کورونا وائرس کے ہاتھوں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو گھروں تک محدود رہنا پڑا ہے اور معاشی سرگرمیاں تھمی ہوئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں عالمی معیشت پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے، یہ جاننے کے لیے ہمیں معاشی امور کے کسی بھی ماہر سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہر ملک کی معیشت کورونا وائرس کے ہاتھوں شدید متاثر ہوئی ہے۔
کورونا وائرس کی وبا پر آج نہیں تو کل قابو پا ہی لیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات سے مکمل طور پر نمٹنے میں کامیابی کس طور ممکن بنائی جاسکے گی۔ معیشت کا جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر ملک پریشان ہے۔ عالمی معیشت یقینی طور پر بحران سے دوچار ہے اور رہے گی۔ بحالی کب تک ہوسکے گی، یہ بنیادی سوال ہے۔ عام آدمی کے لیے مشکلات پہلے کیا کم تھیں جو اَب کورونا وائرس کے ہاتھوں مزید الجھنوں کا پوٹلا سروں پر آن پڑا ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے سوچا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں کہ معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بہتر طور پر نمٹنا کس طور ممکن ہوسکے گا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے لیے مشکلات کس قدر ہوں گی۔
دنیا بھر میں ماہرین اپنی اپنی حکومتوں کو معاشی بحران سے نمٹنے سے متعلق تجاویز دے رہے ہیں، سی این بی سی پر ۶؍اپریل کو ایک پروگرام نشر ہوا، جس میں بتایا گیا کہ یورپ میں اسپین پہلا ملک ہوگا جو ’’یونیورسل بیسک انکم‘‘ کا اصول اپنائے گا۔ یورپ کے معاشی امور کے وزیر نے اعلان کیا ہے کہ اسپین کے ہر شہری کو ایک خاص رقم بنیادی تنخواہ کے طور پر دی جائے گی تاکہ وہ لاک ڈاؤن کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مالیاتی الجھنوں سے کماحقہٗ نمٹ سکے۔ یونیورسٹی آف لندن کے ریسرچ پروفیسر گائے اسٹینڈنگ نے سی این بی سی کو بتایا کہ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بہتر طور پر نمٹنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ یونیورسل بیسک انکم کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس صورت میں ہر ملک کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت اتنی رقم لائے گی کہاں سے؟ مرکزی بینک کرنسی نوٹ چھاپے گا۔ وال اسٹریٹ کو بچانے کے لیے امریکی حکومت نے کم و بیش ۱۷۰۰؍ارب ڈالر ’’انجیکٹ‘‘ کیے تھے۔ اگر یہ رقم امریکا کے ۱۳ کروڑ گھرانوں میں تقسیم کی جاتی تو ہر گھرانے کو کم و بیش ۱۳۶۰۰ ڈالر ملتے۔ یہ رقم سال بھر کے راشن اور یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔
معاشیات اور بالخصوص مالیات کے حوالے سے کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے حکومت جو زر سسٹم میں داخل کرتی ہے، اُسے آج کی اصطلاح میں ’’ہیلی کاپٹر منی‘‘ کہا جاتا ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حکومتوں نے جو اقدامات کیے تھے اُن میں لاک ڈاؤن سب سے نمایاں ہے۔ حکم ناموں کے ذریعے لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا گیا۔ جب لاک ڈاؤن حکومت نے کیا تو معیشت کو پہنچنے والی خرابی کی ذمہ دار بھی وہی ہوئی۔ ایسے میں لازم ہے کہ معیشت کو بحال کرنے کی ذمہ داری بھی وہی قبول کرے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام کو زر کی فراہمی کے ذریعے معیشت کو بحال کرنے کا تصور احمقانہ ہے۔ اگر سب کو لازمی طور پر نوازنا ہے تو پھر حکومت نوٹ چھاپتی رہے گی اور یوں افراطِ زر بڑھتا جائے گا، جس کے نتیجے میں زر کی قدر گھٹتی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی جائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پورا معاملہ بے لگام ہوکر رہ جائے گا۔ اس کے لیے مرکزی بینکوں کو میدان میں آنا پڑے گا۔ زر کی قدر گرائے بغیر کام کرنا کس طور ممکن ہوسکے گا یہ بھی ایک بنیادی سوال ہے۔
جدید زر کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آج کا زری نظام ساکت و جامد ہے نہ مستحکم۔ آج کا کریڈٹ سسٹم یہ ہے کہ بینک یومیہ بنیاد پر زر پیدا کرتے ہیں اور پھر اُسے ختم بھی کر دیتے ہیں۔ اگر زر پیدا کرکے اُسے قرضوں کے بھگتان کے لیے بروئے کار لایا جائے تو زر واپس آجاتا ہے۔ اس عمل کو ڈیٹ ڈیفلیشن کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہوتی ہے۔ معاشی سرگرمیاں سست پڑ جاتی ہیں۔ یہ کیفیت شدید تر ہوکر ڈپریشن یعنی حقیقی معاشی بحران میں تبدیل ہوتی ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ الگ سے کچھ رقم سسٹم میں داخل کرے تاکہ معاشی سرگرمیوں کا پہیہ تیزی سے گھومے اور سب کا بھلا ہو۔ معروف ماہر معاشیات ملٹن فرائیڈ مین نے اِسے ہیلی کاپٹر منی کا نام دیا ہے۔ اس وقت امریکا میں جو کیفیت ہے اُسے ڈیفلیشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ سسٹم میں زر اُتنا نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ لوگ زر کی کمی واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کساد بازاری (ریسیشن) پیدا ہو رہی ہے۔ زر کی کمی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ لوگوں پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ وہ نئے قرضے لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ کیفیت ’’ڈیٹ وائرس‘‘ کو جنم دے رہی ہے۔ معاشی بحران کو شکست دینے کے لیے لازم ہے کہ زر کی گردش تیز ہو۔ اور اس کے لیے صَرف کے غیر معمولی رجحان کا پایا جانا لازم ہے۔
قرضوں کے اجرا اور وصولی کے عمل میں زر غائب ہے۔ لوگوں کو زر کم کم میسر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قرضے دینے والے کنزیومر / پروڈیوسر اکانومی میں کم ہی خرچ کرتے ہیں۔ ہر معیشت بنیادی طور پر دو طرح کی معیشتوں پر مشتمل ہے۔ ایک وہ اشیا و خدمات کی پیداوار اور خرید و فروخت والی معیشت ہے اور دوسری طرف مالیاتی اداروں پر مشتمل معیشتی شعبہ ہے، جو اشیا و خدمات پیدا کرنے کے مرحلے سے گزرے بغیر محض زر کی گردش کے ذریعے غیر معمولی منافع کے حصول پر یقین رکھتا ہے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں مرکزی بینک ایک غیر تحریری ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ یہ ذمہ داری ہے وقتاً فوقتاً سسٹم میں زر ڈالنا تاکہ زری یا مالیاتی نظام مستحکم رہے۔ مالیاتی ادارے فیکٹریاں لگاتے ہیں نہ تجارت۔ یہ ادارے صنعتی اور تجارتی اداروں سے کہیں زیادہ کماسکتے ہیں۔ بینک بنیادی طور پر سرمایہ کار ہوتے ہیں۔ دیگر مالیاتی ادارے ’’بچت کار‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے فنڈ اسٹاکس، بونڈ اور آف شور کمپنیوں کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں۔ بہت سے مالیاتی ادارے اپنے فنڈ باہر یعنی معیشتی طور پر مستحکم ممالک کو بھیج دیتے ہیں تاکہ محفوظ رہیں۔ ۲۰۱۸ء میں امریکی کارپوریشنز کے درمیان زیرِ گردش زر کم و بیش ۱۷۰۰؍ ارب ڈالر تھا۔ ۱۰۰ ڈالر کے امریکی نوٹ ۷۰ فیصد کی حد تک ملک سے باہر تھے۔
جب پیداوار و صَرف پر مبنی معیشت ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تو پھر سرمایہ کار معیشت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معیشت کے تمام شعبے آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ روزویلٹ انسٹی ٹیوٹ نے جولائی ۲۰۱۷ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ معیشت کی بحالی کا ہدف ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) اندازوں سے کم رہی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں فی کس خام قومی پیدوار ہدف سے ۱۰ فیصد کم رہی۔ ایسے میں معیشت کی مکمل بحالی کا صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ کانگریشنل بجٹ آفس نے ۲۰۰۶ء میں جو پیش گوئی کی تھی اس کے تناظر میں معیشت کی بحالی کے آثار نہیں۔ طلب میں کمی ہے۔ اجرتیں منجمد ہیں۔ زیادہ پیداوار کے لیے زیادہ صَرف چاہیے۔ اگر بازار میں کسی چیز کی زیادہ طلب ہی نہیں ہوگی تو پھر صنعت کار اُس چیز کو زیادہ مقدار یا تعداد میں بنانا کیوں پسند کریں گے؟
میسو پوٹیمیا (موجودہ عراق) کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جب لوگ انتہائی مقروض ہو جاتے تھے اور قرض چکانے کی سکت باقی ہی نہیں رہتی تھی تب بادشاہ یا مذہبی پیشوا پورا کا پورا قرضہ معاف کردیا کرتے تھے۔ آج یہ ممکن نہیں۔ بینک زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں شیئر ہولڈر اور اکاؤنٹ ہولڈر کو بھی بہت کچھ دینا ہوتا ہے۔ بینکوں کے پاس منافع کی سطح بلند کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنانے کے سوا چارہ نہیں۔
کورونا وائرس نے جو صورتِ حال پیدا کی ہے، اُس کی کوکھ سے جنم لینے والی مشکلات کے تدارک کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرضے معاف کردیے جائیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خرابی کا ہر دور ختم کرنے کے لیے زر کے انجیکشن لگائے جاتے رہیں۔ خرابی پہلے سے موجود تھی۔ کورونا وائرس نے معاشی بگاڑ کی سطح بلند کردی۔ دنیا بھر میں معیشتیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایسے میں ہیلی کاپٹر منی کو بروئے کار لانا ناگزیر سا ہوگیا ہے۔
۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران کے بعد آمدن اور قرضوں کے درمیان پائے جانے والے خلا کو پُر کرنے کی ہمت کسی بھی معیشت میں باقی نہ رہی۔ کوئی بھی ملک اپنے طور پر دوبارہ ڈھنگ سے ابھرنے کے قابل نہ تھا۔ طلبہ کو دیے جانے والے اور گاڑیوں کے قرضے اس قدر سنگین شکل اختیار کرگئے کہ ایک تہائی سے زائد معاملات میں دیوالیہ پن سامنے آیا۔ اس کے نتیجے میں تفریطِ زر کا ریلا سا آیا اور بہت کچھ بہا لے گیا۔ کساد بازاری نے زور پکڑا تو صارفین کا اعتماد شدید متزلزل ہوکر رہ گیا۔
اِس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پائی جارہی ہے۔ لازم ہوگیا ہے کہ معیارِ زندگی کم از کم معقول سطح تک بلند کیا جائے۔ اگر حکومتیں ایک معقول رقم لوگوں کے پرسنل بینک اکاؤنٹس میں ڈالیں تو گزارے کی اچھی صورت نکل سکتی ہے۔ بہت سے چھوٹے موٹے قرضے چکانے یا مختلف اشیائے ضرورت کی اقساط ادا کرنے کے لیے لوگوں کو معقول رقم کی ضرورت ہے۔ اِس مرحلے پر اُن کی تھوڑی بہت مدد ضرور کی جانی چاہیے۔ اگر حکومتیں پرسنل بینک اکاؤنٹس میں ایک خاص امدادی رقوم ڈالے گی تو وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے کام آئے گی اور یہ رقم غائب بھی ہو جائے گی۔ یوں معیشت بحال ہونے میں دیر نہیں لگائے گی۔
امریکا کی بات کیجیے تو اس وقت ۸۰ فیصد افراد شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ انہیں فوری مدد درکار ہے۔ جن ۲۰ فیصد امریکیوں کو معاشی مسائل کا سامنا نہیں وہ بھی اپنے پرسنل بینک اکاؤنٹس میں آنے والی رقم کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کرنے کے بجائے بچت کے طور پر استعمال کرنا پسند کریں گے یا پھر سرمایہ کاری کریں گے، یعنی یہ رقم غیر صارف مارکیٹ میں بروئے کار لائی جائے گی۔ بہرکیف، لوگوں کو ان کے پرسنل بینک اکاؤنٹس میں رقوم دینے سے کنزیومر پرائس انڈیکس میں اضافہ ہوگا۔ قیمتیں مستحکم رہیں گی اور یوں معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگے گا۔
غیر معمولی نوعیت کے شٹ ڈاؤن یا لاک ڈاؤن سے بعض اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن میں فیکٹریز بند رہنے سے بہت سی اشیا کی رسد فوری طور پر بڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ ایسے میں اُن اشیا کی قیمت بڑھے گی۔
ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ہیلی کاپٹر منی سے خرابیاں بڑھیں گی۔ اس سلسلے میں جرمنی، زمبابوے اور وینزویلا کی مثال دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ان ممالک میں مالیاتی یا معیشتی بحران حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹ چھاپنے کا نتیجہ نہ تھا۔ پروفیسر مائیکل ہڈسن کہتے ہیں کہ ان ممالک میں مالیاتی بحران بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے زر مبادلہ کی شرح گرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ یا پھر حالتِ جنگ میں خرابیاں اس قدر بڑھیں کہ معاملات کو درست رکھنا کسی طور ممکن نہ رہا۔
معیشت کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے الگ سے کچھ کیے جانے کے حوالے سے چین اور جاپان نے خصوصی اقدامات کیے، جن کے تحت مختلف مراحل میں خاصی خطیر رقوم سسٹم میں ڈالی گئیں۔ دو عشروں کے دوران چین نے پہلے مرحلے میں ۱۱ ہزار ارب یوآن سسٹم میں ڈالے اور پھر ایک مرحلے پر ۱۹۴؍ہزار ارب یوآن سسٹم میں ’’انجیکٹ‘‘ کیے۔ ایسی کیفیت کے حوالے سے ماہرین جو کچھ کہتے ہیں ویسا چین میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ اتنے بڑے پیمانے پر رقوم سسٹم میں ڈالے جانے کے باوجود افراطِ زر پیدا نہیں ہوا۔ کنزیومر پرائس انڈیکس میں افراطِ زر کی اوسط سطح ۲ سے ۳ فیصد تک رہی جو معمول ہے۔ طلب اور رسد میں توازن برقرار رہا۔ پیداواری عمل بھرپور طور پر جاری رہا، جس کے نتیجے معیشت متوازن رہی۔ چینیوں میں بچت کا رجحان خاصا نمایاں ہے۔ لوگ بلاضرورت خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ آمدن بڑھی تو لوگوں نے انددھا دھند خرچ کرنے کے بجائے زر کو بچانا شروع کیا۔
یہی عمل جاپان میں بھی کیا گیا۔ وہاں اِسے ’’ایبے نامکس‘‘ کہا گیا۔ مرکزی بینک نے بڑے پیمانے پر سرکاری بونڈ خرید کر حکومت کے نصف سے زائد قرضے چکائے۔ خیال کیا جارہا تھا کہ ایسا کرنے سے افراطِ زر کی سطح بلند ہوگی اور ملک میں لوگ مہنگائی کی شکایت کرنے لگیں گے تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جاپانیوں نے بھی خود کو قابو میں رکھا۔ بینک آف جاپان نے افراطِ زر میں اضافے کا سالانہ ہدف ۲ فیصد رکھا ہے۔ جاپان میں مسئلہ تفریطِ زر کا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاست اگر لوگوں کو گزارے کے لیے کچھ دے گی تو اس کے نتیجے میں مطلق العنانیت بھی پروان چڑھے گی۔ ریاست ہر معاملے میں مداخلت کرے گی۔ ناقدین کے اندازے مکمل طور پر درست نہیں۔ جب تک کوئی کام کے قابل ہوتا ہے تب تک وہ ریاست پر منحصر نہیں رہتا۔ اگر حکومت کچھ دے گی تو اِسے سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والے منافع کی سی حیثیت حاصل ہوگی۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی ہنگامی امداد معاملات کو کچھ بہتر بنانے میں مدد ضرور دے سکتی ہے، پوری زندگی کو درست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ امدادی رقم یا پرسنل بیل آؤٹ پیکیج سے لوگ تن آسانی کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ کوئی زندگی بھر کا سودا نہیں۔
یہ خدشہ بھی بے بنیاد ہے کہ ریاست کی طرف سے امدادی رقوم کا تقسیم کیا جانا پیپر لیس اکانومی کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت بھی تو ۹۰ فیصد سے زائد کیس سپلائی ہر اعتبار سے ڈیجیٹل ہے۔ سسٹم کو اُس کی اصل میں تبدیل کیے بغیر بھی یونیورسل بیسک انکم آسانی سے تقسیم کی جاسکتی ہے۔
توازن اور احتیاط کے ساتھ بروئے کار لائے جانے کی صورت میں یونیورسل بیسک انکم کا ہیلی کاپٹر منی کا طریقہ اچھے نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے ذریعے مالیاتی نظام پر موجود دباؤ کو گھٹایا جاسکتا ہے۔ طلب و رسد میں توازن رہے تو یہ سودا بُرا نہیں۔ ایسی حالت میں یونیورسل بیسک انکم سے معاشرے کا بگاڑ دور کرنے میں غیر معمولی مدد مل سکتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“A universal basic income is essential and will work”. (“globalresearch.ca”. April 20, 2020)
Leave a Reply