محمود احمدی نژاد کا خط صدر جارج بش کے نام

صدر ریاست ہائے متحدہ امریکا!

ادھر کچھ دنوں سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کوئی شخص ان ناقابلِ تردید تضادات کو کس طرح برحق قرار دے سکتا ہے جو عالمی منظرنامے پر موجود ہیں اور جن پر مسلسل اور متواتر بحث ہو رہی ہے‘ خاص طور سے سیاسی فورموں میں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے درمیان۔ میرے سوالات ہمیشہ جوابات کے لئے تشنہ رہتے ہیں۔ انہی میں سے بعض تضادات اور سوالات نے مجھے اس امر پر آمادہ کیا ہے کہ میں یہ امید لے کر انہیں زیربحث لائوں کہ شاید ان سوالات اور تضادات کے حل کا موقع میسر آئے۔ کیا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیروکار ہوسکتا ہے اور کیا کوئی انسانی حقوق کے احترام کو اپنی ذمہ داری سمجھ سکتا ہے اور لبرل ازم کو تہذیب کے ماڈل کے طور پر پیش کرسکتا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی بنیاد پر کسی کی مخالفت کرسکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا نعرہ قرار دے سکتا ہے اور بالآخر ایک متحدہ بین الاقوامی برادری قائم کرسکتا ہے یعنی وہ برادری جس کی فرمانروائی ایک دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور زمین کے صالح لوگ فرمائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ملکوں پر حملہ بھی کرتا ہے‘ وہ انسانوں کی زندگیوں‘ ان کی عزت‘ ان کی جائیداد اور مال و متاع کو تباہ کرتا ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے موہوم امکان کی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ کسی گائوں یا کسی شہر میں چند جرائم پیشہ لوگوں کی موجودگی ہے اور اس بنا پر وہ پورے گائوں، پورے شہر یا پورے کارواں کو شعلوں کی نذر کردیتا ہے‘ یا پھر محض اس امکان کی بنیاد پر ایک ملک پر قبضہ کرلیتا ہے کہ اس ملک میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہوسکتے ہیں اور اس موہوم امکان پر ایک لاکھ لوگوں کو قتل کردیتا ہے‘ اس کے پانی کے وسائل، اس کی زراعت اور صنعت کو تباہ کردیتا ہے، ایک لاکھ 80 ہزار غیر ملکی فوجیوں کو وہاں پر مسلط کردیتا ہے، شہریوں کی چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتا ہے اور اس ملک کو لگ بھگ 50 سال پیچھے دھکیل دیتا ہے اور کس قیمت پر؟ کسی ایک ملک اور کچھ دوسرے مخصوص ممالک کے خزانوں سے کھربوں ڈالر خرچ کرڈالتا ہے، قابض دستوں کے ہزاروں مردوں اور عورتوں کو کٹھن حالات کا شکار کرتا ہے، انہیں اپنے خاندانوں اور اپنے پیاروں سے جدا کرتا ہے اور انہیں اپنے ہاتھ دوسروں کے خون سے رنگنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور ان عوامل سے جو نفسیاتی دبائو پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجے میں آئے روز کوئی نہ کوئی فوجی خودکشی کر رہا ہے۔ گھروں کو واپس آتا ہے تو ذہنی اذیت کا شکار ہوتا ہے۔ مختلف نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہوچکا ہوتا ہے اور جو فوجی قتل ہوجاتے ہیں ان کی لاشیں ان کے خاندانوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے حیلے، فرضی بہانے اور عذرلنگ کی بنیاد پر قابض اور مقبوضہ ممالک کے عوام کے مابین عظیم المیے کی خلیج حائل کردیتا ہے اور یہ بات تو بعد میں کھلتی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔

بلاشبہ صدام ایک خونی اور قاتل آمر تھا‘ مگر جنگ اس کا تختہ الٹنے کے لئے نہیں کی گئی، جنگ کا اعلانیہ مقصد وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا، صدام کا تختہ تو ایک اور مقصد کے لئے الٹا گیا۔ اس کے باوجود خطے کے لوگوں کو اس کا تختہ الٹے جانے سے خوشی ہوئی مگر میں اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہوں کہ جب صدام نے ایران پر جنگ مسلط کی تھی تو مغرب اس کی پشت پناہی کررہا تھا۔

جنابِ صدر!

ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کے علم میں ہو کہ میں ایک استاد ہوں۔ میرے شاگرد مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ سارے اقدامات ان اقدار کے ساتھ کیسے مربوط ہوسکیں گے جن کا میں نے اس خط کے آغاز میں ذکر کیا اور جن اقدار کی روایات امن، عفو و درگزر کی تعلیم دینے والے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنیادی فریضے کے طور پر قائم کیں۔

گوانتاناموبے میں قیدی موجود ہیں جن پر مقدمہ نہیں چلایا گیا، جن کو کوئی وکیل میسر نہیں، جن کی کوئی قانونی نمائندگی کرنے والا نہیں، ان کے خاندان یقینا اس لئے ان سے نہیں مل سکتے کہ وہ ان کے ملک سے دور اجنبی سرزمین پر رکھے گئے ہیں۔ ان پر گزرنے والے حالات اور ان کے صدمات کی بین الاقوامی مانیٹرنگ کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا کہ یہ لوگ محض قیدی ہیں، جنگی قیدی ہیں، ملزم ہیں یا پھر جرائم پیشہ ہیں۔

یورپی تفتیش کاروں نے تصدیق کی ہے کہ یورپ میں بھی خفیہ جیلیں موجود رہی ہیں۔ میں کسی بھی عدالتی نظام کی کسی بھی شق کے مطابق کسی مرد یا عورت کے اغواء اور اسے خفیہ جیلوں میں قید رکھنے کے عمل کو باہم مربوط نہیں کرسکتا اور اسی طرح میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان اقدامات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات، انسانی حقوق اور لبرل اقدامات کے مطابق کس طرح منصفانہ قرار دیا جاسکے گا۔

نوجوانوں، یونیورسٹی کی سطح کے طلباء اور عام لوگوں کے ذہنوں میں اسرائیل کے فریب ِنظر کے بارے میں متعدد سوالات موجود ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ ان میں سے بعض سوالات کے بارے میں آگاہ ہوں گے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد ممالک پر قبضے کئے گئے۔ میرے خیال میں نئے لوگوں کے ساتھ ایک نیا ملک بسانا تاریخ کا انوکھا فریب ِنظر ہے، جسے خاص طور پر ہمارے عہد نے دیکھا ہے۔ طالب علم کہتے ہیں کہ ساٹھ سال پہلے اس نام کا کوئی ملک موجود نہ تھا۔ ہم پرانی دستاویزات اور قدیم نقشے رکھ کر ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، تلاش کرو۔ انہوں نے دیکھا اور کوشش بھی کی مگر انہیں کوئی ایسا ملک نظر نہ آیا جس کا نام اسرائیل ہو۔ میں نے ان سے کہاکہ تم جنگ ِعظیم اوّل اور دوئم کا مطالعہ کرو۔ میرے ایک شاگرد نے مجھ سے کہاکہ دوسری جنگ ِعظیم کے دوران کروڑوں لوگ قتل ہوئے‘ متحارب فریقوں نے جنگ کے بارے میں خبروں کو تیز رفتاری سے پھیلایا‘ ہر ایک نے اپنی فتوحات اور محاذِ جنگ سے مخالفین کی پسپائی کی خبریں جاری کیں، جنگ ختم ہونے کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس میں ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے۔ ساٹھ لاکھ افراد یقینا بیس لاکھ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ واقعات سچے ہیں‘ لیکن کیا عقل و دلیل اور منطق اس بات کا جواز فراہم کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نام کی ایک ریاست قائم کی جائے؟ اس فریبِ نظر کو کس طرح حقیقت پر مبنی قرار دیا جائے گا اور اس کی وضاحت کس طرح کی جائے گی۔

جناب ِصدر!

مجھے یقین ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ اسرائیل کیسے اور کس قیمت پر قائم ہوا۔ اس عمل کے دوران لاکھوں لوگ قتل ہوئے۔ لاکھوں مقامی اہلِ وطن کو اپنے ہی وطن میں پناہ گزین بن کر رہنا پڑا۔ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی، باغات، درختوں، پودوں اور بستیوں کو تاخت و تاراج کیا گیا۔ یہ المیہ محض اُس وقت پیش نہیں آیا جب اسرائیل کا وجود عمل میں لایا جارہا تھا۔ بدقسمتی سے یہ عمل پچھلے 60 برسوں سے جاری ہے۔ اس دھرتی پر ایک ایسی حکومت قائم کی گئی، جو بچوں پر بھی رحم نہیں کرتی، وہ گھروں کو اُس وقت مسمار کرتی ہے جب گھروں کے مکین ان کے اندر ہوتے ہیں۔ وہ حکومت فہرست ہاتھوں میں لے کر فلسطینی شخصیات کے قتل کا اعلان کرتی ہے، وہ ہزاروں فلسطینیوں کو زندانوں میں قید رکھتی ہے…! یہ فریب ِنظر بہت انوکھا ہے اور موجودہ دور کی یادداشت میں یہ فریبِ نظر نایاب ہے۔

لوگ ایک اور بڑا سوال پوچھتے ہیں کہ اس حکومت کی حمایت کیوں کی جارہی ہے۔ کیا اس حکومت کی حمایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ہے یا لبرل اقدار کی بنیاد پر اس حکومت کی حمایت جاری ہے یا پھر ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ کیا اس دھرتی کے اصل باشندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عیسائی ہوں، مسلمان ہوں یا یہودی‘ وہ اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور جمہوری اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں، انسانی حقوق حاصل کریں اور پیغمبروں کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہاں پر ریفرنڈم کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔

حال ہی میں فلسطین کی نومنتخب انتظامیہ نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تمام آزاد مبصروں نے تصدیق کی ہے کہ یہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔ ناقابلِ یقین طور پر اس منتخب حکومت پر دبائو ڈالا گیا اور اس سے یہ کہا گیا کہ وہ اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کرے‘ اپنی جدوجہد ترک کردے اور سابقہ حکومت کے پروگراموں پر عمل کرے۔ اگر موجودہ فلسطینی حکومت مذکورہ دبائو کو قبول کرلیتی ہے اور سب کچھ مان جاتی ہے تو پھر فلسطینی عوام نے اسے ووٹ کیوں دیئے تھے۔ میں ایک بار پھر یہ پوچھتا ہوں کہ فلسطینی حکومت پر ڈالا جانے والا دبائو ان تعلیمات کے مطابق ہے جن کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں؟ عوام یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کی مذمت کے لئے جو قراردادیں پیش کی گئیں انہیں ویٹو کیوں کیا گیا؟

جنابِ صدر!

جیسا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں عوام کے درمیان رہتا ہوں اور ان سے ہمیشہ رابطہ رکھتا ہوں، مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں سے بھی لوگ مجھ سے رابطے کرتے ہیں۔ وہ ان دوہری پالیسیوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس بات کی شہادت یہ ہے کہ ایسی پالیسیوں کے خلاف خطے کے لوگوں میں غصہ اور ناراضی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

میری یہ نیت نہیں ہے کہ میں آپ سے بہت سے سوالات کرتا چلا جائوں۔ مگر میں دوسرا نقطہ نظر بھی بیان کروں گا۔ ایسا کیوں ہے کہ جب بھی مشرق وسطیٰ کے خطے میں سائنس اور ٹیکنالوجی تک کوئی رسائی ہوتی ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرہ درپیش ہے! کیا سائنسی تحقیق اور ترقی قوموں کا بنیادی حق نہیں ہے؟

آپ تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ کیا قرون وسطیٰ میں تاریخی نقطہ نظر سے سائنسی اور فنی ترقی کبھی جرم رہی ہے؟ کیا یہ ممکن رہا ہے کہ سائنسی ترقی کی حاصلات کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کئے جانے کے امکان کے پیش نظر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہی مخالفت کی جائے۔ اگر یہ مفروضات درست ہیں تو پھر تمام سائنسی ضابطے بشمول فزکس، کیمسٹری، ریاضی، طب اور انجینئرنگ وغیرہ سمیت سب کی مخالفت کی جانی چاہئے۔

عراق کے معاملے میں جھوٹ بولے گئے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا! مجھے اس پر کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ثقافت میں جھوٹ بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا اور یقینا آپ بھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ آپ سے جھوٹ بولا جائے۔

جنابِ صدر!

کیا لاطینی امریکا کے لوگوں کو یہ پوچھنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے ہاں منتخب حکومتوں کی مخالفت اور ان کا تختہ الٹنے والوں کی حمایت کیوں کی جاتی رہی اور انہیں مستقل دھمکیاں کیوں دی جاتی رہیں اور ان کی زندگیاں خوف کے حصار میں کیوں رہیں!

افریقا کے عوام بہت محنتی ہیں، وہ تخلیق کار ہیں‘ بہت ذہین ہیں، وہ انسانی ضروریات کی فراہمی اور عوام کی مادی و روحانی ترقی کے لئے قابلِ قدر کردار ادا کرسکتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے سے غربت، افلاس و تنگدستی روکے ہوئے ہے۔ کیا انہیں یہ پوچھنے کا حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی قیمتی دولت بشمول معدنی وسائل کو کیوں لوٹا جارہا ہے اور اس حقیقت کے باوجود یہ لوٹ مار ہورہی ہے کہ افریقی دوسروں سے زیادہ خود ان کے مستحق ہیں۔

میں پھر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ اقدامات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور انسانی حقوق کے دائرۂ کار میں آتے ہیں؟ ایران کے عظیم عوام بھی بہت سے سوالات کرنا چاہتے ہیں، ان کی بھی بہت سی شکایتیں ہیں‘ وہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ 1953ء میں ایران میں فوجی بغاوت کیوں ہوئی تھی اور اُس وقت کی قانونی حکومت (ڈاکٹر مصدق کی حکومت) کا تختہ کیوں الٹا گیا تھا۔ اسلامی انقلاب کی مخالفت کیوں کی گئی، (امریکی) سفارت خانے کو اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کا ہیڈکوارٹر کیوں بنایا گیا (اس دعوے کی صداقت کے لئے ہزاروں صفحات کی شہادتیں موجود ہیں) ایران کے خلاف جنگ میں صدام کی حمایت کیوں کی گئی، ایرانی مسافر بردار طیارہ کیوں مار گرایا گیا‘ ایرانی قوم کے اثاثے کیوں منجمد کئے گئے‘ ایرانی قوم کی سائنسی و جوہری ترقی پر بڑھتی ہوئی دھمکیاں، غصہ اور ناراضی کس لئے ہے (اور ایک ایسے عالم میں جب ایرانی عوام اپنی کامیابیوں کا جشن منارہے ہیں) ان کے علاوہ بھی ہماری دوسری بہت سی شکایات ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کروں گا۔

جناب ِصدر!

11 ستمبر کا واقعہ ایک ہولناک واقعہ تھا، دنیا کے کسی بھی خطے میں معصوم عوام کا قتل بدترین اور قابلِ مذمت عمل ہوتا ہے۔ ہماری حکومت نے اس سانحہ کی فوری طور پر مذمت کی اور متاثرہ لوگوں سے اظہار تعزیت کیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

تمام حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔ مبینہ طور پر آپ کے سرکاری ملازمین سخت حفاظتی حصار میں رہتے ہیں۔ آپ کے پاس خفیہ اداروں کا نظام موجود ہے، حتیٰ کہ وہ ملک سے باہر بھی اپنے مخالفین کو نشانہ بناتے ہیں۔ 11 ستمبر کا واقعہ ایک سیدھا سادا آپریشن نہیں تھا، کیا خفیہ اداروں اور سیکرٹ سروس کے رابطوں یا ان میں گھس کر اثرات پیدا کئے بغیر ایسا کوئی منصوبہ بنایا جاسکتا ہے یا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے؟ یقینا یہ ایک طالب علمانہ انداز ہے۔ ان حملوں کے بہت سے معاملات اور مختلف پہلوئوں کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟ ان ذمہ دار لوگوں اور مجرم فریقین کی نشاندہی کیوں نہیں کی گئی اور ان پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟

تمام حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو تحفظ اور ذہنی سکون مہیا کریں۔ گزشتہ کئی برسوں سے آپ کے ملک کے لوگ اور پڑوسی نفسیاتی الجھائو میں مبتلا ہیں اور ذہنی سکون سے محروم ہیں۔ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد جذباتی گھائو مندمل کرنے کے بجائے انہیں اور گہرا کیا گیا اور یہ لوگ ان حملوں سے ناقابلِ بیان صدمات کا شکار ہوئے تھے۔ بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا۔

بعض ذرائع ابلاغ مسلسل نئے حملوں کے امکانات ظاہر کرتے رہے اور لوگوں کو دہشت زدہ کئے رکھا۔ کیا یہ امریکی عوام کی خدمت ہے، کیا اس خوف‘ دہشت اور ذہنی صدمات سے ہونے والی نفسیاتی تباہی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے…؟

امریکی عوام تازہ حملوں کے خوف اور دہشت کا شکار ہیں جو کسی بھی مقام سے کسی بھی لمحے ان پر کئے جاسکتے ہیں۔ وہ گلیوں میں، اپنے کام کرنے کے مقامات پر اور گھروں میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال سے کون خوش ہوگا۔ میڈیا نے احساسِ تحفظ اور ذہنی سکون اجاگر کرنے کے بجائے عدم تحفظ کا احساس کیوں پھیلا رکھا ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا کی اس مبالغہ آرائی نے افغانستان پر حملے کو منصفانہ قرار دینے کی بنیاد فراہم کی۔ ذرائع ابلاغ کے چارٹرز میں اطلاعات تک درست رسائی اور واقعات کی ایماندارانہ رپورٹنگ طے شدہ امور ہیں، مجھے شدید افسوس ہے کہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے ان اصولوں کی یکسر پاسداری نہیں کی۔ عراق پر حملے کی بنیادی وجہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی بتائی گئی اور اس دعوے پر لوگوں کا یقین مستحکم کرنے کے لئے اسے باربار دوہرایا گیا‘ اور اس طرح عراق پر حملے کی بنیاد فراہم کی گئی۔ کیا اس طرح کے ماحول میں سچ کھو نہیں جائے گا؟ میں پھر کہتا ہوں کہ اگر سچائی کو گم ہوجانے دیا گیا تو ان اقدار کا احیاء اور تحفظ کیسے ہوسکے گا جن کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ تو کیا اس طرح وہ سچائی جس سے خود اللہ تعالیٰ آگاہ ہے وہ بھی لاپتہ ہوجاتی ہے!

جنابِ صدر!

دنیا بھر کے ممالک میں لوگ اپنی اپنی حکومتوں کو اس امر کے لئے ادائیگیاں کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں حکومتیں اس قابل ہوسکیں کہ وہ عوام کی خدمت کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کھربوں ڈالر کے مصارف سے شہریوں کو کیا فائدہ پہنچا جو عراقی مہم کے دوران خرچ کئے گئے۔

جیسا کہ جنابِ والا باخبر ہوں گے کہ آپ کے ملک امریکا کی بعض ریاستیں (صوبے) ایسی ہیں جہاں ہزاروں لوگ بے گھر ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ مسائل کہیں بڑے پیمانے پر اور کہیں چھوٹے پیمانے پر دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ ان زمینی حالات کی موجودگی میں سرکاری خزانے سے عراقی مہم پر بھاری بھرکم اخراجات کی کوئی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے؟ اور انہیں ان اصولوں کے مطابق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے جن کا میں ذکر کرچکا ہوں۔ اس سلسلے میں جو کچھ کہا گیا اس میں بعض شکایات ہمارے خطے میں، آپ کے ملک میں اور دنیا میں لوگوں کو درپیش ہیں۔ مگر میرا بنیادی مدعا (جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ آپ بعض چیزوں پر اتفاق کریں گے) یہ ہے کہ جو لوگ آج اقتدار میں ہیں ان کے پاس محدود وقت ہے اور انہیں لامحدود مدت کے لئے برسراقتدار نہیں رہنا ہے، مگر ان کے نام تاریخ کے صفحات میں رقم رہیں گے اور مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں ان کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا۔

ایک وقت آئے گا جب ہماری صدارتوں اور ہمارے صدارتی ایوانوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ کیا ہم نے امن، سلامتی اور لوگوں کی فلاح کے لئے کام کیا یا پھر انہیں عدم تحفظ اور بے روزگاری میں مبتلا کیا؟

کیا ہماری یہ نیت تھی کہ ہم انصاف قائم کریں یا مخصوص مفادات کے حامل گروپوں کی حمایت کریں اور بعض لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ غربت، افلاس اور تنگدستی کا شکار رہیں‘ بعض لوگوں کو امیر و کبیر اور طاقتور بنادیں۔

کیا ہم نے ان لوگوں کا دفاع کیا جنہیں کوئی مراعات حاصل نہیں اور جنہیں نظرانداز کردیا گیا۔

کیا ہم نے دنیا بھر کے تمام لوگوں کی حفاظت کی یا پھر ہم نے ان پر جنگ مسلط کی‘ غیرقانونی طور پر ان کے معاملات میں مداخلت کی، خوفزدہ کردینے والی جیلیں بنائیں اور ان میں لوگوں کو ڈال دیا۔

کیا ہم نے دنیا کو امن دیا یا پھر اسے خطرات سے دوچار کردیا، کیا ہم نے اپنی قوم سے اور دوسری قوموں سے سچ بولا یا پھر ان کے سامنے سچ کو توڑمروڑ کر پیش کیا۔

کیا ہم نے لوگوں کا ساتھ دیا، عوام کے ساتھ کھڑے رہے یا پھر ظالموں اور قبضہ گروپوں کا ساتھ دیا، کیا ہماری حکومتوں نے قابلِ قبول منصفانہ منطق، اقدار، امن، ذمہ داریوں کے احساس، انصاف، عوامی خدمت، تحفظ، سلامتی، خوشحالی اور انسانی وقار کے احترام کو فروغ دیا یا پھر ہم نے بندوق کی حکمرانی رائج کی۔

کیا ہم نے عدم تحفظ، عوام کی توہین، ترقی میں تاخیر، دوسری قوموں کی بے عزتی اور انسانی حقوق کی پامالی کی راہ اختیار نہیں کی؟ اور آخر تاریخ دان اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ہم نے اپنے عہدوں کا جو حلف اٹھایا تھا کہ عوام کی خدمت کریں گے، جو ہمارا بنیادی مقصد اور انبیائے کرام کی روایت ہے، اس پر قائم رہے یا نہیں رہے۔

جنابِ صدر!

دنیا کب تک اس صورتِ حال سے صرفِ نظر کرتی رہے گی اور یہ رویہ دنیا کو کس مقام پر لے جائے گا۔

دنیا بھر کے عوام چند حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی قیمت کب تک ادا کرتے رہیں گے۔

کب تک عدم تحفظ مسلط رہے گا جو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروپیگنڈے سے پیدا ہوا اور اس کی بنیاد پر دنیا بھر کے عوام کو کب تک شکار کیا جاتا رہے گا۔

معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کا خون کب تک گلیوں میں بہتا رہے گا، لوگوں کے گھر کب تک منہدم کئے جاتے رہیں گے‘ ان کے سروں سے چھت کب تک چھینی جاتی رہے گی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں جاری رہ سکیں گی!

سیکورٹی، فوجی مہمات اور فوجوں کی نقل و حرکت پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر سرمایہ کاری، غریب ملکوں کی امداد، صحت، بیماریوں کے انسداد، تعلیم، روزگار اور پیداوار کے مواقع پیدا کرنے، پروجیکٹس کی تعمیر، غربت کے خاتمے، امن کے قیام، متنازعہ ممالک کے مابین ثالثی اور نسل پرستی اور فرقہ واریت کے شعلوں کو سرد کرنے پر خرچ کئے جاتے تو عوام جائز طور پر اپنے آپ پر فخر کرنے کے قابل نہ ہوتے؟ کیا اس طرح آپ کی انتظامیہ سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہ ہوتی! اور مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی افسوس ہورہا ہے کہ کیا ان حالات میں تیزی سے پھیلتی ہوئی وہ نفرت موجود ہوتی جو امریکی حکومت کے خلاف موجود ہے؟

جنابِ صدر!

میری یہ نیت نہیں کہ میں کسی کو بے توقیر کروں۔ اگر آج حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ ان رویوں کو کس نظر سے دیکھتے۔ انہوں نے جس دنیا کا وعدہ کیا تھا کیا اس دنیا میں ہمیں ادا کرنے کو کوئی کردار دیا جاتا۔ جہاں انصاف ایک عالمگیر صداقت ہوتی، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام موجود ہوتے کیا وہاں پر ہمیں محض قبول بھی کرلیا جاتا؟ میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا سے رابطہ رکھنے کا کوئی بہتر راستہ موجود نہیں ہے۔ دنیا میں آج کروڑوں عیسائی، کروڑوں مسلمان اور لاکھوں وہ لوگ موجود ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں، تمام آفاقی مذاہب ایک دنیا کے شراکت دار ہیں اور وہ اس میں رہتے ہیں اور ان سب کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد‘ لاشریک ہے اور اس کا ہمسر کوئی دوسرا نہیں۔

قرآن مجید اس مشترکہ لفظ پر زور دیتا ہے اور تمام مذاہب کے لوگوں کو دعوت دیتا ہے:

’’اے وہ لوگو جو کتاب کو مانتے ہو، اپنے اور ہمارے درمیان ایک منصفانہ چیز موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ہم کسی اور کی بندگی نہیں کریں گے مگر صرف اللہ تعالیٰ کی۔ اور یہ ہے کہ ہم کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے اور ہم میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ مانے۔ لیکن اگر انہوں نے انحراف کیا، تو پھر تم کہو کہ گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔‘‘ (سورہ آل عمران)

جنابِ صدر!

ان آیات ِمقدسہ کے مطابق ہم سب وحدہ‘ لاشریک رب کی عبادت اور خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی تعلیمات کی پیروی کے لئے بلائے گئے ہیں۔

اس خدا کی عبادت کرو جو تمام اختیار و اقتدار سے بالاتر ہے اور جو چاہے کرسکتا ہے، خدا ہر ظاہر و باطن اور ماضی اور مستقبل کا جاننے والا ہے اور وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو اس کے بندوں کے دلوں میں ہیں اور وہ ان کے اعمال کا حساب و کتاب رکھتا ہے۔

’’وہ معبود جس نے جنت کو اور زمین اور تمام جہانوں کو اپنی قدرت سے قائم کیا‘‘ کائنات کی منصوبہ بندی اس کے ہاتھوں سے ہوئی اور جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کی، وہ رحیم و کریم ہے، وہ گناہوں کو معاف کرتا ہے‘‘ وہ مظلوموں کا مددگار ہے‘‘ ’’وہ رحمن اور رحیم ہے، وہ تاریکی سے روشنی کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘‘۔ ’’وہ اپنے بندوں کے اعمال کا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ ’’وہ اپنے بندوں پر زور دیتا ہے کہ وہ تذبذب اور غیر مستقل مزاجی کا شکار نہ ہوں‘‘ وہ اپنے بندوں کو اپنے انبیاء کی پیروی کا حکم دیتا ہے اور ان لوگوں کو برے انجام کی خبر دیتا ہے جنہوں نے اس دنیا کو اختیار کیا اور اس کی حکم عدولی کی‘ اور اس کے بندوں پر ظلم کیا۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اس کی بندگی کی، اس سے ڈرتے رہے اور اپنی خواہشوں کے غلام نہیں بنے، انہیں جنت کی بشارت دیتا ہے۔

ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ انبیاء کرام کی تعلیمات کی طرف مراجعت واحد راستہ ہے، جو ہمیں خدا کے قریب لے جاتا ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے جنابِ والا کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور زمین پر خدائے بزرگ کی حکمرانی کے آفاقی حکم پر یقین رکھتے ہیں، ہم اس امر پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ قرآن مجید ان کی تعریف و توصیف سے بھرا ہوا ہے اور قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے کی گئی باتیں بھی ہیں۔

’’اور یقینا اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے، چنانچہ اس کی عبادت کرو، اور یہی سیدھا راستہ ہے، حضرت مریم علیہ السلام نے بھی معبود کی عبادت کی اور تمام انبیاء کرام نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تعلیم دی۔‘‘

یورپ، ایشیا، افریقا، امریکا، بحرالکاہل اور پوری دنیا کا خدا ایک ہے، وہی اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے‘ اسی نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ دیا۔

ہم پھر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو معجزات سے مبعوث فرمایا اور انہیں صاف صاف نشانیاں عطا کیں تاکہ وہ لوگوں کی رہنمائی کریں اور انہیں سیدھا راستہ دکھائیں اور انہیں گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھیں۔ اور اس نے کتاب نازل کی اور آخرت کے بارے میں بتایا تاکہ لوگ انصاف قائم کریں اور تفرقہ میں مبتلا نہ ہوں‘‘۔

ان تمام آیات کو ایک دوسرے انداز میں بائبل میں دیکھا جاسکتا ہے۔

تمام انبیاء کرام نے وعدہ کیا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب انسان اپنے پروردگار کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اچھے اعمال والے جنت میں بھیجے جائیں گے جبکہ برے اعمال کرنے والوں کو مکافاتِ عمل سے گزرنا ہوگا، مجھے یقین ہے کہ ہم دونوں اس روز پر اعتقاد رکھتے ہیں لیکن حکمرانوں کے اعمال کا حساب رکھنا آسان نہیں، ہمیں نہ صرف اپنی پوری قوم کو جواب دینا ہوتا ہے بلکہ ان تمام افراد کو بھی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے احکامات سے متاثر ہوتے ہیں۔ تمام انبیاء نے امن اور سلامتی کا درس دیا جس کی بنیاد توحید، انصاف اور احترامِ آدمیت پر مبنی ہے۔

کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہم توحید، خدا کی عبادت، انصاف، احترامِ آدمیت اور روزِ آخرت پر یقین جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کو اپناکر دنیا کے موجودہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی نافرمانی کے باعث آج ہمیں سامنا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمیں اپنی پرفارمنس کو بہتر بنانا چاہئے۔

کیا آپ امن، دوستی اور انصاف سے مشروط اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین نہیں رکھتے، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ عالمی امن کے لئے یہ تحریری اور غیر تحریری اصول کس قدر ضروری ہیں؟

کیا آپ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے جو انبیاء کی تعلیمات، توحید، انصاف، انسانی بھلائی اور خدائے بزرگ و برتر کی فرمانبرداری کے سب سے بہترین راستے پر مبنی ہے…؟

جنابِ صدر!

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ظالم اور جابر حکومتیں ختم ہوگئیں، خدا نے سب کی تقدیریں ایک دوسرے سے وابستہ کی ہیں، خدا نے کائنات اور انسانیت کو بے سہارا نہیں چھوڑا۔ حکومت میں بہت سی چیزوں، خواہشات اور منصوبوں پر اختلافات ہوتے ہیں، یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان چیزوں کے لئے سب سے اعلیٰ ترین طاقت سے رجوع کیا جائے۔ کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ آج دنیا تبدیل ہورہی ہے؟ کیا آج کی دنیا کا دس سال قبل کی دنیا سے موازنہ ہوسکتا ہے؟ بعض واقعات امن کو بگاڑنے کے لئے تیزی سے رونما ہورہے ہیں، دنیا کے بہت سارے لوگ ان حالات سے خوش نہیں ہیں، انہیں دنیا کے حکمرانوں، ان کے دعووں اور وعدوں کے حوالے سے گلے شکوے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، وہ جنگ اور امن و امان کو متاثر کرنے والی پالیسیوں کی مخالفت کررہے ہیں۔

لوگ غریب اور امیر ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، بہت سے ممالک اپنی روایات و اقدار کو متاثر کرنے والی غیر ملکی ثقافتی یلغار پر ناراض ہیں، لوگوں کو بین الاقوامی اداروں پر بھروسہ نہیں رہا ہے کیونکہ وہ ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھ سکے۔ لبرل ازم اور مغربی طرز جمہوریت انسانیت کو آئیڈیل صورتحال رکھنے والے ساری دنیا میں لبرل ڈیمو کریسی کے نظام کے خلاف احتجاج یقینا نوٹ کررہے ہوں گے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ بالآخر دنیا کے لوگ ایک مرکز پر جمع ہورہے ہیں۔ وہی خدا کا راستہ ہے۔ خدا پر غیرمتزلزل ایمان اور انبیاء کرام کی تعلیمات کا راستہ اپناکر ہی لوگ اپنے مسائل حل کرپائیں گے، میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا آپ ساری دنیا کے لوگوں کو ملانا نہیں چاہتے…؟

جنابِ صدر!

ہم بہرحال اسے مانیں یا نہ مانیں، دنیا خدائے بزرگ و برتر کے دین اور انصاف کی طرف بڑھ رہی ہے اور بے شک خدا ہی ہرچیز پر غالب رہے گا۔
محمود احمدی نژاد
صدر اسلامی جمہوریہ ایران

{}{}{}

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*