج کے قوم پرست رہنما ایردوان، مودی، یا نیتن یاہو اونچی آواز میں بیانات تو دے سکتے ہیں مگر جنگ نہیں چھیڑسکتے، اس معاملہ میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا جارہا ہے۔ اگر اکیسویں صدی کے حالات میں کوئی کامیاب جنگ کا فارمولا پالیتا ہے، تو وہ سوائے تباہی وبربادی کے کچھ نہ ہوگا۔
حماقت مارچ
افسوس! اب جب کہ جنگ کوئی منافع بخش کاروبار بھی نہیں رہا ہے، امن کی ضمانت دینا ممکن نہیں۔ ہمیں انسانی حماقت کو کبھی بھی بعید ازامکان نہیں سمجھنا چاہیے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر، انسان خود کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے معاملہ میں اچھنبے کی بات یہ سامنے آئی ہے کہ شکست خوردہ قومیں بے مثال ترقی کرگئیں۔ اُن کی افواج کی مکمل بربادی اور ریاستوں کی تباہی کے بیس سال بعد جرمن، اطالوی اور جاپانی بے مثال دولت کے مالک بن چکے تھے۔ کیوں؟ اس وجہ سے کہ وہ جنگ میں کودے تھے؟ یا لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی وجہ سے ایسا ہوا تھا؟ یہ سب بالکل احمقانہ اندازے ہیں!
تیس کی دہائی میں جاپانی جرنیل، ایڈمرل، اور ماہرین معاشیات اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کوریا، مینچوریا اور چینی ساحل پر قبضے کے بغیر جاپانی معیشت جمود کا شکار ہوجائے گی۔ وہ سب غلط تھے۔ کیونکہ جاپان کی اصل ترقی ہی اُس وقت شروع ہوئی جب سارے اہم علاقے اُس کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ انسانی حماقت تاریخ کے اہم محرکات میں سے ایک ہے۔ سیاستدان، جنرلز اور اسکالرز دنیا کو شطرنج کی عظیم بساط سمجھتے رہے ہیں، جہاں ہر قدم محتاط اندازوں سے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ بات اصولی طور پر ٹھیک ہے۔ بہت ہی کم عالمی رہنماؤں نے ایسا پاگل پن دکھایا ہے کہ بلا سوچے سمجھے مہرے حرکت میں لائے ہوں۔ جنرل ٹوجو، صدام حسین اور کم یونگ ایل نے بہت محتاط اقدام لیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بساط شطرنج سے زیادہ پیچیدہ ہے اور انسانی سمجھ اب تک اسے نہیں پاسکی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معقول رہنما احمقانہ حرکتیں کرتے رہے ہیں۔
ہمیں عالمی جنگ کے خطرے سے کتنا ڈرنا چاہیے؟ یقینا دو انتہاؤں سے بچنا لازم ہوگا۔ ایک جانب یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ ناگزیر نہیں ہے۔ سرد جنگ کا پُرامن خاتمہ ثابت کرتا ہے کہ جب انسان درست فیصلے لیتے ہیں، تو عالمی طاقتوں کے درمیان بھی معاملات پُرامن طور پر طے پاجاتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ سمجھنا بھی نادانی ہوگا کہ آج جنگ ناممکن ہے۔ گوکہ جنگ تباہ کُن ہے مگر انسانی حماقت سے جرم کبھی بھی سرزد ہوسکتا ہے۔ انسانی حماقت کا ایک مؤثر علاج ’عاجزی‘ ہے۔ قومی، مذہبی اور ثقافتی تناؤ اُس وقت تباہ کُن بن جاتے ہیں، جب وہ ’میری قوم، میرا مذہب، اور ’میری ثقافت سب سے افضل‘ بن جاتا ہے۔ ہم کس طرح قوموں، مذاہب اور ثقافتوں کو اُن کے اصل مقام کے حوالے سے حقیقت پسند بناسکتے ہیں؟ اس پرغورکرنا ہوگا۔
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)
Leave a Reply