امریکا اسرائیل بگڑتے تعلقات
Posted on April 1, 2010 by John Mearsheimer in شمارہ یکم اپریل 2010 // 0 Comments

امریکی نائب صدر جو بائڈن نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ وہ جس دن مقبوضہ بیت المقدس کے بن گوریان ایئر پورٹ پر اترے اسی دن اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس میں متنازع زمین پر مزید ۱۶۰۰ ؍مکانات تعمیر کرکے ان میں یہودیوں کو بسانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر امریکا میں شدید تنقید کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات بھی کشیدہ ہوئے ہیں۔ امریکا نے واضح کیا ہے کہ جو بائڈن کے دورے کے موقع پر توسیع پسند پالیسی پر عمل کا اعلان امریکی پالیسیوں کی صریح توہین ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس سلسلے میں امریکی صدر بارک اوباما کو فون بھی کیا اور وضاحت کی کہ جو بائڈن کے دورے کے موقع پر یہودیوں کی آبادکاری کے منصوبے کا اعلان غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ اس حوالے سے امریکی دانشور جان مرشائمر کی توجہ طلب بلاگ انٹری پیش خدمت ہے:
جو بائڈن کے حالیہ دورہ اسرائیل کے دوران جو کچھ ہوا اور جس طرح ان کی توہین کی گئی اس تناظر میں امریکا کے لیے اسرائیلی سفیر مائیکل اورن کی بات سے سبھی متفق ہوں گے کہ ’’امریکا اسرائیل تعلقات ۱۹۷۵ء کے بعد اب سنگین ترین بحران سے دوچار ہیں۔‘‘ ہر بحران گزر جاتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات پر چھا جانے والا موجودہ بحران بھی گزر ہی جائے گا تاہم چند گندے نقوش باقی رہ جائیں گے۔ جو بائڈن کے دورہ اسرائیل اور اس کے بعد کے واقعات نے ہمیں پہلی بار یقین دلایا ہے کہ اسرائیل کو اثاثہ سمجھنا غلطی تھا۔ وہ ہمارے واجبات میں سے ہے اور ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے حوالے سے سخت گیری اور ہٹ دھرمی پر مبنی جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس حوالے سے اوباما انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں بتادیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر متنازع علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری پر مبنی پالیسی کا تسلسل خطے میں امریکی مفادات کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات میں جوبائڈن نے نجی طور پر کہا کہ’’صورت حال امریکا کے لیے بہت خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ آپ لوگ یہاں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے عراق، پاکستان اور افغانستان میں ہمارے فوجیوں کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ اس سے پورے خطے کے لیے بھی خطرات بڑھ رہے ہیں۔‘‘
جو کچھ جوبائڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے اکیلے میں، نجی طور پر کہا ہے وہ جب امریکیوں کی اکثریت تک پہنچے گا تو اسرائیل کے لیے پائی جانے والی ہمدردی کم ہو جائے گی۔
امریکی نائب صدر کے کلمات جب اسرائیلی اخبار “Yedioth Ahronoth” میں شائع ہوئے تو امریکی فوج سے قریبی رابطوں کے حامل تجزیہ کار مارک پیری نے بتایا کہ جنوری کے وسط میں امریکی فوج کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے ساتھ کام کرنے والے افسران نے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ فلسطینیوں سے تنازع میں اسرائیلیوں کی ہٹ دھرمی کے باعث مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات خطرے میں ہیں اور امریکیوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگی ہوئی ہیں۔ ایڈمرل مولن نے یہ پیغام امریکی ایوان صدر تک پہنچانے میں دیر نہیں لگائی۔ اوباما انتظامیہ کے لیے یہ تشویشناک بات تھی اس لیے جوبائڈن نے اسرائیل کے دورے میں بنیامین نیتن یاہو پر واضح کیا کہ اسرائیلی پالیسیوں سے امریکی مفادات خطرے میں پڑگئے ہیں۔
امریکا میں اسرائیل کے حامیوں نے طویل عرصے تک امریکی حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں اس لیے اگر اسرائیل کی کوئی پالیسی امریکیوں کے لیے مکمل طور پر قابل قبول نہ ہو تب بھی اس کی حمایت سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ حالیہ واقعات سے ثابت ہوچکا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات کی وکالت کرنے والوں کا استدلال بودا تھا اور امریکیوں کی زندگی خطرے میں ڈال کر اسرائیل کی حمایت جاری نہیں رکھی جاسکتی۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ نے فلسطینی اور متنازع علاقوں میں یہودیوں کی مزید آباد کاری کی مخالفت صرف اس حد تک نہیں کی ہے کہ بستیوں کی توسیع کے منصوبے پر عمل روک دیا جائے بلکہ اسرائیلی حکومت سے کہا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودیوں کے لیے مزید ۱۶۰۰ ؍مکانات تعمیر کرنے کے منصوبے کو منسوخ کیا جائے۔ اب تک امریکا جاری منصوبوں پر کام روکنے کے لیے دبائو ڈالتا آیا ہے۔ پہلی بار کھل کر کہا گیا ہے کہ جس منصوبے کا اعلان کیا جاچکا ہے اسے منسوخ کردیا جائے۔
کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیل امریکی دبائو کو مسترد کرے گا اور توسیع پسند پالیسی پر عمل جاری رکھنے کے لیے کچھ بھی کر گزرے گا۔ اسرائیلی حکومت میں شدت پسندوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو دو ریاستوں کے تصور کو قبول نہیں کرتے۔ انہیں فلسطینیوں کے لیے علیحدہ ریاست کسی بھی حالت میں قبول نہیں۔ یہ شدت پسند یہودی بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ قرار دیتے ہیں اور اس پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر بنیامین نیتن یاہو کی مخلوط حکومت نے مشرقی بیت المقدس میں مزید ۱۶۰۰ ؍مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ ترک نہ کیا تو اس کے وجود کا کیا ہوگا۔ صدر اوباما نے گزشتہ سال نیتن یاہو سے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر فوری روک دیں مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی دبائو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اسرائیل کے اس سفاک رویے سے امریکا کو غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ صدر اوباما اور ان کے ساتھیوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی پالیسی سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے لیے مشکلات اور زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیلیوں کو آباد کاری سے روکنا صدر اوباما کی صلاحیتوں اور سکت کا بھی امتحان ہے۔ صدر اوباما جانتے ہیں کہ امریکا میں یہودی لابی کمزور نہیں۔ اس لابی سے ٹکرانا آسان نہیں۔ صدر اوباما بالعموم تنازعات میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا میں اس کی لابی کرنے والے آباد کاری کی مخالفت ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے۔ صدر اوباما کے سامنے اور بہت سے مسائل ہیں۔ وہ اس معاملے کو زیادہ طول دینا پسند نہیں کریں گے۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ سرد پڑتا جائے گا تاہم اس سے امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت ضرور تبدیل ہوگی۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد کرتا رہے گا تاہم امریکا میں اس کی مخالفت بھی بڑھتی جائے گی۔ امریکیوں کو یاد رہے گا کہ ایک اہم ایشو پر دونوں ممالک کے مفادات یکساں نہیں۔ یہ ایشو اس قدر نازک اور حساس ہے کہ اسرائیل کی لابی کو کھل کر میدان میں آنا پڑے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے لیے لابی کرنے والی مرکزی دھارے کی تمام تنظیمیں کھل کر نیتن یاہو کی حمایت اور صدر اوباما کی مخالفت کریں گی۔ اسرائیلی پالیسیوں کی ہر حالت میں حمایت کرنا امریکا میں اسرائیل نواز تنظیموں کا وتیرہ رہا ہے۔ Anti-Defamation League لیگ کے سربراہ ابراہم فوکس مین کے حالیہ ریمارکس اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہودیوں کی آباد کاری کی مخالفت جس انداز سے کی جارہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے دونوں ممالک کی دوستی کی سطح کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔ دوستوں اور اتحادیوں کے درمیان اختلافات کو بیان کرنے کا یہ کوئی اچھا ڈھنگ نہیں۔‘‘
آئندہ چند ہفتوں میں ابراہم فوکس مین کو امریکا میں ایسے بہت سے دوست مل جائیں گے جو اسرائیل کی حمایت میں صدر اوباما کو لتاڑنے سے چنداں گریز نہیں کریں گے۔ امریکا کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دینا چند سال پہلے تک کچھ مشکل نہ تھا۔ کوئی بھی شخص مشترکہ مفادات کی بات کرکے امریکا کی مخالفت اور اسرائیل کی بھرپور حمایت کرسکتا تھا۔ امریکی عوام کو زیادہ اندازہ نہیں تھا کہ اسرائیلی لابی کس طرح کام کرتی ہے اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی پر کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ اب وہ دن ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ہیں۔ اب تو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں بھی اسرائیلی لابی کی بات کھل کر ہونے لگی ہے۔ جو لوگ امریکی خارجہ پالیسی کو سمجھنے میں دلچسپی لیتے ہیں انہیں، انٹرنیٹ کی بدولت، بخوبی اندازہ ہے کہ اسرائیلی لابی ایک طاقتور گروپ ہے۔
امریکا میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی فوجی قائدین اسرائیل سے خصوصی تعلقات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اس لابی کے لیے عمدگی سے کام کرنا اب زیادہ آسان نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مفادات کو دائو پر لگاکر اسرائیلی مفادات کی بات کرنے والوں کو اب کچھ بھی کہنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ امریکی ایوان صدر اور دفتر خارجہ کی اہم شخصیات نے اب اس حقیقت کو پوشیدہ رکھنے سے گریز کی پالیسی اپنا رکھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ اسرائیل نوازی امریکیوں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
اسرائیل سے خصوصی تعلق کی دہائی دینے والے سرگرم ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اور کانگریس میں مشترکہ مفادات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے کانگریسی ارکان بھی اب دو طرفہ تعلقات کو بحران میں محسوس کر رہے ہیں۔ گیری ایکرمین نے حالیہ واقعات کو ایک چھوٹے بحران سے تعبیر کیا ہے۔ واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر مائیکل اورن کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات ۳۵ سال کی سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ اسرائیل نواز اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جوبائڈن کی باتوں کو غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے بائڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے یہ کہا ہی نہیں کہ اسرائیلی پالیسیاں امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
امریکا اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات کو بنیاد بناکر جو لوگ موجودہ کشیدگی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں کامیابی ضرور ملے گی تاہم یہ کامیابی ہر اعتبار سے عارضی نوعیت کی ہوگی۔ امریکی مفادات کو نظر انداز کرکے اسرائیل سے خصوصی تعلقات کسی بھی طور برقرار نہیں رکھے جاسکتے۔ ہمیں مزید کئی بحرانوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسرائیل میں انتہا پسند عناصر دو ریاستوں کے نظریے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل تیزی سے نسل پرست ریاست بننے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ امریکا کسی بھی حالت میں محض مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر نسل پرستی کی حمایت نہیں کرسکتا۔ بات اگر اخلاقیات اور بنیادی اقدار کی ہو رہی ہے تو امریکا کس طرح ایک نسل پرست ریاست کا ہم نوا رہ سکتا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات خطرے میں پڑچکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں خرابی بڑھتی ہی جائے گی۔
(بحوالہ: ’’لندن ریویو آف بکس‘‘۔ ۱۸ مارچ ۲۰۱۰ء)
Related Posts
Leave a comment