کانگو:
کانگو میں اصلاحات اور تبدیلی کا عمل زیادہ مشکل تھا۔ نومنتخب صدر Tshisekedi انتقا لِ اقتدار کے عمل سے بخوبی گزر تو چکے ہیں لیکن ان کی جیت مشکوک ہے۔ اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ حقیقتاً حزب اختلاف کے ایک اور امیدوار الیکشن جیتے تھے۔ غیر متوقع نتیجے سے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ Tshisekedi نے سابق صدر Joseph kabila سے کسی قسم کا معاہدہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ملکی سیاست پر ان کا اثر باقی رہے گا۔ اگر ایسی کوئی ڈیل ہوئی ہے تو یہ مستقبل میں Tshisekedi کے کام کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ Tshisekedi کی جماعت کو پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ Tshisekedi کو اپنا وزیراعظم اور کابینہ مقرر کرنے کے لیے Joseph Kabila سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے انگولا میں دیکھا، کبھی کبھی نئے حکمران خود کو اپنے سرپرستوں سے الگ کر لیتے ہیں۔ Tshisekedi اب تک ۷۰۰ سیاسی قیدیوں کو رہا کرچکے ہیں۔ انھوں نے ایک لائق اور اہل شخص کو قومی سلامتی کا مشیر تعینات کیا ہے۔ ان کا عزم ہے کہ وہ کانگو کی معیشت کو دوبارہ مستحکم کریں گے۔ انھیں امریکا اور دیگر اہم ممالک کی مدد بھی حاصل ہے۔
کانگو قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور پانی کے ذریعے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔اگر Tshisekedi ملک کی سیکورٹی صورت حال پر توجہ دیں، ایبولا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں اور معدنیات کے حوالے سے کوئی منظم پالیسی بنائیں تو وہ ملک میں جاری اختلافات اور تناؤ کو کم کرسکتے ہیں۔ ایک مستحکم کانگو خطے میں تناؤ کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا، ساتھ ہی اس سے ملک میں موجود اقوام متحدہ کی ۲۰ ہزار امن فوج کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی۔
نائیجیریا:
۲۰ کروڑ آبادی کے ملک نائیجیریا کے بارے میں ایک عرصے سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ مستقبل میں ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے۔ لیکن یہ ملک بد عنوانی، عدم تحفظ اور نا اہل قیادت کا شکار رہا ہے۔خیال کیا جارہا تھا کہ ۲۰۱۵ء کے انتخابات ملک میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ان انتخابات میں ماضی میں فوج کے سربراہ رہنے والے Buhari کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں بد عنوانی کے خلاف جنگ کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے عملاً بدعنوانی کے خلاف کارروائی کی بھی، اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا اور حکومتی مالیات کو بہتر کیالیکن وہ اتنے متحر ک ثابت نہ ہوئے جتنی ان سے امید کی جارہی تھی۔۲۰۱۹ء میں ہونے والے انتخابات میں Buhari دوسری مرتبہ منتخب تو ہوگئے لیکن ان انتخابات میں صرف ۳۵ فیصد ووٹروں نے حصہ لیا تھا۔ یہ ۱۹۹۹ء میں سول حکومت آنے کے بعد سے کم ترین شرح تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ Buhari نے اپنی کابینہ میں نئے افراد کو جگہ دی ہے۔ انھوں نے کبھی اپنا کوئی نیٹ ورک بنانے کی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ صاف ستھرے طرزِ حکومت اور سرکاری ملازمین کے مابین بہتر اخلاق پر زور دیا ہے۔ وہ ان سیاست دانوں کو آگے لے کر آئے ہیں، جو ان اقدار کے حامل ہیں۔ ان سیاست دانوں میں نائیجیریا کے متحرک نائب صدر Yemi Osinbajo بھی شامل ہیں۔ Buhari کے دورہ لندن کے دوران Osinbajo نے قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں نبھائیں اور بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کے اقدامات نے انھیں ۲۰۲۳ء کے انتخابات کے لیے ممکنہ امیدوار بنا دیا ہے۔ Buhari کے دورِ اقتدار میں نائیجیریا میں اصلاحات کا عمل سست رہے گا، لیکن انھوں نے نئے آنے والے سیاست دانوں کے لیے ملک کو ترقی دینے کی راہ ہموار کردی ہے۔
ترقی کا راستہ:
ان ممالک کے اندر جمہوری عمل کے آگے بڑھنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ معاشی اور دوسری سیاسی ہے۔ سال ۲۰۱۹ء میں افریقا کا مجموعی جی ڈی پی اندازاً تین فیصد بڑھے گا جبکہ انگولا، نائیجیریا اور جنوبی افریقا میں شرح نمو مزید کم رہے گی۔ اگر شرح نمو بہتر نہ ہوئی تو ان ممالک کے حکمرانوں کے لیے اصلاحات کو برقرار رکھنا اور بے روزگاری پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ نائیجیریا اور جنوبی افریقا کو اپنے سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں اصلاحات لانی ہوں گی اسی طرح انگولا اور نائیجیریا کو تیل کی برآمدات پر اپنا انحصار کم کرنا ہوگا مزید یہ کہ نائیجیریا کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں شرح مبادلہ ایک ہی ہو، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے۔ ان ممالک کے برعکس کانگو اور ایتھوپیاکی شرح نمو نسبتاً بہتر ہے۔
مذکورہ پانچوں حکمران ایک پُرخطر راستے پر چل رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ یہ کسی بھی قسم کے شدید ردعمل سے بچتے ہوئے اصلاحات جاری رکھیں۔ Buhari کے علاوہ تمام حکمرانوں کو اپنے طاقتور حکومتی اتحادیوں سے ہی خطرہ ہے۔ اگر یہ حکمران بہت تیزی سے اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائیں گے تو ممکن ہے کہ ان کے اتحادی ہی ان کے پر کاٹ دیں۔ ان حکمرانوں کو سیکھنا ہوگا کہ وہ کس وقت تیزی سے آگے کی طرف قدم بڑھائیں اور کس وقت ٹھہر جائیں۔
اگر یہ حکمران اپنے اپنے ملکوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال کو درست کرلیتے ہیں تو ان ممالک میں مرحلہ وار اصلاحات شروع ہوسکتی ہیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں نہ صرف ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد اور معاشی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔
ان ممالک میں ہونے والی اصلاحات کا دیگر افریقی ممالک پر بھی اثر ہوگا۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کے معاملے پر ایتھوپیا کی بہتر پالیسیاں پورے مشرقی افریقا کو متاثر کریں گی۔ اسی طرح کانگو میں انسانی حقوق کا جو نیا معیار طے پا رہا ہے وہ پڑوسی ممالک کے حکمرانوں پر بھی اس حوالے سے دباؤ بڑھائے گا۔
اسی طرح ان ممالک میں ہونے والی معاشی اصلاحات بھی پورے خطے پر اثر انداز ہوں گی۔ انگولا، نائیجیریا اور جنوبی افریقا میں معاشی انحطاط کی وجہ سے خطے کی مجموعی شرح نمو میں کمی آئی لیکن بہتر معاشی اصلاحات کے نتیجے میں یہ ممالک خطے میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر پانچوں حکمران بدعنوانی کے خلاف اقدامات کرتے رہیں تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خطے کی معاشی صلاحیت کے حوالے سے قائل کرسکتے ہیں۔
یہ اصلاحات خطے کو معاشی لحاظ سے ہم آہنگ کرنے میں بھی اہم کردار ادا سکتی ہیں۔ اپریل ۲۰۱۹ء میں ۵۲ ممالک نے African Continental Free Trade Area پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصدخطے کی ۲ء۱ ارب آبادی اور ۴ء۳ کھرب جی ڈی پی کو ایک منڈی میں جوڑنا ہے۔ خراب انفرااسٹرکچر اور تجارتی پابندیوں کی وجہ سے افریقی ممالک کی آپس میں ہونے والی برآمدات صرف ۱۷ فیصد ہے، جبکہ یورپ میں یہ شرح ۶۹ ؍اور ایشیا میں ۵۹ فیصد ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوشن کے مطابق تجارتی پابندیوں کو ختم کرنے سے افریقی ممالک کی تجارت میں ۵۰ سے ۷۰؍ ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔
افریقا میں امریکا کا کردار:
جس طرح بڑے افریقی ممالک کی صورت حال خطے کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اسی طرح اس خطے کے لیے امریکی پالیسی بھی ان تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے۔افریقا کے لیے امریکا کی پالیسی صرف متوقع اور موجودہ اتحادیوں سے ساز گار تعلقات رکھنے کی رہی ہے۔ امریکا چھوٹے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے لیکن بڑے اور زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے معاملات میں خاموش رہتا ہے۔مثال کے طور پر ۲۰۱۷ء میں امریکا نے گیمبیا جیسے چھوٹے ملک میں تو وہاں کے آمر حکمران کی بے دخلی کی حمایت کی، لیکن ایتھوپیا اور یوگینڈا میں ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کی کیوں کہ یہ ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی تھے۔ اسی طرح امریکا نے ۲۰۱۷ء میں زمبابوے میں فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو بغاوت کہنے سے انکار کیا۔
اب وقت ہے امریکا اس پالیسی میں تبدیلی لائے، کیوں کہ اسٹریٹیجک حوالوں سے اہم ممالک میں اصلاحات کی حمایت کرنے کے کم ہی مواقع ملتے ہیں۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی سفارتی، مالی اور تکنیکی مدد کرے اور اس کا آغاز انگولا اور ایتھوپیا سے کرے۔ تاہم امریکا کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ یہ امداد حکمرانوں کوخوش کرنے کے بجائے اداروں کے استحکام کے لیے استعمال ہو۔ امریکی امداد صرف حکومتوں تک ہی محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ سول سوسائٹی کے راہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی امداد دی جانی چاہیے کیوں کہ یہی افراد حکومتی کار کردگی پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
امریکا کو چاہیے کہ وہ اس خطے کو خاطر خواہ حیثیت دے۔ اس خطے کے کسی حکمران کی جانب سے امریکا کا آخری دورہ ۲۰۰۷ء میں ہوا تھا۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ Abiy جیسے دیگر اہم افراد کو امریکا مدعو کرے اور افریقی ممالک کے حکومتی افراد کی ان کے امریکی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کروائے۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقا اور تنزانیہ سمیت جن جن افریقی ممالک میں امریکی سفیر تعینات نہیں ہیں وہاں سفیروں کو تعینات کیا جائے۔
یہ افریقا کے لیے نئے امکانا ت کا وقت ہے کیوں کہ اس وقت افریقا کے اہم ممالک میں نئے حکمران اقتدار میں آرہے ہیں۔ ان میں ہر ایک اصلاحات اور ترقی کا منشور لے کر آیا ہے۔ ان کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیوں کہ دیر پا ترقی کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔لیکن یہ راستہ ایک ایسے مستقبل کی طرف جاتا ہے جہاں اس خطے کے عوام آزادی اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Africa’s Democratic Moment?” (“Foreign Affairs”. July/August 2019)
Leave a Reply