امریکا کے صدر جوزف بائیڈن کا افغانستان سے باقی ماندہ ۲۵۰۰ فوجیوں کو ستمبر تک نکال لینے کا اعلان افغانستان اور اس کے پڑوسیوں کے لیے ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی حکومت اس اعلان کو اپنے لیے، طالبان کے لیے اور پورے خطے کے لیے ایک ایسے لمحے سے تعبیر کرتی ہے جس میں امکانات بھی پائے جاتے ہیں اور خطرات بھی کم نہیں۔
اسلامی جمہوریہ افغانستان کے منتخب لیڈر کی حیثیت سے یہ میرے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ امن کے حوالے سے اپنی ترجیحات واضح کروں۔ میں نے فروری ۲۰۱۸ء میں طالبان کو غیر مشروط امن معاہدے کی پیشکش کی تھی۔ اس کے بعد اُسی سال جون میں تین دن کی جنگ بندی بھی ہوئی تھی۔ ۲۰۱۹ء میں میری طرف سے بلائے جانے والے لویا جرگے نے طالبان سے امن مذاکرات شروع کرنے کا مینڈیٹ دیا۔ میری حکومت نے ایک ایسے سیاسی تصفیے کے لیے قومی اتفاق رائے کے حوالے سے کام شروع کیا جس کا مقصد افغانستان کی سیاسی و معاشرتی روایات اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے حوالے سے راہ ہموار کرنا تھا۔ میری حکومت طالبان سے بات چیت جاری رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ اور اگر امن ممکن بنایا جاسکے تو میں صدر کی حیثیت سے اپنی میعاد پوری ہونے سے قبل ہی منصب سے الگ ہونے کو بھی تیار ہوں۔
افغان قوم کے لیے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا اعلان بھی امریکا اور افغانستان کے درمیان طویل المیعاد شراکت داری کا نیا مرحلہ ہے۔ افغانستان انخلا کے کئی مراحل سے گزرا ہے۔ میں نے جب ۲۰۱۴ء میں صدر کا منصب سنبھالا تھا تب امریکا اور نیٹو فورسز کے ایک لاکھ ۳۰ ہزار سپاہیوں نے انخلا کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں افغان لیڈر شپ کو اندرونی سلامتی کا معاملہ مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لینے، اپنے اداروں کے لیے انٹر نیشنل پارٹنرز کی طرف سے معاونت کا موقع بھی ملا۔ تب سے اب تک افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز نے ملک کو سنبھالا ہے اور اب تک دو قومی انتخابات ممکن بنائے ہیں۔ آج ہماری حکومت اور ہماری فورسز سات سال پہلے کی صورتِ حال کے مقابلے میں خاصی مضبوط ہوچکی ہیں اور ہم امریکی فوجیوں کے جانے پر اپنے لوگوں کو سلامت رکھنے اور ان کی خدمت جاری رکھنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
امریکی افواج کے مکمل انخلا میں افغان عوام کے لیے حقیقی آزادی و اقتدارِ اعلیٰ کے حصول کا موقع بھی چھپا ہوا ہے۔ گزشتہ بیس برس میں چالیس ممالک نے اپنے فوجیوں کو افغانستان میں تعینات رکھا ہے۔ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے اہم فیصلے افغان حکومت کیا کرے گی۔ طالبان اب تک غیر ملکی افواج کے خلاف جہاد کرتے آئے ہیں۔ اب یہ نعرہ چل نہیں سکے گا۔
مکمل انخلا کے امریکی فیصلے نے طالبان اور ان کے پاکستانی سرپرستوں کو بھی حیران کیا ہے اور انہیں کسی فیصلے تک پہنچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ وہ اہم اسٹیک ہولڈر بنیں گے یا مزید انتشار اور تشدد پھیلانے پر متوجہ ہوں گے؟ اگر طالبان نے انتشار اور تشدد کا راستہ چنا تو افغان فورسز ان سے لڑیں گی۔ اور اگر طالبان نے اب بھی بات چیت کے راستے پر چلنے سے احتراز کیا تو قبر کا سکون منتخب کریں گے۔ اس مقدر (تباہی) کو ٹالنے کے لیے طالبان کو افغانستان سے متعلق اپنے وژن کے بارے میں چند اہم سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ کیا وہ انتخابات کو قبول کریں گے اور کیا وہ لڑکیوں، عورتوں اور اقلیتوں سمیت تمام افغانوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے تیار ہوں گے؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں ملنے کا ایک اشارہ حال ہی میں ترک شہر استنبول میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سے طالبان کے واک آؤٹ کا فیصلہ تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کو امن سے زیادہ اقتدار سے غرض ہے۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے … یہ کہ کوئی سیاسی تصفیہ طے پائے اور طالبان کو معاشرے اور حکومت میں ضم کیا جائے۔
وہ مستقبل جو افغان چاہتے ہیں
افغانستان کے عوام ۱۹۹۰ء کی دہائی کی ہولناکی نہیں چاہتے اور وہ اس راہ پر گامزن ہونا کسی صورت پسند نہیں کریں گے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے امن کے لیے موزوں موقع کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ امن کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اس کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم تیار کرلیا جائے۔
میڈیا میں امریکی انخلا سے متعلق خاصی منفی نوعیت کی باتیں آتی رہی ہیں مگر ہم یہ دیکھیں گے کہ اس انخلا کے بطن میں ہمارے لیے کون سے امکانات پوشیدہ ہیں۔
تمام عالمی اسٹیک ہولڈر اور افغان عوام آزاد و خودمختار، متحدہ، اسلامی، جمہوری، غیر جانبدار اور ہر اعتبار سے جُڑا ہوا افغانستان چاہتے ہیں۔ افغان عوام نے اگست ۲۰۲۰ء میں لویا جرگہ کی حمایت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ حقیقی اور پائیدار امن چاہتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ء میں عالمی برادری نے بھی اس خواہش کا عملی اظہار کیا، جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر ۲۵۱۳ منظور کی جس میں واضح کردیا گیا تھا کہ دنیا طالبان کی حکومت کا احیا نہیں چاہتی۔
اب تک مکمل طور پر واضح نہیں کہ طالبان کیا چاہتے ہیں۔ وہ افغانستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں مگر وہاں تو اسلامی نظام پہلے سے موجود ہے۔ افغانستان میں حقیقی امن اور وسیع البنیاد سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات کی کامیابی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ طالبان جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہ تفصیل سے، جزئیات کے ساتھ بیان کریں۔ کامیاب مذاکرات کے لیے قابلِ اعتبار اور غیر جانبدار ثالث کی ضرورت ہے۔ اسی لیے قطر کے دارالحکومت دوہا میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان طے پانے والی بات چیت کے دوران بھی جامع اور طاقتور ثالث کے نہ ہونے سے معاملات الجھ گئے۔ اس مقصد کے لیے موزوں ترین پلیٹ فارم اقوام متحدہ کا ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا زور اولاً اس نکتے پر ہونا چاہیے کہ ملک میں جامع جنگ بندی ہو تاکہ امن پھیلے۔ افغان عوام کی سلامتی اور بہبود کو نظر انداز نہ کیا جائے اور قیامِ امن کے عمل میں اسٹیک ہولڈرز کی دلچسپی بڑھائی جائے۔
بات چیت کے دوران ہونے والی جنگ بندی عموماً ناکام ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر مانیٹرنگ لازم ہے۔ مزید برآں، فریقین کو عبوری انتظامیہ کی ساخت کے حوالے سے بھی بہت کچھ طے کرنا ہے۔ ریاستی ڈھانچے کو برقرار رہنا چاہیے۔ امن و امان برقرار رکھنا چاہیے اور انتخابات منصوبہ سازی کے مطابق ہونے چاہییں۔ عبوری انتظامیہ کو مختصر مدت کے لیے لایا جائے گا اور جیسے ہی صدارتی، پارلیمانی اور مقامی انتخابات ملک کی نئی قیادت کا تعین کریں گے، یہ عبوری انتظامیہ ختم ہوجائے گی۔ میں صدر کے انتخاب میں حصہ نہیں لوں گا اور اگر یہ یقین ہو کہ میرے بعد آنے والے صدر کو امن کے لیے مینڈیٹ ملے گا تو میں اپنی میعاد مکمل ہونے سے پہلے مستعفی ہونے کو تیار ہوں۔
مذاکرات میں بعض پیچیدہ معاملات پر بھی بات ہوگی۔ مثلاً یہ کہ طالبان کب اپنا تعلق پاکستان سے مکمل طور پر ختم کریں گے۔ مذاکرات میں طالبان اور القاعدہ کے تعلقات پر بھی کچھ نہ کچھ بات ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ نے ۲۰۲۰ء کی رپورٹ میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان دونوں کو القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا تاکہ بیرونی حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرسکیں۔ معاہدے سے اس بات کی ضمانت بھی ملنی چاہیے کہ علاقائی سطح کی سفارت کاری اعلیٰ ترین سطح پر جاری رہے گی اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ذاتی نمائندے کی شمولیت بھی قبول کی جانی چاہیے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک بار تصفیہ طے پا جائے تو اُسے افغان عوام کے اعلیٰ ترین نمائندہ فورم لویا جرگے کے ذریعے توثیق کے مرحلے سے بھی گزارا جائے گا۔ لویا جرگے میں افغانستان کے ہر صوبے کے مرد اور خواتین قائدین کی نمائندگی ہوتی ہے۔ طالبان کو کم و بیش بیس سال سے افغان معاشرے میں اچھی طرح گھلنے ملنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ لویا جرگہ انہیں معاشرے کے ہر طبقے سے بہتر اشتراکِ عمل کا اچھا موقع فراہم کرے گا۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جامع سیاسی تصفیہ طے پا جائے اور اس کی توثیق بھی کردی جائے تب اس کے نفاذ کا دشوارتر مرحلہ شروع ہوگا۔ یہ امن کو قائم اور مستحکم کرنے کا عمل ہے۔ عارضی معاملات کو مستقل کرنے کا رجحان رہا ہے، اس لیے امن کے قیام کے لیے قائم کی جانے والی حکومت کو ہر حال میں انتخابات کو ترجیح دینا ہوگی۔
البتہ عبوری مدت کے دوران عبوری قیادت کو بہتر حکمرانی یقینی بنانے کے لیے چند ایک سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ معاشی ترقی، تعلیم اور صحتِ عامہ سے متعلق خدمات سمیت ریاست کے تمام بنیادی افعال عمدہ طریقے سے انجام دیے جانے چاہئیں۔
مذاکرات کے عمل میں پیدا کیا جانے والا کوئی بھی رخنہ افغان عوام اور ملک کے لیے شدید منفی اثرات کا حامل ہوگا۔ چند نئی ترجیحات کا تعین بھی لازم ہے مثلاً جنگی قیدیوں کی رہائی، طالبان کو حکومت، فوج اور معاشرے میں ہر سطح پر مرکزی دھارے کا حصہ بنانا اور گزشتہ دو عشروں کے دوران جنگ کے نتیجے میں اپنے پیاروں کو کھونے اور اپنی املاک سے محروم ہونے والوں کی شکایات کا ازالہ۔
نئی منتخب حکومت کے پاس امن کی پائیداری یقینی بنانے اور معاہدے کو نافذ کرنے کا مینڈیٹ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے آئین میں ترامیم کی ضرورت بھی محسوس ہو۔ آئین میں یہ نکتہ بالکل واضح طور پر درج ہے کہ ریاست کے اسلامی (شرعی) کردار اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے سوا کسی بھی معاملے میں، ضرورت محسوس ہونے پر، ترمیم کی جاسکتی ہے اور ان تبدیلیوں کو موثر طور پر آئین کا حصہ بنانے کا میکینزم موجود ہے۔ نئی حکومت کو پناہ گزینوں (بالخصوص پاکستان اور ایران کا رخ کرنے والوں) کو دوبارہ معاشرے میں کھپانے کے مسئلے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ جو لوگ ملک میں در بدر ہیں انہیں بھی آباد کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ سب سے بڑا معاملہ قومی مصالحت اور ہم آہنگی کا ہے۔ اس دوران عبوری جنگ بندی کو ریاستی اداروں کو اس بات کا موقع فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی جائز قانونی حیثیت منوائیں اور طاقت کا نفاذ ممکن بنائیں۔ افغانستان کو علاقائی تنازعات میں غیر جانب دار حیثیت بھی یقینی بنانا ہوگی۔ افغانستان کے غیر جانب کردار کو قائم کرکے باضابطہ شکل دینے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل مثالی مقامات ہوں گے۔
کسی مثالی ماحول میں انصاف پر مبنی اور دیرپا امن کا قیام کوئی آسان کام نہیں۔ اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جس ماحول میں ہم کام کر رہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے مثالی نوعیت کا نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امن عمل کے ٹریک سے ہٹنے یا ہٹادیے جانے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ افغان باشندے دیرپا امن قائم کرنے کا ایک اور موقع کھو بھی سکتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ میڈیا میں اس حوالے سے جو بھی قیاس آرائیاں پائی جارہی ہیں اُن کے ایک لازمی منطقی نتیجے کے طور پر بہت سے افغان باشندے ملک چھوڑنے کا بھی سوچ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ۲۰۱۵ء میں بھی ہوا تھا اور تب ملک سے بہت سے باصلاحیت افراد چلے گئے تھے جبکہ ملک کو ان کی ضرورت تھی۔
ایک خطرہ اس بات کا بھی ہے کہ اگر اقتدار کی منتقلی کا معاملہ بدنظمی اور بے ترتیبی کی نذر ہوا تو سکیورٹی سیکٹر کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مشکلات سے دوچار ہو جائے گا۔ اتھارٹی کی منتقلی کا نظام مؤثر اور متوازن سیاسی نظام کا حامل ہونا چاہیے تاکہ سکیورٹی کے حوالے سے زیادہ مشکلات پیدا نہ ہوں اور سکیورٹی فورسز قیادت اور سمت سے محروم نہ ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا اور نیٹو کو بھی افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی فنڈنگ کے حوالے سے اپنے وعدے نبھانے چاہئیں۔ یہ شاید واحد معاملہ ہو جو عالمی برادری افغانستان میں امن عمل کی کامیابی کے حوالے سے عمدگی سے انجام تک پہنچاسکتی ہے۔
ایک خطرہ اس بات کا بھی ہے کہ امن عمل کو منزل تک پہنچانے کے معاملے میں اہم سیاسی شخصیات اپنا کردار ادا کرنے سے گریزاں ہوں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بھی اہم سیاسی شخصیت اقتدار کی منتقلی کے مرحلے میں الگ تھلگ نہ رہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اُن علاقائی شخصیات سے بھی رابطے کی کوشش کر رہے ہیں جو افغانستان میں امن عمل پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
سب سے بڑا خطرہ، بہرحال یہ ہے کہ طالبان کے بارے میں غلط اندازے قائم کرلیے جائیں۔ طالبان اب بھی اپنے اس بیانیے پر قائم ہیں کہ نیٹو اور امریکی فوج کو انہوں نے شکست دی ہے۔ احساسِ تفاخر سے ان کی بے باکی بڑھ گئی ہے۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ ان کی سیاسی قیادت عسکری شعبے کو امن کا آئیڈیا قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ یوں طالبان کسی سیاسی معاہدے میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہ دیں گے اور عسکری سطح پر غیر معمولی جارحیت کا مظاہرہ کرنے کو ترجیح دیتے رہیں گے۔ اگر ایسی کوئی صورتِ حال ابھرتی ہے تو افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم ایک طرف طالبان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسری طرف ان کا جنگ کے میدان میں سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران افغانستان بھر میں ۹۰ فیصد فوجی کارروائیاں افغان نیشنل سکیورٹی فورسز نے کی ہیں۔ اگر طالبان نے جنگ کے میدان کو آپشن کے طور پر اپنایا تو موسمِ گرما اور موسمِ بہار کے پورے دور میں لڑائی کے بعد اُن کے پاس مذاکرات کی میز تک آنے کے سوا کوئی آپشن نہ بچے گا۔
ایک اعتبار سے پاکستان بھی غلط اندازہ لگاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس بات کے حوصلہ افزا اشارے ملے ہیں کہ پاکستان خطے کی سطح پر رابطے بڑھانے، امن کے قیام کو یقینی بنانے کے ذیل میں کچھ کرنا چاہے گا اور مل کر کام کرنے کو ترجیح دے گا۔ مارچ میں پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ کے موقع پر جو کچھ کہا وہ امن کے حوالے سے بہت حوصلہ افزا اور خوش آئند تھا۔ دونوں شخصیات کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اب افغانستان سے حقیقی بہتر تعلقات چاہتا ہے۔ ان الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے۔
اگر پاکستان نے طالبان کی حمایت اور مدد کرنے کا فیصلہ کیا تو افغان قوم کی ناراضی مول لے گا اور یوں خطے میں نئے معاشی امکانات سے کماحقہ مستفید ہونے کا موقع بھی کھو بیٹھے گا۔ ایسے میں امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد پاکستان خطے کی سیاست پر کچھ زیادہ اثرات مرتب کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ رہے گا۔ پاکستان نے افغانستان اور خطے کے لیے امریکا کے منصوبۂ عمل کے حوالے سے جو ردعمل دیا وہ ناسمجھی پر مبنی تھا، مگر خیر اسلام آباد کے لیے وقت اب بھی ہے۔ اسے امن عمل میں پارٹنر اور اسٹیک ہولڈر بن کر ابھرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کے امکانات اور خدشات کے بارے میں ہم کچھ خاص نہیں جانتے مگر خیر، میری بھرپور کوشش ہے کہ طویل مدت کے تنازع کے بطن سے ایک خود مختار، اسلامی، جمہوری، متحدہ، غیر جانب دار اور اچھے طریقے سے جُڑا ہوا افغانستان برآمد ہو۔ میں اس سلسلے میں کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہوں۔ امریکی افواج کے انخلا سے تمام افغانوں کو ایک دوسرے سے جُڑنے کا موقع ملا ہے۔ یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Afghanistan’s moment of risk and opportunity”. (“Foreign Affairs”. May 4, 2021)
Leave a Reply