ترکی ایک تیزی سے ابھرتی اور پنپتی معیشت کا نام ہے۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ترکی کو اب تک ایران، روس اور آذر بائیجان سے تیل اور گیس کی سپلائی پر مدار رکھنا پڑا ہے۔ مگر اب ترک حکومت چاہتی ہے کہ توانائی کے حصول کے ذرائع متنوع ہوں تاکہ معیشت کے فروغ کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہ ہو۔ الجزائر نے ترکی کو گیس فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ترک اخبار ٹوڈیز زمان سے انٹرویو میں ترکی میں الجزائر کے سفیر مولود حمائی (Mouloud Hamai) نے بتایا ہے کہ ان کا ملک ترکی سے بہتر اقتصادی روابط چاہتا ہے تاکہ ترقی کی راہ پر مل کر آگے بڑھا جاسکے۔
ترکی اور الجزائر کے درمیان توانائی سے متعلق امور میں تعاون اور تجارت پر مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے ہیں۔ توانائی کے ترک وزیر تینر یلدز (Taner Yildiz) اور ان کے الجزائری ہم منصب یوسف یوسفی کے درمیان روابط برقرار رہے ہیں۔ ترکی کو توانائی کی بیشتر ضروریات دوسرے ممالک کی مدد سے پوری کرنا پڑتی ہیں۔ الجزائر ترکی کو گیس فراہم کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اپریل ۱۹۹۴ء میں گیس سپلائی معاہدے کے تحت روس، ایران اور آذر بائیجان ترکی کی ضرورت پوری کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ (واضح رہے کہ یہ ممالک ہر سال ۴ بلین کیوبک میٹر گیس ترکی کو فراہم کرتے ہیں)۔
موسم سرما میں پائپ لائن کو پہنچنے والے نقصان کے باعث گیس کی فراہمی میں تعطل عام ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ترکی اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا کہ ایران نے کئی مواقع پر گیس کی فراہمی روکی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ توانائی کے حصول کے مختلف ذرائع تلاش کیے جائیں تاکہ فراہمی کسی تعطل کے بغیر جاری رہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ سردیوں میں اس کے ہاں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے جس کے باعث وہ زیادہ گیس برآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔
کرد باغی بھی گیس پائپ لائن پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایران اور عراق سے آنے والی گیس پائپ لائن پر کرد باغیوں کے حملوں کے باعث گیس کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونا عام ہے۔ ترک حکومت اس حوالے سے طاقت استعمال کرنے کے باوجود زیادہ موثر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
ترکی اور الجزائر گیس کے علاوہ بھی مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۱ء تک ایک ارب ڈالر سے اب کم و بیش ۲؍ارب ۷۰ کروڑ ڈالر ہوچکا ہے۔ سال رواں کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ترکی اور الجزائر کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب دس کروڑ ڈالر رہا ہے جو گزشتہ برس اسی مدت کے درمیان کی تجارت کے مقابلے میں دس کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔
ایک عشرے کے دوران الجزائر کے لیے ترکی کی برآمدات میں کم و بیش ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ الجزائر شمالی افریقا میں ترکی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ تعمیرات کے شعبے میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ ترک فرموں کو الجزائر میں تعمیرات کے کم و بیش ۶؍ ارب ڈالر کے ٹھیکے ملے ہیں۔ فرنشنگ، فوڈ پروسیسنگ، ڈیٹرجنٹ اور اسٹیل انڈسٹری میں بھی دونوں ممالک اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن ہیں۔ الجزائر میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور وسعت دینے سے متعلق ۴۰۰ ترک کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں اشتراکِ عمل بڑھنے سے الجزائر میں آباد ہونے والے ترکوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ اس وقت الجزائر میں پانچ ہزار سے زائد ترک باشندے سکونت پذیر ہیں۔ ترک اور الجزائری باشندوں میں شادیاں بھی ہو رہی ہیں۔
مولود حمائی کہتے ہیں کہ ترکی اور الجزائر کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارت اور معاشرتی روابط نے تین صدیوں کے ان روابط کی یاد تازہ کردی ہے جو ۱۵۱۸ء سے ۱۸۳۰ء کے دوران دونوں ممالک کے درمیان استوار رہے تھے۔
ترکی اور الجزائر مختلف شعبوں میں ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ محض دکاندار اور گاہک والا تعلق نہیں بلکہ دوستوں والا معاملہ ہے۔ سیاسی، عسکری، تکنیکی اور معاشرتی امور میں بھی ترکی اور الجزائر قریب آ رہے ہیں۔ یہ قربت ان کے درمیان اشتراکِ عمل بڑھا رہی ہے جو اچھی علامت ہے۔ ثقافتی تفاعل دونوں ممالک کے لیے بہتر زندگی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان وفود کا تبادلہ بھی ہوا ہے اور سفارتی سطح پر بات چیت بھی جاری ہے۔ ترکی کے کئی ٹی وی سیریلز الجزائر میں ٹیلی کاسٹ کیے گئے ہیں جن سے ترک کلچر کو بہتر انداز سے متعارف کرانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ ترکی میں خاندانی نظام اب بھی موثر طور پر موجود ہے۔
ترکی اور الجزائر یورپی یونین، نیٹو اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) میں بھی اشتراکِ عمل کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک یورپی یونین کے تحت Union for the Mediterranean Initiative کے رکن بھی ہیں۔ یہ پلیٹ فارم یورپ اور بحیرۂ روم کے خطے کے ۴۳ ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں اقتصادی اشتراکِ عمل کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
الجزائر کوئی سیکولر ریاست نہیں۔ اس کے آئین میں اسلام سرکاری مذہب کے طور پر درج ہے۔ خطے کے حالات الجزائر پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ تیونس اور لیبیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہے تو الجزائر بھلا متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟ مولود حمائی کہتے ہیں کہ الجزائر میں عوامی بیداری کی لہر ۱۹۸۸ء میں اٹھی تھی۔ یہ لہر صدر شاذلی بن جدید کے خلاف تھی۔
مولود حمائی الجزائر کو خوش نصیب قرار دیتے ہیں کہ عوامی بیداری کی لہر کے نتیجے میں جمہوری اقدار کو اپنایا گیا اور ملک میں وہ تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ گزشتہ برس جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی تب الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتیفلیکا (Bouteflika) نے اصلاحات کا منصوبہ تیار کیا تاکہ بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔ الجزائر کے اسلام پسند عناصر کو بھی حکومتی و سیاسی نظام میں سمویا جاچکا ہے۔
الجزائر اس اعتبار سے ایک منفرد ملک ہے کہ وہاں خواتین کو پارلیمان میں نمایاں حد تک نمائندگی دی گئی ہے۔ الجزائری پارلیمان کی ۴۶۲ نشستوں میں سے ۱۴۶؍ نشستوں پر خواتین منتخب ہوئی ہیں۔ یہ تعداد خطے ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی بلند ترین اعداد و شمار میں سے ہے۔ یہ تناسب ۶ء۳۱ فیصد سے زائد ہے۔
(“Algeria Set to Increase Gas Supply to Turkey”… “Today’s Zaman”. July 4th, 2012)
Leave a Reply