امریکا عالمگیر حکمرانی کا جو خواب دیکھ رہا تھا اُسے شرمندۂ تعبیر کرنا آسان نہ تھا۔ امریکیوں کو بھی اندازہ تھا کہ اُنہیں اِس میدان میں غیر معمولی مسابقت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ نے یورپ کی بیشتر قوتوں کو اِس قابل نہ چھوڑا تھا کہ وہ عالمگیر حکمرانی کے میدان میں اپنی فتوحات جاری رکھ سکیں۔ اُن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تعمیر نو کا تھا۔ جرمنی اور فرانس کی حالت زیادہ بُری تھی۔ وہ کوئی بھی عالمی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے تھے۔ برطانیہ اگرچہ بُری طرح تباہ تو نہیں ہوا تھا تاہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُس کے لیے بھی اب استعماری قوت کی حیثیت برقرار رکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر برطانیہ کا استعماری دور بھی تقریباً ختم ہوگیا۔ ایشیا اور افریقا کے جن ممالک پر برطانیہ نے اپنا پرچم لہرا رکھا تھا اُنہیں آزادی ملی۔
امریکا کو عالمگیر حکمرانی کی پائیدان تک پہنچنے کے لیے روس سے مسابقت درپیش تھی جو اب سوویت یونین میں تبدیل ہوچکا تھا۔ روس نے اپنے علاقے میں تمام چھوٹے بڑے ممالک کے ساتھ مل کر ایک اتحاد قائم کرلیا تھا۔ اِس اتحاد کا حصہ بنے رہنے میں اِن علاقائی ممالک کا بھی مفاد تھا۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے حالات میں اُن کے لیے معاشی اور عسکری اعتبار سے اپنے طور پر آگے بڑھنا ممکن نہ ہوگا۔ سوویت یونین کا قیام تو بیسویں صدی کے دوسرے عشرے ہی میں عمل میں آگیا تھا تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد اِس میں شامل تمام ممالک نے اِسے برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔ روس چونکہ رقبے، آبادی، علمی و فنّی استعداد اور طاقت کے اعتبار سے سب سے بڑا تھا اِس لیے اِس اتحاد میں مفادات کا بڑا حصہ بھی اُسی کا تھا۔ سوویت یونین میں شامل دیگر ریاستیں اپنی اصل پوزیشن سے بخوبی واقف تھیں اِس لیے اُنہوں نے روس کے ساتھ رہنے اور چلنے کو ترجیح دی۔ یہ اتحاد امریکا کی راہ میں سب سے بڑی دیوار تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین بھی سپر پاور کی حیثیت سے اُبھر آیا۔ یورپ میں کوئی بھی طاقت اُسے منہ دینے کے قابل نہ رہی تھی۔ مشرقی یورپ میں سوویت یونین نے اپنا بلاک تشکیل دیا۔ علم اور فن کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی دسترس رکھنے والے کئی ممالک اُس کے ہم نوا ہوئے۔ مشرقی جرمنی بھی سوویت بلاک میں تھا اور پولینڈ جیسا اہم ملک بھی سوویت یونین کے گُن گاتے نہ تھکتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر امریکا اور سوویت یونین کے درمیان طاقت کی رَسّہ کشی شروع ہوئی۔ دونوں میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہی دُنیا کی واحد سُپر پاور ہو۔ یعنی وہ دنیا کو یک قطبی بنانا چاہتے تھے۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے اور قوت کا تجزیہ کرنے والے اِس بات کے حق میں تھے کہ دنیا میں دو بڑی قوتیں ہوں تاکہ طاقت کا توازن برقرار رہے اور کوئی بھی قوت ہر معاملے میں اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش نہ کرے۔ واحد سُپر پاور کے آگے بند باندھنا انتہائی دُشوار ہو جاتا ہے۔
جب یورپ کی بڑی قوتوں نے زور آزمائی کے کھیل سے کنارا کشی اختیار کی تب امریکا اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھاکر دنیا پر حکمرانی کے خواب کی تعبیر تلاش کرنے کا عمل شروع کیا۔ دونوں ہی یہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک اُن کے زیرِ نگیں ہو۔ امریکا نے ایشیا، افریقا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثرات کے دائرے کو وسعت دینا شروع کیا۔ اِس مقابلے نے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی راہ ہموار کی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ۴۵ سال تک دنیا نے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ دیکھی۔ دونوں بڑی طاقتوں کی زور آزمائی اور مسابقت آمیز کشیدگی کو سرد جنگ اِس لیے کہا جاتا ہے کہ دونوں نے براہِ راست تصادم یعنی جنگ سے گریز کیا اور اِس دوران کئی ممالک کے درمیان جنگیں ہوئی۔ کسی بھی جنگ کی صورت میں ایک ملک کا مددگار امریکا ہوتا تھا اور دوسرے کی معاونت سوویت یونین پر فرض ہوجایا کرتی تھی۔
امریکا اور سوویت یونین نے طاقت کے غیر معمولی مظاہرے کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے بہت بڑی افواج تیار کیں۔ دونوں کا دفاعی بجٹ غیر معمولی تھا۔ کوئی بھی دوسری یعنی سابق سُپر پاور دفاعی اخراجات اور دفاعی سامان سے متعلق تحقیق و ترقی کی مد میں خرچ کی جانے والی رقوم کے حوالے سے مقابلے کے قابل نہ تھی۔
دوسری عالمی جنگ سے قبل امریکا بحرالکاہل میں اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کرچکا تھا۔ ہوائی کو اپنی ریاست بناکر امریکا نے دُنیا کو بتادیا تھا کہ وہ توسیع پسند عزائم رکھتا ہے اور کسی بھی حالت میں اپنے وجود کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر امریکا نے چاہا کہ بحرالکاہل سے آگے بڑھ کر یورپی قوتوں اور جاپان کی سابق نوآبادیات میں اپنے اثر و رسوخ بڑھائے۔ جن ممالک میں امریکا اپنی بات منوانا چاہتا تھا وہ ایشیا اور افریقا میں تھے۔ بیشتر ممالک میں امریکیوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ مقامی آبادیاں امریکی اثرات قبول کرنے کو تیار نہ تھیں۔
مزاحمت کا گراف گِرانے اور اپنے لیے خطرات کم کرنے کی خاطر امریکا کو پالیسیاں تبدیل کرنی پڑیں۔ امریکی پالیسی ساز چاہتے تھے کہ امریکی فوج جہاں بھی پہنچے، اُسے مزاحمت کا کم سے کم سامنا کرنا پڑے۔ اِس کے لیے لازم تھا کہ امریکا اپنی حیثیت کے حوالے سے کوئی خاص تبدیلی متعارف کرائے۔ امریکا نے جن ممالک پر نظر رکھی ہوئی تھی اُن میں خود کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کے لیے ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ کا درجہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ امریکا نے کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں اور کہیں واضح انداز سے خود کو انٹر نیشنل پولیس مین (یعنی خدائی فوجدار) کے طور پر پیش کیا۔ امریکی پالیسی سازوں نے پسماندہ اور اُبھرتے ہوئے ممالک کے لوگوں پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی بہبود کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہ کریں، اِس کام کے لیے امریکا موجود ہے! یہ تاثر پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ امریکا اُن کے تمام مسائل کا حل ڈھونڈ نکالے گا اور اُنہیں اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے درکار تمام وسائل فراہم کرے گا۔
امریکا نے ایک بار خود کو خدائی فوجدار قرار دے لیا تو پھر اُسے یہ سمجھانے والا کون تھا کہ کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت کوئی اچھی بات نہیں۔ امریکی افواج نے دنیا بھر میں منہ مارنا شروع کردیا۔ سرد جنگ کے دوران امریکا نے مختلف خطّوں کے متعدد ممالک میں کم و بیش ۲۰۰ بار مداخلت کی۔ امریکی افواج نے کبھی کبھی بلا ضرورت بھی مداخلت کی۔ مگر خیر، یہ بلا ضرورت نہیں تھا۔ اگر کسی ملک کی طرف سے امریکا کو مداخلت کی دعوت ملی ہو تو عسکری مہم جُوئی قابل فہم ہے۔ کہیں بلا ضرورت مداخلت یا کارروائی کیوں؟ بات سیدھی سی ہے۔ امریکا چاہتا تھا کہ ساری دُنیا پر یہ واضح کردے کہ اگر کسی نے اُس سے اُلجھنے کی کوشش کی تو اُسے انجام کے بارے میں سوچ لینا چاہیے!
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر امریکا نے ایشیا و بحرالکاہل کے مختلف ممالک میں مداخلت کے حوالے سے منصوبے تیار کیے۔ اُسے اندازہ تھا کہ چند بڑی طاقتوں کے کمزور پڑ جانے اور راہ سے ہٹ جانے سے خلا پیدا ہوا ہے۔ یہ خلا پُر کرنے کی قوت امریکا کے سِوا کسی میں نہ تھی۔ امریکی پالیسی سازوں کو اندازہ تھا کہ بر وقت اور موزوں اقدامات سے امریکا عالمی سیاست و معیشت میں بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ حالات کی روشنی میں امریکی پالیسی سازوں نے ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں عسکری مہمّات کی راہ ہموار کی۔ چین اور ملائیشیا میں انقلابی سوچ رکھنے والے متحرّک تھے۔ اُن کے غیر معمولی تحرّک نے امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اِسی دوران جزیزہ نُما کوریا میں جنگ چِھڑ گئی۔ امریکا کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایشیائی طاقتوں پر اپنی طاقت واضح کردے۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور ایشیائی ممالک کو بتادیا کہ وہ اِس خِطّے میں بھی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرسکتا ہے۔
امریکی لڑاکا طیاروں، ٹینکوں اور جنگی جہازوں نے جزیرہ نُما کوریا کی جنگ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے طاقت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دُنیا خوف سے لرز کر رہ گئی۔ کوریا میں کم و بیش ۴۵ لاکھ افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں تین چوتھائی عام شہری تھے۔ ۵۴ ہزار سے زائد امریکی فوجی بھی موت کے گھاٹ اُترے۔ امریکا نے تین سال تک جاری رہنے والی اِس جنگ میں اپنی بحریہ کو پوری قوت سے استعمال کیا مگر اِس کے باوجود مکمل اور بے داغ کامیابی اُس کا مقدر نہ بن سکی۔ جب جنگ ختم ہوئی تو کوریا دو حصوں میں بٹ گیا۔
امریکا نے جزیرہ نُما کوریا میں ہونے والی جنگ تو خیر نہ جیتی، مگر ایک جنگ ضرور جیت لی، خطے میں اپنی افواج تعینات کرنے کی جنگ۔ کوریا جب جنوبی اور شمالی کوریا میں تقسیم ہوگیا تو امریکا نے جنوبی کوریا میں اپنی افواج تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شمالی کوریا چونکہ سوویت یا کمیونسٹ بلاک میں تھا اِس لیے ناگزیر ہوگیا کہ اُس کے مقابل جنوبی کوریا میں اتحادی افواج ہوں۔ یوں امریکا نے جنوبی کوریا میں اپنی عسکری موجودگی یقینی بنائی۔ آج جنوبی کوریا میں ۴۰ ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔
جزیرہ نُما کوریا سے نمٹنے کے بعد امریکا نے دوسری جنگ کا انتظار شروع کیا۔ اور ایک عشرے کے بعد اُس کی دِلی مُراد پھر بر آئی۔
امریکا نے ۱۹۶۵ء میں ڈومینیکن ری پبلک کو نشانہ بنایا۔ پہلے مرحلے میں وہاں کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا گیا۔ عوام نے اِس پر شدید احتجاج کیا۔ جس صدر کو اُنہوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا اُس کی بحالی کے لیے وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں جمہوریت کا حقیقی علم بردار ہے، مگر عمل کی دنیا میں جو کچھ دکھائی دیا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ ڈومینیکن ری پبلک میں بھی امریکا نے تمام جمہوری اقدار اور اُصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے چہیتوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھانا چاہا۔ جب ڈومینیکن ری پبلک کے لوگوں نے دیکھا کہ اُن کے منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے سے روکا جارہا ہے تو اُنہوں نے مزاحمت کی ٹھانی۔ مزاحمت چونکہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے گالی کے مترادف ہے اِس لیے ۲۲ ہزار امریکی فوجی ڈومینیکن ری پبلک بھیجے گئے۔ اِن فوجیوں کو کسی بھی طرح کی مزاحمت کچلنے کا پورا اختیار دیا گیا تھا۔ امریکی فوجیوں نے ڈومینیکن ری پبلک کے دارالحکومت سینٹو ڈومنگو کی سڑکوں پر تین ہزار سے زائد مزاحمت کاروں کو گولیوں سے بُھون ڈالا۔ ڈومینیکن ری پبلک میں امریکی عسکری مداخلت سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ ملک کی معیشت ڈانوا ڈول ہوگئی، اُس پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ عوام امریکی مداخلت برداشت کرنے کے لیے کسی بھی طور تیار نہ تھے۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ امریکا کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اُن کے پورے قومی وجود کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ وہ امریکی حمایت سے ’’سرفراز‘‘ ہونے والے دوسرے بہت سے ملکوں کا بُرا حشر دیکھ چکے تھے۔ امریکیوں کو بھی اندازہ تھا کہ ڈومینیکن ری پبلک میں اُن کا وجود زیادہ دن برداشت نہیں کیا جائے گا۔ امریکی خفیہ ادارے، فوج اور محکمۂ خارجہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ یقینی طور پر ایسا نہ تھا کہ برداشت کیا جاتا۔ بڑھتی ہوئی مزاحمت کے پیش نظر امریکا کو ڈومینیکن ری پبلک سے اپنی بساط لپیٹنی پڑی۔
ڈومینیکن ری پبلک سے فارغ ہونے کے بعد امریکا نے ویت نام کا رُخ کیا۔ دس سال جاری رہنے والی ویت نام جنگ میں امریکا نے لاکھوں ویت نامیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس کا کسی بھی سطح پر کوئی جواز نہ تھا۔ امریکیوں نے ویت نام کو مکمل طور پر برباد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ دس برسوں کے دوران امریکیوں نے ویت نام میں اپنی مرضی کی بدعنوان اور ناکارہ حکومت برقرار رکھی۔ اِس حکومت کو برقرار رکھنے کی خاطر مقامی باشندوں کا جس قدر بھی خون بہانا پڑا، بہایا گیا۔
ویت نام دوسری عالمی جنگ سے قبل فرانس کی نوآبادیات میں شامل تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر جب امریکیوں نے سابق یورپی نوآبادیات میں پنجے گاڑنے کا عمل شروع کیا تو اُن کی نظر ویت نام پر بھی پڑی۔ امریکی پالیسی سازوں کو ویتنام میں انٹری دینے کے لیے بیس سال انتظار کرنا پڑا۔ امریکی فوجیوں نے ویت نام کی سرزمین پر ۱۹۶۴ء میں قدم رکھا اور ۱۹۷۳ء میں وہاں سے بوریا بستر گول کیا۔ تقریباً دس برس تک امریکا نے ویتنام کو رات دن برباد کیا اور خرابی محض ویت نام تک محدود نہ رہی، لاؤس اور کمبوڈیا پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا نے انڈو چائنا کے خِطّے میں اپنی دس سالہ موجودگی کے دوران جتنا گولہ بارود استعمال کیا اُتنا تو تمام جنگوں میں مجموعی طور پر بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ ویت نام میں جو کچھ ہوا وہ اِتنا بھیانک تھا کہ خِطّے کے لوگ کانپ کر رہ گئے۔ باقی دُنیا بھی حیران تھی کہ بدمست ہاتھی کی طرح کسی بھی طرف چل نکلنے والا امریکا کب آرام سے بیٹھے گا اور دوسروں کو بھی سُکون سے زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ ویت نام کے معاملے میں امریکی فوج کا ایک انتہائی خطرناک نظریہ بھی سامنے آیا۔ یہ کہ کبھی کبھی کسی ملک کو بچانے کے لیے اُسے برباد بھی کرنا پڑتا ہے! اِس ایک جُملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا دُنیا بھر میں کیا کرتا آیا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ اب تک تو دُنیا نے یہ دیکھا تھا کہ بڑے اور طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور ممالک پر لشکر کشی کرکے اُنہیں محکوم بناتے اور اُن کے وسائل سے استفادہ کرتے ہیں۔ امریکا نے معاملات ہی پلٹ کر رکھ دیے۔ یعنی کسی بھی ملک پر لشکر کشی کرو، اپنی مرضی کی حکومت قائم کرو اور اگر اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اُس ملک کو اِس قابل ہی نہ چھوڑو کہ کوئی اور ملک اُس پر قبضہ کرنے کے بارے میں سوچے۔
ویت نام کو اِس طور تباہ کیا گیا کہ پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوسکا۔ ہزاروں دیہات جلادیے گئے اور اُن کے مکینوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ انڈو چائنا پر مُسلّط کی جانے والی اِس جنگ میں تقریباً ۲۰ لاکھ افراد مارے گئے اور اُن میں نصف عام شہری تھے۔
Leave a Reply