سانحہ الٰہ آباد

الٰہ آباد میں طالبات کے مدرسہ جامعۃ الصالحات (کریلی) میں ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء کی شب طالبات کے ہاسٹل میں جو قیامت ٹوٹی اس نے ملک کے سیکوریٹی نظام اور شہریوں،حقوق بالخصوص مسلمانوں و اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ یہ کہنا درست نہیں کہ جن چھ افراد نے نوخیز طالبات کے ہاسٹل پر حملہ کیا وہ عام قسم کے بدمعاش تھے۔ مسلم سماج کے خلاف یہ ایک منظم سازش تھی اور اس گھنائو نے جرم میں وہ سفید پوش لوگ ملوث تھے جو ہندوستان کی ثقافتی اصطلاح میں ’’ان داتا‘‘ کہے جاتے ہیں۔ اس جرم کے مرتکب چھ افراد پولیس (CID) کے بھیس میں تھے اورکہا جا تا ہے کہ وہ ’’روٹین چیکنگ‘‘ کے نام پر وہاں جاتے رہے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ رات کے بارہ بجے مدرسہ کے منتظم کی غیر موجودگی میں وہ لوگ وہاں کیوں گئے؟ وہ کس بات کی چیکنگ کرنے گئے تھے؟ کیا طالبات کے کسی ہاسٹل کی ’’روٹین چیکنگ‘‘ کا وقت رات کے ۱۲ بجے ہو سکتا ہے؟ کیا گرلز ہاسٹل میں بھی کوئی ’’مسلمان دہشت گرد‘‘ چھپا ہوا تھا؟ اگرچہ اردو میڈیا نے اس سانحہ سے حکام اور عوام کو باخبر کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا لیکن نیشنل میڈیا کا اس معاملے میں متعصبانہ کردار بھی مخفی نہ رہا۔یہ وہی نیشنل میڈیا ہے جو کسی’’ مسلمان دہشت گرد‘‘ کی خبر کو سرورق پر جگہ دیتا ہے خواہ حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ نہ ہو۔ مدرسہ جامعتہ الصالحات (کریلی) کے ہاسٹل میں ۱۷ جنوری کی شب میں کیا ہوا، اس سانحہ پر ای ٹی وی سے وابستہ آصف انور علیگ کی بڑی حد تک مشاہدہ پر مبنی تفصیلی رپورٹ بنگلور کے ہفت روزہ اسلامک وائس میں شائع ہو چکی ہے۔

سانحہ الٰہ آباد کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں پولیس نے اس واقعہ کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا وہیں سکریٹری داخلہ آرایم شریو استوا سے آبروریزی کی واردات ہی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے لیکن کچھ سر کردہ سماجی تنظیموں (NGOs) کی مداخلت اور سخت احتجاج کے بعد دوسرے دن دوپہر کے بعد دفعہ ۳۷۶،۴۵۲ اور ۵۰۶ کے تحت پولیس نے کیس رجسٹرڈ کیا۔ بعد ازاں جامعۃ الصالحات کی دونوں معصوم و مظلوم لڑکیوں(۱۶ اور ۱۷ سال) کی طبی جانچ تین ڈاکٹروں کی ایک ٹیم سے کرائی گئی جس نے پر تشدد اجتماعی آبروریزی کی تصدیق کر دی۔کریلی پولیس تھا نہ کے ساتھ یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے کارکنان، AIDWA کی قومی صدر سبھاشنی علی ، مہیلا کانگریس کی ریتا بہو گنا جوشی کے علاوہ عوام نے اس سانحہ پر شدید غم وغصہ کا اظہار کیا اور اس جرم کے مرتکبین کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر ڈنڈے بھی برسائے۔اس واقعہ کا ایک کریہہ پہلو یہ ہے کہ اتر پردیش کی موجودہ گھنائونی سیاست میں ملوث سیاست دانوں نے اسے بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس سانحہ کے دو دنوں کے بعد مایاوتی ، راج ئیر اور ملائم سنگھ یا دو کے نمائندوں کی آمد الٰہ آباد میں شروع ہو گئی۔ مدرسہ جامعۃ الصالحات کی مظلوم طالبات کو پیسوں میں تو لنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگرچہ مسلسل دبائو کے سبب پولیس افسران نے اس واردات کی تفتیش شروع کر دی اور دونوں معصوم طالبات نے چار افراد کی نشاندہی بھی کر دی لیکن اصل مجرمین ابھی تک قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔اس سیاسی دھما چوکڑی کے دوران وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یا دو ۲۰ جنوری کو اردھ کمبھ میلے میں ’’پوتر گنگا‘‘ میں ڈبکی لگارہے تھے۔ انہوں نے دونوں مظلوم طالبات کو معاوضہ کے طور پر دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ مظلوم مسلم طالبات نے اپنے عظیم کردار کا مظاہر کرتے ہوئے اپنی عصمت و عزت کا سودا کرنا گورانہ کیا اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے اعلان کئے گئے معاوضہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس گھنائو نے جرم کے چھ مرتکبین کی فی الفور گرفتاری اور انہیں سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا لیکن سفید پوشوں کی گرفتاریاں ابھی بھی کوسوں دور ہیں تاہم ان کے خلاف کاروائی کے لیے سبھاشنی علی نے اتر پردیش کے گورنر اور پولیس کے ڈی جی کو ایک میمورنڈم ضرور پیش کر دیاہے۔

مدرسہ جامعۃ الصالحات کے منتظم مولانا وسیع اللہ انتہائی خوفزدہ ہیں۔ مدرسہ اور گرلز ہاسٹل ایک ماہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اور تین درجن سے زائد طالبات خوف کی نفسیات میں مبتلا اپنے گھروں کو جا چکی ہیں۔ان کا تعلیمی کیریئر معلق ہے اور پولیس کے بھیس میں آنے والے چھ درندہ صفت افرا د کا شکار دونوں طالبات پر کبھی نہ ختم ہونے والا نفسیاتی خوف مسلط ہو چکا ہے۔ اس سانحہ کا سب سے مکروہ پہلو یہ ہے کہ ضابطے کی عام کاروائی اور چند سیاسی بیانات کے بعد ہمارے نام نہاد سیاسی قائدین یوپی کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں کے الائو میں اپنے مفاد کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے علماء اور قائدین ملت ہیں جن کی زبانیں یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتیں کہ ’’امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ہے اور جسم کے کسی حصے میں کانٹا چبھتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔‘‘ کہاں ہیں دارالعلوم دیوبند ، مظاہر العلوم سہار نپور ، ندوۃ العماء لکھنؤ، مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ، جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعۃ الصالحات رامپور، کے علماء دین شرح متین اور مفتیان کرام جن کے چشم و ابرو کے ایک اشارے میں بھی دین کا گہرا راز پوشیدہ ہوتا ہے اور عوام کو دین مبین عزت نفس اور آخرت کی کامیابی کا درس دیتے ہیں۔ کیا اسلامی تعلیمات اب اس قدر نا کارہ اور بے بس ہیں کہ عقل کو منجمد ، دل کی پکار کو فراموش کر دیں اور ضمیر میں زلزلہ برپا نہ کر سکیں۔ کیا ’’ قافلہ حجاز میں ایک بھی حسینؓ نہیں‘‘۔

جسٹس سچر (ر) کمیٹی کی حالیہ رپورٹ میں مسلمانان ہند کی جو بدصورت اور کریہہ تصور پیش کی گئی ہے اس کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس میں مسلمانان ہند کی شناخت اور عدم تحفظ کی واضح نشاندہی کے باوجود اس کی سفارشات میں مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و عصمت کے تحفظ پر کلام نہیں کیا گیا ہے۔ کہا جا تا ہے کہ مسلم سماج میں خواتین سب سے زیادہ نا خواندہ ہیں لہذا سچر کمیٹی کی سفارشات میں ان کی تعلیم کے لیے پُر زور وکالت کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلم لڑکیوں کی عزت و عصمت ان کے اپنے کیمپس میں محفوظ نہیں تو سیکولر اسکولوں اور تعلیم گاہوں میں کیونکر محفوظ رہ سکتی ہے؟ بد قسمتی سے ہمارے علماء دانشور اور مفکرین بھی خود ساختہ سیاسی قائدین کے ساتھ اینٹ پتھر کی عمارت کو مستحکم کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور تو صرف کر رہے ہیں لیکن اپنے وجود پر منڈلاتے ہوئے خطرات کا احساس شاید ہی کسی کو ہو۔ البتہ اگر کسی خود ساختہ قائد یا دانشور کے اپنے گھر میں آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ملی فکر کا یہی منہج پورے مسلم سماج میں پھوڑے کی شکل میں نمودار ہو گیا ہے کہ اب اس کی شکل بھی پہچانی نہیں جاتی۔تصور کیجئے اگر الٰہ آباد کے بجائے یہ سانحہ دارالعلوم دیو بند یا ندوہ میں واقعہ ہوا ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا مظلوموں کی آہ عرش تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔ یا ظالموں کو نیست و نابود بھی کر تی ہے؟ کیا نہی عن المنکر کا فریضہ اب صرف تن آسانی ہے؟ جو قوم اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتی وہ کس طرح دوسروں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ منبر ومحراب سے جہاد ، جہاد کی آوازاٹھانے والے علماء کرام’’اصلی دہشت گردوں‘‘ سے اپنے دفاع میں توجہاد کی تیاری کر ہی سکتے ہیں۔آخر وہ کس خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ مرحوم علی میاں نے واضح الفاظ میں دفاع کی نشاندہی کر دی تھی۔ یہ قوم تو آخرت کی زندگی کو ہی منزل و مقصود سمجھتی ہے تو موت سے اس قدر گھبراہٹ کیوں ہے۔کیا فی الواقع دنیا اور جاہ پرستی نے ہمارے ’جسم‘ کے اتنے ٹکڑے کر دیئے ہیں کہ اب ہم میں اپنی ذات اور ملی مفاد کے لیے بھی اٹھ کھڑے ہونے کی سکت باقی نہ رہی۔ ایسی قوم کا انجام وہی ہوتا ہے جس کا آئینہ موجودہ سچر کمیٹی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے اور قوم کی بے بسی و خود غرضی اور تماشائی بنے رہنے کی حالت یہی رہی تو یہ رپورٹ بد تر مستقبل کا پیشہ خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سانحہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کاشی سمیرو پیٹھا دیشور کے جگت گرو نرا چاریہ سوامی نریندر سر سوتی نے درست بات کہی کہ ’’مدرسہ میں بڑی تعداد میں لڑکیوں کے رہنے کے باوجود ان کی سلامتی کا پختہ انتظام نہیں کیا گیا۔‘‘اب ان علماء مدارس کو کون سمجھائے کہ مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے اور اپنے دفاع میں ظالموں کو سبق سکھانے کے لیے بندوق ہاتھ میں لینا نہ معیوب ہے اور نہ ہی ہمارے دستور ہند میں اس کی ممانعت ہے بلکہ یہ عمل عین قانونی ہے۔ملک و سماج کو غیر انسانی اور شرپسند عناصر سے پاک کرنے کے لیے دفاعی کوشش ضروری بھی ہے۔ یا بقول اقبال:

ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیق

(اداریہ ’’اردو بک ریویو‘‘۔ شمارہ: جنوری فروری ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*