اب الجزائر کی اسلام پسند پارٹی جو عربی میں ’’جمھۃ الانقاذ الاسلامی‘‘ فرانسیسی میں Front Islamique du salut or FIS) اور انگریزی میں National Liberation Front or FLN کہلاتی ہے‘ میں علی بلحاج کو پارٹی کے دوسرے نمبر کے قائد کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ علی بلحاج‘ جن پر حکومت اور پارٹی کی جانب سے سیاسی عمل میں حصہ لینے‘ عام معاملات میں مداخلت اور میڈیا کو بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی‘ امتناع کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری طرح سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔ اخبارات کو انٹرویو دینے پر امتناع کے باوجود گذشتہ دنوں علی بلحاج نے فرانسیسی روزنامہ ’’لوموند‘‘ کی جانب سے دی گئی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اپنا انٹرویو شائع کرنے کی اجازت دی۔ الجزائری سیاست کی پیچیدگیوں سے واقفیت رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں نے بلحاج کے اس اِقدام کے تین اسباب ذکر کیے ہیں۔
۱۔ الجزائر کی موجود حکومت کے غیرقانونی ہونے کے تعلق سے اپنی رائے کو مزید پختگی عطا کرنا۔ جب حکومت ہی غیرقانونی متصور ہو تو پھر اسے کسی پارٹی پر امتناع عائد کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
۲۔ علی بلحاج کا یہ احساس ہے کہ انتخابات کی صورت میں ان کی پارٹی ویسے ہی کامیابی سے ہمکنار ہو گی جیسے ۱۹۹۱ء میں اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بلکہ علی بلحاج کو کامل یقین ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل جاتی ہے تو نتائج لا محالہ اسی کے حق میں جائیں گے۔
۳۔ علی بلحاج کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ اگر ’’جمھۃ الانقاذ الاسلامی‘‘ میدان سے ہٹ جائے تو پھر لامحالہ ابو جرہ سلطانی کی پارٹی ’’حرکۃ مجتمع المسلم‘‘ اسلام پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں سبقت لے جائے گی۔ ’’علی بلحاج ایک پریشان کن وحشت ناک شخص ہے‘‘۔ الجزائر کے ایک سیاست دان نے ان الفاظ میں ’’جمھۃ الانقاذ الاسلامی‘‘ کے دوسرے نمبر کے قائد کا تعارف کرایا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ گذشتہ صدی کی ۸۰ کی دہائی میں ۴۹ سالہ علی بلحاج نے حکومت الجزائر کے لیے ایک پریشان کن شخصیت کے طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ الجزائر کے دارالحکومت کی مختلف مساجد میں اپنے خطبات و مواعظ کے ذریعہ علی بلحاج نے حکومت کے خلاف زبردست مہم چھیڑ رکھی تھی۔ الجزائر کی ہر حکومت کے خلاف چاہے وہ مغرب کی سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ نگرانی ہو یا سوویت یونین کے اشتراکی نظام سے متاثر۔ علی بلحاج نے اپنے اشتعال انگیز طرزِ تخاطب کے ذریعہ عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ آخری لمحات میں اگر فوجی ادارہ حرکت میں نہ آتا تو قریب تھا کہ علی بلحاج کرسیٔ صدارت پر متمکن ہو جاتے۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں علی بلحاج کی پارٹی ’’جمھۃ الانقاذ الاسلامی‘‘ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ جنوری ۱۹۹۲ء کی فوجی مداخلت نے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد الجزائر ایک ایسی جنگ کی آگ کی لپیٹ میں آیا جسے الجزائری باشندے ’’گندی و تاریک جنگ‘‘ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جنگ نے ’’جمھۃ الانقاذ الاسلامی‘‘ کے سید عباس مدنی اور ان کے دست راست علی بلحاج کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جہاں ان دونوں کو ’’الصحرا الکبریٰ‘‘ کے قید خانوں میں اٹھارہ سال کا طویل عرصہ گزارنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ بالآخر عباس مدنی دوحہ قطر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے لیکن علی بلحاج نے ساری مشکلات کو سہتے ہوئے وطن میں رہنے کو ترجیح دی اور سیاسی حلقوں میں خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ الجزائری فوج کی پروا کیے بغیر علی بلحاج نے حکومت کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔ انہوں نے فوج کی جانب سے خود پر عائد کیے گئے امتناع کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔ میڈیا کو سیاسی بیانات دینے سے گریز کیا اور نہ ہی عوامی معاملات میں مداخلت پر پابندی کی کوئی پروا کی۔ بلکہ وقفہ وقفہ سے حسبِ موقع اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے۔ اس سلسلہ کا ایک تازہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملک میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے فوج کی جانب سے معروف داعی شیخ یوسف القرضاوی کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان سمجھوتہ کروا کر صدر بو تقلیقہ کی حمایت کے لیے راہ ہموار کریں۔ اس موقع پر جس ہال میں شیخ یوسف القرضاوی کا پروگرام منعقد کیا گیا تھا‘ علی بلحاج نے اس میں گھس کر شیخ یوسف القرضاوی کو مدعو کرنے کے حکومت کے اقدام کے خلاف اپنے مذمتی موقف کے اعادہ کی کوشش کی تھی۔ اس لیے کہ علی بلحاج کی نگاہ میں مصری شیخ یوسف القرضاوی کو الجزائر میں کیا کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے مکمل طور سے واقفیت نہیں ہے۔ علی بلحاج‘ شیخ یوسف القرضاوی کی آمد کے اس لیے بھی مخالف تھے کہ شیخ یوسف القرضاوی اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ مسلح عناصر خود کے لیے اسلام‘ قرآن اور سنت کی تعبیرات استعمال کریں۔ بلکہ شیخ یوسف القرضاوی چاہتے ہیں کہ اسلام پسند عناصر پہاڑوں سے اتر کر آبادی میں آئیں اور خود کو ملکی معاشرہ کے دھارے میں شامل کریں۔ الجزائر کے دورہ کے موقع پر شیخ القرضاوی نے ان خیالات کا اظہار بھی کیا تھا۔ شیخ یوسف القرضاوی کے پروگرام کے موقع پر جب علی بلحاج نے ہال میں گھسنے کی کوشش کی تو امن سلامتی فوج نے انہیں کچھ دیر کے لیے گرفتار کر لیا۔ فوج نے انہیں وارننگ بھی دی کہ اگر انہوں نے حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کی اپنی مہم کا سلسلہ یوں ہی جاری رکھا تو حکومتی افراد کے مطابق انہیں دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا جائے گا۔ لیکن حکومتی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانے والے علی بلحاج نے فوج کے آگے پھر وہی کھیل دہرایا اور فوج کی جانب سے عائد امتناع کے باوجود میڈیا کو بیانات دیے۔ اس سلسلہ کا ایک اور واقعہ فرانسیسی اخبار ’’لوموند‘‘ کو دیا گیا ان کا انٹرویو ہے۔ ’’لوموند‘‘ میں شائع اپنے اس انٹرویو کے دوران علی بلحاج نے پرزور انداز میں الجزائر کی موجودہ حکومت کے غیرقانونی ہونے کا اعلان کیا اور ’’قومی مصالحت اور امن معاہدہ‘‘ کے حکومتی پروگرام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ الجزائر پر صدر کی حکومت نہیں ہے بلکہ صدر فوجی ادارہ کی ترجیحات نافذ کر رہے ہیں۔ الجزائر کی اصل حکمراں فوج ہے علی بلحاج نے اپنے انٹرویو میں اختصار کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایک بار پھر جیل کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علی بلحاج کی گرفتاری اور پھر حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزام میں ان پر مقدمہ چلایا جاسکے گا؟ الجزائر کے دارالخلافہ میں سکونت پذیر ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ علی بلحاج‘ حکومت کے لیے ضرور پریشانی کا باعث ہیں۔ لیکن وہ پرخطر نہیں ہیں۔ مذکورہ سفارت کار نے ایک طویل عرصہ تک علی بلحاج کی دوبارہ گرفتاری پھر سزائے قید کو بظاہر ناممکن قرار دیا۔ اگرچہ حکومت ان پریشان کن حالات سے نمٹنے کے لیے مختصر مدت کے لیے انہیں گرفتار کر سکتی ہے۔ الجزائر کی تحریکِ اسلامی سے وابستہ ایک اعتدال پسند الجزائری کا کہنا ہے: ’’لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کے لیے علی بلحاج ہر چیز کی بازی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے جولائی ۲۰۰۵ء کی اپنی رہائی کے بعد سے اب تک وہ اگرچہ بظاہر آزاد نظر آرہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کے پیشِ نظر وہ مستقل حکومتی حصار کے درمیان ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے جیل سے باہر اس قسم کی آزادی اور جیل کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔ مذکورہ الجزائری اعتدال پسند کے مطابق علی بلحاج کو چاہے حکومت سزائے قید کی جتنی بھی دھمکی دے لیکن بلحاج حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے کی اپنی مہم سے باز نہیں آئیں گے۔ بلکہ حکومت کی دھمکیوں میں جتنی شدت آئے گی ان کی مہم بھی اسی رفتار سے شدت اختیار کرتی جائے گی۔ وہ اس وقت تک اپنی مہم جاری رکھیں گے‘ جب تک حصولِ اقتدار کے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائیں یا پھر انہیں اس راہ میں شہادت نصیب نہ ہو جائے۔
(ترجمہ: سید احمد ومیض ندوی۔ بشکریہ: المجتمع کویت)
Leave a Reply