سترہویں اور اٹھارہویں صدی (۱۶۰۱تا۱۸۰۰)
اسی دور میں سائنسی ایجادات اور صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی یورپی اقوام کے افریقی مقبوضات کے کنٹرول پر باہمی لڑائیوں کے سلسلے میں خلفشار نے پوپ تک کو پریشان کردیا‘ چنانچہ پوپ نے مداخلت کرکے تمام یورپی ممالک کی صلح کرائی اور افریقی مقبوضات میں حد بندی بھی کی علاوہ ازیں سائنسی ترقی کے ثمرات سمیٹنے کے لیے یورپی عیسائی ممالک میں Co-existance کے اصول بھی طے کرا دیے۔ چنانچہ شیشے کی صنعت بیلجیم کو ملی آرائشی شیشہ اور برتن پرفیوم وغیرہ فرانس اور ہیوی انڈسٹری وغیرہ برطانیہ کے حصے میں آئیں‘ علی ہذا القیاس ‘ جس سے یہود کو امن و سکون اور مستقل بنیادوں پر اپنے مقاصد اور سودی معیشت کو آگے بڑھانے کے بے پناہ مواقع میسر آگئے۔ عیسائیت کے مظالم کی وجہ سے یورپ میں عام آدمی کی حالت بہت ابتر تھی اور سائنسی ترقی اور آزاد خیالی بھی چرچ اور عام عیسائی ذہن کو پسند نہیں تھی۔ پھر چرچ اور بادہشات کے تعاون (جس کے تحت سارے یورپی ممالک ویٹی کن اسٹیٹ اور عیسائیت کی تبلیغ کے سرکاری سطح پر اخراجات برداشت کرتے ہیں اور چرچ آف انگلینڈ کے فروغ کے لئے ذمہ دار ہے اور انگلینڈ یعنی برطانیہ کا تخت‘ بادشاہوں کی جابے جا پشت پناہی کی وجہ سے عوام تنگ آکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور یہ تحریک انقلابِ فرانس پر منتج ہوئی اور جمہوریت کے نام پر بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔ ان حالات میں یہود کو یورپ کے مستقبل سے کوئی زیادہ توقع نہیں رہی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی دنیا تلاش کرتے ہوئے امریکا کو منتخب کرنا پڑا جو عام معلوم دنیا سے بہت دور ہے اور یہود کی سازشوں کے منظر عام پر لانے سے روکنے کا قدرتی ذریعہ بھی۔ چنانچہ انقلاب فرانس کے جلد ہی بعد امریکا میں بھی طویل خانہ جنگی کے بعد ۱۷۷۶ء میں جدید امریکا کا آئین اور ایک پائیدار حکومت کے قیام کا منصوبہ بنا جو کامیابی سے آج تک چل رہا ہے اور اس کے محل وقوع کی وجہ سے کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا۔
یورپ سے مایوسی کی ایک اور وجہ اس سے زیادہ نمایاں ہی اور وہ ہے عالم اسلام کی طرف سے ایک واقعی تہدید (Threat) جسے یہود ہضم نہیں کرسکتے تھے۔ ہوا یوں کہ ۱۲۵۸ء میں عباسی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں میں خانہ جنگی‘ بے انتظامی اور طوائف الملوکی رہی جس سے یہودی منصوبوں کو ناکامی کا خطرہ نظر آیا کہ وہ کنٹرول نہیں کرپارہے تھے۔ تاہم ۱۶صدی کے دوران ہندوستان میں مغلیہ سلطنت (۱۵۲۸ء) ایران میں اسماعیل صفوی کی حکومت (۱۵۴۰ء) اور ترکی میں عثمانی سلطنت کا عروج و استحکام ہوا اور ۱۴۹۲ء میں جہاں مغربی یورپ میں اسلام کا سورج طلوع ہوا وہیں یہودی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ خلاف توقع مشرقی یورپ میں ۱۴۵۲ء میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ فتح کرکے عیسائیوں کو یورپ تک محدود کردیا اور ترکوں کی حکومت میں اسلام کی برکات اور امن و سکون کا عوامی احساس مشرق یورپ کو اسلام کے دامن میں لے آیا اور مسلمان ترک افواج مشرقی یورپ کو فتح کرکے فرانس کے دروازے تک دستک دینے لگیں۔ یہ ایک خارجی اور حقیقی وجہ بھی تھی جس کی وجہ سے یہود کو یورپ سے مایوس ہوکرمستقبل کے سہانے خوابوں اور عالمی سلطنت کے قیام کے لیے امریکا کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ یہی عالمی سلطنت کے قیام او رپوری دنیا پر حکومت کا یہودی ذہن ہے جس کے کئی مظاہر آج بھی امریکی تاریخ اور اس کے رویے میں رچے بسے ہیں۔
امریکی کرنسی کا ایک ڈالر کا نوٹ بہت اہم ہے اور اس کا ڈیزائن شاید دو صدیوں سے یہی چلا آرہا ہے اس پر ایک اہرام مصر کی طرز کی عمارت بنی ہوئی ہے۔ اور اس پر ایک آنکھ۔ بھلا امریکیوں اور اہرام مصر کا کیاتعلق؟یہ تو فرعون کی غلامی کے دور میں یہود کی تاریخ ہے اور شاید انہی کے خون اور پسینے سے بنائے گئے ہیں (خودیہود کی بنائی ہوئی فلم Ten Commandments میں اہرام کی تعمیر کے دوران بنی اسرائیل پر مظالم کا جو نقشہ پیش کیا گیا وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ایک آنکھ خیالی عالمی نظام کی طرف اشارہ ہے ۔ اور ساتھ ہی دوسری طرف اس نوٹ پر عبارت ہے Ordo Novo Seclorum یعنی سیکولر ورلڈ آرڈر ‘ نیو ورلڈ آرڈر کا جو نعرہ بش سینئر نے ۱۹۹۰ء میں پہلی عراق جنگ کے دوران لگایا اس کا خمیر یہود کے ذہن میں ایک ہزار سال سے تھا اور اس کا اظہار امریکی کرنسی پر دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے تحریراً موجود ہے۔ گویا ’’نیو ورلڈ آرڈر دراصل جیو ورلڈ آرڈر‘‘ ہے پھر یہ بات کہ عام ممالک میں کرنسی کا اجراء اور پرنٹنگ حکومت کا معاملہ ہے جب کہ امریکہ میں یہ اختیار بالواسطہ طور پر حکومت کے پاس نہیں بلکہ ۱۸۴۳ء سے بینکوں کے واسطے سے یہود کے ہاتھوں میں ہے۔
انیسویں اور بیسیویں صدی (۱۸۰۱ء تا ۲۰۰۰ء)
ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے ضروری وسائل جمع ہوتے ہی بنی اسرائیل نے براہِ راست اقدامات کرنے شروع کئے۔ مسلمانوں کی تین سلطنتوں کے حصے بخرے کرنا پہلا مرحلہ تھا۔ برصغیر میں یہ عمل سترہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا تاہم ۱۸۵۷ء میں پورے ہندوستان پر قبضے سے مسلمانوں کے بے شمار وسائل تاج برطانیہ کے ماتحت چلے گئے۔ صفوی حکومت کے لیے بھی مسائل پیدا کئے گئے اور وہاں بھی انگریزوں نے پائوں پھیلانے شروع کر دیے۔صنعتی ترقی کے ساتھ مغربی نظریات بھی پھیلنا شروع ہوئے تب تو بے خدا تعلیم (Godless Education) کی ابتداء کی گئی اور یوں سائنس اور مذہب کو جدا کردیا گیا ۔ مغرب میں چرچ اور حکومت بھی الگ ہوگئے۔ نظریات کے میدان میں نئے نئے فلسفوں کے ذریعے اعلیٰ اقدار اور اخلاق و کردار کو ختم کردیا گیا۔
ڈارون تھیوری کے ذریعے انسان بس ایک ترقی یافتہ حیوان بن گیا تو آہستہ آہستہ شرم و حیا‘ پردہ ‘ ستر‘ لباس اور اخلاق و کردار کو بھی قصۂ ماضی بنادیا گیا۔ فرائڈ کے نظریات نے مقدس انسانی رشتوں کو بھی حیوانیت کی بھینٹ چڑھادیا۔
سلطنت عثمانیہ کے افریقی مقبوضات پہلے ختم کئے گئے‘ پھر شمالی افریقہ کے اہم ممالک مراکش‘ الجزائر ‘لیبیا اور مصر وغیرہ یورپی اقوام کے پاس چلے گئے اور یوں فلسطین سے قریب تر ہوکر بنی اسرائیل کو مزید کارروائیاں کرنے کا موقع مل گیا۔ سلطنت عثمانیہ بھی تین صدیوں کے بعد اب زوال پذیر تھی۔ مزید برآں انیسویں صدی کے کچھ حادثات و واقعقات نے اسے اور کمزور کردیا اور اس کے لیے اپنے مقبوضات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اور جرمنی بظاہر دشمن ہونے کے باوجود دونوں یہودی مقاصد کے حصول کے لیے غیر شعوری طور پر سرگرم تھے ‘ اور جیت کسی کی بھی ہو مقاصد بنی اسرائیل کے پورے ہونے تھے۔ اس لیے کہ پیسہ دونوں طرف یہودی کا تھا جو جنگی اخراجات میں کام آرہا تھا۔ یہ پیسہ جنگوں میں کس طرح دیا جاتا ہے اور حکومتیں کس طرح مدتوں یہ قرض مع سود مرکب ادا کرتی ہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے کہ ۱۸۱۳ء میں نپولین بونا پارٹ کے ساتھ جنگ کے لیے انگلستان نے بینک آف انگلینڈ سے قرض لیا جو سو در سود ۱۵۰ سال تک ادا ہوتا رہا۔ اسی طرح ہر جنگ کے بعد کے قرضے قیاس کرلیں۔
چنانچہ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء ۔۱۹۱۸ء) کے دوران تمام عرب علاقے سلطنت عثمانیہ سے کاٹ دیے گئے حتی کہ فلسطین بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ایک برطانوی جنرل نے ۱۱۸۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ۱۹۱۷ء میں سلطان صلاح الدین کی قبر پر آکر کہا کہ Saladin, Look We Have Come! یہ وہ دل کے پھپھولے تھے جو زبان پر آگئے اور ’’اعلان بالفور‘‘ کے ذریعے ۱۹۱۷ء میں یہود کو فلسطین میں آبادکاروں کا جواز مل گیا تو انہوں نے دھڑا دھڑ بڑے بڑے رقبے خرید کر آباد ہونا شروع کردیا اور فلسطینیوں کا اخراج عمل میں آنا شروع ہوا۔ صرف ڈیڑھ سو سال کے اندر بنی اسرائیل نے سازشوں کے ذریعے سلطنت مغلیہ‘ ایرانی سلطنت اور عظیم سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کے نقشے پر مسلم اکثریت کا واحد ملک ترکی ایسارہ گیا جو آزاد تھا ‘ورنہ تمام عالم اسلام یورپی اقوام کا غلام بنالیا گیا اور بنی اسرائیل کو فلسطین میں آبادکاری کی اجازت بھی مل گئی۔۱۹۲۴ء میں نام نہاد خلافت کا بھی مصطفی کمال اتاترک کے ذریعہ خاتمہ کردیا گیا۔ رومن لاء کو ریاست کا قانون بنادیا گیا اور دینی شعائر پر پابندی لگادی گئی۔ مسلمانوں کے مرکزی ادارہ خلافت کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو مزید تقسیم کردیا گیا اور مسلمانوں کا بحیثیت ملت کے وجود ختم ہوگیا۔ مسلمان اب کئی اقوام اور ممالک میں تقسیم ہوکر رہ گئے اور یہ صورتحال آج (۲۰۰۵ء) تک باقی ہے۔
دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ء۔۱۹۴۵ء) کے دوران پھر ایک بار برطانیہ اور جرمنی کی پشت پر یہود تھے۔ تاہم جرمنی کو یہود کے ڈبل گیم اور زیرزمین سرگرمیوں کا اندازہ ہوگیا تو اس نے بقول یہود ۶۰ لاکھ یہودی ۱۹۴۵ء میں قتل کردیئے‘ جس واقعہ کو Holocasut کہا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ کی فتح کے بعد’’یو این او‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور یوں تمام عالم اقوام کی رہنمائی ایک محدود گروہ کے ہاتھ میں آگئی جب کہ یہ گروہ پہلے ہی یہود کا آلہ کار تھا۔ پانچ ممالک کو ’’اقوام متحدہ ‘‘ کے فیصلوں پر ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔ اس سارے عمل میں یہود نے ہمیشہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کو نظرانداز کیا اور پروٹسٹنٹس کو ہر طرح Uphold کرکے ان کی پشت پناہی کی اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال بھی کیا۔ اسی کے لیے مغرب میں WASP کی اصطلاح عام ہے (White Anglo Saxon Protestants)
یہود نے ۱۸۹۶ء میں حالات کا جائزہ لے کر اپنے بڑوں کا اجلاس بلایا اور اتفاق رائے سے حالات کو سازگار سمجھ کر ریاست اسرائیل کے قیام کی نہ صرف منظوری دی بلکہ اس کے مقاصد بھی متعین کردیئے۔ یعنی ایک چھوٹی ریاست لے کر اس کو حضرت سلیمان ؑکے دور کی سلطنت کے برابر کردینا حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ بیت المقدس کو جو ۵۶۷ ق م اور ۷۰ء میں دو بار گر چکا ہے۔ تیسری مرتبہ تعمیر کرنا ۔ طریق کار یا راہِ عمل (Modus Operandi) کے طور پر ہر طرح سے دشمنوں کو استعمال کرکے اور ہر اصول کو توڑ کر اور ہر اخلاقی حد کو عبور کرکے بھی یہ مقصد پورا کرنا طے پایا۔ ۱۹۰۶ء میں (جب ڈھاکہ میں مسلم لیگ بنی اس سال ) اسرائیل بنا تو نہیں مگر’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا نقشہ منصہ شہود پر لایا گیا۔ اسی مقصد کے لیے حکومتوں کو خریدنا‘ ورغلانا‘ تجارتی بددیانتیوں اور عیاشیوں کے ذریعے اہل ثروت کو گمراہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا‘ سیکس‘ شراب اور رشوت کے ذریعے مقاصد کا حصول ممکن بنانا اور حکومتوں کو قرضوں کی سیاست میں جکڑ کر مجبور و محکوم کردینا بنی اسرائیل کا اجتماعی اخلاق رہا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قیام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
بالآخر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کا اعلان کردیا گیا اور ایک چھوٹی سی ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھرآئی جو ایک ’’یک نسلی مذہبی ریاست‘‘ تھی۔ یہ ریاست روز اوّل سے ہی اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر عمل پیرا ہے۔ بعد ازاں آس پاس کے علاقے پر قبضہ کرلیا گیا ‘ مقیم فلسطینیوں کو بے دخل کردیاگیا اور دو جنگوں کے ذریعے اسرائیل نے نہ صرف بیت المقدس (یروشلم) پر قبضہ کرلیا بلکہ بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت کی ریاست اسرائیل جو ایک حقیقت ہے اس کے لیے زمینی اعداد و شمار حسب ذیل ہے:
دی ورلڈ اکنامک ۲۰۰۰ء کی مطابق یہ اعداد و شمار مندرجہ ذیل ہیں:
آبادی: ۵۷ء۵ ملین ملین ۲۰۰۰ء (۳۵ء۰ بلین ۱۷۸۵ء)
شرح آبادی: ۷۱۹ افراد فی مربع میل
شہری آبادی: ۹۱ فیصد
آبادی کی نوعیت: یہودی ۸۲ فیصد‘ غیر یہودی (زیادہ تر عرب) ۱۸ فیصد
اہم زبان: عبرانی
مذاہب: سب سے بڑا مذہب یہودیت ۸۲ فیصد۔۔۔ دوسرے نمبر پر مسلمان (سنی) ۱۲فیصد
رقبہ: ۸۰۰۰ مربع میل
محل وقوع: مشرق وسطیٰ کا مغربی حصہ اور بحیرۂ روم کے مشرقی حصہ پر واقع۔
حدود اربعہ: شمال میں لبنان ‘ شام‘ ویسٹ بینک اور اردن‘ مشرق میں غزہ کی پٹی اور مغرب میں مصر۔
حکومت: ری پبلک۔۔۔ مقامی (اندرونی) اچھ اضلاع میں تقسیم
مسلح فوج: ۱۷۵۰۰۰ افراد
تعلیم: ۵ سال سے ۱۵ سال کی عمر تک تعلیم مفت اور لازمی
ویب سائٹ: www.israel.com
بنی اسرائیل اپنے مقاصد میں اس خوفناک حدت تک کامیاب رہے کہ اب دنیا کے اکثر ممالک میں عملاً بے دین بے اصول‘ عیاش اور شراب خور طبقہ حکمران ہیں۔ عور ت کو آزادی دے کر ہر محفل کی زینت بنانے والے حتی کہ نعت بھی کوئی طوائف ہی گائے تو پسند آئے۔ اور شاید آئندہ ا گر پابندہ نہ لگی تو سرکاری تقاریب میں تلاوت کلام پاک بھی مغنیہ عورتوں سے ہی کرائی جائے گی ۔ ساری دنیا کے حکمرانوں کا ایک ہی کلچر ہے۔ کسی انٹرنیشنل فورم پر تصویر دیکھ کر پتا نہیں چلتا کہ کون کس مذہب اورت ملک سے ہے۔ نام پڑھ کر پتہ چلتا ہے۔ تہذیب‘ وضع قطع ‘ لباس سب ایک ہے۔ مذہبی طبقات کو نظرانداز ہی نہیں کیا گیا نشانِ عبرت بنادیا گیا ہے‘ جب کہ ملکی اور زمینی وسائل سب اسی طبقہ کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اور یہی Protocols of the Elders of the Zions کا ایجنڈا ہے‘ جو کامیاب ہوا ہے۔
بنی اسرائیل کی قومی نفسیات‘ عمرانی اور سیاسی نقطہ ہائے نظر اور قومی و نظریاتی اہداف
انسان مل جل کر رہنے کا عادی ہے۔ اس طرح ہر گروہ علاقے‘ خطے اور ملک کی ایک اجتماعی نفسیات وجود میں آتی ہے جس میں اس علاقے کے لوگوں کے مذہب‘ سوچ‘ تعلیم‘ نظریات وغیرہ وغیرہ کو بنیادی دخل ہوتا ہے۔ ہر دوسری قوم اور گروہ کی طرح بنی اسرائیل کی بھی ایک نفسیات ہے اور اس کی تقریباً ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ ہے۔ اسی اجتماعی نفسیات کا یہ اثر ہے کہ اصولی طور پر جب کسی قوم کو سکون‘ آزادی اور وسائل میسر آتے ہیں تو وہ وہی کچھ کرتی ہے جو اس نے سابقہ دورِ عروج میں کیا تھا۔
مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے اور اسلامی‘ تاریخ تجربات اور قیامِ مدینہ سے آج تک کے تعامل سے بنی اسرائیل کے بارے میں مسلمانوں کے دلوں میں جو احساسات ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب ؑ(جو کہ حضرت اسحٰقؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے اور حضرت اسماعیل ؑ کے بھتیجے تھے) کی اولاد ہیں اور ایک ہی نسل پر مشتمل ہیں‘ لہٰذا یہ کوئی دعوتی اور تبلیغی مذہب کے حامل نہیں ہیں۔
۲۔ یک نسلی مذہبی حیثیت کی وجہ سے اور حضرت اسحق ؑ کی اولاد میں ہزاروں انبیا کی تشریف آوری کی وجہ سے بنی اسرائیل کو یہ شدید احساس ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت چہیتے اور خاص لوگ ہیں اور تمام انسانوں میں سے اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں۔
۳۔ اس احساس کے نتیجے میں یہ نفسیات بنی ہے کہ ہم بخشے بخشائے لوگ ہیں اور قیامت کے دن ہمارا کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی تو صرف قانونی کارروائی کے طور پر یہ خانہ پری کے لیے ہو گا‘ جنت تو ہمارا پیدائشی حق ہے۔
۴۔ اس احساس کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ تمام غیریہودی لوگ‘ اقوام‘ قبیلے اور انسان کم تر ہیں اور بمقابلہ یہود کے Inferior ہیں۔ مزید برآں گمراہ ہیں اور جہنم میں جائیں گے اور ان میں سے کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا۔
۵۔ اس احساس کی انتہا یہ ہے کہ تمام غیریہودی لوگ (ظلم یہ ہے کہ بنی اسرائیل ایک نسل ہے اور دوسرے لوگ اس نسل میں آ ہی نہیں سکتے لہٰذا) پیدائشی طور پر ہی گمراہ اور جہنمی ہیں۔ حتیٰ کہ غیریہودی افراد انسان ہی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک غیریہودی لوگ انسان نما حیوان ہیں‘ جنہیں ان کی اصطلاح میں Goems یا Gentiles کہا جاتا ہے۔ گویا شرف انسانیت پر صرف یہودی فائز ہیں اور یوں تمام عالم پر حکومت ان کا حق ہے۔
۶۔ اسی احساس ہی کا ایک ثمر یہ ہے کہ یہودیت میں Usury (سود) حرام ہے (عیسائیت اور اسلام میں بھی حرام ہے) اور یہودی آپس میں لین دین پر سود نہیں لیتے کہ یہ حرام ہے‘ جب کہ تمام غیریہود اقوام سے سود لیتے ہیں بلکہ تمام عالمی ادارے اور بینک بالواسطہ یا بلاواسطہ یہود ہی کی ملکیت ہیں۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔
۷۔ ایک اور منطقی تقاضا اس شدتِ احساس کا یہ ہے کہ وہ آپس میں تورات کے احکامِ نکاح و طلاق کی پاسداری کرتے ہوں گے‘ تاہم غیریہودی لوگوں اور بالخصوص عورتوں کی عزت لینا اور بدکاری و بے حیائی کا ارتکاب کرنا کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے وہ بے حیائی کو عام کرنا اور پھیلانا اور دوسری اقوام کو بے راہ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا ثواب کا کام اور نیکی سمجھتے ہیں۔
۸۔ امریکا میں خاص یہودی آبادیوں میں (اور شاید اسرائیلی یہودیوں میں بھی) ٹی وی نہیں رکھا جاتا کہ یہ گمراہی کا سبب ہے‘ جب کہ دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے فحش رسالے‘ اخبار‘ چینلز‘ فلمیں (ہالی وڈ وغیرہ) ٹی وی‘ ریڈیو اور کمپیوٹر کی فحاشی کے اداروں کے مالک عام طور پر یہود ہی ہیں۔
۹۔ یہود کے نزدیک غیریہودیوں کا حق دبا لینا اور کھا جانا کوئی برائی نہیں‘ اس لیے کہ غیریہودی حیوان ہیں۔
۱۰۔ تجارتی سطح پر شاید مغربی اقوام کی طرح یہود بھی Honesty is the best policy پر عمل درآمد کرتے ہوں مگر قومی و اجتماعی سطح پر یہ سب اصول ایک طرف رکھے جاتے ہیں۔
۱۱۔ بنی اسرائیل کی طرف ہزاروں انبیا تشریف لائے جن میں بہت سوں کو انہوں نے قتل کر دیا۔ تورات کے مطابق بھی انبیا کا قتل کر دینا ان کا وطیرہ رہا ہے۔
۱۲۔ غیریہودی لوگوں ‘ اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کو دھوکا دینا‘ وعدہ خلافی کرنا‘ مکر جانا اور نقصان پہنچانا عام دنوں میں بھی ان کے مذہب کا ایک حصہ ہے (جبکہ ان کے کسی اجتماعی مقصد کو فائدہ مل رہا ہو)۔
۱۳۔ اپنے کاروباروں کو وسعت دے کر ملٹی نیشنل بنا دیا گیا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں چھا گئے ہیں اب عام استعمال کی اشیا تک ان ہی ملٹی نیشنلز ہی کے نام سے آرہی ہیں۔ پانی (نیسلے وغیرہ)‘ چائے (لپٹن وغیرہ)‘ مشروبات (پیپسی‘ سیون اپ‘ فانٹا‘ مرنڈا وغیرہ)‘ بلیڈ (ٹریٹ وغیرہ)‘ صابن (لکس‘ لیور کی مصنوعات)‘ شیمپوز (سن سلک وغیرہ)‘ فون (نوکیا وغیرہ)‘ کمپیوٹر‘ ادویہ حتیٰ کہ استعمال کی ہر چیز پر انہی ملٹی نیشنلز کا قبضہ ہے اور ان کمپنیوں کا منافع دو سو فیصد سے پانچ سو فیصد تک ہے۔ انہی ملٹی نیشنلز میں ۵۰۰ کمپنیاں ایسی ہیں جو Fortune کمپنیاں کہلاتی ہیں‘ جنہیں کبھی نقصان نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ ان کے کاروبار کا پھیلا ہوا اور وسیع الاطراف ہونا ہے۔ ان میں سے بھی اکثریت یہود کی ملکیت ہیں۔
۱۴۔ ملکی سطح پر فوجی خریداریاں ہوں یا پبلک سیکٹر کی‘ جہاں بھی کروڑوں اور اربوں کی بات ہو گی‘ ان کمپنیوں کا طریقہ کار اور سیلز مین شپ یہ ہے کہ خریداری کرنے والی ٹیم کو جو اکثر و بیشتر دو چار افراد پر مشتمل ہوتی ہے‘ شراب‘ عورت اور مالی طور پر رشوت کی پیش کش کے ذریعہ مائل کرنا ہوتا ہے۔ وہ ان افراد کو Kick backs اور Over invoicing کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں روپے ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی عیاشی کراتے ہیں۔ اپنے ہاں کے نائٹ کلب دکھاتے ہیں‘ حتیٰ کہ ہمارے ہاں کے جو وفود سیاسی مذاکرات کے لیے مغربی ممالک جاتے ہیں‘ ان کے معاملات بھی ان چیزوں سے خالی نہیں ہوتے۔ وہ سیاسی وفود ہوں یا کھیلوں کے سلسلے میں ٹیمیں اور ان کے منیجرز‘ ان کو انہی ہتھکنڈوں کا سامنا رہتا ہے اور انسانی کمزوریوں اور ایمان کی کمی کے باعث اکثر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
۱۵۔ وہ رقم جو وہاں دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے وفود کو ملتی ہے‘ وہ اس نصیحت کے ساتھ ملک واپس نہیں لانے دتے کہ تمہارے ملک کے عوام کو پتا چل جائے گا اور وہ تمہیں ماریں گے (حالانکہ خود وہ ساری فائلیں بوقت ضرورت ہر ایک کے خلاف بطور Lever استعمال کرتے ہیں) لہٰذا وہ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع کر دیتے ہیں کہ یہاں رقم محفوظ اور صیغۂ راز میں رہے گی اور (غالباً) کسی عیسائی اور نئے نام سے جمع ہوتی ہے تاکہ آسانی سے Trace نہ ہو سکے لہٰذا حقیقی ورثا کو بھی نہ مل سکے۔ (ان اکائونٹ ہولڈرز کو ایک گھڑی تحفہ میں ملتی ہے جس میں اس کا نیا نام اور اکائونٹ نمبر درج ہوتا ہے۔
۱۶۔ یہود ہی کے زیرِ اثر امریکا اور کینیڈا نے اپنی شہریت دینے کے لیے ایک مالیاتی حد بھی مقرر کر رکھی ہے‘ جس کا اسی سے تعلق ہے اور اس کے تحت سال میں ہر گرین کارڈ ہولڈر کو امریکا کا سفر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر سال اسی طرح کے لوگ جاتے ہیں‘ اپنے کھاتے سے سود کی رقم Draw کرتے ہیں‘ امریکا ہی میں خرچ کرتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔ واپس آکر وہاں کے نائٹ کلبوں اور دیگر ناگفتہ بہ باتوں کا حسرت کے انداز میں تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔
۱۷۔ امریکا میں جمہوریت کے اجرا کے ساتھ ہی یہود نے ایک طویل المیعاد منصوبہ اور شروع کیا تھا۔ وہ ہے Order of Illuminatee یعنی دنیا بھر کے ذہین افراد کو مغرب بالخصوص امریکا لاکر مغربی تعلیم دینا اور بعد میں ان کو واپس اپنے ملکوں میں بھیج کر حسبِ ضرورت و حسبِ لیاقت ان کی نگرانی کر کے ان کو اپنے اپنے ملکوں میں اہم عہدے دلانا‘ تاکہ عالمی سطح پر ہم ذہن قیادت سامنے آسکے۔ اس قیادت کو وہ کالج اور یونیورسٹی کے دور میں تعلیم سے دور اور Cafe’s اور عیاشی کے زیادہ قریب رکھتے ہیں اور سیاست میں لانے کے لیے یونین میں نمایاں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب نوبت بایں جارسید کہ تھرڈ ورلڈ میں کوئی جنرل یا سیاسی حکمراں اقتدار میں آتا ہے تو دنیا بھر کے ملکوں کے فوجی جرنلز اور سیاسی حکمراں ان کے مغربی یونیورسٹیوں‘ اکیڈمیوں اور اداروں کے کلاس فیلوز ہوتے ہیں جو انہیں پھر ہر طرح سے سپورٹ کرتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے لیے جو لوگ جاتے ہیں وہ ان ہتھکنڈوں میں کس طرح پھنستے ہیں اور کون پھنستا ہے اور کون اس جال سے بچ کر اور ایمان سلامت لے کر واپس آتا ہے‘ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ مثلاً بیرسٹری کے بارے میں جو لوگ جاتے ہیں‘ وہاں کیا ہوتا ہے‘ وہی جانتے ہیں۔ تحریراً مجھے صرف چند اشارے مہاتما گاندھی کی خودنوشت سے ملے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ بیرسٹری کا کورس کوئی تعلیمی کورس نہیں بلکہ تربیت نوعیت کا ہے۔ انگریزی تہذیب‘ لباس پہننے‘ کھانوں اور محفلوں میں خاص لباس کی پابندی بہت ضروری ہے۔ یہ ۱۹۰۱ء کے قریب کی بات ہے‘ اب یہ Brain drain کا معاملہ کہاں تک چلا گیا ہے‘ آپ اندازہ کر لیں۔
۱۸۔ عالمی تجارت پر قبضہ کے ساتھ ساتھ وہ اب زراعت کے میدان میں بھی قبضے کے لیے ڈورے ڈال رہی ہیں اور کافی حد تک کامیاب ہیں۔ عام آدمی اس طریقۂ واردات کو شاید ابھی تک اور کچھ اور سالوں تک سمجھ نہ سکے کہ یہود قوم زراعت پر اور وہ بھی عالمی سطح پر کیسے قبضہ کر سکے گی‘ مگر عملاً ایسا ہو چکا ہے۔ TRIPS کے نام سے ایک معاہدہ WTO کی طرح تمام زرعی ممالک سے ہو چکا ہے‘ جس کے تحت وہ ممالک آئندہ اس کے پابند ہوں گے۔ اس واردات میں یہود نے ہر چیز کے بیج Hyber seeds بنا دیے ہیں۔ جیسے عام روایتی مرغی اور فارمی مرغی ہے۔ روایتی مرغی انڈے دیتی ہے‘ اس سے پھر بچے نکل آتے ہیں‘ لیکن فارمی مرغی انڈے بے تحاشا دیتی ہے مگر آپ انڈوں سے بچے حاصل نہیں کر سکتے۔ چوزوں کے لیے دوبارہ کمپنیوں سے رجوع کرنا ہو گا۔ البتہ آپ یہ انڈے استعمال کر سکتے ہیں۔ پرانی مثالوںمیں خچر کی مثال سامنے رکھیے۔ گھوڑے اور گدھے کی نسل ملا کر پہاڑی علاقوں کے لیے خچر پیدا کیے جاتے ہیں اور صدیوں سے ہو رہے ہیں۔ اس کے باقاعدہ Breeding farms۔ اب خچر کی آگے اپنی نسل کشی نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح بیجوں کی دنیا میں آپ روایتی بیج بوتے ہیں‘ جیسے گندم ہے۔ ہمارے کیا‘ دنیا بھر کے کسان صدیوں سے یہی کر رہے ہیں کہ گندم بوئی‘ جو فصل آئی اس میں سے چند من بیج کے لیے رکھ کر کچھ گھریلو استعمال کے لیے علیحدہ کر کے باقی بیچ دی۔ مگر اب Hyberd بیجوں کا مسئلہ آہستہ آہستہ یہ ہو گا کہ اس سے جو فصل ہو گی اس کے ذریعہ آپ دوبارہ فصل نہیں کاسٹ کر سکتے‘ نئی فصل کے لیے آپ کو سیڈ کارپوریشنز کی طرف رجوع کرنا ہو گا اور وہ آہستہ آہستہ سب ملٹی نیشنلز کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی۔ اب اس میں انتظار اسی بات کا ہے کہ سابقہ روایتی بیج ختم ہو جائیں اور کسان کا مزاج نئے انداز میں ڈھل جائے تو یہود ساری فصل کا منافع بیج بیچ کر ہی کما لیں گے۔ باقی کسان اور زمیندار کی قسمت‘ فصل ہو یا نہ ہو‘ کسی بھی بھائو بکے‘ اس کی بلا سے۔ ابھی بھی ہم انڈین آلو اور لہسن کو رو رہے ہیں مگر بھنڈی‘ تربوز‘ مولی‘ گاجر‘ شلجم اور حتیٰ کہ اجناس کے بیج بھی سب انڈیا سے ہی آرہے ہیں۔ گویا ہماری مارکیٹ پر غیروں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ یہود ساری دنیا کا زرعی شعبہ میں یہی حال کرنے والے ہیں اور اس طرح وہ عالمی سطح پر اسرائیل کے غلبے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
۱۹۔ یہود اور بنی اسرائیل کے منصوبوں میں ایک اہم منصوبہ عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے‘ جس کی حدود بقول ان کے حضرت سلیمانؑ کے دور کی اسرائیلی ریاست کی ہوں گی‘ جس میں مصر‘ مدینہ‘ اردن‘ عراق‘ کویت‘ شام‘ لبنان اور ترکی کا حصہ بھی شامل ہے۔ ان کے منصوبے کے مطابق عنقریب یہ ریاست قائم ہو کر عالمی معاملات کو ملٹی نیشنلز کے ذریعے تجارتی‘ صنعتی اور زرعی طور پر کنٹرول کرے گی اور دیگر عوام بطور Geoms اور Gentiles محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی حاصل کریں گے۔ ساری بالائی اور Lion’s share یہود کو جائے گا اور باقی دنیا جانوروں کی طرح زندگی گزارے گی۔
۲۰۔ دوسرا اہم منصوبہ حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ عبادت خانہ ہیکل سلیمانی (Temple of Soloman) کی تیسری مرتبہ تعمیر ہے جو کہ ۷۰ء سے (۱۹۳۵ سال سے) گرا پڑا ہے اور اب تیسری مرتبہ تعمیر ہو گا۔ اس کے نقشے تیار ہیں‘ رقم موجود ہے۔ اس کا سنگِ بنیاد امریکا کے افغانستان پر حملے کے وقت اکتوبر ۲۰۰۱ء میں کو دنیا کو دھوکا دے کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر ان کے لیے اہم بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسی عبادت گاہ کا وہ مقدس پتھر David Stone ہے‘ جس پر حضرت دائودؑ نے بیٹھ کر تاج پہنا تھا اور حکومت کرتے رہے تھے اور جو آج کل حکومتِ برطانیہ کے پاس امانت کے طور پر سنٹر کیتھیڈرل میں موجود ہے اور برطانیہ کا ہر نیا بادشاہ (یا ملکہ) اسی پتھر پر بیٹھ کر حلف اٹھاتا ہے‘ وہ پتھر لاکر یہاں اسرائیل میں نصب ہو گا تو یہود کے عقیدے (تورات کی پیش گوئیوں) کے مطابق حضرت عیسیٰؑ آئیں گے۔
یاد رہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک اور تورات کی پیش گوئیوں کے مطابق حضرت عیسیٰؑ تشریف لائے تھے‘ مگر یہود نے نہ صرف انہیں مانا نہیں‘ بلکہ ان کے اپنے تئیں سولی چڑھا دیا‘ لہٰذا یہود کے عقیدے اور ذہن کے مطابق وہ نشست اور مقام ابھی خالی ہے‘ یعنی Situation vacant ہے۔ لہٰذا اب وہ کسی کو نبی بنا کر اس مقام پر فائز کریں گے۔ اہلسنت مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ تشریف لائے تھے مگر سولی چڑھانے کے وقت آسمان کی طرف زندہ اٹھا لیے گئے جبکہ سولی کوئی اور شخص چڑھا دیا گیا۔ وہ زندہ ہیں اور یہود کی طرف سے کھڑے کیے گئے کرائسٹ کے مقابل آئیں گے۔ مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کے مقابل میں جو شخص ہو گا‘ وہ اینٹی کرائسٹ ہو گا اور ’’دجال‘‘ کہلائے گا۔ یہ وہ شخص ہو گا جو یہود کے بقول اس مقدس پتھر پر بیٹھ کر آسمانی بادشاہت‘ اﷲ کی حکمرانی یا تورات کے احکام کے نفاذ کا اعلان کرے گا اور ان کے مطابق اسرائیل کی ریاست کے معاملات چلائے گا۔ اس Topic پر ان کا بے حد و حساب لٹریچر موجود ہے اور آج کمپیوٹر کی دنیا میں کرائسٹ اور اینٹی کرائسٹ نامسے سیکڑوں نہیں لاکھوں Web sites جن میں ان کا تذکرہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام ان کے نزدیک کتنا اہم ہے۔
۲۱۔ ہماری طرف سے وہ یہ کام کریں‘ ہمیں اس سے کیا غرض؟ مگر کیا کریں‘ وہ تھرڈ ٹمپل جہاں جہاں بننا ہے‘ وہاں مسجدِ اقصیٰ کھڑی ہے‘ مسجد خلیل ہے۔ مسجد ِاقصیٰ وہ جگہ ہے (یہ قبہ کبھی مسلمانوں نے بعد میں تعمیر کیا تھا) کہ یہاں سے نبی اکرم حضرت محمدﷺ کو معراج حاصل ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں براق کھڑا کیا گیا تھا اور تمام انبیا کی امامت
جناب خاتم الانبیا حضرت محمدﷺ نے کی۔ دوسری اہمیت اس جگہ کی یہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد چند ہفتے یا چند ماہ حضرت محمدﷺ اور تمام صحابہ (اسی بیت المقدس کی طرف (اُس وقت بھی ٹوٹا پڑا تھا) منہ کر کے نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ ایک دن نمازِ ظہر کے فرضوں کی ادائیگی کے دوران حکم آیا کہ آپؐ اپنا قبلہ بدل لیں اور اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف کر لیں۔ اس واقعہ کی علامت کے طور پر مدینۂ منورہ میں اب بھی حج اور عمرہ کرنے والے اس مسجد کو جاکر دیکھتے اور زیارت کرتے ہیں جو مسجد قبلتین (دو قبلوں والی مسجد) کہلاتی ہے۔ اس مسجد میں دو محراب ہیں‘ ایک شمال کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف اور دوسرا محراب جو تحویلِ کعبہ کے بعد استعمال میں ہے‘ جنوب کو خانہ کعبہ کی طرف ہے۔ (واضح رہے کہ مدینہ منور میں قبلہ جنوب کی طرف ہے)۔
قارئین کرام! یہ ہیں مختصر ترین انداز میں کچھ معلومات جو اسرائیل اور بنی اسرائیل کے بارے میں پیشِ خدمت ہیں اور بالعموم ہر مسلمان اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے لیے ضروری ہیں اور ممبرانِ پارلیمنٹ اور وفاقی وزرا و سیکرٹری حضرات کے لیے بھی ازبر کرنے کی چیزیں ہیں تاکہ صحیح سوچ کے ساتھ آگے بڑھا جاسکے اور جو فیصلہ بھی ہو علیٰ وجہ البصیرت ہو اور بعد میں پریشانی‘ پشیمانی اور کفِ افسوس ملنے کا سبب نہ بنے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۲۲ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply