ہمسایہ ممالک خصوصاً برادرمسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کابنیادی ستون ہیں۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اگر برادرمسلم ممالک کے درمیان کوئی غلط فہمی یاتنازع ہے تو اسے بات چیت کے ذریعے حل کرایا جائے۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات تاریخی اور مثالی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایران کو اپنا دوست اور بھائی سمجھا ہے۔ دونوں ممالک نے ماضی میں ہر آزمائش اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا اور مدد کی۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو سب سے پہلے ایران نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ اسی طرح جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو پاکستان نے فوری طور پر نئی حکومت کو تسلیم کرلیا اور بھرپور تعاون کیا۔ اسی طرح بہت سے عالمی ایشوز پر دونوں ممالک کا موقف ایک ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ایران نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ پاکستان اور ایران نے سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ دونوں ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم نے تعلقات کے فروغ کے لیے کئی سرکاری دورے کیے۔ پاکستان سے ہر سال لاکھوں کی تعدادمیں زائرین ایران جاتے ہیں۔ اسی طرح ماضی میں بڑی تعداد میں ایرانی طلبہ و طالبات پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایران اور پاکستان میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک اسلامی جمہوریہ ہیں۔ جہاں عوام کے ووٹوں سے حکومتیں بنتی ہیں۔
پاکستان اور ایران کی سرحد تقریباً ۹۰۷ کلومیٹر طویل ہے۔ یہ ایک دشوارگزار سرحد ہے، جس کا فائدہ اسمگلر اور دہشت گرد دونوں اٹھا رہے ہیں۔ پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان نے باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے دونوں برادر ممالک میں بات چیت بھی ہوچکی ہے۔ ایران نے بھی سرحد پر باڑ لگانے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ اندازہ ہے کہ باڑ لگانے کا کام دو سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے، پاکستان کی خواہش ہے کہ ایران بھی اس منصوبے کے کچھ اخراجات برداشت کرے۔ اس حوالے سے بھی بات چیت ہو رہی ہے کہ سرحد کے کچھ حصے پر پاکستان اور کچھ پر ایران کام مکمل کرے۔ اس سرحدی باڑ کا فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا۔
ایران سے ڈیزل، پٹرولیم، اسٹیل اور پلاسٹک مصنوعات سمیت بہت سی اشیا کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ذرائع کے مطابق ایران سے روزانہ بیس ہزار لیٹر پٹرول و ڈیزل اسمگل کیا جاتا ہے، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ سنگلاخ پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے متعلقہ اداروں کو اسمگلنگ روکنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منصوبے کے تحت دونوں ممالک کے شہریوں اور تاجروں کی سہولت کے لیے مختلف مقامات پر گیٹ لگائے جائیں گے اور چیک پوسٹیں بھی قائم کی جائیں گی۔ سرحد کوکنٹرول کرنے کے لیے جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے بھی مدد لی جائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سرحد پر مشترکہ گشت بھی کی جاتی ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کا حجم ایک اعشاریہ تین بلین امریکی ڈالر ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اسے تین بلین ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے۔ تجارتی حجم پہلے سے بڑھا ہے تاہم اس میں مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ ایران پر عائد امریکی پابندیاں بھی تجارت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستانی مصنوعات ایران میں اور ایرانی مصنوعات پاکستان میں مل جاتی ہیں۔ لیکن یہ زیادہ تر اسمگل شدہ ہوتی ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اسمگلنگ پر قابو پاکر امپورٹ ایکسپورٹ کی مد میں اربوں روپے کی اضافی ڈیوٹی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باڑ لگانے سے جہاں دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا، وہیں چند ہی سال میں اربوں روپے کی ڈیوٹی سے باڑ پر آنے والے اخراجات بھی پورے ہو جائیں گے۔ یہ رپورٹ بھی ہے کہ بھارتی مصنوعات ایران اور افغانستان کے راستے پاکستان اسمگل کی جاتی ہیں۔
پاک ایران سرحد کے قریب رہنے والے بلوچوں اور مقامی آبادی نے بھی باڑ لگانے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ مقامی آبادی خود اسمگلروں اور جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے پریشان ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بھی منصوبے کو قومی مفاد اور بلوچوں کے مفاد میں قرار دیا ہے۔ تاہم بعض غیر ملکی طاقتیں جو بلوچستان کی سرزمین کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں اس منصوبے سے پریشان ہیں۔ پاک ایران سرحد پر باڑ لگ گئی تو ان کے سازشی منصوبے پورے نہیں ہوں گے۔ ایک طرف تو بھارت دونوں برادر ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسری طرف امریکا اور ایران کی باہمی چپقلش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات خارج ازامکان نہیں کہ امریکا بلوچستان کی سرزمین کو ایران یا خود پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کا شمار دنیا کی دشوار گزار سرحدوں میں ہوتا ہے، جہاں پٹرولنگ اور چوکیاں قائم کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد روکنے کے لیے باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے پر فروری ۲۰۱۷ء میں کام شروع کیا گیا، جو تیزی سے جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے ۶ سو کلومیٹر سرحد پر باڑ لگائی جاچکی ہے۔ دو سو سے زائد نگران قلعے بھی تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ سرحد کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے، ڈرونز بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ رات کو سولر انرجی کے ذریعے روشنی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ افغانستان سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والوں اور دہشت گردوں کی آمد کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ ابتدا میں افغان حکومت نے باڑ لگانے کی مخالفت کی تھی، تاہم اب افغانستان کے غیر جانب دار حلقے پاکستان کے اس فیصلے کو سراہ رہے ہیں۔ افغانستان میں موجود بھارتی لابی پروپیگنڈا کر رہی تھی کہ اس باڑ کو نہیں بننے دیا جائے گا لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان پوری استقامت کے ساتھ اس منصوبے کو مکمل کر رہا ہے۔ غیر قانونی طور پر پاکستان اور افغانستان کا سفرکرنے والے اب باقاعدہ ویزہ لے کر ہی آسکیں گے۔ اسمگلنگ میں بھی کمی آئی ہے۔ باڑ لگانے کا کام مکمل ہونے کے بعد امید ہے کہ اسمگلنگ پر قابو پا لیا جائے گا اور اس طرح دونوں ملکوں کا فائدہ ہوگا۔ قانونی طور پر تجارت کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ روزانہ تقریباً دس سے بارہ ہزار افراد قانونی طریقے سے آتے جاتے ہیں جبکہ گیارہ سو سے بارہ سو کے قریب تجارتی ٹرکوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ افغان تاجر ٹرانزٹ ٹریڈ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ باڑ لگنے سے سرحدکے قریب رہنے والوں نے بھی سکھ کاسانس لیا ہے، جن کی زندگی دہشت گردوں اور اسمگلروں نے اجیرن کر دی تھی۔ امید ہے کہ اس سال خیبر پختونخوا کی افغانستان سے ملنے والی سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہو جائے گا۔ اسی طرح بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اگلے سال مکمل کر لیا جائے گا۔
اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے سرحدوں پر باڑ لگانا ہر ملک کا حق ہے، عالمی قوانین بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔ پاک ایران سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ کی تعمیر دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ باڑ لگانے سے صورتِ حال کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکے گا۔ بھارت کی دشمنی اور سازشوں سے جتنا ہم واقف ہیں اس سے شاید ایران آگاہ نہیں۔ بھارت ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے دوسری طرف چابہار میں بھارتی سرمایہ کاری اور امریکا کی جانب سے بھارت کو ریلیف دینے کے معاملات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بھارت دوست ممالک کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ پاکستان اور ایران میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے کوئی سازش کرسکتا ہے۔ بھارت نے ہمارے دو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اضافہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے نہیں کیا۔ اس کے پیچھے اس کی پاکستان دشمنی اور پاکستان کی سرحدوں کو غیر محفوظ بنانے کی پالیسی ہے۔ ایران اور افغانستان دونوں ممالک کی سرحدیں بھارت کے ساتھ نہیں ملتیں، لیکن بھارت دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔
چابہار بندرگاہ پر بھارت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر پاکستان کو تشویش ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را، افغانستان میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو تربیت دے کر پاکستان میں داخل کررہی ہے۔ اسی طرح ایران کو مطلوب دہشت گرد تنظیم جنداللہ کو افغانستان میں تربیت فراہم کی جارہی ہے۔ مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔
دو ہمسایہ ممالک کے درمیان غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لیے سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ کوئی نیا نہیں۔ امریکا اپنے ہمسایہ ملک میکسیکو کے بارڈر کو باڑ لگا کر مکمل طور پر بند کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ مقصد میکسیکو سے غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ کو روکنا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک نے اسمگلنگ اور جرائم پیشہ افراد کی روک تھام کے لیے باڑ لگائی ہے۔ سینٹر فار جیو پولیٹیکل اسٹڈیزکے مطابق دنیا میں ۷۰ کے قریب سرحدی باڑیں موجود ہیں، ان میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی کی جانب گامزن ممالک، غریب اور پسماندہ ممالک سے لوگوں کی غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لیے سرحد پر دیواریں یا رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں تاکہ اپنی معیشت اور عوام کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ چین نے شمالی کوریا کی سرحد پر باڑ لگا کر اپنی سرحدوں کو محفوظ کیا ہے۔ ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے درمیان باڑ ہے۔ ہنگری اور سربیا کے درمیان باڑ ہے۔ برازیل اور گوئٹے مالا کے درمیان باڑ موجود ہے۔ بھارت اور بنگلادیش کے درمیان سرحدی باڑ ہے، بھارت نے پاکستان سے ملنے والی سرحد پر بھی باڑ لگائی، بھارت نے میانمارکے ساتھ بھی باڑ لگائی۔ قازقستان اور ازبکستان میں اسمگلنگ روکنے کے لیے سرحدی باڑ ہے۔ جنوبی افریقا اور زمبابوے کے درمیان سرحدی باڑ ہے۔ کویت اورعراق کے درمیان سرحدی باڑ قائم ہے۔ سعودی عرب اور عراق کے درمیان سرحدی باڑ ہے۔ ترکی نے شام کے ساتھ سرحدی دیوار قائم کی ہے۔ روس اور یوکرائن کے درمیان سرحدی باڑ پرکام مکمل ہونے کے قریب ہے۔ متحدہ عرب امارات اور عمان کے درمیان سرحدی باڑ ہے۔ اس طرح اورکئی ممالک نے بھی اسمگلنگ اور جرائم پیشہ افراد کی روک تھام اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے سرحدی باڑیں لگائی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ باڑ لگانا کوئی انوکھی بات نہیں نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ باڑ لگانے سے دونوں ممالک میں کوئی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ دنیامیں جن ممالک نے اپنی سرحدوں کومحفوظ بنانے کے لیے باڑیں لگائیں اس سے انھیں فائدہ ہی ہوا ہے۔
ایران کا الزام ہے کہ جُنداللہ گرو پ بلوچستان کے راستے ایران میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستان جنداللہ گروپ سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔ اب تک جنداللہ کے کئی دہشت گرد مارے جاچکے ہیں اور کئی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ ماضی میں جنداللہ کے ایک بڑے دہشت گرد عبدالمالک ریگی کو گرفتار کرنے میں بھی پاکستان نے ایران کی مدد کی تھی۔
اس واقعہ کو یاد دلانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیازکارروائی کر رہا ہے۔ جب کسی دہشت گرد کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھی بے گناہ شہریوں اور فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ جس کی قیمت فورسز کے جوانوں اور شہریوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود بعض عناصر پاکستان پر الزامات لگانے سے باز نہیں آتے۔ ان کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا اور دوست ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنا اپنا کھیل، کھیل رہی ہیں۔ افغانستان اور ایران سے سرحدیں ملنے اور سمندری راستے کے ذریعے بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت آسان ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے قائم ایک نیٹ ورک کا سربراہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تھا جسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ پاک ایران بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے لیے اپنا نیٹ ورک چلانا اور دو برادر ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ خطے میں امن قائم ہوگا اور پاک ایران تعلقات میں اضافہ ہوگا۔
(بحوالہ: “hilal.gov.pk”)
Leave a Reply