سوئٹزر لینڈ میں پیدا ہونے والے طارق رمضان کا شمار ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جو مغربی معاشرے اور مسلمانوں کے درمیان خلا کو پاٹنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ۶ سال قبل بش انتظامیہ نے طارق رمضان کو امریکا کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ انہیں نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں ایک اہم منصب سونپا جارہا تھا۔ ویزا نہ ملنے کے باعث طارق رمضان کو اس منصب سے ہاتھ دھونے پڑے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے دیگر گروپوں نے ان کی جانب سے مقدمہ دائر کیا اور کامیابی سے ان کے حقوق کا دفاع کیا۔ جنوری ۲۰۱۰ء میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پابندی اٹھاتے ہوئے طارق رمضان کے ساتھ ساتھ ایک اور اسکالر کو بھی امریکا آنے کی اجازت دی۔ طارق رمضان نے امریکی دورے میں کائونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے ایک فنڈ ریزنگ ڈنر سے خطاب کے علاوہ شکاگو ٹربیون کی رپورٹر نورین ایس احمد اللہ سے گفتگو بھی کی۔
شکاگو ٹربیون: آپ کو کیا لگتا ہے، آپ کے امریکا آنے پر پابندی کیوں عائد کی گئی تھی؟
طارق رمضان: میں کئی تنظیموں کی مدد کرتا تھا اور ان میں سے دو پر امریکا میں پابندی عائد کی جاچکی تھی۔ بش انتظامیہ کا مؤقف یہ تھا کہ میں نے چونکہ ان تنظیموں کو چندہ دیا تھا اس لیے لازمی طور پر مجھے یہ معلوم رہا ہوگا کہ ان کا تعلق حماس سے تھا۔ اس معاملے میں امریکی انتظامیہ غلط فہمی کا شکار ہوئی کیونکہ میں نے ان تنظیموں کو چندہ ۱۹۹۸ء اور ۲۰۰۲ء کے دوران دیا۔ تب امریکا میں ان تنظیموں کو بلیک لسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ اور برطانیہ میں (جہاں میں رہتا ہوں) ان تنظیموں پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ مجھے امریکا آنے سے روکنے کا فیصلہ نظریاتی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
شکاگو ٹربیون: آپ کے خیال میں ہلیری کلنٹن نے پابندی کیوں اٹھائی؟
طارق رمضان: سیدھی سی بات ہے کہ اوباما انتظامیہ کے افسران سابق انتظامیہ کے نقشِ قدم پر نہیں چلنا چاہتے، بالخصوص اظہارِ رائے کی آزادی کے معاملے میں۔ وہ ایک مضبوط اشارہ یہ بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم اسکالر کو قبول کر رہے ہیں۔ اوباما انتظامیہ، بظاہر، چاہتی ہے کہ ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہو، خیالات کا اظہار اور تبادلہ کیا جائے۔
شکاگو ٹربیون: آپ کے بارے میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ آپ مسلم سامعین سے کچھ کہتے ہیں اور غیر مسلم، مغربی سامعین کے سامنے کوئی اور بات کہتے ہیں۔ دائیں بازو کے بلاگسٹ رابرٹ اسپنسر نے آپ کو ڈھکا چھپا جہادی قرار دیا ہے۔ کیا آپ ڈھکے چھپے جہادی ہیں؟
طارق رمضان: میں بہ باطن جہادی نہیں ہوں۔ اور یہ بات وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔ دراصل وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ہم جیسے لوگوں کی موجودگی سے مغرب کی پالیسیاں تبدیل ہوں گی۔ بالخصوص فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے۔ اور پھر انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ہم لوگ اسرائیل کے لیے امریکا کی یکطرفہ پالیسی (حمایت) پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
شکاگو ٹربیون: ناقدین آپ کے دادا حسن البنا کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جنہوں نے اخوان المسلمون تشکیل دی تھی۔ اس تنظیم نے کئی مواقع پر تشدد کی راہ اپنائی۔ کہا جارہا ہے کہ آپ کے عقائد بھی کچھ کچھ اخوان المسلمون کے عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ کیا آپ واقعی اخوان المسلمون سے متاثر ہیں؟
طارق رمضان: میرا تعلق اخوان المسلمون سے نہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ اپنے دادا کی مذمت کیجیے۔ میں نے یہ کہا کہ میرا تعلق ان کی تنظیم سے نہیں ہے۔ انہوں نے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشروں میں کام کیا تھا۔ وہ برطانوی نوآبادیات کا دور تھا۔ انہوں نے اسکول بھی قائم کیے اور برطانوی استعمار کے خلاف ایک ٹھوس رائے اور نظریہ دیا ان کے تمام کام ایسے نہیں جن سے اختلاف کیا جاسکے۔ چند ایک امور میں ان سے میں اختلاف ضرور کرتا ہوں۔ مگر بہرحال میں ان کی مذمت نہیں کرسکتا کیونکہ انہوں نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔
شکاگو ٹربیون: کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کے نظریات ہی کی بنیاد پر القاعدہ اور حماس جیسی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ رائے قائم کرنا درست ہے؟
طارق رمضان: یہ کہنا سراسر غلط ہے۔ اخوان المسلمون ایک پُرامن تنظیم کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آئی۔ حسن البنا نے کسی کو قتل کرنے کی تحریک نہیں دی۔ نئی انقلابی سوچ اور پُرتشدد انتہا پسندی کی ابتدا تو جمال عبدالناصر کے دور میں ان لوگوں میں پیدا ہوئی جنہیں جیل میں ایذائیں دی گئیں، موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ہمیں تمام باتیں سیاق و سباق کے حوالے سے کرنی چاہئیں۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ اخوان المسلمون اپنی اصل میں تشدد کی راہ پر گامزن تھی۔
شکاگو ٹربیون: امریکی دورے سے آپ کیا حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں؟
طارق رمضان: میں تمام امریکی مسلمانوں اور مجموعی طور پر تمام امریکیوں سے مستقبل کے بارے میں خیالات کا تبادلہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ بھی کہ ہم مل کر کیا کرسکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک کے حوالے سے ذمہ داری کے بارے میں مجھے امریکی مسلمانوں کو مخاطب کرنا ہے۔ اگر آپ مسلم اکثریتی ممالک کے لیے مزید توقیر، مزید حقوق اور مزید آزادی چاہتے ہیں تو لازم نہیں کہ قتل و غارت کی جائے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں اچھی طرح ضم ہوں تاکہ اسلام کے بارے میں غلط تصورات کا خاتمہ ہو اور یہ رائے قائم کرنے میں مدد ملے کہ اسلامی دنیا کے لیے مخاصمانہ پالیسی رکھنا کسی حال میں درست نہ ہوگا۔ اس نکتے کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی افغان، عراقی یا فلسطینی مرد، عورت اور بچے کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا قیمتی کسی امریکی مرد، عورت یا بچے کا خون ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘۔ ۲۳ ؍اپریل ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply