دنیا کے ایسے بہت سے خطے ہیں جو گوشۂ گمنامی میں پڑے رہتے ہیں جن کے بارے میں دنیا کی ایک بڑی آبادی کو کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر لوگ ان شہروں اور مقامات کے نام تک سے آگاہ نہیں ہوتے پھر اچانک کوئی واقعہ سامنے آتا ہے اور چاردانگ عالم میں اس نامعلوم‘ غیرمعروف مقام کو عالمگیر شہرت حاصل ہوجاتی ہے اور بچہ بچہ ان سے واقف ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی غیراہم اور نامانوس مقامات میں سے ایک گوانتا ناموبے ہے۔ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے یہ معلوم نہ ہو کہ کیوبا سے متصل امریکی بحریہ کے اس اَڈّے میں گذشتہ چار سال سے سیکڑوں مسلمان قیدی دہشت گردی کے الزامات کے تحت قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ افغانستان‘ عراق اور دیگر ممالک سے لائے گئے … افراد پر تشدد کی خبریں اکثر عالمی ذرائع ابلاغ پر خصوصی اہمیت حاصل کرتی رہی ہیں۔ ان قیدیوں کے یہ کٹھن دن اور سیاہ راتیں کب ختم ہوں گی‘ یہ کوئی نہیں جانتا۔ شاید وہ بھی نہیں جن کی قید میں یہ افراد غیرمعینہ مدت تک کے کسی مقدمے کا سامنا کیے بغیر سزا کاٹے چلے جارہے ہیں۔
یہ قیدی چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگر قصوروار ہیں تو سزا دی جائے اور بے قصور ہیں تو آزاد کیے جائیں۔ لیکن ان کی یہ خواہشِ ناتمام صدابہ صحرا ثابت ہو رہی ہے کہ اس لیے امریکی صدر بش کی انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ چونکہ گوانتا ناموبے امریکی علاقہ نہیں ہے‘ اس لیے امریکی عدالتیں وہاں مقید افراد کی شنوائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی اور چونکہ کیوبا کی حکومت اور عدالتوں کا وہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ اس لیے یہ قیدی ایک طرح سے زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں۔ انہیں اپنے مستقبل کا کوئی پتا نہیں ہے۔ وہ انصاف کے لیے ہر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے تیار ہیں لیکن کہیں سے کوئی دادرَسی نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس آئے دن امریکی انٹیلی جنس اور فوج کے اہلکار تشدد کر کے ان سے کچھ نہ کچھ اُگلوانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی قرآن کریم کی بے حرمتی کے ذریعہ ان کو مشتعل کیا جاتا ہے اور کبھی زندگی بھر جیل میں سڑنے کی دھمکی دے کر انہیں مہربلب کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ لیکن خود مغربی ذرائع اِبلاغ میں امریکا کے یہ کارنامے جب تواتر کے ساتھ جگہ پانے لگتے ہیں تو اپنی صفائی میں امریکی حکومت کو وضاحتیں جاری کرنی پڑتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں عالمی دباؤ کے پیش نظر اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے تین تفتیشی ارکان کو گوانتاناموبے کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ ان تین ارکان میں سے ایک پاکستان کی اسماء جہانگیر بھی تھیں لیکن اقوامِ متحدہ کے اِن تفتیش کاروں نے امریکا کی دعوت اس بنا پر مسترد کر دی کہ امریکا نے اس مجوزہ دورے میں یہ پیشگی شرط عائد کر دی تھی کہ تفتیش کار اَزخود قیدیوں سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکیں گے بلکہ وہاں موجود امریکی حکام کے توسط سے پوچھ گچھ کرسکتے ہیں۔
کیوبا کی سرزمین پر امریکا من مانے طور پر جو کچھ کررہا ہے‘ اس پر بعض حلقوں نے کیوبا کی بھی سرزنش کی ہے۔ غالباً وہ یہ چاہتے ہیں کہ کیوبا کو اپنی سرزمین سے امریکیوں کو نکال باہر کرنا چاہیے لیکن شاید اُن کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ کیوبا کو خود اپنی سرزمین کا کوئی اختیار نہیں رہا ہے اور گوانتا کا یہ علاقہ تقریباً سو سال سے اس طرح امریکا کے غاصبانہ قبضے میں ہے کہ اُس کے چاروں طرف انتہائی مہلک بارودی سرنگیں بچھا کر اُسے کیوبا کے دیگر حصوں سے بالکل الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ امریکی ریاست فلوریڈا سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گوانتاناموبے کا علاقہ کیوبا کے مشرق میں ایک سو اٹھارہ کلو میٹر رقبے پر مشتمل ہے۔ یہاں دو ہوائی اڈے اور تقریباً تین ہزار امریکی فوجی مستقل موجود رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں بحری اور فضائی راستوں سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کیوبا کئی سو سال تک اسپین کی نوآبادیات میں شامل رہا ہے۔ اس سے پہلے برطانوی فوج نے بھی کیوبا کے اس حصے پر قبضہ کیا تھا‘ جسے آج گوانتاناموبے کہا جاتا ہے۔ پہلے اس کا نام کمبرلینڈ تھا۔ یہاں ۱۷۹۰ء میں نیکن ایر کی جنگ بھی لڑی گئی۔ بہرکیف اٹھارہویں صدی عیسوی میں کیوبا کے عوام ہسپانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے‘ ۱۸۹۸ء میں عین اُس وقت جب کہ کیوبا کے حریت پسند ہسپانوی تاج شاہی کے خلاف اپنی تیس سالہ جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے تھے‘ امریکا نے بھی اسپین کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ کیونکہ اسپین نے مبینہ طور پر امریکی جنگی جہاز ’’دی مین‘‘ کو تارپیڈو مار کر ڈبو دیا تھا۔ بعد ازاں جنگ میں اسپین کو شکست ہوئی تھی۔ اسی سال پیرس میں کیے گئے ایک معاہدہ کے تحت کیوبا کا قبضہ اسپین سے لے کر امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیرس میں ہونے والے اس اجلاس میں کیوبا کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا‘ جس میں اس وقت کے امریکی صدر ولیم میکنلے نے برسرِعام یہ اعلان کیا تھا کہ جمہوریہ کیوبا کی آزادی کو تسلیم کرنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔
اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیوبا کے عوام کو ایک بارپھر اپنی آزادی کی جنگ کا آغاز کرنا پڑا۔ اِس بار اُن کے مدِمقابل ہسپانوی کی جگہ امریکی تھے۔ چار سال تک کیوبا پر امریکا کی فوج نے حکومت کر کے دیکھ لیا کہ وہ اس پر مکمل قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی لہٰذا اس نے وہاں ایسا نظام مسلط کیا کہ جس کے تحت اس جزیرہ نما ملک پر اس کا سیاسی اور اقتصادی کنٹرول برقرار رکھ سکے۔ امریکا نے کیوبا کے عوام پر واضح کر دیا کہ کیوبا کا کوئی آئین اس وقت تک منظور نہیں کیا جائے گا جب تک اس میں Platt Amendment شامل نہ ہو۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعہ امریکا کو کیوبا میں فوجی مداخلت کرنے اور وہاں بحری اڈے قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ کیوبا کے پاس امریکی دباؤ کے آگے جھکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا۔ لہٰذا جتنی بھی آزادی مل رہی تھی‘ اس کی خاطر وہ امریکی شرائط ماننے پر مجبور ہوگئے۔ امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک امریکی شہری ٹائمس ایسٹراڈا پاما کو کیوبا کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ امریکا کو ’’محافظ ملک‘‘ کا درجہ دینے والی کیوبا کی کٹھ پتلی حکومت نے ۱۹۰۳ء میں ایک مستقل معاہدے پر دستخط کیے جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ امریکا کو اس بات کا بھی اختیار دیا گیا کہ وہ بحری جہازوں میں کوئلہ بھرنے اور بحری اڈے قائم کرنے کے لیے گوانتاناموبے پر مکمل قبضہ رکھ سکتا ہے۔ اس طرح ۲۳ فروری ۱۹۰۳ء کو گوانتاناموبے میں امریکی بحری اڈے کے قیام کے ساتھ کیوبا کا اس سے تعلق ختم ہو گیا۔
۱۹۳۴ء میں Great Depression کا دور آیا تو انتہائی سنگین اقتصادی بدحالی کی بنا پر امریکا نے نام نہاد ’’اچھے پڑوسی‘‘ کی پالیسی اختیار کی اور کیوبا سے ’’برابری کے حقوق‘‘ کے سلسلے میں ایک نیا معاہدہ کیا جس میں ’’پلاٹ ترمیم‘‘ اور ۱۹۰۳ء کا مستقل معاہدہ منسوخ کردیا گیا۔ تاہم گوانتاناموبے سے متعلق تمام شِقیں جوں کی توں برقرار رکھی گئیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جس وقت واشنگٹن میں ’’برابری کے حقوق‘‘ کے اس معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے‘ اُس وقت ۲۰ سے زائد امریکی جنگی جہاز کیوبا کے ساحلوں کے ’’دوستانہ‘‘ دورے پر پہنچے ہوئے تھے اور اس کا مقصد سوائے اِس انتباہ کے اور کچھ نہیں تھا کہ کیوبا اپنے آپ کو بالکل آزاد نہ سمجھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب اِستعماری طاقتوں کا زوال شروع ہوا اور ظلم‘ ناانصافی‘ جبر اور اِستحصال کے خلاف مظلوم قومیں اپنی جدوجہد میں کامیاب ہونے لگیں تو اسی دوران اقوام متحدہ کے منشور میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ ہر وہ معاہدہ جو جبر کی بنیاد پر اور غیرمساویانہ انداز میں کسی قوم پر مسلط کیا جائے گا‘ کالعدم سمجھا جائے گا۔ اس اصول کے پیش نظر ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ میں پانامہ کے سفیر نے نہرپانامہ کے معاہدہ کے خلاف دلائل دیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا کو اس نہر پر غیرمعینہ مدت تک کے لیے تصرف کا حق حاصل تھا۔ اقوامِ متحدہ میں پانامہ کے موقف کی زبردست حمایت کی گئی اور وہ یہ مقدمہ جیت گیا جس کے بعد نہر پانامہ پر لہراتاہوا امریکی پرچم لپیٹ دیا گیا اور اس کی جگہ پانامہ کا پرچم لہرانے لگا۔
کیوبا نے بھی پانامہ کی تقلید میں گوانتاناموبے سے امریکی قبضہ ختم کرانے کے لیے اقوامِ متحدہ سے رجوع کیا اور اس سلسلے میں قرارداد منظور کرانے کی کوشش کی گئی۔ آخری کوشش جون ۲۰۰۲ء میں کی گئی لیکن اسے کیوبا کی بدقسمتی کہیں یا امریکا کی ہٹ دھرمی کہ اس سلسلے میں عالمی فورم پر کبھی بات چیت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ غیروابستہ ملکوں کی تنظیم سے مداخلت کی اپیلیں کی جاتی رہی ہیں لیکن کیوبا کے عوام اور وہاں کی حکومت کے مسلسل احتجاج کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ کیوبا کی حکومت اس معاہدے کی سختی سے مذمت کرتی ہے‘ جس کے تحت گوانتاناموبے پر قبضہ جمایا گیا ہے اور اس ضمن میں ۱۹۶۹ء کے ویانا کنونشن میں منظور کردہ Law of Frenties کے آرٹیکل ۵۲ کا حوالہ دے کر وہ اپنا یہ کیس بہت مضبوطی سے پیش کرتی ہے کہ ’’اگر جبر یا دھمکی کے ذریعہ کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو وہ کالعدم ہے‘‘ جیسا کہ کیوبا کے آئین میں ۱۹۰۳ء میں ’’پلاٹ ترمیم‘‘ کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے جواب میں امریکا نے کیوبا کے آئینی کنونشن کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس ترمیم میں کوئی تبدیلی کی کوشش نہ کرے‘ اس لیے کہ امریکی فوج کیوبا سے واپس نہیں جائے گی کیونکہ امریکا نے اس شر ط پر کیوبا کو آزادی دی تھی کہ وہاں امریکی فوجیں مستقل قیام پذیر رہیں گی۔ اس پلاٹ ترمیم کی بنیاد ۱۹۰۳ء اور ۱۹۳۴ء کے معاہدوں پر جنیوا کنونشن کا بھی اِطلاق نہیں کیا جاسکتا۔
کہنے کو امریکا نے کیوبا کی یہ سرزمین پٹے یا لیز پر حاصل کی ہے۔ اس اَراضی کی لیزنگ کا سالانہ ۲۰۰۰ء میں سونے کے سکے یا ۱۹۰۳ء میں سونے کی قیمت کے مطابق ۴۰۸۵ امریکی ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو امریکا اس زمین کے ہر مربع میٹر جگہ کے لیے کیوبا کو سالانہ کرایہ کی مد میں ایک سینٹ (ایک ڈالر میں سو سینٹ ہوتے ہیں) ادا کرتا ہے۔ کرائے کی اس رقم کا چیک باقاعدگی سے ہر سال کیوبا کی حکومت کو روانہ کیا جاتا ہے۔ ۱۹۵۹ء میں فیڈل کاسترو کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ان کی حکومت سے پہلی اور آخری غلطی یہ ہوئی کہ اس نے پہلی بار کرائے کا امریکی چیک کیش کرا لیا لیکن اس کے بعد یہ چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ گوانتاناموبے پر امریکی قبضے کو غیرقانونی سمجھتی ہے لیکن امریکا کا اس سلسلے میں موقف یہ ہے کہ چونکہ کاسترو کی حکومت نے مذکورہ معاہدہ کے تحت چیک قبول کر کے لیز کی توثیق کر دی ہے‘ اس لیے وہ یکطرفہ طور پر سیاسی کشیدگی یا نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر اس معاہدے کے خلاف نہیں جاسکتی اور نہ ہی وہ پلاٹ ترمیم کے تحت کیوبا کی خودمختاری ختم کرنے یا وہاں فوجی قبضے کا امریکا پر الزام لگاسکتی ہے۔ اس لیے معاہدے کی ایک توثیق یہ بھی ہے کہ اس کی منسوخی دونوں حکومتیں متفقہ طور پر کرسکتی ہیں یا اگر امریکا وہاں اپنی تنصیبات چھوڑ کر ہٹ جائے تو معاہدہ منسوخ سمجھا جائے۔
آج اگرچہ امریکا اور کیوبا میں کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں‘لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے مجرموں کے تبادلے کیے ہیں۔ کیوبا کی حکومت نے احتجاجاً گوانتاناموبے کے امریکی فوجی اڈے کو پانی کی فراہمی بھی بند کر دی تھی جس کے بعد امریکا نے پہلے تو جمیکا سے پانی درآمد کیا اور اب وہاں ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگا کر کھارے پانی کو میٹھا بنا کر مکینوں کو فراہم کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں بجلی کی پیداوار میں بھی گوانتاناموبے خود کفیل ہوچکا ہے۔ اس وقت کیوبا کے صرف دو معمر افراد ملازمت کے سلسلے میں امریکی اڈے کے شمال مشرقی گیٹ سے روزانہ صبح اندر داخل ہوتے ہیں اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ کیوبا کا کوئی تیسرا فرد وہاں نہیں جاتا اس لیے کہ کاسترو کی حکومت نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔
وہ امریکا جو صرف اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف متعلقہ ملک بلکہ اپنے ملک میں نہیں لاتا‘ اس سے اگر کوئی یہ توقع کرے کہ وہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں قید سیکڑوں بے گناہوں کو انصاف فراہم کرے گا‘ تو یہ عبث ہوگا۔ اس لیے کہ امریکا نے خود انتہائی عیّاری اور مکّاری سے گوانتاناموبے پر قبضہ کرر کھا ہے۔ جس پلاٹ ترمیم کو اس قبضے کا جواز بنایا جاتا ہے‘ اس کے بارے میں ۱۹۴۷ء میں ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے ایک جج سرگئی کریلوف نے کہا تھا کہ ’’ہر وہ معاہدہ جس کے ذریعہ کوئی بڑی طاقت اپنی خواہش کسی کمزور قوم پر مسلط کرتی ہے وہ ناقابل قبول ہے‘ کالعدم ہے‘‘۔ اور اکتوبر ۱۹۸۵ء میں اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سوویت صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’گوانتاناموبے میں امریکی اڈے کا مقصد محض سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ ہم وہاں دنیا کو امریکا کی موجودگی دِکھانا چاہتے ہیں‘ چاہے ہماری یہ خواہش کیوبا والوں کو پسند ہو یا نہ ہو‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی دوسری مدت اقتدار کو ایک سال پورا ہونے کو ہے اور اب بھی امریکا کا گوانتاناموبے پر ناجائز قبضہ برقرار ہے اور کہا جارہا ہے کہ امریکا اسے چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کی نظروں میں عدل و انصاف کا کیا مقام ہے اور قانون کی حکمرانی کا کتنا لحاظ ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply