میرے مطالعے کے مطابق اقبال کے کلام میں ۶۵ جغرافیائی اصطلاحات ہیں۔ اقبا ل نے ان ہی ملکوں، شہروں، دریائوں، پہاڑوں اور وادیوں کو بہ طور جغرافیائی اصطلاح استعمال کیا ہے جن سے اسلام اقبال کے عہدسے قبل یا اقبال کے عہد تک وابستہ تھا۔ ایسی ہی ایک اصطلاح ’دینوب‘ ہے جو اس مضمون کا موضوع ہے۔
’دینوب‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی درج ذیل شعر ’بال جبریل‘ کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ کے چوتھے بند میں ہے :
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں، کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کو موج، دجلہ و دینوب و نیل
قبل اس کے ’دینوب‘ پر گفتگو کی جائے پہلے شعر میں شخصیتوں سے منسوب دو اصطلاحیں ’کلیم‘ اور ’خلیل‘ آئی ہیں۔ اقبال کے کلام میں شخصیتوں سے منسوب ایک سو پچاس اصطلاحیں ہیںجن میں یہ دو بھی ہیں۔ ’کلیم‘ سے مراد حضرت موسیٰ ہیں۔ آپ کوکلیم یا کلیم اللہ کے القاب سے اس لیے نوازا جاتا ہے چونکہ آپ واحد نبی ہیں جنہیں اللہ نے ایک بار نہیں بلکہ دوبار شرف مکالمت بخشا۔ جس کا تفصیلی ذکر سورۃ الاعراف کی آیت ۱۴۳، سورۃ النساء کی آیت ۱۶۴، سورۃ مریم کی آیت ۵۴ اور سورۃ بقرۃ کی آیت ۲۵۳ میں وارد ہے۔
’خلیل‘ؑ سے مراد حضرت ابراہیم ؑہیں۔ آپ کو خلیل یا خلیل اللہ کے القاب سے اس لیے نوازا جاتا ہے چونکہ خدا سورۃ النساء کی آیت ۱۲۵ میں خود فرماتا ہے کہ ’’جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘
’دینوب‘ سے ترتیب دیے گئے متذکرہ بالا شعر میں دو اور دریائوں ’دجلہ‘ اور ’نیل‘ کا نام بھی اصطلاحاً استعما ل کیا گیا ہے اور ان تینوں دریائوں کا نام لے کر اقبال نے سلطنت عثمانیہ ترکیہ (زوال ۱۹۱۸ء) کی وسعت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دجلہ بغداد کے نیچے بہنے والے ایک دریا کا نام ہے جسے عالمی نقشہ پر ٹائیگریس (Tigris) کہا جاتا ہے۔
دریائے نیل افریقہ کے جنوبی ممالک زائرے اور یوگنڈا کی سرحدوں سے نکل کر ملک سوڈان کے مشرقی حصہ میں لمبا سفر طے کرتا ہوا مصر سے گزر کر قاہرہ، اسکندر یہ اور نہر سوئز کے متصل بڑا سا دہانہ بنا کر بحیرۂ روم میں سوئز نہر کے پاس جا گرتا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ ترکیہ کے سلطان سلیمان خاں اعظم کے دورِ حکومت ( ۱۵۱۹۔ ۱۵۶۶ء) میں ہنگری، بلغاریہ، رومانیہ اور یوگوسلاویہ سلطنت عظمانیہ ترکیہ کا حصہ تھا۔ اس سلطنت کی وسعت کی نشان دہی کے لیے اگر دجلہ کا ذکر کر کے اقبال نے عراق اور ایران پر مسلمانوں کی حکومت کی یاد دلائی ہے تو نیل سے مصر پر حکومت کی۔ اور دینوب کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دریا جرمنی کے علاوہ ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ اور یوگوسلاویہ میں بہتا ہوا بحیرۂ اسود میں جا گرتا ہے۔ یہ چاروں ممالک ایک عرصہ تک اس سلطنت کا حصہ رہے۔ اس دریا کی لمبائی ۱۷۷۶ میں ہے۔ اس لیے اقبال اس شعر میں پہلے مصرعے میں کہتے ہیں کہ مرد مسلمان کی زمیں بے حدود اور اس کا افق بے ثغور ہے (ثغور عربی زبان کا لفظ ہے اور ثغر کی جمع ہے بمعنی سرحد)۔
اب عالمی تاریخ کے پس منظر میں اسلامی تاریخ کی گہری وابستگی ملاحظہ فرمائیے، جس کی یاد دلانے کے لیے ہی اقبال نے ’’دینوب‘‘ کو بہ طور اصطلاح استعمال کیا ہے۔ رومانیہ پر ترکانِ عثمانی کا قبضہ ۱۵۰۴ء سے تین سوسال تک رہا۔ بلغاریہ پر اس سلطنت کا قبضہ ۱۳۹۶ء تا ۱۸۷۲ء رہا۔ یوگوسلاویہ جو ۱۹۹۱ء تک چھ جمہوریائوں کا وفاق تھا میں دو جمہوریائوں سر بیا اور مونٹینگر و پر تر کان عثمانی کا قبضہ ۱۳۷۱ء سے ۱۸۷۸ء تک رہا۔ تیسرے جمہوریہ کروشیا پر ترکوں نے سولہویں صدی عیسوی سے ۱۸۷۸ء تک حکومت کی۔ چوتھے اور پانچویں یعنی بوسنیا اور ہرز ے گووینا پر بھی انہوں نے سولہویں صدی عیسوی سے لے کر ۱۹۰۸ ء تک حکومت کی۔ صرف چھٹے جمہوریہ سلووینیا پر ان کی حکومت کبھی نہیں رہی۔
۱۸۷۸ء عالمی تاریخ خصوصاً یورپ کی تاریخ میں ایک کٹ آف ڈیٹ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ یہ سال اگلے سو ڈیڑھ سو سالوں تک یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مسلم ممالک کے استحصال کے لیے اہمیت کا حامل ہے اسی سال برلن کانگریس میں یورپ کی سامراجی طاقتوں نے مسلم ممالک کا بندر بانٹ کیا۔
۱۹۹۱ء میں یوگوسلاویہ کے سقوط پر بجائے چھ کے پانچ جمہوریائوں نے آزادی کا اعلان کر دیا اور پانچ آزاد ممالک نقشہ پر آگئے۔ بوسنیا اور ہر ز رے گووینا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مل کر ایک مشترکہ جمہوریہ بوسنیا ہرزرے گووینا نام کا قائم کیااور اب یہ اسلامک کانفرنس آرگنائزیشن کا رکن بھی ہے۔ اس طرح یوگوسلاویہ صرف جمہوریہ سربیا ہو کر رہ گیا اور آج عالمی نقشہ پر یوگوسلاویہ نام کا کوئی ملک نہیں کیونکہ اسے اب صرف سر بیا کہا جاتا ہے۔ مسلمان باقی دو جمہوریائوں سربیا اور کروشیا میں اقلیت میں ہیں۔
یہ سارے ممالک وسطیٰ میں واقع ہیں اور مغربی سامراجی نہیں چاہتے تھے کہ وسطیٰ میں مسلمان ممالک رہیں۔ چنانچہ یو گوسلاویہ کے سقوط کے بعد قریب سات آٹھ سالوں تک یہ سربوں کی پشت پناہی کرتے رہے اورخون ریز جنگیں ہوتی رہیں تا کہ اگر یورپ میں مسلم حکومت کا قیام عمل پذیر ہونا لازمی ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کا رقبہ چھوٹا کر دیا جائے ا ورجو حصہ انہیں ملے بھی وہ کھنڈر ہو کر رہ جائے اور مغربی سامراجی اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔
(بحوالہ: ’’دارالسلام‘‘ مالیر کوٹلہ۔ شمارہ: مئی ۲۰۰۷ء )
Leave a Reply