القاعدہ نے حکمت عملی تبدیل کرلی!

ایک بار پھر القاعدہ خبروں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ القاعدہ خبروں میں کب نہیں تھی؟ نائن الیون کے بعد سے القاعدہ متواتر خبروں میں رہی ہے۔ اور اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ مغربی میڈیا سے القاعدہ کا بھوت اترتا ہی نہیں۔ کیا واقعی القاعدہ اتنا بڑا خطرہ ہے کہ اس کا راگ ہر وقت الاپا جائے؟ یہ سوال بحث طلب ہے۔ القاعدہ کے نام پر مغربی حکومتوں نے سیکورٹی کے اقدامات کی مد میں بڑے بجٹ اِدھر سے اْدھر کردیے ہیں۔ اور اب تک کیے جارہی ہیں۔

حال ہی میں القاعدہ کی جانب سے دی جانے والی حملوں کی دھمکیوں نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ہائی الرٹ کی کیفیت پیدا کی ہے اور متعلقہ حکومتیں سیکورٹی بڑھانے پر مجبور ہیں۔ فرانس میں تو سیکورٹی بہتر بنانے کے نام پر ایفل ٹاور خالی کراکے تلاشی لی گئی۔ برطانیہ میں شاہی محلات کی بھی تلاشی لی گئی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کی جاسکے۔ ۱۹۷۰ء میں آئی آر اے نے شمالی آئر لینڈ میں برطانوی سیکورٹی فورسز کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں الجزائر میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ مغربی حکومتیں بعض امور میں بدحواسی کا مظاہرہ بھی کر رہی ہیں۔ یورپی ممالک کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں نائن الیون کی سی شدت والا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔ ایسا ہوا تو پورے بر اعظم کی سیکورٹی اور خوش حالی داؤ پر لگ جائے گی۔ جرمنی اور فرانس میں مبصرین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ القاعدہ یا کسی اور گروپ کی جانب سے دھمکی ملنے کی صورت میں لازمی طور پر ہائی الرٹ نہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں القاعدہ کو مزید شہرت ملتی ہے۔ ۲۰۰۶ء میں بھی ہائی الرٹ کی کیفیت پیدا ہوئی تھی جب القاعدہ نے لندن اور دیگر شہروں میں طیاروں کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ القاعدہ نے اپنے طور طریقے تھوڑے سے بدلے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بھی بڑے واقعے سے گریز چاہتی ہے۔ اس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیٹ ورک اتنا بڑا نہیں رہا کہ بڑے واقعات جنم دے سکے۔

جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکی اور یورپی حکومتوں نے مل کر القاعدہ کو ختم کردیا ہے وہ یہ دیکھ کر ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ القاعدہ نہ صرف یہ کہ زندہ اور متحرک ہے بلکہ اس نے اپنا طریق کار بھی تبدیل کرلیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب القاعدہ زیادہ ٹف ٹائم دینے کے موڈ میں ہے۔ کسی بڑے واقعے کی صورت میں آسانی سے گرفتاریاں ممکن ہیں۔ اسلحہ اور گولہ بارود زیادہ مقدار میں ہو تو اسے آسانی سے تلاش کرکے ضبط کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹی مقدار میں رکھے جانے دھماکہ خیز مواد کو تلاش اور ضبط کرنا بہت مشکل ہے۔ چھوٹے ہتھیار عام ہیں۔ امریکا اور یورپ میں القاعدہ شاید اب چھوٹے ہتھیاروں کی مدد سے جنگ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ لڑائی گلیوںمیں اور سڑکوں پر ہو تو کسی بڑی فوج کے لیے بہتر اقدامات کرنا ممکن نہیں رہتا۔

القاعدہ سے متعلق امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب غیر ملکی تارکین کی اولاد اور نومسلموں کی شکل میں ریکروٹ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جن نوجوانوں کا کوئی کرمنل ریکارڈ بھی نہ ہو تو ان پر شک کرنا کسی بھی سیکورٹی ایجنسی یا انٹیلی جنس ادارے کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور وہ آسانی سے سفر بھی کرسکتے ہیں۔ القاعدہ چاہتی ہے کہ نوجوانوں کو شہروں میں نرم اور آسان اہداف دیے جائیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ اب القاعدہ بڑے شہروں کو اندرونی سطح پر نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ مغرب کے بڑے شہروں میں ہر معاملہ جدت سے ہمکنار ہے۔ سیکورٹی بھی عمدہ ہے مگر ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو نشانہ بنانا بھی آسان ہے کیونکہ وہ بہت سی مشکلات کے لیے نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ یورپ میں لوگ قوانین پسند ہیں اور انہیں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اپنے حواس اور جذبات پر قابو پانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نائن الیون طرز کے حملوں کی دھمکی سے یورپ بھر میں شدید خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کئی حکومتیں سیکورٹی سیٹ اپ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ القاعدہ بھی یہی چاہتی ہے کہ معاملہ قتل و غارت تک نہ پہنچے، بس خوف کی فضا برقرار رکھی جائے۔

برطانیہ میں مرکزی خفیہ ادارے ایم آئی فائیو نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کردی ہے۔ تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے تاکہ مشتبہ افراد تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ ۹؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*