عراق آپ کو یاد ہے؟ چند ماہ سے ہماری توجہ افغانستان پر مرکوز ہے۔ ۲۰۱۰ء میں افغانستان میں جو اضافی فوجی تعینات کیے جارہے ہیں ان کی بھرپور کوریج ہوسکے گی۔ نئے سال میں ہمارے لیے عراق بھی کم اہم نہیں۔ مارچ میں انتخابات ہوں گے جن سے عراق کے مستقبل کا تعین ہوگا۔ اس سے قبل ہارس ٹریڈنگ کا دور چلے گا جس کے نتیجے میں تشدد کی نئی لہر بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ عراق میں اب بھی ایک لاکھ بیس ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ لڑنے والے تمام سپاہیوں کی واپسی کے لیے اگست کی ڈیڈ لائن دی جاچکی ہے۔ یہ گویا عراقی حکومت کے لیے سیکیورٹی کا اہتمام کرنے کے حوالے سے ایک نیا چیلنج ہوگا۔ افغانستان سے ہم جس طرح نمٹیں گے وہ تو اہم ہے ہی، یہ بھی کم اہم نہیں کہ ہم عراق میں مشن کس طرح نمٹائیں گے۔ اگر عمدگی سے معاملات طے نہ پائے تو بڑی تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔ اور اگر معاملات کو بہتر ڈھنگ سے نمٹایا جاسکا تو یہ اہم کامیابی شمار ہوگی۔
عراق میں مزید فوجی بھیجنا درست فیصلہ تھا۔ اس کے نتیجے میں شر پسندوں سے نمٹنے اور ملک کو مستحکم کرنے میں کامیابی ملی۔ سابق امریکی صدر جارج واکر بش کہتے ہیں کہ عراق میں اضافی فوجی بھیجنے کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ عراق کے سیاسی رہنما اپنے اختلافات پر قابو پائیں، بالخصوص شیعہ سنی اختلافات کو ایک حد میں رکھا جائے۔ اگر اس المیے پر قابو نہ پایا جاسکا تو عراق میں خانہ جنگی جاری رہے گی اور ملکی نظام مکمل تباہ ہوجائے گا یا ملک کے ٹوٹنے پر تان ٹوٹے گی۔
عراق میں سیاسی اختلافات اب تک ختم نہیں کیے جاسکے ہیں۔ ملک میں اکثریت شیعوں کی ہے اور سنی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکمران رہے ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں اتحادیوں کی عسکری کارروائی کے آغاز کے بعد عراق سے بیس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی تھی۔ ان میں اکثریت سنیوں کی تھی۔ اب تک ان میں سے کم لوگ ہی وطن واپس آئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں کہ نقل مکانی کرنے والوں اور بالخصوص اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو واپسی کے لیے کہا جائے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ عراق اب بھی اقلیتوں کے لیے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔
سنیوں کے سیاسی حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ شمالی عراق میں کردوں نے اپنی خود مختار، متوازی ریاست قائم کر رکھی ہے۔ تین صوبے ان کے کنٹرول میں ہیں۔ تین بڑے شہروں پر ان کا دعویٰ برقرار ہے۔ کردوں نے تیل کی تجارت کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی اتھارٹی کو کئی بار چیلنج کیا ہے۔ تیل کی فروخت کے تیس سے زائد معاہدے کردوں نے اپنے طور پر کیے ہیں اور کرد علاقوں سے تیل کی ترسیل بارہا روکی ہے۔ بہت سے علاقوں اور بالخصوص انتخابی حلقوں کی حد بندی پر تنازعات موجود ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تنازعات میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔
عراق کو درپیش چیلنج کو سمجھنا بہت آسان اور اس سے نمٹنا بہت مشکل ہے۔ شیعوں، سنیوں اور کردوں کے درمیان طاقت کی تقسیم ناگزیر ہے۔ اب تک یہ مقصد حاصل کرنے میں حکومت کو کامیابی نہیں ملی۔ تینوں فریقوں کو اس معاملے میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ ایثار کا مظاہرہ ناگزیر ہے۔ تینوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی طاقت اگر ہے تو امریکا میں ہے۔ عراق پر قبضے کے ابتدائی برسوں میں صدر جارج بش جونیئر نے عراق کی مرکزی حکومت پر مختلف فرقہ وارانہ گروپوں سے مصالحت کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا۔ یہ ایک بنیادی غلطی تھی۔ اس زمانے میں عراق پر امریکا کا تصرف غیر معمولی تھا۔ اگر عراق کے شیعوں، سنیوں اور کردوں پر دباؤ ڈالا جاتا تو وہ یقینی طور پر کسی معاہدے تک پہنچ جاتے۔ بعد میں بھی صدر بش نے سیاسی سطح پر مصالحت کے لیے عراقیوں پر خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا۔ اور ایسی ہی غلطی انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں بھی دہرائی ہے۔
عراق کے بیشتر معاملات میں امریکی تصرف اب بھی کم نہیں ہوا۔ امریکا کے زور دیے جانے پر کردوں نے مارچ کے الیکشن میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کرد لیڈر مسعود برزانی نے صدر اوباما کے کہنے پر انتخابات کا بائیکاٹ ترک کیا ہے۔ امریکی فوج عراق سے رخصت ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ امریکی سفارت کاری عراقی دھڑوں کو طاقت کی تقسیم کے کسی قابل عمل سمجھوتے کے لیے راضی کرے۔
امریکا کو عراق جنگ پر غیر معمولی فنڈز خرچ کرنے پڑے ہیں۔ ان فنڈز کا دفاع کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں تاہم سودا اس اعتبار سے برا نہیں کہا جاسکتا کہ عراق اب بھی عرب دنیا کے لیے ایک ماڈل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ عراقی عوام اپنے اختلافات سیاسی سطح پر حل کر رہے ہیں، عراقی صوبوں کو خود مختاری مل چکی ہے، عراقیوں کے مزاج میں جمہوریت داخل ہو رہی ہے، سیاسی اور فرقہ وارانہ رواداری فروغ پارہی ہے، میڈیا کو آزادی حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عراقیوں کی اکثریت مذہب اور جہاد کے بجائے کاروبار اور دولت کے حصول پر توجہ دے رہی ہے۔ ۲۰۱۰ء عراق کے حوالے سے صدر اوباما کے پاس ایک سنہرا موقع ہے جو انہیں کسی بھی حال میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
(بحوالہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ ۴ جنوری ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply