ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ۹ جولائی کو کابینہ کے ناموں کا اعلا ن کر دیا ہے۔ یہ نئے نظام کے تحت بننے والی پہلی کابینہ ہے ۔اس نئے نظام میں صدر کے اختیارات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
نئے نظام حکومت کے تحت پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو کوئی وزارت سونپنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہو۔
ذیل میں نئی کابینہ کے حوالے سے معلومات دی گئی ہیں۔
شعلہ بیان وزیر قانون
نئی بننے والی کابینہ میں کئی پرانے نام بھی شامل ہیں جنھیں ان کی پچھلی وزارتوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔ان ہی میں ایک نامSuleyman Soylu کا بھی ہے۔یہ اگست۲۰۱۶ء سے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اس حیثیت میں یہ ترکی میں PKKکے خلاف کاروائیوں کی نگرانی بھی کرتے رہے ہیں۔
وہ اپوزیشن کی کرد جماعت HDP (جس پر PKK سے تعلق کا الزام ہے)کے خلاف تند و تیز تقاریر کرنے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
انھوں نے اپوزیشن کی جماعت CHP پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگایا تھا جس پر انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔۱۰ جولائی کو جب وہ اپنی وزارت کا حلف اٹھا رہے تھے تو CHP کے اراکین اسمبلی احتجاجاََ اسمبلی ہال سے باہر چلے گئے۔
یہاں قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ ایردوان نے MHP کے کسی بھی فرد کو کابینہ میں شامل نہیں کیا ۔جبکہ MHP کے ساتھ اتحاد نے ہی ایردوان کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔
ایردوان کی AK پارٹی اور قوم پرست جماعت MHP نے ۲۴ جولائی کو ہونے والے انتخابات میں آپس میں اتحاد کیا ۔ MHP نے صدارتی انتخابات میں رجب طیب ایردوان کی حمایت کی تھی۔
دونوں جماعتوں نے اعلا ن کیا تھا کہ یہ اتحادپارلیمنٹ میں برقرار رہے گا کیوں کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی جماعت بھی قانون سازی کے لیے درکار اکثریت نہیں رکھتی۔ پارلیمنٹ کی ۶۰۰ نشستوں میں سے AK پارٹی کے پاس ۲۹۰ اور MHP کے پاس ۴۹ نشستیں ہیں ۔
خزانے کی چابیاں داماد کے سپرد
ایردوان کے داماد اور ترکی کے سابق وزیرِ توانائی Berat Albayrak کو ایک نئی اور اہم وزارت سونپ دی گئی ہے۔انھیں وزیر برائے خزانہ اور سرمایہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک نئی وزارت ہے، جس میں سرما ئے اور معیشت سے متعلق تمام اداروں کو ضم کردیا گیا ہے۔ Albayrak ۲۰۱۵ میں پہلی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے اور وزیر ِ توانائی کے عہدے پر فائز ہوئے،اس سے پہلے وہ ایک کاروباری شخص تھے۔وزارت سنبھالنے کے بعد سے وہ طیب ایردوان کے زیادہ تر غیرملکی سرکاری دوروں میں ان کے ساتھ رہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں Albayrak کی تقرری کے منفی اثرات دیکھنے میں آئے۔۹ جولائی کی رات ترک لیرا کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ۵ء۳ سے ۷۱ء۴ فیصد تک کم ہوگئی۔
توانائی کے وزیر کی حیثیت سے انھوں نے ترکی کے Wealth Fund کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔اطلاعات کے مطابق اس فنڈ کا حجم ۲۰۰ بلین ڈالر ہے جس میں مختلف قومی اداروں کا حصہ شامل ہے۔
اب تک یہ فنڈ ترکی کی معیشت پرکوئی خاص مثبت اثرات مرتب نہیں کر سکا ہے۔اب اس فنڈ کا نظام Albayrak کے ہاتھوں میں ہے ۔
ترکی کی نئی کابینہ کو کچھ معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ان میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح،غیر ملکی سرمایہ کاروں کے خدشات،ترک لیرا کی گرتی ہوئی قدر،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بجٹ خسارے جیسے مسئلے شامل ہیں۔یہ تمام مسئلے گزشتہ مہینوں میں مزید سنگین ہو گئے ہیں۔
نئی کابینہ میں وزارتِ تجارت Ruhsar Pekcanکو سونپی گئی ہے جو کابینہ میں شامل دو خواتین میں سے ایک ہیں اور ایک کامیاب کاروباری خاتون ہیں ۔انھیں ترک-عراق، ترک-لیبیا، ترک-اردن اور ترک -شام بزنس کونسل میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔
ٖFatih Donmezکو وزیر توانائی کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔وہ نئی کابینہ میں شامل چند ایک بیوروکریٹ میں سے ایک ہیں ۔
دفاع فوج کے حوالے
ایک حیرت انگیز بات نئی کابینہ میںHulusi Akar کی شمولیت ہے۔ Hulusi Akar ۲۰۱۵ سے ترکی کے چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔اب انھیں وزارت دفاع سونپ دی گئی ہے۔
Hulusi Akar ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔انھیں ترکی میں ہونے والی فوج بغاوت کے دوران یرغمال بنا لیا گیا تھا۔لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ ایک ہیلی کاپٹر کے زریعے وزیر اعظم ہاوس پہنچے۔اس ہی ہیلی کاپٹر میں بغاوت کا حامی فوجی کمانڈر بھی موجود تھا جسے فوراََ ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ترکی کی فوج اور خفیہ اداروں میں موجود ذرائع نے ترک ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ Hulusi Akarکو بغاوت کے روز ہی خبردار کر دیا گیا تھا لیکن انھوں نے اسے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
ناکام بغاوت کے ایک ہفتے بعد ترک صدر ایردوان سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ فوج کے چیف آف سٹاف کو برطرف کریں گے؟انھوں نے جواب میں کہا کہ ہم ابھی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ سفر کے درمیان میں گھوڑا تبدیل نہیں کیا جاتا‘‘۔یہ بیان انھوں نے فوج میں جاری کریک ڈاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیا۔
اس کے بعد سے ایردوان نے اپنے ہر غیر ملکی دورے پر Hulusi Akar کو اپنے ساتھ رکھاہے۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعد Hulusi Akar کے سیکریٹری اور دیگر معاونین سمیت ہزاروں فوجی اہلکاروں کو بغاوت کے الزام میں گرفتار یا برطرف کیاگیاہے۔
جدید ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی چیف آف اسٹاف کو وزیر دفاع کے عہدے پر فائز کیا گیا ہو۔ماضی میں کسی چیف آف اسٹاف کے سیاست میں آنے کی واحد مثالDogan Guresکی ہے جنھوں نے اپنی مدت پوری ہونے کے بعد دائیں بازو کی قوم پرست جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ایک ایسے صدر کے ساتھ جو خود کو قدامت پسند کہتا ہو کسی حاضر سروس چیف آف اسٹاف کا وزیر بننا ترکی میں طاقت کے تبدیل ہوتے ہوئے توازن کا اظہار ہے۔
پُرانے چہرے
نئی کابینہ میں پرانے اور جانے پہچانے چہرے بھی موجود ہیں ۔ان میں ایک وزیر انصافAbdulhamit Gul ہیں جو اس منصب پر جولائی ۲۰۱۷ء سے فائز ہیں ۔ان کے دور میں ہزاروں سرکاری ملازمین کو فتح اللہ گولن کی حمایت کرنے کے الزام میں برطرف کیا گیا۔فتح اللہ گولن کو ۱۵ جولائی کی ناکام بغاوت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
پرانے اراکین میں دوسر ا نام وزیر خارجہ Mevlut Cavusogluکا ہے۔وہ اس منصب پر ۲۰۱۴ء سے فائز ہیں ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے کیوں کہ خارجہ پالیسی کا کنٹرول صدر ایردوان اور ان کے مشیران کے پاس ہوتا ہے۔
ٹیکنوکریٹس کی شمولیت
صدر ایردوان نے نئی کابینہ میں کئی مشہور ماہرینِ تعلیم اور کاروباری ماہرین کو بھی شامل کیا ہے۔تاکہ ان امور میں AKپارٹی کو درپیش مشکلات کو کم کیا جاسکے۔
کابینہ میں ٹیکنوکریٹس کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ صدر ایردوان تعلیم،صحت،سیاحت و ثقافت اور ذراعت و جنگلات کی وزارتوں میں اصلاحات لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
ان افراد کی اکثریت AK پارٹی کی حامی ہے لیکن Professor Ziya Selcuk کی بطوروزیر تعلیم تقرری نے کچھ لوگوں کو سوچ میں ڈال دیا ہے۔کیوں کہ وہ ماضی میں AKپارٹی کی تعلیمی پالیسیوں کی مخالفت کرتے تھے۔
اس کے باوجود Ziya Selcuk ،جو کہ ترکی کے سب سے کامیاب نجی اسکولوں میں سے ایک کے بانی ہیں، ماضی میں بحیثیت مشیر AKپارٹی کی حکومت کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
ٹیکنوکریٹس کے علاوہ صدر ایردوان نے پچھلی حکومت کے بھی ۴ وزرا کو نئی کابینہ میں شامل کیا ہے جنھیں وزارت کا حلف اٹھانے کے لیے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دینا ہوگا۔
ترجمہ: محمد عمید فاروقی
“A closer look at Turkey’s new cabinet”. (“middleeasteye.net”. July 10, 2018)
Leave a Reply