امریکی صدر باراک اوباما نے امسال ۲۰ جنوری کو تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے عہدۂ صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے عراق سے ۲۰۱۱ء تک امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا۔ ایران کے ساتھ مشروط مذاکرات کا عندیہ دیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے موقف کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی خوشگوار تبدیلیوں کے وعدے کیے جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ سابق امریکی صدر بش کی طرف سے پیدا کی گئی گھٹن کی فضا کم ہو گی اور بہت سے معاملات اور ایشوز دھونس دھاندلی یا طاقت کے بل کے بجائے مذاکرات اور پُرامن بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں گے۔ غالباً یہ باراک اوباما کی حکمت عملی کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے ۸ جولائی کو اٹلی میں منعقد ہونے والی جی ایٹ کانفرنس سے قبل روس کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا جسے عالمی میڈیا میں خوب پذیرائی ملی اور حال اور ماضی کی دو سپرطاقتوں کے سربراہان کی ملاقات کو دونوں ملکوں کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاریخ میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔
باراک حسین اوباما کے حالیہ دورے میں جو اہم معاہدے ہوئے ان میں تخفیف اسلحہ کا معاہدہ اور افغانستان میں فوجوں کے لیے نئی سپلائی لائن کے لیے روسی سرزمین کے استعمال پر اتفاق تھا۔ ان معاہدوں پر دونوں سربراہان نے دستخط بھی کیے۔ تخفیف اسلحہ کے معاہدے کے تحت دونوں ممالک اگلے سات برسوں میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد سترہ سو سے کم کر دیں گے۔ یہ معاہدہ ۱۹۹۱ء میں ہونے والے اسٹارٹ ون معاہدے کی جگہ لے گا جو اس سال دسمبر میں ختم ہو رہا ہے۔ باراک اوباما کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ’’شک‘‘ اور ’’رقابت‘‘ کو بھولنے کے لیے تیار ہیں۔ کریملن میں روس کے صدر متریدوف اور باراک اوباما کے درمیان مذاکرات ہوئے جن میں دونوں ممالک کے حکام نے بھی حصہ لیا۔ مذاکرات میں طے پایا کہ روس امریکا کو افغانستان تک اسلحہ اور خوراک کی رسد کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے دے گا۔ اس حوالے سے معاہدے پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور امریکی نائب وزیر خارجہ نکولس برنز نے دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت امریکا کو سالانہ ۱۳۳ ارب ڈالر کے اضافی اخراجات کی بچت ہو گی۔ اس معاہدے کی رُو سے امریکا ہر سال روسی فضائی حدود سے ساڑھے چار ہزار دفاعی پروازیں افغانستان تک رسد کے لیے گزار سکے گا، روزانہ ان کی تعداد بارہ ہو گی۔ یہ معاہدہ دو ماہ کے اندر نافذ العمل ہو گا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق تحقیقات کرنے کے لیے مشترکہ کمیشن قائم کریں گے جہاں ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان کچھ معاملات میں پیشرفت ہوئی، وہیں بہت سے بنیادی اہم ایشوز میں شکوک و شبہات اور تحفظات موجود ہیں، جن میں سب سے اہم مشرقی یورپ کے ممالک پولینڈ اور چیک میں میزائل ڈیفنس شیلڈ کی تنصیب ہے، جس پر روس کو شدید خدشات ہیں اور جسے روس اپنی سا لمیت کے لیے شدید خطرہ محسوس کرتا ہے۔ روس کا مؤقف ہے کہ اگر امریکا نے میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کرنی ہے تو اپنے ملک میں کرے ، اس کا روس کی سرحد کے قریب نصب کرنے کا کیا مقصد ہے؟
حالیہ دوسرے کے دوران باراک اوباما نے روس کو اس حوالے سے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ان کو اس بات کی یقین دہانی کروانے کی کوشش کی۔ یہ میزائل شیلڈ ایران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہے جس سے روس کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے روس ایران کا اتحادی ملک ہے جو اسے ایٹمی ایندھن کی فراہمی اور دیگر حوالوں سے معاونت فراہم کر رہا ہے۔ روس ایران کے ایٹمی پروگرام سے نہ خوفزدہ ہے نہ اسے کوئی تشویش ہے۔ لہٰذا یہاں پر دونوں ممالک کی سوچ، پالیسی اور مفادات میں بڑا فرق پایا جاتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں روس کی جانب سے اختیار کیے جانے والے انتہائی مؤقف کی روشنی میں اس بات کے واضح امکانات نظر آتے ہیں کہ روس اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے نہیں بنے گا کیونکہ روس اور امریکا کی تلخ اور پُرکشیدہ تاریخ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ میزائل ڈیفنس سسٹم کسی بھی وقت روس کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہاں البتہ امریکا اس وقت ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے روس کی حمایت و تعاون کی اشد ضرورت ہے، لہٰذا وہ روس سے اس معاملے پر مصالحت کر سکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ ہو یا ایران کا، امریکا روس سے بھرپور تعاون کا خواہاں ہے۔ افغانستان کے حوالے سے تو روس نے لاجسٹک سپورٹ کے لیے سپلائی لائن کی اجازت دے دی ہے جس سے امریکا کے لیے پاکستانی سپلائی لائن پر جو مشکلات اور خطرات ہیں، وہ کسی حد تک دور ہو جائیں گے اور یہ صورتحال پاکستان کے لیے بھی سود مند ہے۔ اس طرح پاکستان پر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے لیے لاجسٹک سپورٹ کا بوجھ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ روس کے لیے اس نوعیت کے معاہدے میں کسی قسم کی قباحت نہیں تھی، اسے اس طرح راہداری کی مد میں فائدہ ہو گا، بلکہ یہ اس کے لیے سود مند ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج یہاں مصروف ہیں جس سے امریکا کی معاشی، سیاسی اور ملٹری صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ دوسری جانب روس کو عالمی منظر پر اپنا قد بڑا کرنے کا موقع بھی میسر آئے گا۔ اس معاہدے میں روس کے لیے ہر لحاظ سے مثبت پہلو ہے اور بظاہر یہ معاہدہ پاکستان، روس اور امریکا سب ہی کے لیے سود مند ہے۔
امریکا اب محسوس کرنے لگا ہے کہ وہ ایران کو اس وقت تک مکمل طور پر کمزور نہیں کر سکتا جب تک روس امریکا کا ساتھ نہ دے۔ کیونکہ امریکی نقطہ نظر سے اب تک ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں اسی وجہ سے مکمل طور پر ثمر آور نہ ہو سکیں کیونکہ روس اس میں امریکا کا ساتھ نہیں دے رہا۔ روس اور امریکا کے ایرانی موقف میں خاصا فرق ہے، امریکا کسی بھی صورت میں ایران کے ایٹمی پروگرام کی اجازت دینے کا خواہاں نہیں ہے چاہے وہ پرامن مقاصد کے لیے کیوں نہ ہو۔ دوسری جانب روس کا یہ مؤقف ہے کہ ایران کو توانائی کے حصول کی خاطر سول ایٹمی پروگرام رکھنے اور چلانے کا پورا حق حاصل ہے۔ روس اس حد تک تو امریکا کی حمایت کرے گا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو پُرامن ثابت کرنے کی خاطر عالمی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے سے بھرپور تعاون کرے، مگر اس سے زیادہ وہ امریکی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہو گا۔
ایران میں انتخابات کے بعد ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں کو بنیاد بنا کر ایران پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسے پھر نفسیاتی طریقے سے دبانے اور زیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اوباما کے دو روزہ روسی دورے کے بعد انہوں نے اٹلی میں منعقدہ ۲ روزہ جی ایٹ کانفرنس میں بھی شرکت کی جس میں روسی صدر بھی شریک تھے، یہاں بھی ایران کا ایشو اٹھا کر اسے ہدف تنقید بنایا گیا۔ دنیا کے آٹھ بڑے ممالک کے اس گروپ میں چین اور روس کے علاوہ فرانس، برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور جاپان تقریباً تمام ہی امریکا کے ہم خیال ہیں۔ اگر ایک پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا اور روس کے مابین بہتر ہوئے دو طرفہ تعلقات اقوام عالم کے لیے خوش آئند ہیں مگر امریکا کی خواہش ہے کہ روس اور چین بھی امریکا کے اسی نوع کے اتحادی بن جائیں، جس طرح کہ دیگر مغربی ممالک ہیں۔ اس طرح نہ صرف امریکا کو عالمی سطح پر من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے گی بلکہ خدشہ ہے کہ حالات مزید ابتری اختیار کر لیں گے۔
روس اور چین جیسے ویٹو پاور کے حامل ممالک کا امریکا کے سامنے بطور اپوزیشن موجود رہنا ہی دنیا کے حق میں بہتر ہے تاکہ وہ امریکا کو ناجائز اختیارات اور پالیسیاں اختیار کرنے سے روک سکیں۔ امریکا کی اسی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے چین نے جی ایٹ اور جی فائیو کے اجلاسوں میں عالمی سطح پر مستحکم شرح مبادلہ کے لیے کثیر الجہتی اور منطقی عالمی مانیٹر سسٹم کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے قواعد و ضوابط بھی بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی کانفرنس میں افغانستان کے حالات اور عنقریب منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب کو بھی زیر غور لایا گیا۔ جی ایٹ کانفرنس کے انعقاد سے قبل اور اس کے دوران اٹلی میں جی ایٹ ممالک کی پالیسیوں کے خلاف شدید مظاہرے بھی کیے گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ ممالک تمام پالیسیاں بڑے ممالک کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر بناتے ہیں جبکہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ عالمی سطح پر امریکی گروپنگ اتنی مضبوط ہے کہ دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے امریکی مفادات کے خلاف آواز اٹھانے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اگر کہیں سے تنقید کی کوئی آواز اٹھ بھی جائے تو اسے کسی نہ کسی طرح دبا دیا جاتا ہے۔ تاہم امریکا کے موجودہ صدر اوباما کی روس کے دورے کے بعد جی ایٹ کانفرنس میں لیبیا کے صدر معمر قذافی سے ملاقات بھی ایک خوش آئند اقدام ہے جس میں دونوں سربراہوں نے خوشگوار اور دوستانہ انداز میں ملاقات کی۔ لیبیا اور امریکا کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں اب لگتا ہے کہ امریکا اپنی خارجہ پالیسیوں میں کسی حد تک لچک اور تبدیلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
امریکا کی ماضی قریب میں اختیار کی جانے والی زور اور زبردستی کی پالیسیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا کو دنیا میں کھل کر کھیلنے کا ایسا موقع میسر آیا جس کا خمیازہ اب پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ صرف دو دہائیوں کے عرصہ میں عالمی حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ جس کے مضر اثرات سیاسی، معاشی، تجارتی، ثقافتی اور مذہبی الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں محسوس کیے جا سکتے ہیں جس سے خود امریکا بھی محفوظ نہیں۔ اس کی مضبوط معیشت جس کی بنیاد پر وہ ’’سپر پاور‘‘ ہونے کا دعویدار ہے، تیزی سے روبہ زوال ہے۔ دنیا میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے تمام ممالک کو برابری کی سطح پر اہم فیصلوں میں شامل کرنا ہو گا۔ روس اور امریکا معاہدوں سے دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے جمی برف پگھلی ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ یہ دونوں بڑے اور ویٹو پاور کے حامل ممالک ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جو اقوام عالم کے حق میں نہ ہو۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ندائے ملت‘‘لاہور)
Leave a Reply