امریکا اور مشرقِ وسطیٰ: انکسار یا بے نیازی؟

امریکا کئی مشکلوں کے بعد یہ بات سمجھ چکا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ مگر براک اوباما کی سوچی سمجھی بے نیازی مسائل کو اور بڑھا رہی ہے۔

مئی کا آخری پیر تھا، جب براک اوباما نے آرلنگٹن قومی قبرستان میں سفید سنگِ مرمر سے بنے اسٹیج پر کھڑے ہو کر مختصر تقریر کرتے ہوئے اس حوالے سے کافی کچھ بتا دیا کہ وہ امریکی عسکری قوت کا استعمال کن معنوں میں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’آج ۱۴؍برس بعد آنجہانی فوجیوں کو یاد کرنے کا یہ پہلا دن آیا ہے، جب امریکا کسی بڑی زمینی جنگ میں ملوث نہیں ہے‘‘۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو کبھی ایک لاکھ سے زائد تھی، اب اس کے دسویں حصے سے بھی کم رہ گئی ہے۔ عراق میں اس سے بھی کم فوجی ہیں جو لڑ نہیں رہے بلکہ تربیت اور فضائی مدد فراہم کررہے ہیں۔

مئی کے آخری پیر کو امریکا اپنے آنجہانی فوجیوں کو یاد کرتا ہے۔ ان میں سے ۷۰۰۰ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد اٹھنے والے تنازعات میں مارے گئے۔ اوباما اس روز اس خیال سے بولے کہ ان کا ملک اب کافی جنگیں لڑ چکا ہے۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ افغانستان پریشان کن حد تک غیرمستحکم ہے۔ یا یہ کہ عراق اور شام ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں اور اس خلا کو ہر طرح کے شیعہ، سُنّی مسلح گروہوں نے پُر کردیا ہے۔ یا یہ کہ لیبیا اور یمن خانہ جنگی سے تباہ ہوچکے ہیں۔ یا یہ کہ امریکا کے دوست سمجھے جانے والے عرب بادشاہ اور اسرائیل خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں۔

جب دنیا انتشار کا شکار ہوگی تو چاہے وائٹ ہاؤس کا مکین کوئی بھی ہو، لوگ اسی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تناظر میں یہ بات خصوصاً درست ہے، کیونکہ یہ خطہ مختلف تذویراتی وجوہ کی بنا پر کئی دہائیوں تک امریکی پالیسی کا اہم جزو رہا ہے۔ مثلاً سرد جنگ کے دوران سوویت پھیلاؤ کو روکنا، خلیجی تیل تک محفوظ رسائی، عربوں کے ساتھ تنازعات میں اسرائیل کی مدد، انقلابی ایران کو سنبھالنا اور خطے میں جمہوریت کے فروغ کی جانب پہلے قدم کے طور پر عراق میں حکومت تبدیل کرنا۔

اوباما کیا کہنا چاہتے ہیں؟

مشرقِ وسطیٰ ۲۰۰۳ء سے غیر مستحکم ہے، جس کے عوامل میں صدام حسین کی اقتدار سے بے دخلی پر منتج ہونے والی امریکی کارروائی بھی شامل ہے۔ ۲۰۱۱ء کی عرب بہار نے مردانِ آہن کو ہٹا کر بڑی تبدیلیاں پیدا کیں مگر امریکا ان میں سے بیشتر تبدیلیوں کا خواہاں نہیں تھا۔ ممکن ہے جمہوریت تیونس میں اپنے کمزور جڑیں پھیلا رہی ہو۔ مگر عبد الفتاح السیسی کے زیرِ اقتدار مصر بے دخل کیے گئے حسنی مبارک سے بھی زیادہ سخت آمریت کی طرف پلٹ گیا ہے۔ پڑوس میں موجود لیبیا کمزور ہورہا ہے، عراق اور شام خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں جہاں نام نہاد دولتِ اسلامیہ قبضہ کرتی جارہی ہے۔ ایران اور سعودی عرب یمن اور دیگر خطوں میں بے چہرہ جنگیں لڑ رہے ہیں۔ لبنان اور اُردن جیسے ممالک جو بحرانوں سے بچے ہوئے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پناہ گزین پہنچ گئے ہیں۔

اوباما کو ملک میں اور بیرونِ ملک ان حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہ بنانے کے الزام کا سامنا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار جَیب بُش (Jeb Bush) کا الزام ہے کہ امریکی صدر نے دوستوں کو تنہا کردیا جبکہ وہ دشمنوں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ناقدین کے بقول یا تو اوباما کی مشرقی ایشیا کی سلامتی پر توجہ اتنی زیادہ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کو نظرانداز کرتے ہیں، یا پھر وہ سرے سے کچھ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

ایک رائے یہ ہے کہ اوباما کے اس محدود کردار کو خود اختیار کردہ حکمتِ عملی سمجھا جائے۔ اور ایسے صدر کے لیے جو خطے کی جنگوں سے امریکا کو نکالنے کے لیے منتخب ہوا ہو، یہ بات قابلِ فہم بھی ہے کہ وہ امریکی فوج کو انتہائی ضرورت کے وقت اور محدود تعداد میں استعمال کرے۔ یعنی وہ صرف اسی وقت مداخلت کرے گا، جب اُسے یہ یقین ہو کہ ایسا کرنا حالات کو مزید بگاڑے گا نہیں، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔

اوباما نہ تو امن پسند ہیں، نہ تنہائی پسند۔ ان کے قریبی حلقے مشرقِ وسطیٰ کو نظر انداز کیے جانے کا الزام رد کرتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے بقول، ’’ہمیں ایسا کبھی نہیں لگا کہ ہم مشرقِ وسطیٰ سے دور ہوگئے ہیں۔ ہماری قومی سلامتی کونسل کے ۸۰ فیصد اجلاسوں کا مرکزی نکتہ یہی خطہ رہا ہے‘‘۔ ان اجلاسوں میں اوباما اپنے مشیروں کے پیش کردہ منظرناموں کے سب سے زیادہ غیر یقینی سِروں پر کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کچھ کرنے کے خواہاں رہے ہیں، امریکا کی مرکزی عسکری کارروائیاں روک دینے کے باوجود انہوں نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے ڈرون حملوں میں اضافہ کیا۔ انہوں نے افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن، لیبیا، عراق اور شام میں اہداف پر بمباری کی، اور اُس کارروائی کا حکم دیا جس میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا۔

ممکنات کی حدوں کا ادراک بھی بہرحال اوباما کو الزامات سے بَری نہیں کردیتا۔ اس حوالے سے کچھ اہم نکات یہ ہیں: ۲۰۰۹ء میں قاہرہ میں ’’نئی شروعات‘‘ پر کی گئی تقریر کا حصہ بننے والے خوبصورت الفاظ کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا، عرب بہار پر غیر مربوط ردعمل نے مصر کی فوج اور اسلام پسندوں، دونوں کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا، لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف امریکی پشت پناہی کی حامل فرانسیسی و برطانوی فوجی مداخلت باغیوں کو اس قابل بنانے میں ناکام رہی کہ وہ ایک مستحکم حکومت قائم کر سکیں، عراق سے ۲۰۱۱ء میں بہت عجلت کے ساتھ انخلا کیا گیا۔

شام کے بارے میں اوباما کا لائحۂ عمل بلکہ بے عملی ان سب سے بڑھ کر ہے۔ جب بشار الاسد نے مظاہرین کے گلے کاٹے تو اوباما نے کہا آمر کو اب اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ لیکن انہوں نے معتدل خیال باغیوں کی خاص مدد نہیں کی۔ ۲۰۱۲ء میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اسد نے اگر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو وہ ’’سرخ لکیر‘‘ عبور کرنے کے مترادف ہوگا۔ مگر جب اگست ۲۰۱۳ء میں دمشق کے نواحی علاقے غوطہ میں سارِن اعصابی گیس کے حملے میں ۱۰۰۰ سے زائد افراد مارے گئے، تب بھی آمر کو ان ’’سنگین نتائج‘‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن کی دھمکی اوباما نے دی تھی۔ ایک سفارتی معاہدے کے تحت بڑی مقدار میں شامی کیمیائی ہتھیار تلف کیے گئے جو کہ اچھی بات تھی کیونکہ اسرائیل اب اپنے شہریوں کو گیس ماسک فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اوباما کے حامی بھی اتنا تو تسلیم کرتے ہیں کہ درکار سزا بھی نہ دینا امریکی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔

کچھ ہفتے بعد، اوباما نے مشرق وسطیٰ پر اپنی پالیسی کا خلاصہ اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے پیش کیا۔ اس میں وہ چار بنیادی مفادات گنوائے گئے جن کے تحفظ کی خاطر امریکا ’’فوجی قوت سمیت اپنی طاقت کے تمام ذرائع‘‘ استعمال کرنے پر تیار ہے: ’’بیرونی خطرات‘‘ سے اتحادیوں کی حفاظت، تیل و گیس کی آزادانہ نقل و حمل، امریکا کے خلاف دہشت گردوں کے حملے روکنا، اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنا۔ ان امور پر امریکا اکیلے ہی کارروائی کرنا چاہے گا۔ جمہوریت کے فروغ اور کُھلی منڈیوں تک رسائی جیسے دیگر مفادات کے تحفظ کے لیے وہ اتحادیوں کے ساتھ کارروائی کا خواہاں ہے۔ مستقبل قریب میں امریکا دو اہم سفارتی مقاصد کے حصول پر توجہ مرکوز کرے گا، اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن معاہدہ، اور ایران کا جوہری پروگرام محدود کرنے کے لیے اس کے ساتھ معاہدہ۔ شام کی خانہ جنگی کی بابت انہوں نے کہا کہ اسے امریکی قوت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے الفاظ میں: ’’دوسرے ممالک کے معاملات سنبھالنے کی اہلیت کے حوالے سے امریکا نے بڑی جدوجہد کے بعد عاجزانہ طرزِ عمل اختیار کیا ہے‘‘۔

یہ عاجزی ہے یا سنگدلی؟ جارج ڈبلیو بُش کو جو زعم لاحق تھا اس کے برعکس اوباما کے اس انکسار کی کیا قیمت چکانی پڑ سکتی ہے، یہ واضح نہیں ہے کیونکہ جو مواقع گنوا دیے جائیں، اُن کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے تو شامی خانہ جنگی سے دور رہنا سفاکی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہلاکتیں دو لاکھ سے زائد ہوچکی ہیں اور کلورین کی شکل میں روزانہ کی بنیاد پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے کے لیے کہ امریکا اس سے زیادہ کچھ کرسکتا تھا، یہ تسلیم کرنا لازمی نہیں ہے کہ امریکا اس جنگ کو جیت جاتا یا روک دیتا۔ امریکا کچھ باغیوں کی بہتر طور پر مدد کر سکتا تھا یا نوفلائی زون قائم کرسکتا تھا۔

اوباما نے شام کے باغیوں کو کس قدر حقارت سے ’’دہقان، دندان ساز اور وہ عام آدمی جنہوں نے کبھی لڑائی نہیں دیکھی‘‘ قرار دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا ان کی اور مدد کرتا تو کیا وہ اسد کو شکست دے دیتے یا شدت پسند جہادیوں کو سرحدوں پر ہی روک دیتے؟ اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امریکی مدد کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ داعش مشرقی شام کے بڑے حصے پر قابض ہوگئی اور ۲۰۱۴ء میں شمالی اور مشرقی عراق کو روندتے ہوئے موصل پر قبضہ کیا اور خلافت کا اعلان کرڈالا۔

دشمنوں سے معانقے، دوستوں سے دُوری

جیسا کہ مائیکل کورلیون نے ’’دی گاڈ فادر پارٹ تھری‘‘ میں کہا ہے، ’’جیسے ہی مجھے لگا کہ اب میں باہر ہوں، انہوں نے مجھے واپس اندر دھکیل دیا‘‘، اوباما کو بھی انہی خونی کارروائیوں کی طرف پلٹنا پڑا جن سے وہ اپنے تئیں فرار حاصل کرچکے تھے۔ انہوں نے بغداد اور اربیل (شمالی عراق) میں کام کرنے والے امریکی عہدیداروں کی حفاظت کے لیے فضائی حملوں کا حکم دیا۔ دو مغوی امریکیوں کے قتل کا نتیجہ یہ نکلا کہ داعش کو نیچا دکھانے اور بالآخر ختم کردینے کی خاطر مربوط حکمتِ عملی بنانی پڑی۔

اس میں دو مختلف مگر مربوط کارروائیاں شامل تھیں۔ عراق میں امریکی اور مغربی ماہرین کے ذمہ تباہ حال فوج کو اس کے پیروں پہ کھڑا کرکے داعش سے نمٹنے کے لیے فضائی مدد فراہم کرنا تھا۔ شام میں امریکی اور عرب فضائیہ کو داعش کے ٹھکانوں کو بمباری کے ذریعے تباہ کرکے معتدل خیالات رکھنے والے باغیوں کی ’’تیسری قوت‘‘ کو تربیت فراہم کرنا تھی۔ اوباما کا یہ اصرار رہا ہے کہ ’’زمینی فوج نہیں بھیجی جائے گی‘‘۔

نئی شامی قوت کی تربیت سست رفتاری سے ہوئی ہے۔ فضائی کارروائیاں قدرے بہتر رفتار سے جاری ہیں۔ عراق اور شام میں داعش کے ہاتھ سے کچھ قصبے نکلے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تنظیم سخت جان ثابت ہوئی ہے، مئی میں داعش نے طویل لڑائی کے بعد انبار صوبے کے دارالحکومت رمادی سے عراقی فوج کو نکال باہر کیا اور شامی فوج کو پلمائرا کے نخلستانی قصبے سے بے دخل کردیا۔ ۲ جون کو عراقی وزیراعظم نے پیرس میں ایک اجلاس کے دوران امریکی حمایت میں کمی کا شکوہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’امریکی جاسوس ڈرون طیارے ایک وقت میں ایک علاقے پر پرواز کرتے ہیں، مگر داعش مسلسل حرکت میں رہتی ہے‘‘۔ جہادیوں کی حالیہ فتوحات میدان میں موجود ان کے دشمنوں کی ممکنہ کمزوریوں کا پتا دیتی ہیں مگر ساتھ ہی خلافت کے نعرے کو حامیوں کے لیے پُرکشش بھی بنادیتی ہیں۔ اگر ایک سال کی بمباری کے بعد بھی داعش کی یہ حیثیت ہے تو یہ اوباما کے لیے شرمندگی کی بات ہے۔

ایران امریکی خستہ سامانی کا کھلے عام مذاق اڑاتا ہے۔ ایرانی سرزمین سے باہر کارروائیاں کرنے والی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کہتے ہیں، ’’اوباما نے رتی برابر کچھ نہیں کیا، صرف ایران اور اس کے حامی جنگجو ہی داعش سے لڑنے کے لیے پُرعزم تھے‘‘۔

ایران کے ساتھ معاہدے کا امکان ہی اب مشرقِ وسطیٰ میں بہتر یادیں چھوڑنے کی اوباما کی امیدوں کا مرکز ہے۔ ایرانی جوہری پروگرام پر اپریل میں ہونے والے ’’مجوزہ معاہدے‘‘ کے تحت یورینیم افزودہ کرنے اور پلوٹونیم پیدا کرنے کی اسلامی جمہوریہ کی صلاحیت کو محدود کرکے سخت نگرانی میں رکھا جائے گا۔ جواب میں ایران پر سے پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔ نگرانی بدستور سخت رہے گی، تاہم حدبندیاں ایک عشرے کے بعد کم ہوجائیں گی۔ ایران کہتا ہے کہ اس کے بعد وہ ایک بم کے لیے درکار خام مال بنانے کا دورانیہ (جس سے متعلق ہی یہ معاہدہ کیا گیا ہے) ایک سال سے کم کرکے ہفتوں یا دنوں تک محددو کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اپنے پروگرام کو وسعت دے گا۔

اوباما کے نزدیک جون کے اواخر میں متوقع یہ معاہدہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کرکے ان کے وعدے کو سچا کر دکھائے گا۔ مگر اس سے دیرینہ اتحادی خفا ہوتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس کے خلاف کھل کر بات کی ہے۔ اس سے اوباما کے ساتھ ان کے تعلقات مزید تلخ ہوگئے جو فلسطینی سرزمین پر آبادیوں کی تعمیر اور امن معاہدے کے نہ ہونے کے باعث پہلے سے کشیدہ تھے۔ وائٹ ہاؤس اب کھلے بندوں یہ کہتا ہے کہ امریکا اب شاید اقوام متحدہ میں ان تمام قراردادوں کو رَد نہ کرے جنہیں اسرائیل ناپسند کرتا ہے۔

عرب بادشاہتیں ایک ایسے ایران سے خوفزدہ ہیں جو پابندیوں سے آزاد ہوکر ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے۔ مئی میں چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کے رہنما کیمپ ڈیوڈ میں منعقدہ اجلاس کے دوران ایران کو محدود کرنے کی وہ امریکی یقین دہانی حاصل نہیں کرسکے جس کے وہ خواہاں تھے۔ اوباما نے انہیں یہ تو باور کرایا کہ ان پر کسی بھی براہِ راست حملے کا جواب دینے کے لیے امریکا تیار ہے، مگر پسِ پردہ یہ بتایا کہ انہیں لاحق زیادہ تر خطرات اندرونی اور غیرمربوط ہیں جنہیں ایرانی پشت پناہی حاصل ہے؛ مثلاً بحری گزرگاہوں کی سلامتی۔

اوباما کے ان غیر واضح پیغامات سے اتحادیوں کی پریشانیاں دور نہیں ہوتیں۔ کبھی وہ جوہری مذاکرات کو ایک ایسا عمل بتاتے ہیں جس کے ذریعے وہ مخصوص ہتھیاروں کی روک تھام کا مقصد حاصل کرلیں گے۔ کبھی وہ اس بات چیت کو ایران کے ساتھ ایک ایسی وسیع البنیاد مصالحت کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں جو خطے میں ’’نیا توازن‘‘ پیدا کردے گی۔ کچھ ناقدین کی رائے میں اوباما امریکا کو ایران کے قریب لے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں تحقیق سے وابستہ امریکی دفترِ خارجہ کے سابق اہلکار جیریمی شاپیرو کے بقول، ’’یہ معاہدہ ایران کے ساتھ قربت بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ سعودی عرب کے ساتھ قربت مٹانے کے لیے ہے‘‘۔ ان کی دلیل ہے کہ خلیجی تیل پر امریکی انحصار اب ختم ہوچکا ہے اور تیل کی قیمتیں اب خطے میں سیاسی بحران کے ساتھ کم یا زیادہ نہیں ہوں گی۔ اگر ایرانی جوہری بم کے خطرے کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو امریکا خلیجی بحری راستے کھلے رکھنے کے لیے معمولی فوجی موجودگی کے ہوتے ہوئے خود کو بآسانی معاملات سے الگ کرسکتا ہے۔

لیکن اگر خطے کے مجموعی استحکام سے امریکا کو دلچسپی ہے تو یہ لاتعلقی اس کے زیادہ کام نہیں آئے گی۔ اگر کوئی معاہدہ ایران میں امن پسندوں (فاختاؤں) کو مضبوط کربھی دے، تو بھی عقاب یا تو معاہدے کو زِک پہنچانے کی کوشش کریں گے، یا پھر رضامندی کے عوض سرحد پار اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے سہولت مانگیں گے۔ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی کارروائی کی آڑ میں متذبذب خلیجی اتحادی ایرانی مہم جوئی کا بھرپور یا پھر ضرورت سے زیادہ ردعمل دے سکتے ہیں۔ امریکی ناپسندیدگی کے باوجود وہ اپنی جوہری صلاحیت ایران کے برابر لاسکتے ہیں۔ نتیجتاً جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے کیا گیا معاہدہ الٹا جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں میں اضافے کا سبب بن جائے گا۔ اور پھر اسرائیل اس بات کو خفیہ نہیں رکھتا کہ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے خلاف لڑائی کا دوسرا دور شروع ہونے میں اب زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔

فارن پالیسی میگزین کے مدیر اور چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ روتھکوف (David Rothkopf) اپنی تازہ کتاب “National Insecurity: American Leadership in an Age of Fear” میں اوباما اور ان کے پیشرو بُش کی پالیسیوں میں ایک ناخوشگوار یکسانیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ایک صدر عراق میں بہت دور چلا گیا، دوسرا بہت جلدی وہاں سے نکل آیا؛ ایک نے ضرورت سے زیادہ رسائی حاصل کی، دوسرے کی رسائی محدود رہی؛ ریپبلکن نے چاہا کہ دشمنوں پر وار کے لیے ہر جگہ امریکی طاقت کو استعمال کیا جائے، ڈیموکریٹ بظاہر بذات خود امریکی طاقت کو ہی ایک خطرہ سمجھتا رہا۔ مگر جیسا کہ بُش نے اپنا دوسرا دور کچھ بہتر گزارا، اوباما اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھ سکے۔

مرکز کی طرف واپسی

واشنگٹن میں بہت کم لوگوں کو امید ہے کہ اوباما کی زیادہ کچھ نہ کرنے کی پالیسی میں آخری ۱۹؍ماہ کے دوران تبدیلی آئے گی۔ سو شہر کے بے شمار ماہرینِ خارجہ پالیسی نئے صدر کو مشورے دینے کی تیاریاں کررہے ہیں کہ کس طرح میدانِ عمل میں واپس آیا جائے۔ عوامی رائے شماریاں، جو اوباما کو ان کی مجموعی کارکردگی کے مقابلے میں خارجہ پالیسی پر ہمیشہ زیادہ سراہتی رہیں، اب عالمی معاملات نمٹانے کے حوالے سے انہیں زیادہ نمبر نہیں دیتیں۔ اس کا مطلب ہے کہ میدانِ عمل کی طرف پلٹنے کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

اوباما کے متوقع جانشین، جن میں ڈیموکریٹ ہلیری کلنٹن بھی شامل ہیں، چاہیں گے کہ خود کو زیادہ طاقتور ظاہر کریں۔ ریپبلکن کیمپ میں صرف سینیٹر رینڈ پال ہی ایسے ہیں جو عراق اور شام کی تباہ کاری کا الزام اپنی طرف کے عقابوں پر لگاتے ہیں۔ باقی سب امیدوار ’’کچھ زیادہ‘‘ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور سینیٹر لنڈسے گراہم کا خیال تو ’’بہت زیادہ‘‘ کرنے کا ہے کیونکہ ان کی تجویز ہے کہ عراق میں ۱۰؍ہزار فوجی بھیجے جائیں۔ چند ریپبلکنز نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کا پاس نہیں رکھیں گے۔

ان انتہاؤں کے مابین ایک درمیانی مقام بھی ہے جہاں جَیب بُش (Jeb Bush) اور ہلیری کلنٹن کھڑے نظر آتے ہیں۔ جیب بش یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں وہ سب ۲۰۰۳ء میں معلوم ہوتا جو آج معلوم ہے تو وہ اپنے بھائی کی طرح عراق پر حملہ نہ کرتے۔ واشنگٹن مرکز برائے مشرقِ قریب پالیسی (Washington Institute for Near East Policy) کے خارجہ پالیسی ماہرین کا ایک گروپ تجویز کرتا ہے کہ داعش کی دعوت کو کمزور کرنے کے لیے اسے بھاری نقصان پہنچایا جائے، شام میں ایک معتدل حزب اختلاف پیدا کرکے اسے طاقت کا توازن تبدیل کرنے کا اہل بنایا جائے، عرب ریاستوں کی تعمیرِ نو کی ابتدا مصر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے کی جائے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کو روکا جائے۔

مصنفین کو علم ہے کہ آئندہ صدر آزادی کے ساتھ کام نہیں کرسکے گا۔ بجٹ میں حکومتی اخراجات میں نام نہاد کمی پینٹاگون کے خرچے کم کردے گی۔ ادھر روس کی توسیع پسندی اور چین کے طاقت کے مظاہرے مزید توجہ اور وسائل کے طلبگار ہوں گے۔ عوام جنگ نہیں چاہیں گے۔ سو بظاہر مصنفین یہ کہتے ہیں کہ امریکی زمینی افواج داعش کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری معاہدہ ’’نگرانی کے ایک مؤثر نظام‘‘ کے قیام کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے، تاہم وعدہ خلافی کی صورت میں واضح امریکی انتباہ اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اگر سُنّیوں کو داعش کے خلاف متحرک کرنا ہے تو پھر ’’ایران ایک قابلِ بھروسا اتحادی نہیں ہوسکتا‘‘۔

آئندہ صدر ممکن ہے کہ اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو اور مقبوضہ علاقوں میں تعمیرات کی طرف سے آنکھیں بند رکھے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ خلیجی بادشاہتوں کو مزید یقین دہانیاں کرائے یا ایران کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرے۔ عراق میں ممکن ہے کہ خصوصی دستوں کو میدان میں نکل کر فضائی کارروائی کے اہداف متعین کرنے اور عراق فوج کو منظم کرنے کی اجازت مل جائے۔ شام میں مذاکرات کی میز پر جگہ پانے کے لیے معتدل تیسری قوت کو تربیت دینے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی نوعیت کے ’’نو فلائی زونز‘‘ بھی قائم کیے جائیں۔

اعتدال پر مبنی یہ اقدامات اچھے نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ تاہم ان اقدامات کا اثر الٹا بھی ہوسکتا ہے جو اوباما کے گم کردہ مواقع کے برعکس صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ جو حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی، وہ یہ کہ توانائی کا ناگزیر ذریعہ اور عظیم مذاہب کا منبع مشرقِ وسطیٰ بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ وہ عرب ریاستیں، جو پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ملبے پر قائم کی گئیں، اب بکھرنے کو ہیں۔ امریکا اسے روک نہیں سکتا۔ وہ متحرک کردار ادا کرتے ہوئے اس تبدیلی کو کچھ نیا اور شاید بہتر روپ دے کر بدترین نتائج کو روک سکتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہرحال خونی ہوگا، اور طویل بھی۔

(مترجم: حارث رقیب عظیمی)

“America and the Middle East: A dangerous modesty”. (“The Economist”. June 6, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*