افغانستان پر قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فکر مند نیٹو اتحاد کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کے لیے پرتگال کے دارالحکومت لزبن کا چنائو ممکن ہے محض اتفاق ہو، لیکن تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی میں ایشیا اور افریقا کے وسائل اور دولت پر قبضے کے لیے نوآبادیاتی مہمات کا آغاز پرتگال ہی نے کیا تھا، دیگر یورپی قوموں نے اس مہم میں پرتگال کی پیروی کی۔
جدید استعمار کی اس بار نظریں جنوبی ایشیا پر اور توجہ کا مرکز افغانستان ہے، تمام استعماری اقوام مل جل کر قبضے کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور اس کے پیچھے جذبہ وہی صدیوں پرانا ہے یعنی کمزور قوموں کے وسائل ہڑپ کرنا۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا کی سرکردگی میں افغانستان پر نیٹو کی چڑھائی کو شروع ہی سے ’انسانی بھلائی کا مشن‘ قرار دیا گیا، اگرچہ اس نام نہاد بھلائی کو صرف مغربی دنیا کے لیے مختص رکھا گیا۔
جارج بش کی شروع کی ہوئی صلیبی جنگ کو اوباما نے من و عن اپنا لیا اور اپنی اس غلطی کے ازالے کا کوئی ثبوت نہیں دیا بلکہ گزشتہ برس مزید تیس ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیج کر غلطی پر اصرار کیا۔ اب جبکہ نیٹو اپنی (اور انسانی تاریخ کی) جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی اور حربی طاقت سے لیس ہو کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج کے ساتھ نو سال سے افغانستان پر قابض ہے، اس موضوع پر بحث کا وقت آ چکا ہے کہ کیا اس جارحیت نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سرزمین کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنا دیا ہے؟ قابض افواج نے افغانستان سے طالبان کا صفایا کرنے کا ہدف بڑے زورو شور سے مقرر کیا تھا تاہم آج ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ نو برسوں میں انہوں نے اس ہدف کو جزوی طور پر ہی سہی حاصل کر لیا ہو۔ افغان صورتحال پر پینٹاگون کی تازہ ترین 24 نومبر کی رپورٹ اس ناکامی کا اعتراف ہے۔
خود نیٹو ممالک کے عوام، دانشوروں اور سول سوسائٹی میں یہ بے مقصد اور مایوس کن جنگ نہایت غیر مقبول ہو چکی ہے، مقبول تو خیر وہ کبھی نہ تھی۔ مغربی معاشروں کے سروے ہی وہاں کی عام سوچ اور فکر کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے نیٹو کا شاید ہی کوئی رکن ملک ایسا ہو جہاں کے اکثر عوام اس جارحیت کو برقرار رکھنے کے حامی ہوں۔
مثال کے طور پر کینیڈا کو لیجئے۔ کینیڈا کے متحرک اور فعال لیڈر لیسٹر پیئرسن ہی نے (جنہوں نے امن کا نوبیل انعام لیا) شورش زدہ علاقوں میں امن فوج کی تعیناتی کا تصور سب سے پہلے پیش کیا تھا، تاہم ان کی قدامت پسندانہ قیادت میں کینیڈا کا امریکہ کی جانب جھکائو اتنا بڑھ گیا کہ آج ان کا ملک آنکھ بند کر کے امریکی نیو کانز کی پالیسیوں پر چل رہا ہے۔ افغان صوبے قندھار کے نواح میں قابض فوجوں کو سب سے زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں اور کینیڈا کے دو ہزار فوجی ان ہی علاقوں میں حملوں میں مصروف ہیں۔ دو سال قبل کینیڈین وزیراعظم اسٹیفن ہارپر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جولائی ۲۰۱۱ء تک اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس بلا لیں گے، تاہم لزبن کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی انہوں نے قلا بازی کھا کر اور اپنی پارلیمنٹ کے مشورے کے بغیر اعلان کیا کہ ان کی تقریباً نصف فوج ۲۰۱۴ء تک افغانستان میں رہ کر افغان فوج کو تربیت دے گی تاکہ وہ ملک کی سلامتی کی خود حفاظت کر سکے۔ جہاں تک رائے عامہ کا تعلق ہے تو ۱۶؍ نومبر کو کینیڈین پریس ’’ہیرس ڈیسیما‘‘ (Harris-Decima) کے سروے کے مطابق ۶۰ فیصد کینیڈین عوام نے افغانستان میں اپنی فوج کی موجودگی کی مخالفت کی ہے۔
یہ محض کینیڈا کا معاملہ نہیں، نیٹو کے تقریباً ہر ملک کی رائے عامہ کا یہی حال ہے۔ دراصل افغانستان پر قبضے کی مہم تھکان کا شکار ہو چکی ہے اور اس نے مغربی جمہوریتوں کی خلقی کمزوریوں کو دنیا پر عیاں کر دیا ہے۔ جمہوریت میں پائی جانے والی لچک کے مداحوں کے لیے یہ بات انتہائی مایوس کن ہے کہ انتہائی تجربے کار جمہوری ممالک کی قیادت بھی سچائی کا ایک لمحہ برداشت نہیں کر سکتی۔
تاہم یہ محض شکستہ اعصاب کا معاملہ نہیں ہے جو ان مغربی ملکوں سے احمقانہ فیصلے کرا رہے ہیں اور یہ فیصلے عوام کی خواہشات کے برخلاف ہو رہے ہیں حالانکہ عوام نے ان کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کیا، گمراہی کے لیے نہیں۔ دراصل اس فوجی اتحاد کی مجروح انا اور طاقت کی رعونت نے لزبن سربراہ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا کہ نیٹو افواج مزید چار سال یعنی ۲۰۱۴ء تک افغانستان میں رہیں گی۔ بظاہر اس کا عذر یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مزید افغان فوج اور پولیس کو تربیت دیں گی اور ۲۰۱۱ء کے موسم خزاں تک ان کی تعداد دو لاکھ ۶۰ ہزار سے بڑھا کر تین لاکھ چھ ہزار کر دیں گی۔
مغرب کو افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کا ایک بہانہ مغربی استعمار کے مشہور و معروف آلہ کار آئی ایم ایف نے بہ سرعت فراہم کیا ہے۔ ۲۰۱۴ء سے آگے افغانستان کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں آئی ایم ایف کی پیش گوئی پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’کم از کم ۲۰۲۳ء تک کوئی امکان نہیں ہے کہ افغان معیشت اتنی بھاری بھرکم ملکی فوج اور پولیس کا بوجھ سہار سکے‘‘۔ چنانچہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے، یعنی افغانستان طویل عرصہ مغرب کی خواہشات کا کھلونا بنا رہے گا۔
تاہم اپنی ان افواج کے لیے جو طالبان کے خاتمے یا کم از کم انہیں اتنا ناکارہ کرنے کا کہ وہ نیٹو کی شرائط پر امن کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں، ہدف اب تک پورا نہ کر سکیں مزید وقت طلب کرنا بالواسطہ طور پر مغرب کا اعتراف شکست ہے۔ لزبن سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں بین السطور یہ پڑھا جا سکتا ہے کہ افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنا نیٹو کے لیے ’مشن امپاسبل‘ بنتا جا رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء کو بھی قطعی تاریخ نہیں کہا گیا ہے۔ وائٹ ہائوس کے ایک ترجمان نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی ہے کہ ’’یہ تاریخ صرف ایک خواہش کا اظہار ہے، اتحادی ممالک کام ختم ہونے تک افغانستان میں رہیں گے‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیٹو افغانستان میں قیام طویل کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتا ہے۔ اس پہیلی کا جواب ہم آگے چل کر دیں گے۔ فی الحال اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ راستہ نیٹو کی مجروح انا اور طاقت کی رعونت نے اسے سجھایا ہے۔ سرد جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والے اس فوجی اتحاد کا مشن یہ قرار پایا تھا کہ جنگ کی صورت میں روس کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور حدود میں رکھا جائے تاہم اس معاملے میں نیٹو کا امتحان شروع ہی نہ ہو سکا کیونکہ روس سے مقابلے کا میدان سج ہی نہ سکا۔ روس کے انہدام کے بعد نیٹو کو اصولی طور پر تحلیل کر دیا جانا چاہیے تھا، تاہم اس نے اپنے کرنے کا کام ڈھونڈ ہی لیا۔
گیارہ ستمبر کے بعد نیٹو نے عالمی مغربی مفادات کا نگراں اور پولیس مین بننے کا کردار اپنے لیے پسند کر لیا اور بش کی چھیڑی ہوئی جنگوں کا دم چھلا بننا قبول کرتے ہوئے نام نہاد دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ افغانستان پر جارحیت نیٹو کی اس تخلیق نو کا آغاز تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ کہاں اکیسویں صدی کے نیٹو کی مشترکہ جنگی طاقت اور کہاں ایک ’نرم چارہ‘ افغانستان! یہ ایک نہایت آسان ہدف معلوم ہوتا تھا۔ لیکن آہ …… ایسا نہ تھا۔
مغرب کی لغت میں پتھروں کے دور کے وحشی انسان کہلانے والے طالبان نے ثابت کیا کہ حملہ آوروں نے ان کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے، دنیا کی جدید ترین افواج کا اتحاد انہیں نیست و نابود کرنے یا کم از کم ہار مان لینے پر مجبور کرنے کا ارمان لیے نو سال سے افغانستان میں ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ مغربی لیڈروں کے لیے یہ اعتراف کرنا نہایت مشکل ہو گا کہ وہ افغانستان میں ویت نام کی مانند دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ دوسری طرف ان لیڈروں کے ووٹر ان سے سوال کر رہے ہیں کہ منطقی انجام سے یکسر مبرا اس جنگ کو جاری رکھنے میں آخر کون سی دانش پنہاں ہے۔
جارح فوج کا جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔ ہلاک اور زخمی فوجیوں کے لحاظ سے ۲۰۱۰ء ان کے لیے سب سے خونی سال تھا۔ ظاہر ہے کہ بھاری تعداد میں افغان شہریوں اور ان بے گناہ پاکستانیوں کا خون حملہ آور فوج نے اپنے لیے روا رکھا ہوا ہے جو آئے دن امریکی ڈرون حملوں کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے بڑھتے ہوئے جانی نقصان کو مغربی لیڈر افغانستان میں اپنے مستقل قیام کا جواز بنانے لگے ہیں۔ ان لیڈروں اور ان کے حامیوں کا استدلال یہ ہوتا ہے: اپنے بے شمار فوجیوں کی قربانیوں کو آخر ہم کس طرح نظرانداز کر سکتے ہیں اور کام پورا کیے بغیر فوجوں کو کیسے واپس بلا سکتے ہیں۔
تاہم مغرب کی مجروح انا اور طاقت کی رعونت کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو گزشتہ ماہ لزبن کانفرنس کے ڈرامے میں کارفرما تھی، لیکن کوئی بھی لیڈر اس چیز کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ چیز ہے ترکمانستان، افغانستان تا پاکستان (گوادر) گیس پائپ لائن کا دیوپیکر منصوبہ۔ یہ کوئی نیا منصوبہ نہیں، یہ گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے کا ہے اور اس منصوبے پر امریکا اور طالبان حکومت کے مذاکرات جاری تھے۔ اس زمانے میں طالبان امریکہ کو بہت سوٹ کرتے تھے، واشنگٹن میں معزز مہمانوں کا سرخ قالینوں پر استقبال ہوا کرتا تھا۔ تاہم افغان جنگ کے باعث اس منصوبے پر کام قطعی نہیں روکا گیا۔ جی ایٹ ممالک (جس میں روس کے سوا سب کے سب نیٹو کے رکن ہیں) نے چند ماہ قبل ٹورنٹو میں اپنی سربراہ کانفرنس میں اس منصوبے کی رسمی منظوری دی تھی۔ منصوبے کی مالی سرپرستی منیلا کا ایشیائی ترقیاتی بینک کر رہا ہے۔
اس مشترکہ منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے ممالک ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (ٹی اے پی آئی۔ TAPI) ہیں۔ ماہرین کے مطابق منصوبے کی تکمیل ۲۰۱۴ء ہے۔
اس منصوبے میں پاکستان کی شرکت امریکہ کے لیے نہایت اہم ہے۔ امریکہ پاکستان کو دھمکاتا آیا ہے کہ وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے مجوزہ منصوبے پر کام روک دے۔
مغربی جمہوریتوں کے طریقہ کار سے واقف لوگ وہاں کے کارپوریٹ اداروں کے مفادات سے بھی آگاہ ہیں اور اس اثر و رسوخ سے بھی جو یہ ادارے حکمراں طبقات میں رکھتے ہیں اور جب بات غیر ممالک میں منافع بخش منصوبوں کی ہو تو ’سب کی آزادی‘ کے یہ چیمپئن منہ سے بہتی رال پر بمشکل ہی قابو پاتے ہیں۔
مغربی استعمار کے قدیم عہد میں نوآبادیات میں جنگی بحری جہاز آگے آگے اور عیسائی مشنریاں ان کے پیچھے پیچھے آتی تھیں جو یسوع مسیح کے نام پر وہاں کے باشندوں کو ’آزادی‘ عطا کرتی تھیں۔ جدید استعمار نے تھوڑی تبدیلی کے ساتھ یہ کام کثیر ملکی اداروں کو سونپ دیا ہے جو ’عالمی کھلی منڈی‘ (global market place) کے نعرے لگاتی اس کے پیچھے پیچھے مقبوضہ سرزمین میں داخل ہو جاتی ہیں۔
یہ امر ہرگز حیرت انگیز نہیں ہے کہ نیٹو کی سب سے بھاری جنگی مشینری قندھار کے اردگرد تعینات ہے جو کہ پائپ لائن کے متوقع راستے پر نہایت اہم مقام ہے۔ نیٹو افغانستان کو ہر قیمت پر (اپنے لیے) محفوظ بنانا چاہتا ہے اور یہ بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ دیوپیکر کارپوریٹ منصوبہ کامیابی سے تکمیل پذیر ہو۔
افغانستان میں دو صدی قبل کے ’’گریٹ گیم‘‘ اور آج کے ’’گریٹ گیم‘‘ میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے صرف ایک طاقت تنہا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اور آج یہ ایک مشترکہ مغربی منصوبہ ہے۔
دسترخوان تیار ہے اور بھوکے ٹوٹ پڑے ہیں!
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء۔ ترجمہ: منصور احمد)
Leave a Reply