نیپال کے انتخابی نتائج بھارت کے لیے تعجب خیز ہونا چاہیے۔ نئی دہلی کی ناکامی یہ ہے کہ اس نے عوامی تیور درک نہیں کیا۔ یہ تازہ معاملہ نکتہ تشویش کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت اور نیپال کے مابین سوچ کا فرق مہینوں پر نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہے۔ عوام کی سوچ بدل رہی تھی اور نئی دہلی پھر بھی بادشاہت اور نیپال کانگریس کے بقاء و تحفظ کے خیال خام میں مبتلا تھا۔ یہ سرکاری بیان کہ بھارت اس حکومت سے اپنے معاملات طے اور درست کر لے گا جو کٹھمنڈو میں برسرِ اقتدار آئی ہے خود ایک طرح کا اعتراف ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا وہ بھارت کی خواہش کے علی الرغم ہے۔ اور یہ کہ بھارتی حکومت اس تبدیلی کو بہرحال قبول کر لے گی۔ نئی دہلی کے پاس اور کوئی نیا راستہ کیا ہے جبکہ عوام نے حکومت نیپالی کمیونسٹ پارٹی (مائو نواز) کو حکومت سپرد کردی ہے۔ ہم اُن کے اس انتخاب پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ درحقیقت مائو نوازوں کو عوام کا ووٹ بھارت کے خلاف ووٹ ہے۔ نیپالیوں نے نیپال کے معاملات میں بھارت کی حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت کو محسوس کیا ہے۔ مائو نوازوں نے ایک انتخابی جلسے میں عوام کے سامنے ہندوستان کے بڑے بھائی والے رویئے کو موضوع بحث بنایا۔ نیپال کے ساتھ جو ہمارا معاہدہ ہے وہ ان کے عوام کی پسند کے مطابق نہیں ہے۔ ہمیں اس معاہدے کو بہت پہلے ختم کر دینا چاہیے تھا۔ کیوں ہم نے اب تک ایسا نہیں کیا یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ اسی طرح مجھے سابق امریکی صدر کارٹر کی امریکی حکومت سے نیپال میں ہونے والی تبدیلی کو تسلیم کر لینے کی اپیل بھی سمجھ میں نہیں آئی۔نتائج خواہ امریکا جیسی طاقتور ترین جمہوریت کو ناقابل قبول ہی کیوں نہ ہوں بہرحال سمجھنا چاہیے کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے نتائج حتمی ہوتے ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ایک ملک دوسرے ملک کی حکومت کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ عوام کی آزادانہ رائے اور مرضی ہے جس کو خاطر میں لایا جانا چاہیے اور جناب کارٹر جنہوں نے انتخابات کی نگرانی کی تھی ان کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود بہت سارے لوگ نیپالیوں کے اس اقدام کو نہ سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے اور نہ ہی اس کی توصیف کریں گے۔ وہاں ۲۳۵ سالوں سے ایک جاگیردارانہ معاشرہ قائم ہے جو یہ خیال رکھتا ہے کہ نیپال کا بادشاہ خدا ہے اور جمہوریت اور اقبال اس کی حکومت میں مضمر ہے۔ تفریق و امتیاز اس معاشرے میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ اس سے بغاوت کی کوئی پکار ایک ردعمل کو جنم دیتی ہے۔ یہ امید کہ حالات میں بہتری آئے گی اب بر آنے لگی ہے۔ مائو نواز رہنما پراچندا نے ماحول سے صرف فائدہ اٹھایا ہے۔ ۲ سال قبل جب پورا کاٹھمنڈو شہر بادشاہت کے خاتمہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آیا تھا تو یہ گویا ستم رسیدہ معاشرے کا اپنے آپ کو آزاد کرانے کی خواہش کا ایک اظہار تھا۔ ایک جمہوری نظام میں معاشرے کو بدلنے کے وعدہ سے انہیں تبدیلی کی ایک امید بندھی تھی۔ انہوں نے اس تبدیلی کی حمایت کی اس امید پر کہ لوگوں کے حالات میں بہتری آئے گی۔ مائو نواز کو واپسی کا موقع اس لیے نہیں ملا ہے کہ وہاں کے ووٹروں کو مارکسی نظریے پر یقین ہے بلکہ یہ اس بناء پر ہے کہ عوام نے ان لوگوں پر اعتماد و یقین کیا ہے کہ جن لوگوں نے ایک مختلف نظام اقتصاد کے ذریعہ انہیں غربت کی مصیبت سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ خوف کا عنصر بھی وہاں موجود تھا اس لیے کہ مائو نواز لوگ دیہاتوں میں بندوق کے زور پر برسوں سے حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ مائو نوازوں نے انتخابات سے بہت پہلے ہوئے معاہدے کے تحت اپنے تمام اسلحے سپرد نہیں کیے جو انہوں نے کہیں ذخیرہ کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ وہ شاہ کو مسترد کر چکے تھے اور وہ نیپالی کانگریس کے پاس جانا نہیں چاہتے تھے جنہیں انہوں نے بارہا آزمایا تھا اور وہ ان کی توقعات پر پورے نہیں اترے۔ بہرحال ایسے پوسٹروں کو بھی وہاں دیکھا جانا حیرت انگیز تھا جن میں اسٹالن کی تصویر کے ساتھ کارل مارکس، لینن اور اینجلز کی بھی تصاویر شامل تھیں۔ اسٹالن نے لاکھوں لوگوں کو مروایا تھا جنہوں نے اس سے اختلاف اور اس کے خلاف بولنے کی جرات کی تھی۔ لیکن اس وقت اسٹالن کی تصاویر کول کتہ کے سی پی ایم کے مرکزی دفتر میں نمایاں طور سے آویزاں تھیں۔ اب بھی سی پی ایم اصل دھارے کا ایک حصہ ہے اور جمہوری نظام پر عقیدہ رکھتی ہے۔
نیپال میں مائو نواز بھی یہی کریں گے جب وہ اقتدار سنبھال لیں گے۔ پھر ان کے خلاف مایوسی کا آغاز ہوگا جیسا کہ مغربی بنگال، کیرالہ اور تریپورا میں ان کے حوالے سے ہوا، اگر وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔
نیپال میں بھی مائو نواز یہ تاویل کر سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی فلاحی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے جیسا کہ بھارت میں سی پی ایم کر رہی ہے۔ جو کچھ نکسل باری (مائو نواز) بھارت میں کر رہے ہیں میں اس کے سخت خلاف ہوں، میری مراد ان کا خون خرابہ اور جرائم میں ملوث ہونے سے ہے لیکن اس وقت وہ جمہوری نظام سے اپنی مخالفت کو چھپا نہیں رہے تھے۔ وہ اصل دھارے میں شامل ہونا نہیں چاہتے ہیں اس لیے کہ وہ زور زبردستی پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ اتفاق رائے پر۔ یہ وہ خاص وجہ ہے جس کی بناء پر نیپال کے مائو نواز اور بھارت کے مائو نواز باہم اتحاد نہ کر سکے۔ ایک مداہنت کی روش پر گامزن تھا دوسرا مداہنت کے خلاف تھا۔ بھارتی مائو نواز، نیپالی مائو نوازوں میں جو بنیاد پرست گروہ ہے، کی حمایت کر سکتے ہیں ’’سرخ راہداری‘‘ کے خیال کی حمایت کی غرض سے تاکہ ان کا سلسلہ ’’پسوپتی‘‘ سے ’’تیروپتی‘‘ تک دراز ہو۔
نیپال بہرحال ایک مثال ہے جو جنوبی ایشیاء کو ایک سبق دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے سبق لینا چاہے۔ اس میں شک نہیں کہ غربت مایوس کن طریقہ ہائے علاج کو جنم دیتی ہے۔ جاگیردارانہ نظام جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ عوام بغاوت کا راستہ بھی اختیار کرتے ہیں جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ ظالمانہ نظام سے نجات پانے کا تشدد کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ جمہوریت عوام کو ایک پرامن ذریعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ووٹ دیں جو ان پر ظلم توڑتے ہیں اور کام کرکے نہیں دیتے۔ نیپالیوں نے یہی کیا ہے جس سوال کا جواب مائو نوازوں کو دینا ہے وہ یہ ہے کہ آیا وہ عوام کی صورتحال کو بہتر بنانے کی اہلیت اور عزم رکھتے ہیں؟ یہ انتخابات جو مائو نوازوں نے کم و بیش جیت لیا ہے وہ آئینی اسمبلی کی تشکیل کے لیے ہے۔ یہی عوام انہیں اقتدار سے باہر پھینک سکتے ہیں اگر وہ دیکھیں گے کہ کوئی بھی وعدہ آئین میں جگہ نہیں پا سکا۔ مائو نوازوں نے کہا ہے کہ وہ اسلحہ کی طرف اب رجوع نہیں کریں گے۔ یہ بہت زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ جب میں کٹھمنڈو میں بعض مائو نواز لیڈروں سے ملا تھا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر انتخابات میں ان کی شکست ہو بھی گئی تب بھی وہ دوبارہ اسلحہ نہیں اٹھائیں گے۔ اس طریقے سے جمہوریت اپنا کام کرتی ہے۔ عوام آقائوں کو تبدیل کرتے ہیں، آقا عوام کو تبدیل نہیں کرتے ہیں جیسا کہ مطلق العنان اور فوجی حکومت والے ممالک میں ہوتا ہے۔ میں یقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ آیا مائو نواز جو تشدد کے ذریعہ ابھرے ہیں اس وقت بھی اپنے وعدوں کے پابند رہیں گے جب وہ اپنے ہاتھوں سے اقتدار نکلتا محسوس کریں گے۔ طریقہ ہائے کار میں یہ غیرمتزلزل یقین کا متقاضی ہے۔ مہاتما گاندھی نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ اگر وسائل صحیح استعمال نہیں کیے گئے تو مقصد سے لازماً انحراف ہوگا۔ بھارت اس مشورے پر قائم نہیں رہا اگرچہ اس کو آزادی عدم تشدد کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی۔ جمہوریتیں جہاں ہیں وہاں انہیں اپنے آزمودہ طریقہ ہائے کار پر اعتماد دکھانا ہوگا۔
درحقیقت آج کا امریکا اتنا بدل گیا ہے کہ اس کی شناخت مشکل ہے۔ اس نے ظالمانہ قوانین سے اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں سے مصالحت کرلی ہے۔ نیپال کے مائو نوازوں کو اس کی تقلید نہیں کرنی چاہیے اگر وہ جمہوری روش کو بھی اختیار کریں۔ ان کے اس وعدے کو کہ وہ دوبارہ اسلحہ نہیں اٹھائیں گے کا بڑی بے چینی کے ساتھ تعاقب کیا جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۸ اپریل ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply