اس وقت بھارت کو ایک ایسے بحران کا سامنا ہے، جس کے لیے کسی پر الزام عائد کرنا انتہائی دشوار ہے۔ معیشت سکڑ گئی ہے۔ حکومت کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرضے لے تاکہ معیشت کا پہیہ تیزی سے گھمایا جاسکے۔ بے روزگاری اور غربت کا گراف بلند سے بلندتر ہوتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے معاملات کو اس طرح الجھایا ہے کہ بہت کچھ واضح ہے، مگر واضح نہیں ہے۔ اس کہانی میں ولن دکھائی نہیں دے رہا۔ معاملات بگڑے ہوئے ہیں، کہانی میں ٹوئسٹ پر ٹوئسٹ آئے جارہے ہیں مگر تمام معاملات کے لیے کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
بھارت کو سابق ادوار میں کبھی اتنی معاشی گراوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنگوں کے زمانے میں بھی معیشت اس طرح نہیں سکڑتی تھی جس طرح اس وقت سکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی معیشت کو سیلابی کیفیت کا سامنا بھی رہا ہے۔ سیلاب کے دوران معاملات کی خرابی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ ادائیگیوں کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ اِسی طور ایرانی انقلاب کے بعد دنیا بھر میں تیل کی منڈی کو جو جھٹکا لگا تھا اُس کے نتیجے میں بھارتی معیشت کو بھی غیر معمولی خسارے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا تھا جسے درست کرنے میں وقت لگا۔
رواں سال ربیع کی فصل اچھی ہوئی ہے۔ کسانوں نے جو کچھ بویا اور جو محنت کی اُس کا پھل خوب ملا۔ دوسری طرف خوراک کے ذخائر جنوری میں ۹ کروڑ ۴۲ لاکھ ٹن تھے، جو ضرورت سے کم و بیش ڈھائی گنا زیادہ تھے۔ صورتِ حال کسی بھی اعتبار سے ایسی نہ تھی کہ پریشان کن قرار دی جاتی۔ جنوری تا مارچ ۲۰۲۰ء کی سہ ماہی کے دوران ۱۳ سال میں پہلی بار ادائیگیوں کا توازن موافق رہا۔ جون ۲۰۲۰ء میں بھی جنوری ۲۰۰۲ء کے بعد پہلی بار تجارتی توازن موافق رہا۔ ۷؍اگست کو زر مبادلہ کے ذخائر ۱۹ء۵۳۸؍ ارب ڈالر تھے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی زر مبادلہ کے ذخائر میں کم و بیش ۶۰؍ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
اب کے معیشت کا سکڑاؤ عجیب ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہیں نہ خوراک کا بحران ہے۔ اور بچتوں کا معاملہ بھی حوصلہ افزا ہے۔ ۳۱ جولائی ۲۰۲۰ء کو قومی بچتیں کم و بیش ۱۷ء۱۴ لاکھ کروڑ روپے تھیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً ۱۱ فیصد زائد تھیں۔ سرکاری سکیورٹیز میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معیشت ڈانوا ڈول ہے۔ لوگوں کو صرف سرکاری بانڈز اور سکیورٹیز پر یقین ہے کہ اُن کی قدر نہیں گھٹے گی۔ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں سرکاری سکیورٹیز محفوظ ترین سرمایہ کاری کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔
کساد بازاری کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ کیفیت پوری معیشت کو کھارہی ہوتی ہے اور کسی پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی خوراک یا ایندھن ذخیرہ نہیں کر رہا ہوتا۔ صارفین پر زائد خرچ کرنے کا الزام بھی عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اس ڈرامے میں ٹوئسٹ پر ٹوئسٹ آتا ہے مگر کوئی ولن دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی آجر پر چھانٹی کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ کساد بازاری میں کوئی بھی معیشتی اصولوں کے خلاف نہیں جارہا ہوتا مگر پھر بھی خرابی بڑھتی جاتی ہے۔ جب صارفین اور پیدا کار دونوں ہی کا اعتماد مجروح ہوچکا ہو تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارتی معیشت خطرناک بحران سے دوچار ہے۔ کروڑوں افراد، عارضی طور پر ہی سہی، بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ آجروں پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اُن میں بھی بہت سے ہیں جن کے کروڑوں روپے ڈوبے ہیں۔ پیداواری عمل موقوف رہنے سے بازار میں سب کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایسے میں الزام تراشی کا کچھ حاصل نہیں۔ جب کوئی ولن ہے ہی نہیں تو الزام کسے دیا جائے۔ یہ تو سسٹم کا معاملہ ہے۔ جن کے پاس کچھ پیسہ ہے وہ خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ بچت کا گراف زیادہ سے زیادہ بلند ہو۔ سرکاری سکیورٹیز سے ہٹ کر کی جانے والی سرمایہ کاری خاصی کم ہے۔ لوگ اچھے وقت کا محض انتظار کر رہے ہیں۔ اچھے وقت کو خود یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشی بحران کیوں کر دور کیا جاسکتا ہے مگر کوئی بھی پہلا قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ صرف حکومت ہے جو کچھ کرسکتی ہے، سرمایہ کاری کا عمل تیز کرکے معیشت کو دوبارہ فعال بناسکتی ہے مگر وہ بھی ممکنہ طور پر دو وجوہ کے باعث ایسا کرنے سے کترا رہی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ امید ہے کہ کورونا کی وبا پوری طرح ختم ہوجانے پر معیشت خود بخود بحال ہو جائے گی۔ یہ امید کتنی طاقتور ہے، اس کا اندازہ کوئی بھی لگاسکتا ہے۔ معاملات کے درست ہو جانے کی امید بہت حد تک بے بنیاد ہے کیونکہ کورونا کی وبا کے شروع ہونے سے بہت پہلے بھی معاشی نمو کی شرح ۴ء۳ فیصد تک تھی جو کسی بھی اعتبار سے حوصلہ افزا نہیں تھی۔ بھارتی معیشت بحران کی زَد میں ہے مگر یہ بحران صرف کورونا کی وبا کا پیدا کردہ نہیں۔ اس وبا کے پھیلنے سے بہت پہلے بھی کاروباری اداروں کا حال اچھا نہ تھا۔ بھارتی معیشت کو کم و بیش ڈیڑھ عشرے سے مالیات کے معاملے میں بھی خسارے کا سامنا ہے۔ ۰۸۔۲۰۰۷ء میں بھی بھارتی معیشت شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب مالیات کے حوالے سے خسارے کا تناسب ڈھائی فیصد سے زائد تھا۔ حکومت کے لیے سرمائے کا اہتمام کرنا اور حاصل شدہ سرمائے کو کاروباری اداروں میں کھپانا ایک بڑا مسئلہ تھا۔
حکومت کے لیے عوام سے قرضے لینا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ چند برس کے دوران حکومت اس معاملے کو کسی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ زر کی افراط و تفریط میں اندرونی قرضوں کا کردار غیر معمولی ہوتا ہے۔ اندرونی قرضوں کا معاملہ گڑبڑ کا شکار ہو تو بیرونی قرضے تلاش کیے جاتے ہیں جو زیادہ خرابی پیدا کرتے ہیں۔ بھارتی معیشت ایک عشرے کے دوران قرضوں کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش میں مصروف رہی ہے۔ نتائج ندارد۔
نریندر مودی کی وزارتِ عظمٰی کے پہلے دور میں خرابیاں زیادہ تھیں، ان کے نتیجے میں معیشت کو سنبھالنا مزید مشکل ہوگیا۔ اب بھی معاملات پوری طرح قابو میں نہیں۔ واجپائی دور میں مالیاتی خسارے کو نصف کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس کے لیے چند ایک انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری اخراجات کو کنٹرول کرنا لازم ہے۔ سود کی شرح مزید گرے گی۔ بینکوں کو ایسا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ قرضے لینے والے برائے نام ہیں۔ لوگوں میں کاروبار کرنے کی خواہش ہے نہ سکت۔ اگر بینک بڑے پیمانے پر قرضے دینے کا اعلان کر بھی دیں تو قرضے حاصل کرکے نیا کاروبار چلانے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد برائے نام ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“A crisis without villains”. (“The Indian Express”. August 18, 2020)
Leave a Reply