نئی دہلی کابل کو ایک ایسے ڈیم کے لیے فنڈ فراہم کر رہا ہے، جس کے ذریعے وہ پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔اس پروجیکٹ سے ممکنہ طور پر ایک نئے خلفشار کا آغاز ہوسکتا ہے۔افغانستان کے اکثر علاقوں کو اس وقت فصل کی کاشت کے لیے مطلوبہ بارش اور برفباری میں ۶۰ فیصد کمی کا سامنا ہے۔ کابل کو آبادی میں تیز رفتار اضافہ، شدید خشک سالی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نئے آبی منصوبوں کی فوری ضرورت ہے۔لیکن سیاسی اعتبار سے اس منصوبہ کی تکمیل آسان نہیں۔پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ انتہائی پیچیدہ اور تنازعات سے پرُ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اختلافات کو حل کرنے کا کو ئی قانونی فریم بھی موجود نہیں۔اس سب کے باوجود ضلع چہار آسیاب اور دریائے کابل کے سنگم پر شہتوت ڈیم کی تعمیر کا جلد آغاز ہونے والا ہے۔اس ڈیم میں ۱۴۶ ملین کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہوگی،جس سے کابل کے ۲۰ لاکھ افراد مستفید ہوں گے اور ۴۰۰۰ ہیکٹر رقبے کو سیراب کیاجا سکے گا۔ اس ڈیم سے کابل کے مضافات میں واقع ایک نئے شہر دیہہ سبز کو پینے کا پانی میسر آئے گااور کئی دہائیوں پر محیط تباہ کن جنگ کے بعد افغانستان ہا ئیڈرو پاور سے اپنی معیشت کو بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ لیکن اس منصوبے سے خدشہ ہے کہ دریائے کابل کے بہاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کے زیریں علاقوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔ پاکستان کے ایک معتبر اخبار ’’ڈان‘‘ کے مطابق شہتوت اور دیگر زیر غور ڈیم کی تکمیل سے پاکستان کو ۱۶،۱۷فیصد تک پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ شہتوت ڈیم کی تعمیرسے پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کا منصوبہ ہے اور چونکہ اس ڈیم کی فنڈنگ بھارت کررہا ہے لہٰذا اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کی فضاپروان چڑھے گی۔ بھارت اس ڈیم کے علاوہ بھی افغانستان کو انفرااسٹرکچر،ہائی ویز اور اور دیگر کئی پروجیکٹ میں تعاون فراہم کر رہا ہے۔ ۲۰۰۱ء سے اب تک بھارت، افغانستان کی تعمیر وترقی کے ضمن میں ۲۰ بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکام بھارت کے اس سطح پر مالی تعاون کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ڈیم کی تعمیر بھارت کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ پاکستان کے لیے پانی کی فراہمی مشکل بنا دی جائے۔ پاکستان ہائیڈرو پاور سیکٹر میں خاطر خواہ سرمایہ کاری میں ناکام رہا ہے۔ امریکی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور، وسط ایشیا کی ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق پانی کا یہ مسئلہ ایک بڑے تنازع کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کو شہتوت ڈیم کے حوالے سے محتاط اور متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ صحیح اور بہتر طو ر پر تعاون کی فراہمی سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جبکہ غیر ذمہ دارانہ رویہ پڑوسی ممالک میں کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
پانی کی کمی اکثر جنگوں کا باعث بنتی ہے، پانی کی قلت سے غذائی کمی کا بھی سامنا ہوتا ہے اور یوں ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ شام اور یمن میں جنگ کی ایک وجہ پانی ہی ہے۔ اسی طرح کا مسئلہ مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی موجود ہے، مصر کو خطرہ ہے کہ ایتھوپیا دریائے نیل پر ڈیم تعمیر کرکے اس کے حصے کے پانی کو متاثر کر سکتا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے واضح انداز میں اپنے عزائم کا اظہار کیا کہ ڈیم کی تعمیر ہماری اہم ترین قومی ترجیحات میں شامل ہے۔ افغانستان میں کنویں خشک ہو رہے ہیں، ۲۰۱۷ء میں کیے گیے ایک مطالعے کے مطابق افغانستان کو آب رسانی کے بہتر انتظام اور مؤثر انفراسٹرکچر کی شدید ضرورت ہے۔ کابل ۱۰ لاکھ لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے بسایا گیاتھا لیکن آبادی میں اضافے کے بعد اس کی آبادی ۵۰ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔کابل کے اکثر شہری زیر زمین پانی استعمال کرنے پرمجبور ہیں۔شہتوت ڈیم سے پینے کا صاف پانی میسر ہوگا اور ہزاروں ایکڑ رقبے پر کاشت کاری ممکن ہوگی۔ لیکن افغانستان کو اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے خدشات کو دور کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس وقت دونوں ہی ممالک کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے۔
اس ڈیم کے لیے بھارت کی خطیر سرمایہ کاری پر پاکستان کی ناراضی اور تشویش بجا طور پر درست ہے۔ کیونکہ شہتوت ڈیم کی تعمیر سے براہ راست پاکستان متاثر ہوگا۔ یہ محض ڈیم کی تعمیر کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ بھارت اب تک افغانستان کو دریائے کابل پر ۱۲ ڈیم کی تعمیر کے لیے ابتدائی تعاون پیش کر چکا ہے۔ ان پروجیکٹس سے ۱۱۷۷ میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ میں مزید کمی واقع ہوگی۔ اس طرح کی صورت حال پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۴۰ء تک پاکستان خطے کا شدید متاثرہ ملک ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت پاکستان کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ایران سے ۱۸ مہینوں کے لیے عبوری طور پر چاہ بہار پورٹ کی نگرانی کا معاہدہ کر چکا ہے۔ اس کے ذریعے بھارت کی افغانستان تک براہ راست رسائی ممکن ہوجائے گی۔
اگر افغانستان کو ترقی اور استحکام کی جانب بڑھنا ہے تو اسے اپنے اہم ترین پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ درحقیقت خطے میں آبی وسائل کا استعمال ایک سلگتا مسئلہ رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ۱۹۴۷ء سے مخاصمت رہی ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کے تنازع کے حل کے لیے قانونی فریم ورک انڈس واٹر معاہدہ موجود ہے۔ ۱۹۶۰ء میں کیے گئے اس معاہدے کے ذریعے کئی تنازعات نمٹائے گئے۔ لیکن اس وقت چونکہ بھارت،افغانستان کو مالی تعاون فراہم کررہا ہے، اس لیے آبی جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی نیوکلیائی طاقت ہیں اور ایک مضبوط فوج رکھتے ہیں، اس لیے کسی بڑی جنگ کی توقع نہیں، تاہم جنگ دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔ کسی بڑے تنازع سے بچنے کے لیے بھارت اورپاکستان کو فوری طور پر ہائیڈرو ڈپلومیسی کا آغاز کرنا چاہیے، اسی سے شہتوت ڈیم کے مسئلے کو پرامن طور پر حل کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے انڈس واٹر ٹریٹی کی طرز پرکوئی معاہدہ وضع کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آبی وسائل سے ہی دونوں طرف کے عوام کی زندگی وابستہ ہے۔
(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)
“Afghanistan’s rivers could be India’s next weapon against Pakistan”.(“Foreign Policy”. Nov. 13, 2018)
Leave a Reply