حیرت ہے اگر امریکا میں سرعام قرآن مجید کے نسخوں کو آگ لگا دی جائے۔ نفرت اور حقارت کے جذبات سے مغلوب ہو کر ڈاڑھیوں اور پگڑیوں کی وجہ سے مسلمان ہونے کے شبہ میں نو کے قریب سکھوں کو تہ تیغ کر کے رکھ دیا جائے۔ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں برمَلا گستاخانہ فقرے کَسے جائیں۔ توہین آمیز مواد پر مبنی ایسے مضامین اور کتابیں شائع کی جائیں جن کی کوئی علمی بنیاد ہو، نہ تاریخی ثبوت۔ اخبارات میں کارٹون چھاپے جائیں۔ مکہ اور مدینہ کے مقدس ترین مقامات کو بموں سے اُڑا دینے کے ناپاک عزائم کا اظہار کیا جائے۔ بار بار ایسی فلمیں تیار کی جائیں جن میں اسلام کے عظیم مشاہیر پر ایسے غیر اخلاقی الزامات عائد کیے جائیں جن سے دیکھنے اور سننے والوں کے سر شرم سے جھک جائیں، تو آج کے مہذب ترین مغرب کے نزدیک یہ سب کچھ اس لیے جائز ہے کہ اظہار رائے کا ہر کسی کو حق حاصل ہے۔ اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی، لیکن جواب میں اگر کوئی مسلمان غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد پر اُتر آئے اور کسی کی جان لے لے تو اس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو قابلِ مذمت اور گردن زدنی ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ان کے دین و مذہب اور معاشرتی اقدار ہر چیز کو سب و شتم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پہل ہمیشہ امریکا اور یورپ کے اسلام مخالف عناصر کی جانب سے ہوئی ہے، مسلمانوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ فوراً احتجاج کرتے ہیں اور جہاں تہاں شدید ردعمل کا مظاہرہ بھی کر دیتے ہیں۔ اگر آزادیٔ اظہار کی قدر اتنی ہی عزیز ہے تو اس کا اطلاق ہٹلر پر لگائے جانے والے یہودیوں کے قتل عام کے الزامات و واقعات پر کیوں نہیں ہوتا؟ جرمنی اور آسٹریا وغیرہ میں کوئی ہٹلر کے حق میں ایک لفظ کہہ دے یا قتل عام کی تفصیلات کو مبالغے سے تعبیر کر دے تو گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے، قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے۔
لیبیا میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا گیا۔ مصر میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا… لیکن کیا امریکا میں بیٹھ کر خود کو اسرائیلی یہودی کہنے والے سام بیسائل نامی شخص کو جو ریاست کیلی فورنیا میں پراپرٹی ڈیلر کا کاروبار کرتا ہے، یہ حق حاصل ہے کہ وہ پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف پرلے درجے کی اہانت آمیز فلم بنائے۔ نعوذباللہ ایسے اخلاقی الزامات عائد کرے جو کبھی حضور اکرمؐ کی جان کے دشمن کفارِ مکہ، جن کے سامنے آپ کی دن رات کی زندگی بسر ہوئی تھی، کے وہم و خیال میں بھی نہ آئے تھے۔ سوا ارب آبادی کی حامل انسانیت کے مذہب کو کینسر سے تعبیر کرے۔ اس کام کی خاطر امریکا کے یہودیوں اور ہم خیال عیسائیوں سے پچاس لاکھ ڈالر کا چندہ اکٹھا کرنے میں بھی دیر نہ لگے۔ پھر وہ فلم کے مسودے کی نوک پلک درست کرانے کے لیے ٹیری جونز جیسے اس پادری کی ہدایات پر عمل کرے جس نے سال گزشتہ میں ایک چرچ کے اندر کھڑے ہو کر قرآن مجید کو نذر آتش کیا تھا۔ اس کے بعد دھڑلے کے ساتھ فلم کی یو ٹیوب کے ذریعے عالمی سطح پر گھر گھر میں نمائش کی جائے… مسلمانوں کے جذبات کو اس حد تک برانگیختہ کر دینے کے بعد کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر کوئی اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا۔ اس یہودی کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ خود تو فلم بنانے کے ساتھ جان بچانے کی خاطر کسی نامعلوم مقام پر چھپ کر بیٹھ گیا اور مسلمان ممالک میں متعین امریکیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
امریکا اور یورپی حکومتوں سمیت وہاں کے بڑے بڑے دانشور، لکھاری اور مقرر مسلمانوں کو برداشت کا بہت درس دیتے ہیں۔ خود ان کے اپنے اندر پائی جانے والی برداشت کا یہ عالم ہے کہ لیبیا اور مصر میں ہونے والے واقعات کے بعد قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ہلکے انداز سے توہین آمیز فلموں اور اس طرح کے دوسرے مواد کی مذمت کی گئی۔ اس پر صدارتی امیدوار مٹ رومنی بوکھلا اٹھے۔ انہوں نے صدر اوباما کو ذمہ دار قرار دیا کہ ان کا عملہ ہماری اقدار کی حرمت کی پامالی کر رہا ہے۔ جواب میں صدر اوباما کی جانب سے معذرت کی گئی کہ سفارت خانے کا بیان ان کی پیشگی توثیق کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ… آپ اسلام دشمنی پر اس حد تک اُتر آئے ہیں کہ اس پر اپنے اندر کا تمام کوڑا کرکٹ ڈال دینا جائز اور برحق سمجھتے ہیں۔ آپ کا کوئی اہلکار اسے غلط قرار دے تو اس کی گردن دبوچنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صدر اوباما نے نائن الیون کی گیارہویں برسی پر بیان دیا: ’’ہماری جنگ اسلام نہیں القاعدہ کے خلاف ہے‘‘۔ استغفراللہ…
القاعدہ کے بیج تو آپ نے افغانستان میں اس وقت بوئے تھے جب قابض سوویت فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کے لیے آئے ہوئے عرب مجاہد آپ کی آنکھ کا تارا تھے۔ اسامہ بن لادن تب آزادی کی جنگ لڑنے والا ہیرو تھا۔ بعد میں انہی اصولی بنیادوں پر آپ کے خلاف نبرد آزما ہوا تو دہشت گرد کہلایا۔ پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ جس لیبیا میں آپ کا سفیر قتل ہوا ہے وہاں، ابھی کل کی بات ہے، کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خاطر امریکا اور القاعدہ ایک دوسرے کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ اور کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ آج کے شام میں بشار الاسد کا اقتدار ختم کرنے کی خاطر امریکا اور القاعدہ شیر و شکر ہیں۔ اسلام کے خلاف آپ کے بغض کا یہ عالم ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے معاً بعد صدر بش کی زبان سے جو فوری الفاظ نکلے وہ صلیبی جنگ کے تھے، بعد میں واپس بھی لے لیے گئے، لیکن جس جذبے اور خیال کے تحت ادا کیے گئے، وہ آپ کے سینوں میں موجزن ہے۔ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فلم پہلی بار تو نہیں بنی، اس سے پہلے ہالینڈ کا وین گاگ (Van Gogh) نامی ایک اسلام دشمن ایسی حرکت کر کے کیفر کردار کو پہنچ چکا ہے۔ تازہ فلم علانیہ طور پر جس یہودی نے بنائی ہے، اس کی وفاداری اسرائیل کے ساتھ ہے، جبکہ زمینوں کے لین دین کا کاروبار امریکا میں کرتا ہے۔ سزا آپ کے سفیر کو بھگتنا پڑی ہے۔ یوں یہودی اپنے مذموم مقاصد کے لیے آپ کو نچا رہے ہیں جبکہ آپ کی تمام تر عالمی فوجی طاقت، بے پناہ دولت اور غیر معمولی اثر و رسوخ یہودیوں کے ہاتھوں آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اقبالؒ نے بلاوجہ نہیں کہا تھا کہ مغرب (فرنگ) کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔
مسلمانوں نے بائبل کی توہین کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں… ان کے اندر اہل کتاب کے جلیل القدر پیغمبروں کے بارے میں اہانت آمیز تو کیا کسی قسم کا منفی خیال بھی نہیں آتا۔ خیر یہ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتب اور دینی شخصیات کا احترام کر کے کسی پر احسان نہیں کرتے۔ لیکن مہاتما بدھ تو ہمارے نزدیک خدا کے پیغمبر نہیں تھے… ایک بہت بڑے مصلح تھے۔ مسلمانوں کے نزدیک انسانی تاریخ کی قابل قدر شخصیات میں سے ہیں، ان کی بات بھی چھوڑیے، ہندوئوں کے ساتھ ہم مسلمانانِ پاکستان کی پرانی بلکہ ہزار سالہ لڑائی ہے۔ کرشن جی اور رام چندر جی ان کے دیوتا ہیں۔ کیا کبھی کسی پاکستانی مسلمان نے، مذہبی یا غیر مذہبی بنیاد پر، ان کے بارے میں ایک ناگوار لفظ بھی اپنی زبان سے نکالا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں ہندوستان تقسیم ہوا۔ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پنجاب کے شہروں میں وہ سکھ مسلمان فسادات ہوئے کہ اب تک ان کی تلخ یادیں باقی ہیں لیکن کبھی ایک پاکستانی مسلمان نے سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کی تضحیک میں ایک لفظ کہا ہو تو بتا دیجیے۔ سکھ گوروئوں کا نام پورے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر سکھوں کے Fire Brand لیڈر ماسٹر تارا سنگھ جنہوں نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کرپان لہرائی اور چیلنج دیا کہ راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کُو… ۶۶ سال گزر گئے ہیں ماسٹر تارا سنگھ کے بارے میں شاید ہی کبھی کسی نے اہانت آمیز بات کہی ہو۔ اس حد تک برداشت کا عملی مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کو وہ لوگ اس کی تلقین کر رہے ہیں جن کے پاس ہماری عظیم المرتبت ہستیوں کو گالی دینے کے سوا کچھ نہیں بچا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۱۴؍ستمبر ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply