علی بلوسین کے قبولِ اسلام کی داستان

اسلام دینِ فطرت ہے۔ جو شخص بھی نظامِ کائنات میں سنجیدگی سے اور پورے اخلاق کے ساتھ غور کرے گا‘ وہ عقیدہ توحید تک ضرور پہنچے گا۔ علی بلوسین نے کمیونزم کے گہوارے میں پرورش پائی۔ اس کے فلسفہ پر اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کی‘ عیسائیت کی طرف مائل ہوئے تو پادری بن گئے اور اعلیٰ دینی و دنیاوی عہدوں پر فائز ہوئے مگر عیسائیت کے تضادات نے انہیں بے چین رکھا‘ بالآخر اسلام کے گہوارۂ عافیت میں انہیں سکون کی دولت ملی‘ حالانکہ نہ ان کی ملاقات کسی مسلمان سے ہوئی تھی‘ نہ انہوں نے اسلام کے بارے میں کسی کتاب کا مطالعہ کیا تھا۔ پیش ہے علی بلوسین کے قبولِ اسلام کی دلچسپ داستان جو ہفت روزہ ’’المجتمع‘‘ میں انٹرویو کی شکل میں شائع ہوئی ہے۔

سوال: اپنی شخصیت کا مختصر تعارف کرائیں؟

جواب: میرا نام علی بلوسین ہے۔ میں نے کمیونزم کے فلسفہ پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ پولیٹیکل اسٹڈیز میں ڈپلوما کیا ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں فلسفہ کا استاد رہا۔ لیکن درحقیقت میں کمیونسٹ فکر سے مطمئن نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور موجود ہے۔ اس دنیا کا ایک خالق ضرور ہونا چاہیے‘ اس لیے میں نے عیسائیت سے واقفیت حاصل کرنی شروع کر دی اور اس کا مطالعہ کرتا رہا‘ یہاں تک کہ میں چرچ سے وابستہ ہو گیا اور پادری بن گیا۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد چرچ کی جانب سے روس کی پہلی منتخب پارلیمنٹ میں ممبر بھی نامزد کیا گیا اور چار سال کے لیے روسی پارلیمنٹ میں نائب رہا۔

سوال: روسی پارلیمنٹ میں آپ کیا کرتے تھے؟

جواب: میں پارلیمنٹ میں مذاہب کمیٹی کا چیئرمین تھا‘ میں نے مذہبی آزادی کا قانون بنایا‘ اس قانون کی رو سے روس میں لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوئی۔ چار سالہ مدت پوری کرنے کے بعد میں دوبارہ بحیثیت پادری اپنی ذمہ داری ادا کرنے لگا۔

سوال: عیسائیت چھوڑنے پر آپ کو کس چیز نے مجبور کیا؟

جواب: پارلیمنٹ کی ذمہ داری سے سبک دوش ہونے کے بعد جب میں چرچ میں اپنے کام انجام دینے لگا تو مجھے عیسائیت کے مشرقی اور مغربی رجحانات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کا موقع ملا اور میں نے ان میں عجیب تناقص اور اختلاف پایا۔ خصوصاً عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت‘ ان کی الوہیت اور عقیدۂ تثلیث کے بارے میں مَیں نے پایا کہ یہ باتیں توحید سے متعارض ہیں اور عقل سے بھی دور ہیں۔ اس طرح میں عیسائیت سے دور ہوتا چلا گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ عیسائیت صحیح نہیں ہے۔ میں اپنے آپ کو غیرعیسائی سمجھنے لگا اور صرف موحد سمجھنے لگا‘ عجیب کشمکش سے دوچار رہا۔ کچھ فیصلہ کرنا سخت دشوار تھا‘ اس لیے کہ میں نے عیسائیت کو عمیق مطالعہ اور غور و فکر کے بعد اختیار کیا تھا۔ میں نے سولہ سال تک چرچ میں کام بھی کیا تھا۔ نصرانیت قبول کرتے وقت میرا پختہ ایمان تھا کہ نصرانیت ہی برحق ہے۔

سوال: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نصرانیت ترک کر دی تھی اور موحد ہو گئے‘ لیکن ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ پھر آپ نے اسلام کیسے قبول کیا؟

جواب: اس وقت تک میں نہیں جانتا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی مذہب ہے جو اﷲ کی وحدانیت کی دعوت دیتا ہے اور نہ میں نے اسلام کے بارے میں کوئی کتاب پڑھی تھی۔ روسی زبان میں جو ترجمہ کراچووسکی نے کیا ہے‘ ایک نظر کبھی دیکھا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ایک دن عیدالاضحی کی مناسبت سے روسی ٹیلی ویژن نے ایک پروگرام نشر کیا‘ اس میں اسلام اور اس کے مبادیات بیان کیے گئے تھے اور بتایا گیا تھا کہ اسلام ایسا دین ہے جو توحید کی دعوت دیتا ہے۔ اس پروگرام سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری عقل پر پڑا ہوا پردہ بالکل ہٹ گیا ہے اور اسی دین کے لیے میرا سینہ پوری طرح کھل گیا ہے۔ میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا‘ میں نے ایک مقالہ لکھا جس میں اپنے اسلام کا اعلان کیا‘ جب یہ مقالہ شائع ہو گیا تو میں نے بہت زیادہ خوشی محسوس کی۔

سوال: اس مقالہ سے لوگوں پر کیا اثر پڑا؟

جواب: اس مقالہ نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ خاص طور پر چرچ کے حلقے میں‘ اس لیے کہ میں بہت مشہور پادری تھا‘ چرچ میں میرا بہت بڑا مقام و مرتبہ تھا۔ اس کی جانب سے میں پارلیمنٹ میں ممبر اور مذاہب کمیٹی کا چیئرمین بھی رہ چکا تھا۔ میڈیا نے میرے انٹرویو لینے کے لیے مجھے گھیر لیا۔ کوئی ایسا مجلہ یا جریدہ نہ تھا‘ جس میں میرے اسلام قبول کرنے کے متعلق کچھ نہ شائع ہوا ہو‘ کچھ لوگوں نے حمایت میں لکھا تو کچھ لوگوں نے مخالفت میں۔ اس طرح یہ صورتحال پیدا ہو گئی کہ میں پہلی فرصت میں اسلام کا داعی بن گیا‘ ایک ٹی وی چینل کی جانب سے مجھے دو سال تک دینی پروگرام پیش کرنے کی دعوت دی گئی‘ جسے میں نے قبول کیا اور آرتھوڈوکس چرچ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں مجھ پر اور میری سات نسلوں پر لعنت بھیجی گئی تھی۔ میرے تمام اعزہ و اقارب کو بلایا اور انہیں مجھ سے ہر طرح کا تعلق منقطع کرنے کا حکم دیا۔

سوال: اس کا آپ پر کیا اثر پڑا؟

جواب: درحقیقت اس سے میرے اوپر نفسیاتی طور پر بہت اثر پڑا۔ اعزہ و اقارب سے تعلق منقطع ہونے کے بعد مجھے تنہائی کا احساس رہا۔ مگر جلد میری حالت سدھر گئی‘ الحمدﷲ! اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اخوت نصیب فرمائی۔

سوال: ٹیلی ویژن کا پروگرام دیکھنے کے بعد آپ نے ایک مقالہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ہی آپ اسلام کے داعی بن گئے‘ اس وقت اسلام کے بارے میں آپ کی معلومات کیا تھیں؟

جواب: اسلام سے متعلق میری معلومات کمزور تھیں‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے اور نہ مجھے معلوم تھا کہ روزہ واجب ہے‘ میں نے جس وقت اسلام قبول کیا تھا‘ اس وقت تک نہ میری ملاقات دوسرے مسلمانوں سے ہوئی تھی‘ جو مجھے اسلام کی باتیں بتاتے اور نہ میں نے اسلام کے متعلق کسی کتاب کا مطالعہ کیا تھا‘ جس چیز نے مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا‘ وہ توحید خالص کا عقیدہ ہے۔ لیکن اس کے بعد کتابوں کے ذریعہ اور بعض مسلم دعاۃ کی مدد سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

سوال: براہِ کرم قارئین کے لیے اپنی کتابوں کا تعارف کرائیں۔

جواب: میری پہلی کتاب کا نام ہے ’’اﷲ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ‘‘۔ اس میں مَیں نے اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق اس کتاب کے ایک لاکھ نسخے شائع ہوئے ہیں۔ سیکڑوں روسی باشندے اس کتاب کے ذریعہ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ دوسری کتاب کا نام ہے ’’مقدماتِ شرک‘‘۔ اس میں مَیں نے توحید کے فلسفہ کو واضح انداز میں ثابت کیا ہے اور شرک کو غلط ٹھہرایا ہے۔ یہ کتاب تعلیم یافتہ طبقہ کو مخاطب کرتی ہے۔ تیسری اور آخری کتاب کا عنوان ہے ’’انجیل ایک نومسلم کی نظر میں‘‘۔ یہ کتاب شائستہ اور معروضی انداز میں انجیل سے بحث کرتی ہے۔ اس میں بڑے قدیم مسیحی علماء کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ مذکورہ کتابوں کے علاوہ دسیوں مقالات بھی شائع ہو چکے ہیں۔

سوال: تصنیف و تالیف کے علاوہ آپ کی سرگرمیاں کیا کیا ہیں؟

جواب: میں ایک اسلامی تنظیم کا ذمہ دار ہوں۔ اس کا مرکز ماسکو میں ہے۔ اس تنظیم کا نام ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔ اس کا کام غیرمسلموں میں دعوت اور نومسلموں کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس کی انٹرنیٹ پر ایک سائٹ بھی ہے۔ اس کے علاوہ روس کے مسلم صحافیوں کی یونین کا صدر اور روس میں مذہبی مسائل کے مفتی کا مشیر بھی ہوں۔

سوال: روس میں نومسلموں کے مسائل و مشکلات سے قارئین کو آگاہ فرمائیں۔

جواب: ان کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اپنے اعزہ و اقارب اور دوست و احباب سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں اور نئے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم نہیں ہو پاتے‘ روایتی اور نسلی مسلمان انہیں دوسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں مسجدوں میں جانے نہیں دیتے اور انہیں مسلمانوں کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے۔ ان نومسلموں کے لیے اب تک کوئی مرکز قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ حالانکہ صرف ماسکو میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں اساتذہ بھی ہیں‘ وکلاء بھی ہیں‘ انجینئر بھی اور طلبہ بھی ہیں۔ وہ لوگ بڑی تعداد میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بعض دینی مدرسوں میں نصف سے زائد طلبہ نومسلم ہوتے ہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ مسلمانوں کے مابین شادی کا نظم ہے۔ اسلام قبول کرنے والی خواتین کو قدیم مسلمانوں کی جانب سے تعاون نہیں ملتا۔

سوال: روسیوں کو آپ جس انداز سے اسلام کی دعوت دیتے ہیں‘ اس کے بنیادی نکات کیا ہیں؟

جواب: روسی باشندوں کی اکثریت کسی چیز پر ایمان نہیں رکھتی‘ وہ صرف خرافات کا اعتقاد رکھتی ہے۔ البتہ کتابوں‘ فلموں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے ذریعہ انہیں بعض مسیحی اساطیر کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور کچھ عوامی قصے کہانیاں جانتے ہیں‘ یہاں تک کہ بعض لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کو ڈرامائی شخصیت سمجھتے ہیں۔ اس لیے پہلا کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اﷲ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کا احترام بٹھایا جائے اس کے بعد ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائی عقائد کی ترید کی جائے۔ واضح رہے کہ قدیم مسیحی تالیفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں متضاد باتیں ہیں۔ ان کی تاویل و تفسیر مختلف انداز میں کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق اسلامی نظریہ ہے‘ تو وہ بڑا معقول اور منطقی ہے۔

اس کے بعد ضروری ہے کہ ان الزامات کا جواب دیا جائے جو عیسائی انتہا پسند اسلام پر لگاتے ہیں اور شرک کے معنی بیان کیے جائیں۔ اس طرح امید ہے کہ لوگوں کے دل اسلام کی طرف مائل ہوں گے اور اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو گی۔

سوال: آپ فکری طور پر کیا کام انجام دینا چاہتے ہیں؟

جواب: روسی عقل کو مخاطب کرنا‘ روسی ثقافت کی توضیح و تشریح اسلام کی روشنی میں کرنا (یعنی اسلام تاریخ‘ فلسفہ اور ادب کو کس نظر سے دیکھتا ہے) انصاف پسند قلم کاروں مثلاً لیوتوستوی دوستویفسکی وغیرہ کی تحریروں کا جنہوں نے اسلام کی حمایت میں لکھا ہے‘ تجزیہ کرنا۔ روسی عوام کی عقلوں کو پیشِ نظر رکھ کر اسلام کے عقیدہ اور شریعت کی وضاحت کرنا۔ روس کی اعلیٰ زبان میں قرآن کریم کی ایک جامع تفسیر کرنا‘ جس میں قرآن کی اصطلاحات توحید‘ روح‘ کفر‘ شرک‘ ولی‘ وسیلہ وغیرہ کی تشریحات کی گئی ہوں۔ ان موضوعات پر کام کرنا جو اسلام اور عیسائیت کے در میان مشترک ہیں۔ فکری طور پر یہ چند اہم کام ہیں‘ جنہیں میں آئندہ انجام دینا چاہتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ستمبر ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*